data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ڈھاکا / لندن:۔۔ بنگلادیش کی جلاوطن سابق وزیراعظم اور عوامی لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان کی جماعت پر پابندی برقرار رہی تو عوامی لیگ کے لاکھوں حامی آئندہ عام انتخابات کا بائیکاٹ کریں گے۔

شیخ حسینہ جو اگست 2024ءسے بھارت میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں، نے کہا کہ وہ عوامی لیگ کے بغیر بننے والی کسی بھی حکومت کا حصہ نہیں بنیں گی اور نہ ہی وطن واپس آئیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ “عوامی لیگ پر پابندی نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ یہ ملک کے لیے خود تباہ کن قدم ہے۔ لاکھوں لوگ ہمارے ساتھ ہیں، اگر ہمیں انتخابی عمل سے باہر رکھا گیا تو وہ لوگ ووٹ ڈالنے نہیں جائیں گے”۔

واضح رہے کہ بنگلادیش کے الیکشن کمیشن نے مئی 2025ءمیں عوامی لیگ کی رجسٹریشن معطل کر دی تھی، جس کے بعد عبوری حکومت نے قومی سلامتی کے خدشات اور رہنماو ¿ں کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات کے باعث پارٹی کی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی۔

شیخ حسینہ کے خلاف 2024ءمیں طلبہ مظاہروں پر کریک ڈائون کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات پر مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ بین الاقوامی جرائم ٹریبونل نے تحقیقات مکمل کر لی ہیں اور ان کے خلاف 11 نومبر کو فیصلہ متوقع ہے۔

انہوں نے کہا کہ “میں ضرور وطن واپس آنا چاہتی ہوں، لیکن صرف اس وقت جب وہاں جائز حکومت، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی ہو”۔ سابق وزیراعظم نے یہ بھی واضح کیا کہ عوامی لیگ کی قیادت صرف ان کے خاندان تک محدود نہیں۔ ان کے بیٹے سجیب واجد، جو واشنگٹن میں مقیم ہیں، نے گزشتہ سال کہا تھا کہ اگر ضرورت ہوئی تو وہ پارٹی قیادت سنبھالنے پر غور کر سکتے ہیں۔

ویب ڈیسک.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عوامی لیگ

پڑھیں:

پاکستان کو عوامی خدمت پر مبنی سول سروس نظام کی ضرورت ہے، احسن اقبال

وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ مقامی حقائق کو سمجھے بغیر علاقائی ترقی کے پائیدار اہداف حاصل نہیں کئے جا سکتے، تعلیمی اداروں کو تحقیق کے ذریعے پالیسی سازی میں رہنمائی فراہم کرنی چاہیے تاکہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے،پاکستان کو21 ویں صدی کے چیلنجز سے ہم آہنگ، جدید، شفاف اور عوام سے جڑا ہوا سول سروس نظام درکار ہے،حکومت ایک جامع اصلاحاتی فریم ورک کے تحت بیوروکریسی کو نئی روح،مقصد اور توانائی کے ساتھ متحرک کر رہی ہے۔

وہ پنجاب یونیورسٹی میں”مقامی حقائق اور علاقائی مستقبل” کے موضوع پر منعقدہ عالمی کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

کانفرنس کی صدارت وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے کی جبکہ بنگلہ دیش کے وزیر مملکت برائے خزانہ پروفیسر انیس الزمان چوہدری، بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر محمد اقبال کاشف راٹھور، پروفیسر ڈاکٹر یامینہ سلمان، پروفیسر ڈاکٹر اخلاق حق سمیت فیکلٹی ممبران، بیورو کریٹس اور طلبا و طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

