صدر رجب طیب اردوان پاکستان کے دورے پر!
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
جمہوریہ ترکیہ اکے صدر رجب طیب اردوان 2 روزہ دورے پر 12 فروری2025 کو پاکستان کے تشریف لا رہے ہیں۔
طیب اردوان کا پاکستان کا یہ پانچواں دورہ ہوگا۔ترکی کے صدر طیب اردوان پاکستان میں قیام کے دوران دورۂ وزیراعظم شہباز شریف اور پاکستان کی مقتدرہ کے فیصلہ ساز رہنماؤں سے مابین بعض حساس معاملات پر تبادلہ خیال کریں گے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس بات چیت میں دونوں برادر ملکوں کے درمیان باہمی دلچسپی کے امور کے ساتھ پاکستان اور ترکی کے درمیان دفاعی شعبوں میں تعاون میں اضافے کے علاوہ غزہ کی صورت حال ،غزہ پر قبضے سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات اور اسرائیل کی ہٹ دھرمی پر بھی تبادلہ خیال کیاجائے گا ،
کیونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ ترکی کی طرح پاکستان بھی مشرقِ وسطیٰ کی تبدیلیوں اور طوفانوں سے لا تعلق نہیں رہ سکتا اور موجودہ صورت حال میں پاکستان اور ترکیہ کا ہاتھوں میں ہاتھ دے کر آگے بڑھنا بے حد ناگزیر ہو چکا ہے۔
خاص طور پر دفاع کے شعبے میں۔ گزشتہ برسوں کے دوران ترکی نے دفاعی سازوسامان کی تیاری کے شعبے میں نمایاں ترقی کی ہے اور دفاعی ہتھیار سازی میں ترکیہ بہت آگے نکل چکا ہے۔
2فروری 2025کو ترکیہ روزنامہ ‘‘ڈیلی صباح’’ نے خبر دی ہے کہ ترکیہ اپنے دفاعی ادارے TAI(Turkish Aerospace Industries) کے تحت بنائے گئے جدید ترین جنگی ڈرونز (UAV)اور ATAKہیلی کاپٹرز جرمنی کو بھی فروخت کرنے کا ارادہ رکھتا
ہے۔ پاکستان بھی برادر ملک ترکیہ کی اِن مہارتوں سے استفادہ کرنے کا خواہاں ہے۔
پاکستان اور ترکی کے درمیان دیرینہ برادرانہ تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صدر اردوان کے دورہ پاکستان کا اعلان ہوتے ہی پاکستانی عوام اور پاکستان کے جملہ حکمرانوں نے ان کے لیے دل و نگاہ فرشِ راہ کررکھے ہیں،
ترکی کے صدر کے استقبال کیلئے پاکستانی عوام کے اس جوش وجذے سے ظاہرہوتاہے کہ ہم سب ترکیہ کو، بطورِ مملکت،محبت و قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ترکیہ ہمارا دیرینہ، قابلِ اعتبار اور گہرا برادر و اسلامی دوست ملک ہے۔
سیاسی، سماجی، دفاعی اور معاشی اعتبارات سے ترکیہ ایک طاقتور، مستحکم اور مضبوط ملک ہے۔ پاکستان بجا طور پر ترکیہ کی دوستی اور قربت پر فخر کر سکتا ہے۔
5سال قبل بھی طیب اردوان2 روزہ دَورے پر، پاکستان تشریف لائے تھے۔ اُن کے ہمراہ خاتونِ اوّل، محترمہ آمنہ طیب اردوان، بھی تشریف لائی تھیں۔ اس وقت پاکستان پر پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ بانی پی ٹی آئی نُور خان ایئر پورٹ سے خود گاڑی ڈرائیو کرکے جناب اردوان کو اسلام آباد شہر لائے تھے۔
سفارتی دُنیا میں اِس اقدام کو بڑے مستحسن الفاظ میں یاد کیا گیا تھا۔ یہ دراصل دو برادر اسلامی ممالک کی قلبی قربتوں کا واضح اور بیّن اظہار تھا۔اِس دَورے میں دونوں ممالک کے مابین کیے گئے 13MOUs کی شکل میں، دونوں ممالک کے کئی اہم ترین اور حساس خاص طور پر تجارتی اور اسٹرٹیجک شعبوں میں فائدہ پہنچا تھا۔
