افغانستان: پاکستان اور ایران سے لوٹنے والے مہاجرین ایک انسانی بحران
اشاعت کی تاریخ: 29th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 29 اپریل 2025ء) پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے خبردار کیا ہے کہ ہمسایہ ممالک سے ہزاروں افغان مہاجرین کی واپسی اور بیدخلی کے بعد افغانستان کو شدید انسانی بحران کا سامنا ہے۔
رواں ماہ پاکستان اور ایران سے 251,000 افغان پناہ گزینوں کی واپسی ہوئی جن میں 96 ہزار کو بیدخل کیا گیا تھا۔
ادارے کو برے حالات میں افغانستان واپس آنے والے ان لوگوں کی مددکے لیے ہنگامی بنیاد پر 71 ملین ڈالر کے امدادی وسائل درکار ہیں۔ Tweet URL'یو این ایچ سی آر' کے ترجمان بابر بلوچ نے کہا ہے کہ ادارہ پاکستان اور ایران پر زور دے رہا ہے کہ افغانوں کی واپسی رضاکارانہ، محفوظ اور باوقار ہونی چاہیے۔
(جاری ہے)
ان لوگوں کو واپسی کے لیے مجبور کرنے سے خطہ عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔تحفظ کے سنگین مسائلترجمان کے مطابق، اگرچہ ادارے کو دہائیوں تک افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے ممالک کی معاشی مشکلات سمیت انہیں درپیش بہت سے مسائل کا احساس ہے۔ تاہم جبراً افغانستان بھیجے جانے والے لوگ وہاں تحفظ کے سنگین مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔
واپس جانے والی خواتین اور لڑکیوں کے لیے خطرات کہیں زیادہ ہیں کہ انہیں افغانستان میں روزگار، تعلیم اور نقل و حرکت پر عائد کڑی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نسلی و مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کو بھی واپسی پر خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
ملک میں شدید انسانی ضروریات، بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور قدرتی آفات نے ان خدشات کو اور بھی گمبھیر بنا دیا ہے۔
34 لاکھ افغانوں کی واپسی2023 سے اب تک ایران اور پاکستان سے 34 لاکھ افغان شہری واپس جا چکے ہیں یا انہیں بیدخل کیا گیا ہے۔ ان میں 15 لاکھ لوگ گزشتہ سال ہی واپس گئے تھے۔ اس قدر بڑے پیمانے پر لوگوں کی واپسی سے افغانستان کے کئی صوبوں میں وسائل پر شدید بوجھ آیا ہے۔ ایران اور پاکستان سے مزید افغانوں کی واپسی اور بیدخلی بھی جاری ہے جبکہ ان لوگوں کے یورپ کی جانب رخ کرنے کا خدشہ بھی ہے۔
گزشتہ سال ایشیائی الکاہل خطے سے یورپ کی جانب بے قاعدہ مہاجرت اختیار کرنے والوں میں سب سے بڑی تعداد (41 فیصد) افغانوں کی تھی۔
'یو این ایچ سی آر' کے امدادی اقداماتترجمان کے مطابق، ادارہ افغانستان واپس آنے والے پناہ گزینوں کو اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) اور عالمی ادارہ مہاجرت (آئی او ایم) جیسے شراکت داروں کے تعاون سے مدد مہیا کر رہا ہے۔
اس مقصد کے لیے رواں سال نومبر تک درکار 71 ملین ڈالر کے وسائل سے ان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے، انہیں روزگار کی فراہمی اور اپنے خاندانوں سے یکجائی میں مدد دینے اور خدمات کی فراہمی میں مدد ملے گی۔ اس کام میں خواتین اور لڑکیوں کی ضروریات بطور خاص مدنظر رکھی جا رہی ہیں۔بابر بلوچ نے کہا ہے کہ 'یو این ایچ سی آر' پاکستان اور ایران میں افغان پناہ گزینوں کو نفسیاتی اور قانونی مدد کی فراہمی اور ان کے تحفظ کی صورتحال کا جائزہ لینے کے اقدامات کر رہا ہے۔
اس ضمن میں ہاٹ لائن اور مقامی زبانوں میں ایس ایم ایس کے ذریعے پناہ گزینوں کے ساتھ رابطوں کو بہتر بنایا جائے گا تاکہ انہیں خدمات کے بارے میں بروقت اطلاعات مہیا کی جا سکیں۔ علاوہ ازیں، خصوصی ضروریات کے حامل پناہ گزینوں کو مخصوص خدمات کی فراہمی کے لیے بھی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان اور ایران یو این ایچ سی آر پناہ گزینوں افغانوں کی کی فراہمی کی واپسی کے لیے
پڑھیں:
پاکستان نے تمام تر اقتصادی اور سلامتی کے چیلنجز کے باوجود لاکھوں افغانوں کو پناہ دی، عاصم افتخار
پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا ہے کہ پاکستان نے تمام تر اقتصادی اور سلامتی کے چیلنجز کے باوجود لاکھوں افغانوں کو پناہ، تحفظ اور مواقع فراہم کیے ہیں، اور تیسرے ممالک میں افغانوں کی آبادکاری میں بھی سہولت فراہم کی ہے۔
پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے سلامتی کونسل میں پناہ گزینوں پر منعقدہ اجلاس میں قومی بیان دیتے ہوئے کہا کہ تنازعات، ظلم و ستم، غیر ملکی قبضے اور گہری ہوتی ہوئی عدم مساوات جیسے عوامل پناہ گزینوں کے بحران کو مزید شدید بنا رہے ہیں، اور یہ انسانوں کو امید کے سہارے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
پاکستانی مندوب نے نشاندہی کی کہ جبری نقل مکانی کے بڑھنے کے باوجود عالمی ردعمل غیر مساوی، غیر منصفانہ اور انتہائی ناکافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک، جو خود بھی سماجی و معاشی چیلنجز سے نبردآزما ہیں، اس بوجھ کا سب سے زیادہ سامنا کر رہے ہیں۔"دوسری جانب، ترقی یافتہ ممالک جو کہیں زیادہ وسائل اور اخلاقی ذمہ داری رکھتے ہیں، اندرونِ ملک مائل (Inward-looking) ہو گئے ہیں۔ فزیکل اور سیاسی رکاوٹیں کھڑی کر کے وہ ان افراد کے لیے دروازے بند کر رہے ہیں جو سب سے زیادہ ضرورت مند ہیں۔
افغانستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ وہاں دہائیوں سے جاری تنازعات، اقتصادی تباہ حالی اور عدم تحفظ نے دنیا کے طویل ترین پناہ گزین بحرانوں میں سے ایک کو جنم دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ چالیس برسوں سے مہمان نوازی اور انسان دوستی کی درخشاں روایت برقرار رکھی ہے، اور دنیا کے سب سے بڑے اور طویل ترین افغان پناہ گزین آبادیوں کی میزبانی کی ہے۔
پاکستان نے تمام تر اقتصادی اور سلامتی کے چیلنجز کے باوجود لاکھوں افغانوں کو پناہ، تحفظ اور مواقع فراہم کیے ہیں، اور تیسرے ممالک میں افغانوں کی آبادکاری میں بھی سہولت فراہم کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مشرق وسطی بھی غیر حل شدہ تنازعات اور غیر قانونی قبضے کے نتیجے میں بدترین جبری نقل مکانی کے بحرانوں سے متاثر ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کا حق، جس کی توثیق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد 194 میں کی گئی تھی، اب تک پورا نہیں ہو سکا۔
سفیر عاصم نے مزید کہا کہ شام، یمن، سوڈان اور دیگر تنازعہ زدہ علاقوں سے بے دخل ہونے والے لاکھوں افراد اب بھی رضاکارانہ، محفوظ اور باوقار واپسی کے حالات کے منتظر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پناہ گزینوں سے متعلق عالمی معاہدے (Global Compact on Refugees) میں درج مساوی بوجھ اور ذمہ داری کی شراکت کا اصول تاحال پورا نہیں کیا گیا۔
سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ رضاکارانہ واپسی اور پائیدار بحالی کو ترجیح دی جائے واپسی کے پروگراموں کو مکمل طور پر فنڈ کیا جائے اور ممالکِ اصل میں ترقیاتی امداد اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ مہاجرین کی محفوظ، باوقار اور پائیدار واپسی ممکن ہو۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پختہ یقین رکھتا ہے کہ جبری نقل مکانی کے بنیادی اسباب جیسے کہ غیر حل شدہ تنازعات، غیر ملکی قبضے اور حقوق کی منظم خلاف ورزیاں کا حل عالمی برادری اور سلامتی کونسل کی اجتماعی سیاسی قوت اور مثر عملی اقدامات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ نہ صرف ایک سیاسی ذمہ داری ہے بلکہ ایک اخلاقی فریضہ بھی ہے، جو انسانی تاریخ میں گہرے طور پر پیوست ہے۔
آخر میں، انہوں نے اسلامی روایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حضرت محمد ۖ کی ہجرت ظلم و ستم کے خلاف سلامتی، عزت و وقار اور انصاف کی تلاش کا لازوال نشان ہے۔"اسی عظیم ہجرت سے اسلامی کیلنڈر کا آغاز ہوتا ہے جو اس امر کی یاد دہانی ہے کہ نقل مکانی، اگرچہ تکلیف دہ ہوتی ہے، لیکن انسانیت، ہمدردی، یکجہتی اور نئے امکانات کی بنیاد بھی فراہم کر سکتی ہے۔"