کانفرنس میں پروفیسر حبیب ظفراللہ اور پروفیسر نوید حنیف کے ویڈیو پیغامات بھی نشر کئے گئے۔وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا کہ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، ٹیکنالوجی، موسمیاتی بحران، آبادی کے دبائو اور جغرافیائی تبدیلیوں نے حکمرانی کے روایتی ڈھانچے کو چیلنج کر دیا ہے،ایسے میں وہی ممالک آگے بڑھیں گے جو اپنی سول سروس کو علم، مہارت، شفافیت اور عوامی خدمت کے اصولوں پر استوار کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا موجودہ سول سروس ڈھانچہ برطانوی نوآبادیاتی دور کی باقیات ہے،جو اس وقت بنایا گیا جب مقصد قانون و نظم اور ٹیکس وصولی تھا،ترقی و تبدیلی نہیں۔آج کے دور میں ہمیں ایسے نظام کی ضرورت ہے جو استحکام کی بجائے جدت، مراتب کے بجائے اشتراک اور طریقہ کار کی بجائے نتائج کو ترجیح دے۔

احسن اقبال نے کہا کہ حکومت نے سول سروس اصلاحات کیلئے ایک جامع فریم ورک تیار کیا ہے جس کی بنیاد سمارٹ اصولوں پر رکھی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سی ایس ایس امتحان میں بنیادی اصلاحات کر رہی ہے تاکہ اس کا محور انگریزی دانی کی بجائے تنقیدی سوچ،تجزیاتی صلاحیت اور پالیسی فہم ہو۔انہوں نے کہا کہ ہم نے انگریزی کو ترقی کی نہیں بلکہ اشرافیہ کے قبضے کا ذریعہ بنا دیا ہے،اس سوچ کو بدلنے کا وقت آ گیا ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ خواتین، اقلیتوں اور پسماندہ علاقوں کی نمائندگی کو یقینی بنانے کیلئے مثبت اقدامات کئے جا رہے ہیں تاکہ سول سروس واقعی عوام سے جڑی ہوئی اور ان کے اعتماد کی حامل ہو۔

انہوں نے کہا کہ وزارتِ منصوبہ بندی نے جامعات، نجی شعبے اور حکومت کے درمیان عملی شراکت کیلئے پبلک پالیسی لیبز کے قیام کی تجویز دی ہے،جو پالیسی سازی کو تحقیق، ڈیٹا اور جدید ٹیکنالوجی سے جوڑیں گی۔

احسن اقبال نے کہا کہ حکومت نے ایک سات نکاتی تعلیمی فریم ورک تیار کیا ہے جس میں علم پر مبنی پالیسی سازی،مشترکہ تحقیق،پالیسی فیلو شپ پروگرامز، ڈیجیٹل گورننس میں جدت،مقامی حکومتوں کے حل،تربیتی ماڈیولز اور علاقائی تعاون شامل ہیں۔

انہوں نے جنوبی ایشیائی سطح پر تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ خطے کے مشترکہ مسائل جیسے موسمیاتی تبدیلی،غربت اور پانی کی قلت،سرحدوں سے ماورا ہیں،لہذا ایک ساوتھ ایشئین گورننس فریم ورک تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

پروفیسر احسن اقبال نے کہا کہ آج کی دنیا میں گورننس کا عمل ٹیکنالوجی کی ترقی،عالمی باہمی انحصار اور سماجی توقعات میں تبدیلی کے باعث پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی آبادی اب زیادہ نوجوان، شہری، تعلیم یافتہ اور ڈیجیٹل طور پر منسلک ہے اور عوام ایسی حکومت چاہتے ہیں جو زیادہ جواب دہ،شراکتی اور ٹیکنالوجی پر مبنی ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت کا پرانا ماڈل جس میں شہری ووٹ دیتے تھے اور پھر منتخب نمائندوں کے فیصلوں کے منتظر رہتے تھے،اب جدید دور میں قابلِ عمل نہیں رہا،کیونکہ اب لوگ باخبر اور با اختیار ہو چکے ہیں اور حقیقی وقت میں پالیسی سازی میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلام انصاف، جواب دہی اور عوامی خدمت کے اصولوں پر مبنی ہے،قرآن مجید اور سیرتِ نبوی ﷺمیں حکمرانی کو امانت اور خدمت قرار دیا گیا ہے۔انہوں نے حضرت عمر ؓکے قول "اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو عمر جواب دہ ہوگا” کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ یہی اصول آج کے دور میں بھی ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔

انہوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے تاریخی قول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یاد رکھو، تم ریاست کے خادم ہو، حکمران نہیں۔ تمہاری وفاداری ریاست پاکستان کے ساتھ ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ یہی وہ وژن ہے جس کی روشنی میں حکومت سول سروس اصلاحات کو آگے بڑھا رہی ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ موجودہ حکومت وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں سول سروس کو ایک جدید، میرٹ پر مبنی، شفاف اور عوامی خدمت پر مرکوز ادارے میں بدلنے کیلئے پرعزم ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک صرف حکومت کے زور پر نہیں بدلتا، بلکہ جب ریاست، نجی شعبہ، جامعات اور سول سوسائٹی شراکت داری میں کام کریں تو حقیقی تبدیلی ممکن ہوتی ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ اصلاحات پاکستان کیلئے ایک نئے دورِ حکمرانی کا آغاز ثابت ہوں گی۔پروفیسر احسن اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ اچھی حکمرانی کی جڑیں اسلامی تعلیمات میں گہرائی سے پیوست ہیں،جو انصاف، جواب دہی اور عوامی خدمت پر مبنی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جامعات کو گورننس میں جدت کیلئے تھنک ٹینک کے طور پر کردار ادا کرنا چاہیے اور علم پر مبنی ترقی کے مراکز بننا چاہیے۔

انہوں نے جامعات کیلئے کارکردگی کے سات نکاتی فریم ورک کا اعلان کیا،جس میں تعلیمی معیار،تحقیق و جدت،صنعت و اکیڈمی تعلقات،سماجی خدمت،ٹیکنالوجی کا استعمال،کارپوریٹ گورننس اور گریجویٹس کے معیار جیسے نکات شامل ہیں۔

اپنے خطاب کے اختتام پر انہوں نے ملک کی اشرافیہ سے اپیل کی کہ جہاں غریب عوام اب بھی پاکستان کے مستقبل پر یقین رکھتے ہیں،وہاں خوشحال طبقے کو بھی ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ آئیں ہم سب مل کر ٹیم پاکستان کے طور پر اس وژن کو حقیقت بنائیں۔کانفرنس سے بنگلہ دیش کے معاون خصوصی برائے خزانہ پروفیسر انیس الزمان، پاکستان میں بنگلہ دیش کے ہائی کمشنر محمد اقبال حسین اور پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی نے بھی خطاب کیا۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کو عوامی خدمت پر مبنی جدید سول سروس نظام درکار ہے، احسن اقبال
  • پاکستان کو عوامی خدمت پر مبنی سول سروس نظام کی ضرورت ہے، احسن اقبال
  • مودی حکومت نے سونم وانگچک کو بات چیت سے دور رکھنے کے لیے حراست میں لیا، اہلیہ
  • عوامی لیگ کے لاکھوں حامی بنگلا دیش کے انتخابات کا بائیکاٹ کرینگے ‘ حسینہ واجد
  • اسرائیلی وزیر دفاع کی حماس کی بیرون ملک قیادت کو دھمکی
  • برطانیہ: حکومت تمام پناہ گزینوں کو ہوٹلوں سے نکالنے کیلئے پُرعزم
  • خیبرپختونخوا میں سونےکی کان کنی پر عائد پابندی میں 30 دن کی توسیع
  • اسرائیلی آرمی چیف کا حماس کے خلاف جنگ جاری رکھنےکا اعلان
  • حکومتی پالیسی نے کسان کو بھکاری بنادیا،عوامی تحریک