فروری 2020میں پاکستان کے چوتھے دورے کے موقع پر طیب اردوان نے پاکستانی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے شاندار خطاب کیا تھا۔ یہ خطاب اس لیے بھی تاریخی تھا کہ جناب طیب اردوان کا پاکستانی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے یہ مسلسل چوتھا خطاب تھا۔ ایسا منفرد اعزاز کسی دوسرے سربراہِ مملکت کو آج تک نہیں مل سکا ہے۔
پارلیمنٹ سے خطاب کا موقع صرف پاکستان کے انتہائی قریبی اور معتبر ممالک کے سربراہان ہی کو دیا جاتا ہے۔صدرطیب اردوان کا یہ خطاب اس لیے بھی یادگار اور ناقابلِ فراموش تھا کہ اپنے خطاب میں انھوں نے غیر مبہم اور واضح الفاظ میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے دیرینہ اور تاریخی موقف کی زبردست حمائت کی تھی۔ انھوں نے دل کھول کر، عثمانیہ دَور میں، اُن ایام کو محبتوں سے یاد کیا تھا جب مسلمانانِ برصغیر نے ہر اعتبار سے مغربی طاقتوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑتے ہُوئے ترکی کی زبردست حمائت کی تھی۔اپنے خطاب کے دوران طیب اردوان نے فرطِ محبت واحترام سے پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دیا تھا۔ طیب اردوان نے 5 سال قبل اسلام آباد میں مسئلہ کشمیر کی پاکستانی موقف کی جس طرح حمائت کی تھی، بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے دلوں میں آج تک اِس کی کسک موجود ہے ۔ اب جب کہ صدر طیب اردوان،اپنے کئی وزرا کے ہمراہ، ایک دفعہ پھر پاکستان تشریف لا رہے ہیں، بھارتی میڈیا پھر پاکستان اور ترکی کے خلاف زہر افشانی میں مصروف ہوگیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق طیب اردوان کے دَورہ پاکستان کے موقع پراسلام آباد میں پاکستان اور ترکیہ کے درمیان اعلیٰ سطح کی اسٹرٹیجک تعاون کونسل (HLSCC) کا ساتواں اجلاس بھی ہوگا۔ اس اسٹرٹیجک تعاون کونسل کا بنیادی مقصد دونوں برادر ممالک کے باہمی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ اِس اہم کونسل کی سربراہی پاکستان کے وزیراعظم اور ترکیہ کے صدر مشترکہ طور پر کرتے ہیں۔کونسل کو 2009 میں دونوں ممالک کے درمیان تزویراتی معاشی فریم ورک (SEF) کے نفاذ کے لیے قائم کیا گیا تھا؛ تاہم 2013 میں اس کا نام تبدیل کیا گیا تھا تاکہ ترکیہ اور پاکستان کے درمیان تزویراتی شراکت داری کو اجاگر کیا جا سکے۔ فورم کا چھٹا اجلاس فروری 2020میں منعقد کیا گیا تھا جب کہ اِس کا ساتواں اجلاس تاخیر کا شکار ہوگیا تھا۔‘‘اسٹرٹیجک تعاون کونسل کے تازہ اجلاس میں دفاع اور سیکورٹی تعاون کو بڑھانے سمیت دونوں ممالک کے درمیان تجارت و اقتصادی تعاون کو فروغ دینے نیز ثقافتی تعلقات کو مزید مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔ حال ہی میں اسلام آباد میں وزیر اعظم شہباز شریف اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کی موجودگی میں اس کونسل کے حوالے سے جو جائزہ اجلاس ہُوا تھا، اس میں پاکستان اور ترکی کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے نئی تجاویز کا جائزہ لیا گیا تھا۔ یہ اسلام آباد میں منعقد ہونے والے اعلیٰ سطح کے اسٹرٹیجک تعاون کونسل کے ساتویں اجلاس کی تیاریوں کا حصہ تھا۔اِس اجلاس کے مندرجات بتاتے ہیں کہ پاکستان اپنے معزز دوست، طیب اردوان، کو خوش آمدید کہنے کے لیے پوری تیاریاں کر چکا ہے۔
