’’سیاسی عدمِ استحکام‘‘ کا تصوراتی بیانیہ!
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
اپریل2022 سے اَب تک، پی ٹی آئی کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود پاکستان کسی سیاسی بحران کا شکار ہوا نہ روایتی عدم استحکام کا کوئی ایسا بھونچال آیا کہ دَر و دِیوار لرز اٹھتے اور نظمِ حکومت کو سنبھالے رکھنا مشکل ہو جاتا۔ البتہ پی ٹی آئی کی اپنی کشتی برمودا تکون کے خونیں جبڑوں تک آن پہنچی ہے۔ چوبی تختے چرچرا رہے ہیں، بادبان دھجیاں ہو رہے ہیں، کشتی کو سنبھالا دینے کے بجائے مسافر ایک دوسرے کو سمندر میں دھکیل رہے ہیں اور شام گہری ہو رہی ہے۔
عمران خان نے ’عدم اعتماد‘ کے ذریعے اقتدار بدر ہونے سے پہلے ہی سائفر کا ناقوس بجایا۔ اِسے پاکستانی جرنیلوں اور امریکیوں کی سازش کا نام دیا۔ ہمدردی کی انقلاب آفریں عوامی لہر اُٹھانے کی کوشش کی۔ کوئی حربہ کارگر نہ ہوا۔ یہاں تک کہ صرف دو ووٹوں کی اکثریت سے قائم پی ڈی ایم حکومت کو بھی دھکا نہ دیا جا سکا۔ فوج کے اندر بغاوت بپا کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ اڑھائی سو سے زائد عسکری تنصیبات پر حملے کیے۔ شہدا کی یادگاروں کو قہر و غضب کا نشانہ بنایا۔ طیارے نذرِ آتش کیے۔ فتنہ پرور سوشل میڈیا کے ذریعے قومی سلامتی کے اداروں کو منہ بھر بھر کے گالیاں دیں۔ ملکی سلامتی کے انتہائی حساس معاملات کو بازیچہ اطفال بنا دیا۔ اپنے عشق میں ہلکان عدلیہ سے عجوبہ روزگار فیصلے حاصل کیے لیکن پاکستان کے کسی گوشے میں ایسے بحران یا سیاسی عدم استحکام نے انگڑائی نہ لی جو نظمِ اجتماعی کو مفلوج کر دیتا۔
انتخابات کے بعد، گذشتہ ایک برس میں بھی پی ٹی آئی مسلسل جتن کرتی رہی کہ ملکی اداروں کو متنازع بنا کر ہموار پانیوں میں تلاطم اُٹھایا جائے۔ 24 نومبر 2024 کو اسلام آباد پر لشکر کشی کو ’’فائنل کال‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ حملہ بھی شرم ناک ہزیمت کا سیاہ داغ چھوڑ گیا۔ نیم دِلی سے مذاکرات کا ڈول ڈالا لیکن دو تین ملاقاتوں کے بعد ہی اُکتاہٹ اور بیزاری کا شکار ہو کر گھر لوٹ گئی۔ کبھی یورپی یونین کو درس جمہوریت دیتے ہوئے باور کرانے کی کوشش کی کہ پاکستان ’جی ایس پی‘ پلس کی رعایت کا حق دار نہیں رہا۔ کبھی آئی ایم ایف کو خطوط لکھے کہ پاکستان کو پھوٹی کوڑی تک نہ دو۔ کبھی امریکی ارکان کانگرس کی مٹھی گرم کرتے ہوئے مرضی کے بیانات دلوائے۔ کبھی برطانوی پارلیمنٹ میں سرنگیں لگائیں اور پاکستان کو مغلظات سنوائیں۔ دُہائی دی کہ ’’پاکستان کی صورت حال غزہ اور مقبوضہ کشمیر سے بھی بدتر ہو چلی ہے۔‘‘ سفارت کاروں کو جمع کر کے پاکستان کے چہرے پر کالک تھوپنے کی کوشش کی۔ حال ہی میں ایک بھاری بھرکم ’ڈوزیئر‘ آئی ایم ایف کے حوالے کیا گیا ہے جس میں پاکستان کو ایک سفاک اور انسانیت کش ریاست باور کرانے کی ’’سعی جمیل‘‘ کی گئی ہے۔ الحمدللہ۔ کھلی ملک دشمنی کی حدوں کو چھوتی ایک بھی مکروہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ کوئی بحران پیدا ہوا نہ سیاسی عدم استحکام جو ملک کی چولیں ہلا دیتا۔
نومبر 2024 کے اواخر میں عمران خان نے سمندر پار پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ اپنی کمائی پاکستان نہ بھیجیں تا کہ ملکی خزانہ خالی ہو جائے۔ ادائیگیاں ممکن نہ رہیں اور ملک دیوالیہ ہو جائے۔ اِس سے ایک بڑے اقتصادی بحران کا سونامی جنم لے گا جو ریاست کی بھربھری دیواروں سے ٹکرائے گا اور شدید نوعیت کے سیاسی عدم استحکام کا سیل بلا حکومت کو بہا لے جائے گا۔ پچھلے تین ماہ سے یہ اپیل دیار غیر میں رُسوا ہو رہی ہے لیکن پاکستانی کان نہیں دھر رہے۔ ’’الجزیرہ‘‘ نے 12 فروری کو اِس داستان کا نوحہ پڑھتے ہوئے سُرخی جمائی ’’How Pakistan’s Imran is losing remittances war against the Government‘‘
