کوئٹہ: کیا پراپرٹی کی قیمتوں میں کمی کے اثرات کرایوں پر بھی ہوئے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
پراپرٹی کی قیمتوں کے اعتبار سے بلوچستان کا صوبائی دارالحکومت کوئٹہ ملک کے مہنگے ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا، جہاں چند برس قبل تک شہر کے وسطی علاقوں میں زمین کا ٹکڑا خریدنا کسی خواب سے کم نہ تھا۔
پراپرٹی ذرائع کے مطابق شہر کے مرکزی بازاروں میں ایک فٹ ڈیڑھ سے دو لاکھ جبکہ وسطی علاقے 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے کے درمیان فی فٹ میں فروخت ہو رہے تھے تاہم گزشتہ چند برسوں سے پراپرٹی کی قیمتوں میں غیر معمولی کم دیکھنے کو ملی ہے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے پراپرٹی کے کاروبار سے منسلک ابرار خان بتاتے ہیں کہ کوئٹہ میں گزشتہ پانچ سال سے پراپرٹی کی قیمت میں ہر گزرتے سال کے ساتھ کمی دیکھی جارہی ہے۔ شہر میں یکدم پراپرٹی کا منافع بخش کاروبار اب اپنے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ گھروں کے خرید و فروخت نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ جن لوگوں نے مہنگے داموں پر اچھے علاقوں میں گھر خریدے ہیں انہیں ان کی خریدی گئی رقم کا 70 فیصد بھی واپس نہیں مل رہا۔
مزید پڑھیں: پاک بھارت کشیدگی پر کوئٹہ کی ہندو اور سکھ برادری کے کیا تاثرات ہیں؟
ابرار احمد بتاتے ہیں کہ دراصل پراپرٹی کے کاروبار کا براہ راستہ انحصار امن و امان کی صورتحال پر ہے گزشتہ چند سالوں سے امن و امان کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے بڑے کاروباریوں نے زمین کی خرید فروخت کرنا چھوڑ دیا ہے۔ دوسری جانب آئے روز حکومت کی جانب سے افغان مہاجرین کے انخلاء سے متعلق پالیسی کی تبدیلی بھی اس کاروبار کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے۔ کوئٹہ میں پراپرٹی کے کاروبار سے 30 سے 40 فیصد افغان مہاجرین منسلک تھے ایسے میں مہاجرین کم داموں میں اپنی پراپرٹی فروخت کر کے آبائی علاقوں کو لوٹ رہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پراپرٹی کی گرتی قیمتوں سے کیا کرایوں میں بھی کمی دیکھنے کو ملی ہے یا نہیں
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کرایے دار عمران احمد بتاتے ہیں کہ چند سالوں قبل شہر کے وسطی علاقوں میں دو سے تین کمرے کا مکان 35 سے 40 ہزار روپے کرائے میں دیا جاتا تھا لیکن تین ماہ قبل شہر کے وسطی علاقے ناچاری روڈ پر اپنے لیے کرائے پر گھر لیا جو دو کمروں پر مشتمل تھا۔ اس مکان کا کرایہ 22 ہزار روپے طہ پایا جبکہ مالک مکان نے ایڈوانس کی مانگ بھی کم کی
مالک مکانوں کا موقف ہے کہ پراپرٹی کے کاروبار میں مندی کی وجہ سے کرائے پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بڑی مارکیٹوں کاروباری مراکز اور شاپنگ مالز میں کرائے جوں کے توں ہیں لیکن جہاں بات کی جائے کرائے کے مکانوں کی تو کرایوں میں مجبوراً کمی کرنا پڑھ رہی ہے۔
مزید پڑھیں: کوئٹہ کے رہائشی آریان شاہ کی میت بھارت سے پاکستان پہنچ گئی
