وفاقی حکومت کا بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کا عندیہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, April 2025 GMT
وفاقی حکومت کا بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کا عندیہ WhatsAppFacebookTwitter 0 30 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کا عندیہ دیا ہے جبکہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں نے ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر عملدرآمد جاری رکھنے پر زور دیا ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس سید نوید قمر کی زیر صدارت ہوا، جس میں چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیاں نے کمیٹی کو بتایا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے آئندہ مالی سال کا بجٹ اہداف کے لحاظ سے مشکل ہوگا۔انہوں نے کہا کہ کسی شعبے کیلئے ٹیکس میں کمی کرنا آسان نہیں ہوگا تاہم تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کی تجاویز زیر غور ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ویڈیو لنک کے ذریعے بریفنگ میں بتایا کہ وزارت خزانہ نئے بجٹ 2025-26 سمیت طویل مدتی ٹیکس پالیسی کی تیاری پر کام جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ ایف بی آر صرف ٹیکس وصولیوں پر فوکس کرے گا۔ انہوں نے بتایا کہ حالیہ دورہ امریکہ میں 70 سے زیادہ میٹنگز کیں۔
عالمی مالیاتی اداروں، دوطرفہ شراکت داروں اور ریٹنگ ایجنسیز نے پاکستان کی معاشی کارکردگی میں بہتری کا اعتراف کیا ہے۔ ٹیکس، توانائی، سرکاری اداروں کی نجکاری سمیت مختلف شعبوں میں ڈھانچہ جاتی اصلاحات جاری رکھنے پر بھی زور دیا ہے۔اجلاس میں رکن آغا رفیق اللہ نے وزارت اورسیز پاکستانیز سمیت مختلف سرکاری ادارں میں ملازمین کو کم از کم ماہانہ 37 ہزار روپے اجرت نہ دینے کا انکشاف کیا کمیٹی نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے وزارت خزانہ سے 30 روز میں تفصیلی رپورٹ مانگ لی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرروڈن انکلیو کے ڈائریکٹر سیلز اینڈ مارکیٹنگ محمد راشد نے محمد اشتیاق کیانی برانڈ ایمبیسڈر روڈن انکلیو کو لاہور کے ایس ایل میں بھیج دیا روڈن انکلیو کے ڈائریکٹر سیلز اینڈ مارکیٹنگ محمد راشد نے محمد اشتیاق کیانی برانڈ ایمبیسڈر روڈن انکلیو کو لاہور کے ایس ایل میں بھیج... بلوچ عوام محب وطن اورملک کے خیر خواہ ہیں، سردار زادہ میر سعید جان لانگو وطن کے دفاع کی خاطر اپوزیشن اور حکومت ایک پیج پر ہیں، مولانا فضل الرحمان بھارت کی دھمکی سنجیدہ لے رہے ہیں، مسلح افواج ہر وقت تیار رہتی ہیں، عطا تارڑ وزیر اعظم کا امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے ٹیلی فونک رابطہ، پہلگام واقعے پر بھارتی الزامات مسترد، غیر جانبدرانہ تحقیقات کا مطالبہ حملہ کہاں ہو گا یہ بھارت کا انتخاب، آگے کہاں جانا ہے یہ ہم بتائیں گے،ڈی جی آئی ایس پی آر
Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیمذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے دینے کا
پڑھیں:
افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلامی دعوتِ انقلاب کی خصوصیت
اس میں شک نہیں کہ انبیاء علیہم السلام سب کے سب انقلابی لیڈر تھے۔ اور سیدنا محمدؐ سب سے بڑے انقلابی لیڈر ہیں۔ لیکن جو چیز دنیا کے عام انقلابیوں اور ان خدا پرست انقلابی لیڈروں کے درمیان واضح خطِ امتیاز کھینچتی ہے‘ وہ یہ ہے کہ دوسرے انقلابی لوگ خواہ کتنے ہی نیک نیت کیوں نہ ہوں‘ عدل اور توسط کے صحیح مقام کو نہیں پاسکتے۔ وہ یا تو خود مظلوم طبقوں میں سے اٹھتے ہیں یا ان کی حمایت کا جذبہ لے کر اٹھتے ہیں اور پھر سارے معاملات کو انہی طبقوں کے نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی نظر غیر جانبدارانہ اور خالص انسانیت کی نظر نہیں ہوتی‘ بلکہ ایک طبقے کی طرف حمایت کا جذبہ لیے ہوئے ہوتی ہے۔ وہ ظلم کا ایسا علاج سوچتے ہیں جو نتیجتاً ایک جوابی ظلم ہوتا ہے۔ ان کے لیے انتقام‘ حسد اور عداوت کے جذبات سے پاک ہوکر‘ ایک ایسا معتدل اور متوازن اجتماعی نظام تجویز کرنا‘ ممکن نہیں ہوتا جس میں مجموعی طور پر تمام انسانوں کی فلاح ہو۔ بخلاف اس کے انبیا علیہم السلام خواہ کتنے ہی ستائے گئے ہوں اور کتنا ہی ان پر اور ان کے ساتھیوں پر ظلم کیا گیا ہو‘ ان کی انقلابی تحریک میں کبھی ان کے شخصی جذبات کا اثر نہیں پایا گیا۔ وہ براہِ راست خدا کی ہدایت کے تحت کام کرتے تھے۔ اور خدا چونکہ انسانی جذبات سے منزّہ ہے‘ کسی انسانی طبقے سے اس کا مخصوص رشتہ نہیں‘ نہ کسی دوسرے انسانی طبقے سے اس کو کوئی شکایت یا عداوت ہے۔ اس لیے خدا کی ہدایت کے تحت انبیا علیہم السلام تمام معاملات کو بے لاگ انصاف کے ساتھ اس نظر سے دیکھتے تھے کہ تمام انسانوں کی مجموعی فلاح و بہبود کس چیز میں ہے۔ کس طرح ایک ایسا نظام بنایا جائے جس میں ہر شخص اپنی جائز حدود کے اندر رہ سکے۔ اپنے جائز حقوق سے متمتع ہوسکے اور افراد کے باہمی روابط‘ نیز فرد اور جماعت کے باہمی تعلق میںکامل توازن قائم ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیا علیہم السلام کی انقلابی تحریک کبھی طبقاتی نزاع (Class War) میں تبدیل نہ ہونے پائی۔ سماجی تعمیرِ نو (Social Reconstruction) اس طرز پر نہیں کی کہ ایک طبقے کو دوسرے طبقے پر مسلط کر دیں۔ بلکہ اس کے لیے عدل کا ایسا طریقہ اختیار کیا‘ جس میں تمام انسانوں کے لیے ترقی اور مادی و روحانی سعادت کے یکساں امکانات رکھے گئے تھے۔
٭…٭…٭
اسلام اور جہاد
اسلام کی نظر میں ’’جہاد‘‘ صرف وہی ہے جو محض فی سبیل اللہ ہو۔ اور اس جہاد کے نتیجے میں جب اسلامی حکومت قائم ہو‘ تو مسلمانوں کے لیے یہ ہرگز جائز نہیں ہے کہ وہ قیصر و کِسریٰ کو ہٹا کر خود قیصر و کِسریٰ بن جائیں۔ مسلمان اس لیے نہیں لڑتا اور مسلمان ہونے کی حیثیت سے نہیں لڑسکتا‘ کہ اس کی ذاتی حکومت قائم ہوجائے۔ اور وہ خدا کے بندوں کو اپنا بندہ بنالے۔ اور ناجائز طور پر لوگوں کی گاڑھی محنتوں کا روپیہ وصول کرکے اپنے لیے زمین میں جنتیں بنانے لگے۔ یہ جہاد فی سبیل اللہ نہیں‘ بلکہ جہاد فی سبیل الطاغوت ہے اور ایسی حکومت کو اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ اسلام کا ’’جہاد‘‘ تو ایک خشک اور بے مُزد محنت ہے‘ جس میں جان و مال اور خواہشاتِ نفسانی کی قربانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اگر یہ جہاد کامیاب ہو اور نتیجے میں حکومت مل جائے‘ تو سچے مسلمان حکمراں پر ذمے داریوں کا اس قدر بھاری بوجھ عائد ہوجاتا ہے کہ اس غریب کے لیے راتوں کی نیند اور دن کی آسائش تک حرام ہوجاتی ہے۔ مگر اس کے معاوضے میں وہ حکومت و اقتدار کی ان لذتوں میں سے کوئی لذت حاصل نہیں کرسکتا‘ جن کی خاطر دنیا میںعموماً حکومت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ (ترجمان القرآن، ربیع الاول، 1358ھ)