نائب امیر جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ معاشی، سیاسی، آئینی بحران سے نکلنے کا واحد راستہ 2024ء کے انتخابات کے حقیقی عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے ہی ممکن ہے، اپوزیشن جماعتیں فارم 45 کی بنیاد پر عوامی مینڈیٹ کی بحالی کی جدوجہد کریں تو جمہوریت، عوامی حقوق اور غیرجانبدارانہ انتخابات ممکن ہونگے۔ اسلام ٹائمز۔ نائب امیر جماعتِ اسلامی، مجلسِ قائمہ سیاسی قومی امور کے صدر لیاقت بلوچ نے 8 فروری 2024ء کے دھاندلی زدہ انتخابی نتائج کے ذریعے قائم ہونیوالی حکومت کے وزیراعظم کی ایک سالہ کارکردگی پر کہا کہ ہم نے حکومتی شور شرابہ کو مسترد کرتے ہوئے حقائق نامہ جاری کیا ہے، جو موجودہ حکومت کی اصل کارکردگی اور اس کے نتیجے میں ملک و مِلت کو درپیش مصائب و مشکلات کا حقیقی آئینہ دار ہے۔ 8 فروری 2024ء ملکی انتخابی تاریخ کے بدترین انتخابات تھے اور یہ جمہوریت اور منتخب اداروں کیلئے سیاہ ترین دن تھا۔ جعلی انتخابات نے جعلی اور بیوقار حکومتیں قائم کیں جس سے سیاسی، اقتصادی، سماجی بحران بڑھ گئے اور ناجائز، غیرقانونی، بے وْقعت حکومتوں کی وجہ سے بیروز گاری، کرپشن، اختیارات کے ناجائز استعمال کا عذاب عوام پر مسلط ہو گیا۔ معاشی، سیاسی، آئینی بحران سے نکلنے کا واحد راستہ 2024ء کے انتخابات کے حقیقی عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے ہی ممکن ہے، اپوزیشن جماعتیں فارم 45 کی بنیاد پر عوامی مینڈیٹ کی بحالی کی جدوجہد کریں تو جمہوریت، عوامی حقوق اور غیرجانبدارانہ انتخابات ممکن ہونگے۔ جماعتِ اسلامی آئین کے نفاذ، آزاد عدلیہ کے قیام اور غیرجانبدارانہ انتخابات کے لیے مسلسل جدوجہد جاری رکھے گی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: عوامی مینڈیٹ

پڑھیں:

نریندر مودی کی سیاسی حکمت عملی

پاک بھارت جنگی کشیدگی میں ان کی سیاسی اور دفاعی محاذ پر شکست کے بعد ایک عمومی رائے یہ ہی بنی تھی کہ نریندر مودی کی نہ صرف مقبولیت میں کمی ہوئی ہے بلکہ اب وہ ایک بڑے سیاسی بوجھ کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

اسی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا گیا کہ وہ اور ان کی جماعت بی جے پی سمیت اتحادی جماعتیں حالیہ بہار کے انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکیں گے اور ان کو ایک بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔لیکن بہار کے انتخابات او راس کے نتائج نے مودی کے مخالفین کو سخت مایوس کیا ہے اور تمام تر حکمت عملی کے باوجود ان کے مخالفین بہار کے انتخابات میں مودی کی سیاسی برتری کے جادو کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ان انتخابات کے نتائج نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ نریندر مودی کی پاکستان مخالفت یا جنگی حکمت عملی نہ صرف کامیاب ہوئی بلکہ اس کا اثر ہمیں ان انتخاب کے نتائج میں مودی کے حق میں دیکھنے کا موقع ملا ہے۔یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ نریندر مودی کی سیاسی مقبولیت بھی باقی ہے ۔

نریندر مودی نے بہار کے انتخابات میں پاکستان مخالفت کا کارڈ خوب کھیلا اور ہندو سوچ کے ووٹروں کو اس نقطہ پر متحد کیا کہ پاکستان اس کے لیے نہ صرف ایک بڑا خطرہ بلکہ دشمن کی حیثیت رکھتا ہے ۔