ترکیہ کے منتخب صدر ایسے وقت میں پاکستان تشریف لا رہے ہیں جب مشرقِ وسطیٰ میں جوہری سیاسی، معاشی اور اسٹرٹیجک تبدیلیاں معرضِ عمل میں آچکی ہیں۔ غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان، انتہائی خونریز جنگ کے بعدجنگ بندی ہو چکی ہے۔ ترکیہ کے ہمسایہ ملک، شام، میں بشارالاسد کی حکومت ختم ہو چکی ہے۔ بشار الاسد ملک سے فرار ہو کر رُوس میں پناہ لے چکے ہیں۔ شام میں سابق جنگجو اور سابق القاعدہ رہنما، احمد الشرع، عبوری حکومت کے از خود صدر بن چکے ہیں۔شام میں زبردست تبدیلیوں کے فوری بعد ترکیہ کی دو انتہائی اہم شخصیات (وزیر خارجہ حقان فیدان اور انٹیلی جنس چیف ابراہیم کلین) شام کا دَورہ کر چکی ہیں۔ اُن کی احمد الشرع سے ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں۔
ترکیہ میں احمد الشرع کی جناب اردوان سے بھی اسٹرٹیجک ملاقات ہو چکی ہے۔شام میں ترکیہ کے انتہائی حساس اور اہم مفادات ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ شام کی نئی افواج کو ترکیہ ہی تربیت دے گا۔ ترکیہ اپنے صدر کی قیادت میں شام میں ہر ممکنہ خطرے سے نمٹ رہا ہے۔ بیشتر معاملات میں،شام اور مشرقِ وسطیٰ میں ترکیہ کی پالیسیوں اور نکتہ نگاہ کی، پاکستان حمائت کرتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی سازشوں، مظالم اور جارحیتوں کے خلاف ترکیہ نے جو بھی پالیسیاں اپنا رکھی ہیں، پاکستان اِن کی حمائت کرتا ہے۔ خصوصاً پاکستان میں ترکی کے سفیر ڈاکٹر اوغلو نے صدر ایردوان کے دورہ پاکستان کے جو مقاصد بتائے،ان کے مطابق صدر طیب اردوان کے دورہ پاکستان کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تجارت، دفاع، زراعت اور لائیو اسٹاک جیسے اہم شعبوں میں تعاون کے فیصلے ہوں گے اور باہمی تجارت کے حجم میں غیر معمولی اضافے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ڈاکٹر عرفان نذیر اوغلوبتایا کہ صدر اردوان اس خطے میں مواصلاتی رابطوں کے لیے سڑکوں کی تعمیر کا ایک ویژن رکھتے ہیں جس کی عظیم یوریشیا تک توسیع ہو نی چاہئے۔ اس مواصلاتی نیٹ ورک کو خواب سے حقیقت میں بدلنے کے لیے مڈل کاریڈور اور سی پیک سے بھی مدد لی جائے گی۔ پاکستان، ترکیہ اور آذر بائیجان کے درمیان مواصلاتی روابط میں با معنی پیش رفت یقینا خطے میں تجارت، معاشی تعاون اور اس کے نتیجے میں تینوں برادر قوموں کے عوام کے لیے خوش حالی کا باعث بنے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر ملک بھی اس سے مستفید ہو سکیں گے۔
مشرق وسطی میں اسرائیل کی حالیہ بدترین جارحیت، اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی اور مختلف سطحوں پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ضمن میں بھی یہ رابطے ایک نئی دنیا کی تعمیر کا ذریعہ بنیں گے۔ اس نئی دنیا کی تعمیر پاکستان اور ترکیہ کا مشترکہ خواب سے جس میں آذر بائیجان بھی شریک ہو رہا ہے، کیونکہ اس پیش رفت سے زیادہ توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں،ہمیں یقین ہے کہ برادر ملک ترکی کے صدر کا یہ دورہ ملکوں کے دیرینہ دوستانہ تعلقات میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا اور پاکستان اور ترکی کے درمیان یہ دوستانہ تعلقات اور تعاون علاقے کے دوسرے ملکوں خاص طور پر مسلمان ملکوں کی ترقی اور فلاح کا ذریعہ بن کر سامنے آئے گا۔ ترکیہ اور پاکستان عسکری قوت، متحرک اور محنتی عوام، جغرافیائی قربت اور قدرتی وسائل کی نعمتوں سے مالا مال ہیں۔ دونوں یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ اکٹھے ہو کر ان نعمتوں سے اپنے عوام کو فیض یاب کریں ،امید کی جاتی ہے کہ دونوں ملکوں کے سربراہ ان مواقع سے استفادہ کرنے کیلئے ٹھوس اور قابل عمل لائحہ عمل تیار کریں گے۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: پاکستان اور ترکی کے درمیان اسٹرٹیجک تعاون کونسل اسلام آباد میں دونوں ممالک کے میں پاکستان اور پاکستان کیا گیا تھا پاکستان کے طیب اردوان اور ترکیہ پاکستان ا میں ترکی تشریف لا کے دوران ترکیہ کے ترکیہ کی ہو چکی کے صدر کے لیے اور اس
پڑھیں:
پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان کا سہ فریقی تعاون منفرد اور اسٹریٹجک پارٹنرشپ ہے، سردار ایاز صادق
اسپیکرقومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا کہ پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان کا سہ فریقی تعاون ایک منفرد اور اسٹریٹجک پارٹنرشپ ہے، جو صرف حکومتوں کے درمیان نہیں بلکہ عوام کی خواہشات اور پارلیمان کی آواز کی عکاسی کرتا ہے۔
اسلام آباد میں قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے زیرِ اہتمام پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان کی سہ فریقی اسپیکرز کانفرنس کا افتتاحی اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس کی صدارت اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کی۔ اس موقع پر ترکیہ کی گرینڈ نیشنل اسمبلی اور آذربائیجان کی ملی مجلس کے اسپیکرز نے بھی شرکت کی۔
افتتاحی اجلاس اور خیرمقدمی کلماتافتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے ترکیہ اور آذربائیجان کے ہم منصبوں کو پاکستان آمد پر خوش آمدید کہا اور ان کی شرکت کو پاکستان کے لیے باعثِ مسرت اور فخر قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن ایک صفحے پر ہیں، اسپیکر سردار ایاز صادق
انہوں نے کہا کہ سہ فریقی کانفرنس کا موضوع ’برادرانہ تعلقات کا استحکام، علاقائی امن و خوشحالی کے لیے پارلیمانی تعاون کا فروغ‘ ہے۔ یہ کانفرنس تینوں ممالک کے درمیان دوستی، اخوت اور علاقائی تعاون کے نئے باب کا آغاز ہے۔
اسپیکر نے کہا کہ پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان کا سہ فریقی تعاون ایک منفرد اور اسٹریٹجک پارٹنرشپ ہے، جو صرف حکومتوں کے درمیان نہیں بلکہ عوام کی خواہشات اور پارلیمان کی آواز کی عکاسی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ شراکت حکومتوں کی نہیں، عوام کے دلوں کی ترجمانی ہے۔ تینوں ممالک کی دوستی اعتماد، محبت اور اخوت پر مبنی ہے۔
ایاز صادق نے اس موقع پر ترکیہ اور آذربائیجان کے پارلیمانی وفود کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور کہا:
’پاکستان، آذربائیجان اور ترکیہ کی دوستی زندہ باد۔ پاکستان زندہ باد، آذربائیجان زندہ باد، ترکیہ زندہ آباد!‘
عالمی و علاقائی صورتِ حال پر اظہارِ خیالاسپیکر نے کہا کہ موجودہ عالمی نظامِ سلامتی شدید دباؤ کا شکار ہے اور خودمختاری و علاقائی سالمیت کے اصولوں کی خلاف ورزیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔
انہوں نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ غزہ میں دو سالہ ظلم و بربریت انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ ہے۔ دنیا کو اب خاموشی توڑنی ہوگی۔