’’عمران کیوں کر حکومت کے خلاف ترسیلات زر کی جنگ ہار رہا ہے۔‘‘
پاکستانیوں نے دسمبر میں تین ارب ڈالر پہلے سے زیادہ پاکستان بھیجے۔ جنوری کے آخر میں ترسیلات زر میں مزید تین ارب ڈالر کا اضافہ ہو گیا۔ سیاسی بحران اور سیاسی عدم استحکام کی آرزو، اڈیالہ جیل کی راہداریوں کا رزق ہو گئی۔
چار مرتبہ، تحریکوں کے نتیجے میں پاکستان انتشار، سیاسی عدمِ استحکام یا ہمہ جہتی بحران کا نشانہ بنا۔ ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں، ایوب خان کے خلاف اُٹھنے والی تحریک نے معمولات حیات درہم برہم کر دئیے۔ سب تدبیریں الٹی ہو گئیں تو فیلڈ مارشل نے اپنا آئین، کوڑے دان میں پھینکا اور جان کی امان کی خاطر کمان جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر کے گھر چلا گیا۔ سیاسی عدم استحکام اور منہ زور بحران کی دوسری واضح مثال 1970 کے انتخابات کے بعد مشرقی پاکستان میں سر اُٹھانے والی منہ زور تحریک تھی جس نے نصف پاکستان کی رگ جاں دبوچ لی اور پھر اُس کی فصیل پر بنگلہ دیش کا پرچم لہرا دیا۔ تیسری بڑی تحریک 1977 کے انتخابات میں دھاندلی کے عنوان سے اٹھی اور ملک کے طول و عرض کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہوئی، ’تحریک نظام مصطفیؐ‘ کے سانچے میں ڈھل گئی۔ حکومت کے اعصاب جواب دینے لگے۔ چار شہروں میں مارشل لا نافذ کرنے کے باوجود ملک گیر احتجاج کو نکیل نہ ڈالی جا سکی۔ اس ہمہ جہتی سیاسی عدمِ استحکام کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھٹو حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور ملک پر فوجی حکمرانی کی طویل شب سیاہ مسلط ہو گئی۔ چوتھی بڑی تحریک نے آزادی عدلیہ کے پرچم تلے بال وپر نکالے جب طاقت کے نشے میں چور جنرل مشرف نے اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کر کے عدلیہ کو غلام بنانے کی کوشش کی۔
اِس تحریک نے مشرف کو ناتواں کر کے رکھ دیا اور پھر وہ کبھی اپنے قدموں پر کھڑا نہ ہو سکا۔ قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ بالعموم یہ تحریکیں بے ثمر رہیں۔ ایوب خان کے خلاف تحریک 1970 کے انتخابات کے بعد نئے انداز سے اُبھری تو پاکستان ٹوٹ گیا۔ 1977 کی تحریک طویل مارشل لا پر منتج ہوئی۔ ’’تحریک آزادی عدلیہ‘‘ نے مشرف کی وردی تو اُتار دی لیکن خود عدلیہ کی کلغی میں اتنے مور پنکھ ٹانک گئی کہ وہ آج تک ریاست کے دو دیگر ستونوں، مقننہ اور انتظامیہ کو برتن مانجھنے اور پوچا لگانے والی کنیزیں سمجھتی ہے۔
الحمدللہ! پاکستان نہ عدمِ استحکام کا شکار ہے نہ مسلمہ سیاسی لغت کے مطابق یہاں کوئی سیاسی بحران ہے۔ معمولات ریاست، مضبوط ادارہ جاتی نظم کے ساتھ مستقیم راہوں پر چل رہے ہیں۔ اقتصادی اشاریوں میں مسلسل بہتری آ رہی ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کی وارداتیں مخصوص پس منظر رکھتی ہیں۔ شورش اور بدامنی کی اس لہر پر قابو پانے کے لیے مؤثر کردار متعلقہ صوبائی حکومتوں کا بھی ہے۔ اسے سیاسی عدم استحکام کے زمرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کا سیاپا کرنے والوں کا ’آزادی عدلیہ‘ سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اُن کا اصل دُکھ یہ ہے کہ اِس سو فی صد آئینی پیش رفت نے، کونوں کھدروں میں چھپے اُن مہم جوئوں کو بے بس کر دیا ہے جو ’عدمِ استحکام‘ کی فصل کاشت کرنے جا رہے تھے۔
پی ٹی آئی کی آنکھوں میں سجے، ’عدمِ استحکام‘ کے خوابِ خوش رنگ کو تعبیر میں ڈھالنے کے لیے راستہ فقط ایک ہی تھا کہ وہ 1977 والے قومی اتحاد کی طرح، اسمبلیوں میں بیٹھنے سے انکار کر دیتی۔ اب وہ گئے وقت کو واپس نہیں لاسکتی اور آنے والے وقت کا ہر لمحہ، حسرتِ ناتمام کے نوحے کے سوا کچھ نہیں۔ سرخ چونچوں میں نیلگوں لفافے لیے، سفید و سُرمئی کبوتروں کی ڈاریں، کوئی معجزہ رقم کر سکتی ہیں نہ سیکڑوں صفحات پر مشتمل کوئی’’ڈوزئیر‘‘ عدمِ استحکام کا صُور پھونک سکتا ہے۔
رہا مسیحائے شرق و غرب ’ڈونلڈ ٹرمپ‘، تو فی الحال غزہ کے آتشکدے کی راکھ سے اپنے بچوں کی ہڈیاں چُننے والے فلسطینیوں کو اپنے آبائو اجداد کی سرزمین سے نکالنا اُس کی ترجیح اوّل ہے۔ اِس سے فارغ ہو کر شاید اُسے اڈیالہ جیل سے کسی کو نکالنے کا خیال بھی آ جائے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: سیاسی عدم استحکام استحکام کا کی کوشش کی پی ٹی ا ئی رہے ہیں کے بعد
پڑھیں:
7 ممالک جو سیاحوں کو اب برداشت نہیں کرتے، جانے سے پہلے ضرور جان لیں
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)دنیا بھر میں سیاحت ایک اہم معاشی اور ثقافتی سرگرمی ہے، لیکن بعض ممالک میں یہ شعبہ شدید زوال کا شکار ہے۔
جغرافیائی سیاسی کشیدگی، سیکیورٹی خطرات، اور سخت گیر حکومتی پالیسیوں نے ایسے کئی ممالک کو متاثر کیا ہے جو کبھی اپنی تاریخی ورثے، قدرتی مناظر اور تہذیبی تنوع کی بدولت دنیا بھر کے سیاحوں کواپنی جانب کھینچتے تھے۔
یہ رپورٹ اُن سات ممالک پر روشنی ڈالتی ہے جہاں حالیہ برسوں میں سیاحوں کی آمد میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
وجوہات میں جنگی تنازعات، انسانی حقوق کی پامالیاں، داخلی بدامنی، سفری پابندیاں، اور عالمی سطح پر منفی تاثر شامل ہیں۔ اس فہرست کا مقصد صرف اعداد و شمار پیش کرنا نہیں، بلکہ ان پیچیدہ عوامل کو اجاگر کرنا ہے جو کسی ملک کے پرکشش سیاحتی مقام سے تنہائی کی طرف سفر کی نشاندہی کرتے ہیں۔
افغانستان: خوبصورتی، مگر رسائی نہیں
ایک وقت تھا جب افغانستان بہادر اور مہم جو سیاحوں کے لیے ایک پُرکشش منزل ہوا کرتا تھا۔ مگر طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں حالات شدید بگڑ چکے ہیں۔ اب سیاحت میں 90 فیصد سے زائد کمی واقع ہو چکی ہے۔
ملک میں ہر طرف سیکیورٹی چوکیاں، متنازع علاقے اور عدم تحفظ کا ماحول ہے۔ یہاں تک کہ بامیان کے تاریخی بدھ مجسمے جیسے مقامات بھی سیاحوں کے لیے بند ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے افغانستان کے لیے سخت ترین سفری وارننگ (لیول 4) جاری کرتے ہوئے، تمام سفر سے گریز کا مشورہ دیا ہے۔
انسانی بحران، تباہ حال انفراسٹرکچر اور صحت کی سہولیات کی کمی نے اسے مزید خطرناک بنا دیا ہے۔
وینزویلا: قدرتی خوبصورتی کے باوجود بے یقینی کا راج
کبھی اینجل فالس اور قدرتی عجائبات کے لیے مشہور وینزویلا آج معاشی بحران، جرائم میں اضافے اور بدامنی کا شکار ہے۔
ملک میں سڑکوں پر لوٹ مار، صحت کی ناکافی سہولیات، اور سیاسی عدم استحکام نے سیاحوں کی آمد تقریباً بند کر دی ہے۔
امریکہ سمیت کئی ممالک نے وینزویلا کے لیے لیول 4 سفری انتباہ جاری کیا ہے، جبکہ بین الاقوامی ایئرلائنز نے پروازیں بند کر دی ہیں۔