نریندر مودی کو اندازہ تھا کہ بھارت کے انتہا پسندی کے مزاج کے ووٹرز میں مسلم یا پاکستان دشمنی کا کارڈ جیت کی حیثیت رکھتا ہے اور اسی کارڈ میں وہ بہار کے انتخابات کو جیت سکتے ہیں۔بہار کے ان انتخابات کے نتائج نے عملا جہاں مودی کی پاکستان دشمنی کی سیاست میں بڑا سیاسی ریلیف دیا ہے وہیں اس نقطہ کو بھی اجاگر کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی کشیدگی کا ایک کارڈ بہار کے انتخابات او ران انتخابات میں سیاسی برتری کا بھی تھا۔یقینا بہار کے انتخابات میں مودی کی سیاست مضبوط ہوئی ہے اور ان کو سیاسی آکسیجن ملا ہے وہیں ان انتخابات کے نتائج کا سیاسی اثر اگلے برس میں مغربی بنگال کے انتخابات کے نتائج پر بھی مودی کی حمایت بدستور برقرار رہے گی۔

نریندر مودی کی حمایت میں ان کا نیشنل ڈیموکریٹک الائنس یعنی این ڈی اے کی عملا کامیابی خودان کے سیاسی مخالفین کے لیے بھی بڑا سیاسی دھچکہ ہے جو حالیہ صورتحال کا فائدہ اٹھا کر مودی کو سیاسی طور پر پسپائی کی طرف دکھیلنا چاہتے تھے۔نریندر مودی نے بہار کے انتخابات میں ’’ رچے بہار ‘‘ کا نعرہ لگا کر وہاں کے ووٹروں کو نہ صرف اپنی طرف متوجہ کیا بلکہ ان میں پاکستان دشمنی کا کارڈ بھی خوب کھیلا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نریندر مودی کی پاکستان مخالفت کا کارڈ بہار کے انتخابی نتائج میں کامیابی کے بعد ختم ہوجائے گا اور وہ اس کو بنیاد بنا کر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے یا ان کی حکمت عملی یہ ہی ہوگی کہ وہ پاکستان کے ساتھ تناو اور کشیدگی کو برقرار رکھ کر پاکستان دشمنی کا کارڈ مغربی بنگال کے انتخابات میں بھی بطور ہتھیار استعمال کریں ۔اصل میں مودی اورآج کی بی جے پی کی عملی سیاست پاکستان اور مسلم دشمنی کی بنیاد پر کھڑی ہے اور مودی کا طویل عرصے تک اقتدار کی سیاست میں کامیابی سے موجود رہنا ہی ان کی عملا ہندوتا کی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔

اس لیے پاکستان دشمنی اور پاکستان کے ساتھ تعلقات میں تناو،ٹکراو اور بگاڑ سمیت جنگ جنون مودی کی سیاسی حکمت عملیوں کا کل بھی حصہ تھا اور آج بھی وہ اسی حکمت عملی کی بنیاد پر اپنے سیاسی کارڈ کھیل رہے ہیں۔نریندر مودی کی سیاسی حکمت عملی میں یہ نقطہ بھی اہم ہے کہ کیا وہ مغربی بنگال کے انتخابات سے پہلے پاکستان کے خلاف دوبارہ سے کوئی بڑی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچر جنگ یا کشیدگی کی صورت میں براہ راست کریںگے۔ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری کا کوئی بھی ایجنڈا ان کی سیاسی حکمت عملیوں میں شامل نہیں ہے۔نریندر مودی ایک طرف بھارت کی جانب سے پاکستان مخالفت کا کارڈ بھی کھیلنے کو ترجیح دیں گے تاکہ ان پر بھارت کا دباو برقرار رہے تو دوسری طرف ان کی حکمت عملی یہ بھی ہے کہ وہ افغان طالبان ، حکومت سمیت ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف استعمال کرے اور پراکسی جنگ کو اپنی مضبوط حکمت عملی کا حصہ بنائے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو بھی مذاکرات ہورہے تھے، اس کی اب تک کی ناکامی یقینی طور پر بھارت کے مفاد میںہے اور وہ ہر صورت افغانستان کو پاکستان مخالف قوت کے طور پر دیکھنا اور کھڑا کرنا چاہتا ہے۔اس لیے ایک طرف پاکستان کا چیلنج بھارت کے ساتھ تعلقات کی خرابی کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اب ہم افغانستان کے ساتھ بھی برے تعلقات کی وجہ سے مسائل پیدا کررہا ہے ۔اگرچہ نریندر مودی کے سیاسی مخالفین مودی کی بہار کے انتخابات میں 90فیصد کامیابی کو مشکوک بنیادوں پر دیکھ رہی ہے اور اسے ایک بڑی سیاسی کامیابی کے بجائے انتظامی حکمت عملی کے طور پر پیش کررہی ہے ۔