سردار ایاز صادق نے بھارت کے زیرِ قبضہ جموں و کشمیر کی صورتحال پر بھی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری عوام 7 دہائیوں سے اپنے حقِ خودارادیت سے محروم ہیں۔ وہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں۔
یہ بھی پڑھیے پاکستان اسرائیل کو ریاست نہیں، دہشتگرد تنظیم کے طور پر تسلیم کرتا ہے:سردار ایاز صادق
انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے مئی میں پاکستان پر کی گئی جارحیت کا قوم اور افواجِ پاکستان نے ’آپریشن بنیان المرصوص‘ کے ذریعے منہ توڑ جواب دیا۔
ایاز صادق نے واضح کیا کہ بھارت کا جھوٹ اور پروپیگنڈا عالمی سطح پر بے نقاب ہو چکا ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ پاکستان اپنے دوست ممالک خصوصاً ترکیہ، آذربائیجان، چین اور سعودی عرب کے شکر گزار ہے جنہوں نے مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔
انہوں نے بھارت کی آبی معاہدہ منسوخی کی دھمکیوں کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ عزائم خطے کے امن کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ پاکستان ہمیشہ امن، احترامِ خودمختاری اور باہمی تعاون کی پالیسی پر کاربند رہا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف مؤقفسردار ایاز صادق نے کہا کہ دہشتگردی کا کوئی مذہب نہیں، اسے ختم کرنے کے لیے اجتماعی کوششیں درکار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف بے مثال قربانیاں دی ہیں اور پاک فوج نے ہوشمند اور مؤثر کارروائیوں سے دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کیے۔
’شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، ہم نے اپنی سرزمین امن اور استحکام کا گہوارہ بنانے کا عزم کر رکھا ہے۔‘
ماحولیاتی تبدیلی اور موسمیاتی انصافاسپیکر نے کہا کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب جیسے سانحات عالمی ماحولیاتی ناانصافی کا ثبوت ہیں، اور وقت کا تقاضا ہے کہ دنیا موسمیاتی انصافکے لیے مشترکہ اقدامات کرے۔
سردار ایاز صادق نے زور دیا کہ پارلیمان وہ ادارہ ہے جو عوامی نمائندگی کے ذریعے امن، ترقی اور خوشحالی کی سمت رہنمائی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان کے پارلیمان آپسی تعلقات کے مزید استحکام کے خواہاں ہیں اور سہ فریقی پارلیمانی تعاون علاقائی امن، ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہوگا۔
انہوں نے تجویز دی کہ تینوں ممالک کے پارلیمان ماحولیاتی تبدیلی، علاقائی سالمیت اور عالمی سلامتی پر مشترکہ گول میز کانفرنسز کا سلسلہ شروع کریں تاکہ پارلیمانی سطح پر ٹھوس تجاویز سامنے لائی جا سکیں۔
افتتاحی اجلاس کے اختتام پر اسپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ ہماری مشترکہ کوششیں علاقائی استحکام اور عوامی خوشحالی کا پیش خیمہ ہوں گی۔
پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان کی دوستی صرف آج کی نہیں، آنے والی نسلوں کی امانت ہے۔
ترجمان قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق سہ فریقی اسپیکرز کانفرنس کے دوران مختلف موضوعات پر سیشنز ہوں گے جن میں علاقائی امن، اقتصادی روابط، توانائی تعاون، ماحولیاتی تبدیلی اور پارلیمانی سفارت کاری پر خصوصی غور کیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں