پاک بھارت کشیدگی، جنگ کا خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد بھارت کی طرف سے حملے کا خطرہ موجود ہے ، دونوں افواج آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہیں، وجود کو براہ راست خطرے پر ایٹمی ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پاک بھارت کشیدگی پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ہراس اقدام کی حمایت کریں گے جس سے پاک بھارت تناؤ میں کمی اور بات چیت دوبارہ شروع ہو۔ تازہ اطلاعات کے مطابق بھارتی کواڈ کاپٹر کو ایل او سی پر فضائی حدود کی خلاف ورزی ناکام بناتے ہوئے مار گرایا گیا ہے۔
کواڈ کاپٹر کے ذریعے بھارت نے جاسوسی کی کوشش کی تھی۔اسی دوران بھارت کے فوجیوں میں تناؤ اس قدر بڑھ گیا کہ انھوں نے ایک دوسرے پر ہی فائرنگ کردی ، جس کے نتیجے میں پانچ بھارٹی فوجی مارے گئے ہیں۔ بھارت کی حکومت نے پاکستان پر چڑھائی کرنے سے انکار کرنے پر اپنی ناردرکمانڈ کے سربراہ کو فارغ کردیا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان اس وقت تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں، اس وقت جو بھی کشیدگی چل رہی ہے، وہ بھارت کی جانب سے یک طرفہ ہے۔ انڈیا نے عالمی برادری یا اپنے لوگوں کو کوئی بھی ثبوت دکھائے بغیر پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر عائد کردیا، لیکن اس کے کوئی شواہد موجود نہیں۔ دراصل نریندر مودی پاکستان کے خلاف اقدامات کر کے اپنے ملک کے اندر ایک ماحول بنا رہا ہے۔
بھارتی عوام میں پاکستان کے حوالے سے خوف پیدا کیا جا رہا ہے۔ پاک بھارت کشیدگی میں دونوں ممالک کو معاشی طور پر نقصانات اٹھانا پڑیں گے۔ انڈیا پاکستان سے واہگہ بارڈرکے ذریعے تجارت کرتا ہے، یہ تجارت پاکستان انڈیا اور پاکستان سے افغانستان کے درمیان اور پھر وہاں سے یہ اشیا ایران بھی جاتی ہیں۔ جب تک صورتحال نارمل نہیں ہوتی، دونوں اطراف سے معاشی نقصان بڑھنے کے خدشات ہیں، اگر پاکستان اور بھارت کی تجارت پر نظر ڈالیں تو اس کی بندش کا نقصان بھارت کو زیادہ ہو سکتا ہے۔ رسمی تجارت 2019ء میں پلوامہ واقعے کے بعد سے بند ہے۔
صرف چند ادویات کا خام مال بھارت سے درآمد کیا جاتا ہے۔ غیر رسمی تجارت متحدہ عرب امارات کے ذریعے کی جاتی تھی جو سالانہ تقریباً دو ارب ڈالرز سے زیادہ رہی۔ بھارت تقریباً پونے دو ارب ڈالرکی برآمدات پاکستان کو کرتا ہے جن میں ادویات اور ان کا خام مال سرفہرست ہے۔ پاکستان تقریباً چالیس کروڑ ڈالر کا نمک اور سیمنٹ وغیرہ بھارت بھجواتا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ غیر رسمی تجارت شاید مکمل طور پر بند نہ ہو سکے۔ یہ مال میڈ اِن انڈیا کی مہر کے بغیر آتا ہے۔
اس لیے اسے روکنا مشکل ہو سکتا ہے لیکن واہگہ بارڈر بند ہونے سے افغانستان کو نقصان ہوسکتا ہے کیونکہ افغانستان کی بھارت سے تجارت براستہ واہگہ بارڈر ہوتی ہے۔ افغانستان کا تقریباً تمام ٹرانزٹ کارگو طورخم، غلام خان، خرلاچی اور چمن سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور پھر واہگہ کے راستے بھارت جاتا ہے۔ ورلڈ بینک کے 2024کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان کے تجارتی شراکت داروں میں بھارت سرفہرست رہا ہے اور دو طرفہ درآمدات و برآمدات کے مجموعی حجم کا 47 فیصد بھارت کے ساتھ اور 34 فیصد پاکستان کے ساتھ ہے۔
یعنی افغانستان کی تقریباً آدھی تجارت بھارت کے ساتھ ہے۔ ایسی صورتحال میں پاک بھارت کشیدگی کا زیادہ نقصان افغانستان اور بھارت کو ہو سکتا ہے۔ واہگہ بارڈر کے ذریعے جو بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارت ہو رہی تھی، بالکل معطل ہوچکی ہے اور اس سے افغانستان کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔ افغانستان کے ڈرائی فروٹس خاص طور پر جو انڈیا جایا کرتے تھے، اب نہیں جاسکیں گے، اس سے افغانستان کو بھی نقصان ہوگا اور جو چیزیں بھارت سے افغانستان جایا کرتی تھیں ان کے نہ جانے سے بھارت کو نقصان ہوگا، یہ کوئی بڑا نقصان تو نہیں لیکن دھچکا تو ہے۔ پاکستان میں بڑا فیصلہ کرتے ہوئے بھارت کی فضائی حدود بند کردی ہے، اور یہ فیصلہ انڈین ایوی ایشن کو لے کر بیٹھ جائے گا۔
اگر مجموعی طور پر خطے میں سرمایہ کاری کی بات کی جائے تو یہ خطہ سرمایہ کاری کے اعتبار سے بہت پیچھے ہے۔ اس وقت پروازوں کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے بھارتی اور غیر ملکی مسافر انڈین ایئرلائنز کو چھوڑ کر دیگر ایئرلائنز کی ٹکٹیں خرید رہے ہیں۔ شہری ہوا بازی کے ذرائع کے مطابق امریکا، برطانیہ اور یورپی ملکوں سمیت طویل فاصلے کے روٹس پر بھارتی ایئرلائنز کی پروازیں 2 سے 10 گھنٹے تاخیر کا بھی شکار رہیں۔ پروازوں کے لیے اضافی ایندھن، انجینیئرنگ کے اضافی اخراجات، ایئرپورٹ پارکنگ چارجز اور ہوٹل اخراجات کی مد میں بھی بھارتی ایئرلائنز کو اضافی اخراجات کا سامنا ہے۔
درحقیقت بھارت پاکستان کو مسلسل کمزور کرنے میں لگا ہوا ہے اور آج بھی ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے خواب دیکھ رہا ہے۔ ہندو مہاسبھا، راشٹر یہ سیوک سنگھ اور بی جے پی سمیت کئی انتہا پسند تنظیموں نے نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں کے ناک میں دم کر رکھا ہے، بلکہ ہر وقت پاکستان کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف عمل ہیں۔ ہندوستان کشمیر، حیدرآباد، جونا گڑھ، دکن اور کئی دیگر ریاستوں پر ناجائز قبضے کے باوجود پاکستان کی حقیقت تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔دوسرا بڑا درپیش مسئلہ پاکستان کے آبی وسائل پر بھارت کے قبضہ کرنے کی خواہش ہے تاکہ پاکستان کی زرخیز زمین بنجر اور غیرآباد ہو جائے۔
انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت جو دریا پاکستان کے حصے میں آئے اور جن کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق تسلیم کیا گیا، ان کا منبع کشمیر میں ہے جب کہ انڈیا کے حصے میں آئے مشرقی دریا راوی، ستلج اور بیاس آئے ہیں۔ بھارت کے لیے دریائے سندھ کے راستے میں ڈیم بنانا آسان نہیں۔ اس پہاڑی سلسلے میں بہت زیادہ زلزلے آتے ہیں، ایک یا دو زلزلوں سے ڈیم ٹوٹنے سے بھارت میں سیلاب آنے کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ ان دریاؤں پر بھارت کے پاس ایسا انفرا اسٹرکچر نہیں کہ پانی کو مکمل روک سکے، البتہ بھارت دریائے ستلج‘ بیاس اور راوی میں اضافی پانی چھوڑ سکتا ہے جس سے پاکستان میں سیلابی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے اور فصلیں متاثر ہو سکتی ہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، 70 فیصد برآمدات زراعت سے جڑی ہیں، اگر حالات کئی ماہ تک کشیدہ رہے تو پاکستانی زرعی برآمدات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔بھارت نے پہلگام حملے کو بہانہ بنا کر نہ صرف سندھ طاس معاہدے (انڈس واٹرز ٹریٹی) کو معطل کردیا ہے بلکہ پاکستان کا پانی روکنے کے لیے تین مرحلوں پر مبنی خطرناک منصوبہ بھی شروع کر دیا ہے۔ پہلگام حملے کو جواز بنا کر بھارتی حکومت نے وہ سازش شروع کی ہے جس کا مقصد پاکستان کی زرعی، معاشی اور ماحولیاتی بنیادوں کو کمزور کرنا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ہی مشترکہ طور پر سیلاب اور خشک سالی کے چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔
ایسے میں اگر دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم پر بھی تنازع کھڑا ہوگا تو یہ ایک مہلک بحران کی صورت اختیار کرلے گا۔ خطہ گزرتے وقت کے ساتھ تباہ کُن سیلابوں کا مرکز بن چکا ہے اور اب سیلابوں کا وہ موسم بھی دور نہیں ہے۔
انڈیا نے سندھ طاس معاہدے کو معطل کر کے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی مذموم حرکت کی ہے حالانکہ گزشتہ چار سال سے انڈیا پاکستان کے ساتھ واٹر کمشنر ز کا سالانہ اجلاس منعقد نہیں کر رہا ہے اور پاکستان کو دریاؤں کے پانی کا محض 30 سے 40 فیصد ڈیٹا فراہم کر رہا ہے۔ مودی سرکار پہلگام میں دہشت گردی کے واقعے کی آڑ میں سندھ طاس معاہدے کو بطور ’’ہتھیار‘‘ پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہے جو آبی جارحیت کے زمرے میں آتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
بھارت نے کشمیر میں سیاحوں کے بے گناہ قتل میں اپنی ناقص سیکیورٹی اور جموں کشمیر کے متنازعہ علاقے میں آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کو وجہ ماننے کی بجائے اس نے پاکستان پر الزام لگا دیا ہے، جب کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را ہمارے دو صوبوں بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں مزید کوئی دہشت گردی کی کارروائی بھی کرسکتی ہے تاکہ ملک مزید خلفشار کا شکار ہو۔
حرف آخر تار یخ کا سبق یہی ہے کہ کسی بھی ملک کی فوج اکیلے جنگ نہیں لڑتی بلکہ قوم کے ساتھ ملکر ہی لڑتی ہے، جب قوم اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ ہو تو بڑے سے بڑا دشمن بھی کمزور دکھائی دیتا ہے۔ اسی دوران دونوں فریق اگر مذاکرات کی میز پر واپس آتے ہیں تو امن کے قیام کے لیے ایک اور موقع مل سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاک بھارت کشیدگی سے افغانستان پاکستان کے پاکستان پر اور بھارت کے درمیان کے ذریعے برا مدات بھارت کے بھارت کی نقصان ہو ا ہے اور کے ساتھ سکتا ہے کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
ایکسپورٹ میں کمی، ٹیکسٹائل سیکٹر برآمدی بحران سے دوچار، مزید یونٹس کی بندش کا خطرہ
فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 04 اکتوبر2025ء) پاکستان ٹیکسٹائل کونسل (PTC) اور دیگر رہنماؤں نے برآمدات میں تیزی سے کمی، فیکٹریوں کی بندش اور بڑھتے ہوئے اخراجات پر خطرے کی گھنٹی بجا دی، جس سے ملک کے معاشی استحکام کو خطرہ ہے اور ستمبر میں برآمدات میں سال بہ سال تقریباً 12 فیصد کی کمی ہوئی، مالی سال 26 کی پہلی سہ ماہی کی آمدنی 3.83 فیصد کم ہو کر 7.61 بلین ڈالر رہ گئی، جب کہ بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ اور بڑھتی ہوئی درآمدات بیرونی کھاتوں پر مزید دباؤ ڈال رہی ہیں۔ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق پی ٹی سی کے چیئرمین فواد انور، کے سی سی آئی کے سابق صدر جاوید بلوانی اور صنعت کار زبیر موتی والا سمیت صنعت کے سٹیک ہولڈرز نے خبردار کیا ہے کہ توانائی کی قیمتوں کے تعین، ٹیکس لگانے اور سہولت کاری کی سکیموں میں فوری اصلاحات کے بغیر پاکستان کو اپنے علاقائی حریفوں بنگلہ دیش، بھارت اور ویتنام سے مسابقتی برتری کھونے کا خطرہ ہے، ایکسپورٹ فسیلی ٹیشن سکیم (EFS) کا اچانک خاتمہ، جس کے ساتھ ساتھ توانائی کے ریکارڈ بلند نرخوں اور بگڑتے ہوئے انفراسٹرکچر کو پہلے سے ہی مشکلات کا شکار ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے ایک بڑا دھچکہ قرار دیا گیا ہے۔(جاری ہے)
اس حوالے سے ایک بیان میں پاکستان ٹیکسٹائل کونسل (PTC) نے مالی سال 26ء کی پہلی سہ ماہی میں تجارتی سامان کی برآمدات میں 3.83 فیصد کی کمی پر گہری تشویش کا اظہار کیا، جس نے ملک کے معاشی منظرنامے کے لیے سرخ جھنڈا بلند کیا، پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (پی بی ایس) کے مطابق جولائی اور ستمبر کے دوران مجموعی برآمدات 7.61 بلین ڈالر رہی جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 7.91 بلین ڈالر تھی، صرف ستمبر میں برآمدات 11.71 فیصد سال بہ سال گر کر 2.51 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ بتایا گیا ہے کہ برآمدات میں یہ مسلسل کمی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان کو بھی بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کا سامنا ہے، جو پہلی سہ ماہی میں بڑھ کر 9.37 بلین ڈالر تک پہنچ گیا، جو کہ گزشتہ سال 7.05 بلین ڈالر تھا، درآمدات میں 13.49 فیصد اضافہ ہوا، جس سے بیرونی کھاتوں پر دباؤ بڑھ گیا، ٹیکسٹائل سیکٹر جو پاکستان کا سب سے بڑا برآمدی انجن ہے عالمی طلب میں کمی اور بڑھتی ہوئی گھریلو لاگت دونوں کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ اس پس منظر میں، صنعتی بندش اور کثیر القومی اخراج کا سلسلہ پاکستان کے مسابقتی بحران کی گہرائی کو اجاگر کرتا ہے، گل احمد ٹیکسٹائل ملز لمیٹڈ نے حال ہی میں اپنے برآمدی ملبوسات کے حصے کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے، جس میں کثیر ان پٹ لاگت، ٹیکس میں تبدیلی اور سخت علاقائی مسابقت سے مسلسل نقصانات کا حوالہ دیا گیا ہے، ملبوسات کے شعبے میں ہزاروں افراد کام کرتے ہیں اور اس کی بندش اس دباؤ کی سخت وارننگ ہے جو مارکیٹ کے لیڈروں کو بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور کرتا ہے۔ کے سی سی آئی کے سابق صدر نے کہا کہ ’پاکستان بھر میں مزید ٹیکسٹائل یونٹس بند ہونے کے دہانے پر ہیں کیوں کہ صنعتیں خسارے میں چل رہی ہیں‘، انہوں نے پالیسی سازی میں اہم سٹیک ہولڈرز کو نظرانداز کرنے اور معمولی سٹیک ہولڈرز یا مکمل طور پر غیر متعلقہ لوگوں سے بات کرنے پر حکومت پر تنقید کی اور کہا کہ ’برآمدات میں کے سی سی آئی کے 54 فیصد اور قومی ٹیکس کی بنیاد میں 66 فیصد کے شراکت کی باوجود ہمیں کسی بھی پالیسی سازی کے عمل میں نہیں سنا جاتا‘۔ معروف صنعت کار زبیر موتی والا نے کہا کہ ’برآمدات کے گرنے کا براہ راست تعلق ایکسپورٹ فسیلی ٹیشن سکیم کی واپسی سے ہے، حقیقی حل صرف ای ایف ایس کی بحالی ہے اگر کوئی قانونی مسئلہ تھا تو اسے درست کیا جانا چاہیئے ختم نہیں، گل احمد کے برآمدی ملبوسات کے یونٹ کی حالیہ بندش برآمدات میں سہولت کاری کے اقدامات کی عدم موجودگی کی وجہ سے بڑھتے ہوئے اخراجات کا براہ راست نتیجہ ہے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ بحران صرف ٹیکسٹائل تک محدود نہیں ہے، حالیہ مہینوں میں پراکٹر اینڈ گیمبل، مائیکروسافٹ، شیل، ٹوٹل انرجی، فائزر، سنوفی اور کریم جیسے عالمی ادارے یا تو پاکستان میں کام چھوڑ چکے ہیں یا نمایاں طور پر کم کر چکے ہیں، اس کے پیش نظر پی ٹی سی نے بار بار حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ مسابقت کی بحالی کے لیے فوری اصلاحی اقدامات کرے۔ پی ٹی سی چیئرمین نے خبردار کیا کہ ’اگر فوری اصلاحی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو پاکستان کو برآمدات پر مبنی یونٹس کی مزید بندش اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی کا خطرہ ہے، اس کا مطلب ناصرف ملازمتوں میں کمی اور صنعتی بندش ہو گی بلکہ پاکستان کی غیر ملکی زرمبادلہ کی کمائی میں بھی ایک ایسے وقت میں زبردست کمی ہوگی جب ملک اس طرح کے جھٹکے برداشت نہیں کر سکتا۔