بالی ووڈ ہدایتکار فلموں میں مسلمانوں کے منفی کردار کشی پر برہم
اشاعت کی تاریخ: 23rd, February 2025 GMT
بھارتی فلم ساز اور مصنف عباس ٹائر والا نے بالی ووڈ کی فلموں میں بڑھتے ہوئے مسلمان وِلن کرداروں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جدید فلموں کے سیاسی پہلو کو دیکھ کر اب انہیں شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔
فلم ’جانے تو یا جانے نہ‘ کے ہدایت کار ، ’وار‘، 2.0، اور ’پٹھان‘ جیسی بڑی فلموں کے مکالمہ نگار، عباس ٹائر والا نے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ پہلے بھارتی فلم ساز اپنی انفرادیت کے لیے مشہور تھے۔ وہ ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ کام کرتے تھے جن کی سوچ ان کے جیسی ہی ہوتی تھی، اور شاذ و نادر ہی کسی فلم میں ولن یا اس کے سیاسی نظریے کے بارے میں شرمندگی محسوس ہوتی تھی مگر اب انڈسٹری کے حالات بدل چکے ہیں ۔
عباس نے کہا کہ یہ صرف اس وجہ سے نہیں کہ وہ ایک بھارتی مسلمان ہیں، بلکہ بطور مصنف وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ بار بار ایک مسلم ولن کو دکھانا اب گھسا پٹا لگتا ہے۔
ان دنوں عباس ٹائر والا پاون کلیان کی تیلگو ڈرامہ فلم ’ہری ہرا ویر مالو‘ کے ہندی مکالموں پر کام کر رہے ہیں، جس میں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کو مخالف کردار کے طور پر دکھایا گیا ہے، جو حال ہی میں وکی کوشل کی فلم ’چھاوا‘ میں بھی بطور ولن دکھائے گئے تھے۔
اس پر بات کرتے ہوئے ہدایتکار کا کہنا تھا کہ جب اورنگزیب کو ولن کے طور پر دکھایا جاتا ہے تو اس کے کردار کو خاص اہمیت دی جاتی۔ یقیناً کچھ تاریخ کی کچھ تلخ حقیقت ایسی ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر فلم میں ان کو بڑھا چڑھا کر دکھایا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ حال ہی میں ریلیز اور باکس آفس پر کامیاب ہونے والی فلم چھاوا میں میں وکی کوشل نے سمبھاجی مہاراج کا کردار نبھایا ہے، جبکہ اکشے کھنہ نے اورنگزیب کا کردار ادا کیا ہے۔
فلم ’چھاوا‘ ایک تاریخی ڈرامہ ہے جو مراٹھا جنگجو چھترپتی سمبھاجی مہاراج کی زندگی اور ان کی مغل بادشاہ اورنگزیب کے ساتھ جنگوں پر مبنی ہے۔ فلم میں اورنگزیب کو منفی کردار میں دکھایا گیا ہے۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
پہلگام حملے کے بعد بھارتی مسلمانوں کیخلاف نفرت کا بازار گرم
مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ یہ صرف مساجد میں نماز پر پابندیوں کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے وجود اور آزادی سے عبادت کرنے کے حق کو نشانہ بنانے کے بارے میں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پہلگام میں دہشتگردانہ حملے کے بعد مسلسل مسلمانوں کے خلاف نفرت جاری ہے۔ اب یہ نفرت دیہی علاقوں تک پہنچ چکی ہے۔ مسلمانوں کو مختلف طریقے سے پریشان کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مسجد سے نماز پڑھ کر نکلنے والوں کے شناختی کارڈ چیک کئے جا رہے ہیں۔ دریں اثناء پونے کے کچھ گاؤں میں ہندو شدت پسندوں نے باقاعدہ پوسٹر چسپاں کر کے مسلمانوں کو گاؤں میں داخل ہونے اور نماز پڑھنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پونے ضلع کی تحصیل ملشی میں کئی گرام پنچایتوں نے قراردادیں منظور کی ہیں کہ مسلمانوں کو مساجد میں نماز ادا کرنے سے روک دیا جائے، خاص طور پر جمعہ کی نماز کے لئے۔ پیرنگوت، گھوٹاواڑے، وڈکی اور لاوالے سمیت دیہاتوں میں بینر اور عوامی نوٹس لگائے گئے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ صرف مقامی باشندوں کو گاؤں میں رہنے کی اجازت ہوگی۔
اگرچہ دہشت گردانہ حملہ اس دیہاتوں سے 2 ہزار کلومیٹر سے زیادہ دور پہلگام کشمیر میں پیش آیا ہے لیکن اس حملے کے بعد بھارتی مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جو لہر شروع کی گئی ہے وہ دور دراز علاقوں تک پہنچ گئی ہے۔ یکم مئی کو پیرنگوت گرام پنچایت نے ایک رسمی قرارداد منظور کی جس میں اس پابندی کو پیرنگوت جامع مسجد میں لاگو کیا گیا، جو کہ تعلقہ کی سب سے بڑی مسجد ہے، اس پر عمل کرنے کے لئے مسجد کے ذمہ داروں کو مجبور کیا گیا ہے۔ لاوالے کے ایک رہائشی شائستہ خان انعامدار نے کہا کہ ہم خوفزدہ ہیں۔ انہوں نے کہا "اس سے پہلے بھی ہم نے مسجد میں نماز پڑھنا بند کر دی تھی کیونکہ یہ ایک مندر کے بالکل ساتھ ہے اور تناؤ بڑھ رہا تھا، اب اس کے بعد ہم گاؤں کے باہر ایک چھوٹے سے شیڈ میں نماز پڑھ رہے ہیں"۔
پولیس کے رویہ کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ جبکہ پولیس ایسی قراردادوں سے واقف ہے، لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کوئی باقاعدہ شکایت درج نہیں کی گئی ہے اور نہ ان اقدامات سے قانون کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ پیرنگوت پولیس اسٹیشن کے ایک سینیئر اہلکار نے تسلیم کیا کہ جمعہ کی نماز کے دوران باہر کے لوگوں کے بارے میں خدشات کا حوالہ دیہاتیوں نے دیا، جس سے پنچایتوں کو کارروائی کرنے پر باور کیا گیا۔ تاہم مقامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ زیادہ گہرا ہے۔ یہ صرف مساجد میں نماز پر پابندیوں کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے وجود اور آزادی سے عبادت کرنے کے حق کو نشانہ بنانے کے بارے میں ہے۔