پاکستان اور قطر کا انسداد منشیات بارے باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق
اشاعت کی تاریخ: 20th, February 2025 GMT
ویب ڈیسک: پاکستان اور قطر کے مابین انسداد منشیات بارے باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی سے قطر کے سفیرعلی مبارک علی عیسی الخطیر نے ملاقات کی جس میں باہمی دلچسپی کے امور، دوطرفہ تعلقات اور مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ملاقات کے دوران قطر میں قید پاکستانی شہریوں کی رہائی کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی، انسداد منشیات کے سلسلے میں باہمی اشتراک کار بڑھانے پر اتفاق کیا گیا، اس موقع پر قطر کے سفیر نے وزیر داخلہ محسن نقوی کو قطر کے دورے کی دعوت دی۔
ریڈ کراس آج شیری بیباس اور اس کے دو بچوں کی میتیں اسرائیل لائے گی
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا تھا کہ قطر سے انتہائی قریبی تعلقات ہیں، جلد قطر کا دورہ کر کے ہم منصب سے ملاقات کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ انسداد منشیات بارے خلیجی ممالک کی کانفرنس اپریل میں اسلام آباد میں ہو رہی ہے، اس کانفرنس میں قطر کے انسداد منشیات ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے، انسداد منشیات کے سلسلے میں دوست ممالک کے ساتھ قریبی اشتراک کار چاہتے ہیں۔
چیمپئینز ٹرافی ، ہوم گراؤنڈ میں شکست پر شائقین کرکٹ نے بابر اعظم پر تنقید کے نشتر چلا دیے
قطری سفیر کا کہنا تھا کہ پاکستان برادر اسلامی ملک ہے، تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں۔
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: انسداد منشیات بڑھانے پر قطر کے
پڑھیں:
اوول آفس کی سفارت کاری: بدلتا ہوا عالمی منظرنامہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251003-03-3
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے بین الاقوامی سیاست میں ایک اہم موڑ پر رہے ہیں۔ حالیہ امریکی دورہ اس تناظر میں نہایت اہمیت کا حامل ہے، جب وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اوول آفس میں تفصیلی ملاقات کی۔ اس ملاقات نے سفارتی دنیا میں ایک نئی ہلچل پیدا کر دی ہے کیونکہ دو دنوں میں یہ تیسری باضابطہ ملاقات تھی، جو اپنے اندر کئی پہلو لیے ہوئے ہے۔ ملاقات کا دورانیہ اسّی منٹ سے زائد رہا اور ماحول میں غیر معمولی گرم جوشی اور باہمی احترام نمایاں نظر آیا۔ صدر ٹرمپ نے پاکستانی وزیراعظم کو ’’شاندار شخصیت‘‘ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کو ’’بہترین انسان‘‘ قرار دے کر تعلقات کو ایک نیا رنگ دیا۔ اس طرح کی غیر معمولی تعریفیں عمومی طور پر سفارتی محفلوں میں کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو یہ سفر ہمیشہ اُتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی دونوں ملکوں کے مابین تعلقات قائم ہوئے اور سرد جنگ کے دور میں پاکستان نے امریکا کا بھرپور ساتھ دیا۔ 1950 کی دہائی میں سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدے پاکستان کو امریکی بلاک کا لازمی حصہ بنا گئے۔ تاہم، 1971 کی جنگ اور بنگلا دیش کے قیام کے بعد پہلی بار اس رشتے میں واضح دراڑیں آئیں۔ اس کے برعکس 1980 کی دہائی میں افغانستان میں سوویت افواج کے خلاف جنگ نے ایک بار پھر امریکا اور پاکستان کو قریب کر دیا اور یہ دور تعلقات کی نئی بلندیوں کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن 1990 کی دہائی میں پابندیوں نے پاکستان کو تنہا کر دیا۔ پھر 2001 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ نے دونوں ملکوں کو دوبارہ قریب کیا، مگر اعتماد کا فقدان ہمیشہ آڑے آتا رہا۔ 2011 میں ایبٹ آباد آپریشن نے خلیج کو مزید بڑھا دیا۔ آج کا دور اسی تاریخی تسلسل کی نئی قسط معلوم ہوتا ہے، جہاں باہمی مفادات ایک بار پھر دونوں کو قریب لانے پر مجبور کر رہے ہیں۔
حالیہ امریکی دورہ کئی محرکات کا حامل ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد سلامتی کے نئے خطرات نے امریکا کو مجبور کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعاون بڑھایا جائے۔ دوسری طرف پاکستان اور بھارت کے درمیان مئی 2025 کی چار روزہ جنگ نے خطے میں طاقت کا توازن بدل دیا ہے۔ اس جنگ کے دوران امریکی صدر ٹرمپ نے خود کو ثالثی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی اور آج کی ملاقات اسی تسلسل کی کڑی سمجھی جا رہی ہے۔ اقتصادی پہلو بھی اس ملاقات میں نمایاں رہے۔ پاکستان کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے اور وزیراعظم نے امریکی کمپنیوں کو توانائی، معدنیات اور زراعت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ اس کے بدلے میں امریکا پاکستان کو چین کے بڑھتے اثر رسوخ سے الگ رکھنے کی کوشش کرتا دکھائی دیتا ہے۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر کی موجودگی نے ملاقات کو مزید اہم بنا دیا۔ ان کی شمولیت اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان کا فوجی ادارہ اب بھی خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے اسے ’’ہائبرڈ نظام کی پارٹنرشپ‘‘ سے تعبیر کیا، جو پاکستان کے داخلی سیاسی ڈھانچے کی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ ماضی میں بھی امریکی حکام ہمیشہ پاکستانی فوجی قیادت سے قریبی تعلقات رکھتے آئے ہیں، لیکن اس بار فیلڈ مارشل کا براہِ راست اور نمایاں کردار مستقبل کی نئی سمت کی نشان دہی کرتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے امور پر بھی اس ملاقات کے دوران اہم گفتگو ہوئی۔ صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کو مغربی کنارے پر قبضے کی اجازت نہیں دیں گے اور غزہ میں جنگ بندی جلد ممکن ہے۔ انہوں نے قیدیوں کی رہائی کے معاہدے کی بھی امید ظاہر کی۔ یہ بیانات امریکا کی مشرق وسطیٰ پالیسی میں تبدیلی کے اشارے سمجھے جا رہے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ترکی کے صدر رجب طیب اردوان بھی انہی امن کوششوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ پاکستان نے فلسطینی عوام کے حق ِ خود ارادیت پر اپنی غیر متزلزل حمایت کا اعادہ کیا اور وزیراعظم شہباز شریف نے صدر ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ اس مسئلے کے حل میں فعال کردار ادا کریں۔
علاقائی جغرافیائی سیاست کے تناظر میں یہ ملاقات اور بھی زیادہ اہم ہو جاتی ہے۔ بھارت کے ساتھ امریکا کے گہرے تعلقات کسی سے پوشیدہ نہیں، لیکن پاکستان کے ساتھ اس نئی گرم جوشی کو اس بات کا ثبوت سمجھا جا رہا ہے کہ واشنگٹن جنوبی ایشیا میں توازن قائم رکھنا چاہتا ہے۔ مئی کی جنگ میں پاکستان کی فوجی کارکردگی نے اسے خطے میں ایک مؤثر قوت کے طور پر منوایا ہے اور امریکا اب اس حقیقت کو تسلیم کرتا دکھائی دیتا ہے۔ چین کے ساتھ پاکستان کی قربت اور سی پیک جیسے منصوبے امریکا کے لیے ہمیشہ سے تشویش کا باعث رہے ہیں۔ اس لیے امریکا کی کوشش ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری لا کر چین کے اثر کو کم کیا جائے۔
مستقبل کے امکانات کا تجزیہ کیا جائے تو امیدیں بھی ہیں اور چیلنجز بھی۔ اقتصادی تعاون اور سرمایہ کاری پاکستان کے لیے نئی راہیں کھول سکتی ہیں۔ دفاعی شعبے میں معلومات کے تبادلے سے خطے میں دہشت گردی کے خطرات کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن داخلی سیاسی عدم استحکام، بھارت کے ساتھ کشیدگی اور افغانستان کی غیر یقینی صورتحال ان تعلقات کو کمزور بھی کر سکتی ہے۔ مزید یہ کہ امریکا کی اندرونی سیاست، خاص طور پر آئندہ انتخابات، بھی ان تعلقات کے مستقبل پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔
کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ امریکی دورہ پاکستان کے لیے سفارتی طور پر نہایت اہم ثابت ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ کی غیر معمولی تعریفیں اور اوول آفس کی گرم جوش فضا اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ دونوں ممالک ایک بار پھر قریبی تعاون کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ تاہم، اس عمل کی کامیابی کا انحصار صرف امریکا اور پاکستان کی سیاسی قیادت پر نہیں بلکہ خطے کے بدلتے ہوئے حالات اور عالمی طاقتوں کے باہمی تعلقات پر بھی ہے۔ اگر پاکستان اپنی خود مختاری کو برقرار رکھتے ہوئے امریکا کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم کرنے میں کامیاب رہا تو یہ نئی سفارتی کاوشیں خطے میں امن اور استحکام کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ بصورت دیگر، یہ ملاقاتیں بھی ماضی کے واقعات کی طرح تاریخ کے اوراق میں محض ایک یادگار بن کر رہ جائیں گی۔