مالک مکانوں کے مطابق پہلے افغان مہاجرین بڑی تعداد میں یہاں مقیم تھے جو کرائے کے گھروں میں رہائش پذیر تھے۔چند افغان مہاجرین نے اپنے مکانات خرید لی ہے جبکہ باقی کرائے کے مکانات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے۔ ایسے میں یہ مہاجرین منہ مانگا کرایہ دینے کو تیار تھے اس دور میں مکانات کی ڈیمانڈ زیادہ تھی جبکہ سپلائی کم ایسے میں مالک مکان من مانی کرائے وصول کر رہے تھے تاہم اب صورتحال ذرا مختلف ہے کیونکہ کرایے کے مکانات لینے والے افراد کی تعداد میں کمی ہوئی یے۔ کئی مکانات تو ایسے ہیں جو سالوں سے خالی پڑے ہیں ہمارے انہیں کرائے پر لینے والا کوئی نہیں
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان پراپرٹی جائیداد کرائے کوئٹہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان پراپرٹی کوئٹہ پراپرٹی کے کاروبار افغان مہاجرین پراپرٹی کی مالک مکان شہر کے
پڑھیں:
یمن: افریقی تارکین وطن کی کشتی غرقاب، درجنوں افراد ہلاک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 اگست 2025ء) اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) نے اتوار کو بتایا کہ افریقی مہاجرین کو لے جانے والی ایک کشتی یمن کے ساحل کے قریب ڈوب گئی، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے۔
اب تک ہمیں کیا معلوم ہے؟ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق کشتی میں سوار تقریباً 154 افراد میں سے 68 ہلاک ہو گئے، جب کہ 74 تاحال لاپتہ ہیں۔
کشتی میں سوار تمام افراد کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ ایتھوپیا کے شہری تھے۔
جنوبی یمنی صوبے ابین میں درجنوں لاشیں ساحل پر آ گئی ہیں۔ ابین کی مقامی اتھارٹیز امدادی کارروائیوں میں حصہ لے رہی ہیں۔
آئی او ایم کے یمن میں سربراہ عبد الستار اسویف نے اے پی کو بتایا کہ 12 مہاجرین کشتی الٹنے کے باوجود زندہ بچ گئے۔
(جاری ہے)
ایتھوپیائی یمن میں کیوں ہیں؟خانہ جنگی کے ایک عشرے بعد بھی یمن ان مہاجرین کے لیے ایک اہم راستہ ہے جو امیر عرب ممالک جیسے کہ سعودی عرب میں بہتر زندگی کی تلاش میں جاتے ہیں۔
سعودی عرب میں ایک بڑی ایتھوپیائی کمیونٹی موجود ہے، جب کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین میں بھی ایتھوپیائی تارکین وطن کی بڑی تعداد رہتی ہے۔
حالانکہ یمن کے سفر کے دوران، مہاجرین کو ایران سے وابستہ حوثیوں اور اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق، کووڈ-19 وبا کے دوران حوثیوں نے ایتھوپیائی مہاجرین کو قتل کیا اور زبردستی ملک بدر کیا۔
ایتھوپیا میں غربت کی شرح بہت زیادہ ہے اور ملک ابھی تک شورش زدہ علاقے ٹگرے میں ہونے والی خانہ جنگی کے اثرات سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔
آئی او ایم کی ایک رپورٹ کے مطابق، صرف 2024 میں ساٹھ ہزار مہاجرین یمن پہنچے۔
آئی او ایم کا کہنا ہے کہ 'قرن افریقہ‘ اور یمن کے درمیان کا راستہ دنیا کے مصروف ترین اور خطرناک ترین غیر قانونی ہجرت کے راستوں میں سے ایک ہے۔
’قرن افریقہ‘ میں ایتھوپیا کے علاوہ صومالیہ، جبوتی، اریٹیریا اور علاحدگی پسند علاقہ صومالی لینڈ شامل ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی کے سبب پیدا ہونے والی قحط اور خوراک کی کمی بھی وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے لوگ 'قرن افریقہ‘ سے خلیجی عرب ریاستوں یا یورپ کی جانب ہجرت کرتے ہیں۔
ادارت: صلاح الدین زین