ان کے بقول مودی کی اس کامیابی کے پیچھے انتخابی بے ضابطگیاں ہیں جو بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ کی گئی ہیں۔لیکن اپوزیشن کے لیے سب سے بڑی فکر مندی یہ ہونی چاہیے کہ مودی کی عسکری حکمت عملی کیسے انتخابی نتائج پر کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے ۔بھارت جو خود کو آج بھی سیکولرسیاست کے طورپر پیش کرتا ہے یا دنیا میں اپنی پہچان سیکولر سیاست کے طور پر ہی رکھنا چاہتا ہے تواس کا سب سے بڑا چیلنج موجودہ حالات میں خود کو ہندواتہ کی سیاست سے علیحدہ کرنے سے ہونا چاہیے۔لیکن بہار کے انتخابی نتائج ظاہر کرتے ہیںکہ مودی کی ہندواتہ پر مبنی سیاسی کارڈ آج بھی طاقت میں ہے اور اس کو کمزور کرنے میں اس کے مخالفین کو بدستور ناکامی کا سامنا ہے۔

مودی کی موجودہ حکمت عملی کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بھی بہتری کے فوری امکانات کمزور ہیں اور دونوں اطراف میں کشیدگی کا موجود رہنا ظاہرکرتا ہے کہ ہماری علاقائی سیاست کے چیلنجز بڑھ گئے ہیں۔

چین او رامریکا نے پاک بھارت تعلقات کی بہتری میں کردار ادا کرنے کی بات کی ہے مگر جو کچھ ان کی جانب سے پس پردہ یا پردہ اسکرین پر ہوا ہے اس کے فی الحال کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آسکے ۔اسی طرح بھارت میں نریندر مودی کے سیاسی مخالفین یا کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں کو بھی مودی مخالفت میں روائتی سیاسی طریقوں سے باہر نکلنا چاہیے کیونکہ مودی کی انتخابی سیاست میں سیاسی اور انتظامی کنٹرول کم ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے۔ایسے لگتا ہے مودی کے سیاسی مخالفین کے پاس سیاسی نعرے تو ہیں مگر یہ نعرے بھارت کیے ووٹروں کو متاثر نہیں کررہے ۔ایسے میں نریندر مودی کا سیاسی جن کیسے ختم یا کمزور ہوگا وہی اس وقت بھارت کی داخلی سیاست میں مودی مخالفین کے لیے بڑا چیلنج ہے ۔اسی طرح مودی کے سیاسی مخالفین کی سیاسی تقسیم بھی مودی ہی کی سیاست کو فائدہ پہنچارہی ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • خالد خورشید حکومت گرانے سے متعلق گورنر کے بیان پر تحریک انصاف کا ردعمل سامنے آ گیا
  • حکومت عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے لیکن آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے ممکن نہیں، رانا ثنااللہ
  • سیاسی رہنماؤں کا مسلم لیگ (ق) میں شمولیت کا اعلان
  • اگر معلوم ہوتا کہ مینڈیٹ قبول نہیں ہوگا تو ضمنی انتخابات میں حصہ نہ لیتے، بیرسٹر گوہر
  • مینڈیٹ نہ ملنے کا خدشہ تھا تو انتخابات میں حصہ ہی نہ لیتے، بیرسٹر گوہر کا بیان
  • ضمنی انتخابات کا سیاسی سبق
  • نریندر مودی کی سیاسی حکمت عملی
  • نظامِ مصطفیؐ کا نفاذ ہی مسائل کا دیرپا حل ہے‘ شکیل قاسمی
  • ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان آدھی مدت کے اقتدار کے معاہدے کی حقیقت کیا ہے؟
  • نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ کا اجتماع عام سے واپسی پر کارکنان کو الوداع کرنے کے موقع پر گروپ فوٹو