ٹریول انشورنس کمپنیاں بھی اب اس ملک کے لیے کوریج نہیں دیتیں، جس کے باعث غیر ملکی سیاحوں کے لیے وینزویلا عملی طور پر ناقابل رسائی بن چکا ہے۔
شام: تاریخ کی سرزمین، جنگ کا میدان
شام، جو کبھی پالمیرا، حلب اور دمشق جیسے قدیم اور تاریخی شہروں کے لیے مشہور تھا، اب جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار ہو چکا ہے۔
طویل خانہ جنگی نے ملک کا سیاحتی ڈھانچہ تباہ کر دیا ہے۔ بیشتر تاریخی مقامات یا تو مٹی میں مل چکے ہیں یا مکمل طور پر بند ہیں۔
2024 میں صرف 10,000 سے بھی کم سیاح شام پہنچ سکے، جبکہ جنگ سے پہلے یہ تعداد لاکھوں میں تھی۔
ملک میں اغوا، بم دھماکوں اور دہشت گردی کے مسلسل خطرات کے باعث سیاحتی کمپنیاں بھی کام بند کر چکی ہیں، اور بیشتر علاقے سڑکوں سے کٹ چکے ہیں۔
بیلاروس: سیاسی کشیدگی کا شکار ملک، سیاحوں سے دور
بیلاروس میں 2020 کے متنازع صدارتی انتخابات کے بعد سے ملک شدید سیاسی دباؤ اور عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے۔
2023میں یہاں آنے والے غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں 60 فیصد سے زائد کمی دیکھی گئی۔
ملک میں ویزا حاصل کرنے میں دشواریاں، غیر ملکیوں پر شکوک، اور سخت نگرانی نے سفر کو خطرناک اور غیر آرام دہ بنا دیا ہے۔
مغربی ممالک کی اقتصادی پابندیوں نے نہ صرف فضائی سفر اور مالیاتی خدمات کو متاثر کیا ہے بلکہ بنیادی سفری سہولیات تک رسائی بھی محدود کر دی ہے۔
ایران: ثقافتی دولت کے باوجود سیاحت کی زوال پذیری
ایران، جو کبھی اپنے تاریخی مقامات، بازاروں اور اسلامی فنِ تعمیر کے لیے مشہور تھا، اب سیاحوں کے نقشِ قدم سے خالی ہوتا جا رہا ہے۔
2019 کے بعد سے سیاحوں کی آمد میں 50 فیصد سے زیادہ کمی ہو چکی ہے۔
مغربی دنیا اور ایران کے درمیان بڑھتی کشیدگی نے ویزا کے حصول کو مشکل بنا دیا ہے، جبکہ من مانی گرفتاریوں کا خوف بھی غیر ملکیوں کو روک رہا ہے۔
امریکی حکومت نے اپنے شہریوں کے لیے سفر نہ کرنے کی سخت تنبیہ جاری کر رکھی ہے، جبکہ ایران کے اندر بڑھتی سماجی پابندیاں اور ریاستی نگرانی سیاحتی تجربات کو مزید محدود کر رہی ہیں۔
میانمار: قدرتی حسن، لیکن سناٹا
میانمار، جو کبھی باغان کے مندروں اور انلے جھیل کی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور تھا، آج فوجی بغاوت اور سیاسی عدم استحکام کی لپیٹ میں ہے۔
فوجی قبضے کے بعد ملک میں سیاحت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ ملک بھر میں سفری پابندیاں، بجلی کی بار بار بندش، اور بنیادی ڈھانچے کی بگڑتی حالت نے سیاحوں کے لیے خطرات پیدا کر دیے ہیں۔
امریکہ سمیت دیگر ممالک نے لیول 4 سفری وارننگ جاری کر دی ہے، اور بیشتر بین الاقوامی ایئرلائنز نے پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔ سیاحت پر انحصار کرنے والے مقامی کاروبار اب خود غیر ملکیوں کو سفر ملتوی کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں، تاوقتیکہ امن بحال نہ ہو جائے۔
یہ مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ امن، سہولت، اور اعتماد کے بغیر کوئی ملک اپنی قدرتی یا ثقافتی خوبصورتی سے سیاحت کو فروغ نہیں دے سکتا۔
جب تک ان ممالک میں سیاسی، سماجی اور معاشی استحکام واپس نہیں آتا، وہاں سیاحت صرف ایک دور کا خواب ہی رہے گی۔
مزیدپڑھیں:سلیم نے شادی کیلئے کئی سال تک منایا: ماہرہ کا انکشاف