ویب ڈیسک : وفاقی وزیر امیر مقام نے کہا ہے کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن ہوا۔ 

وفاقی وزیر امیر مقام نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم نے پوری دنیا کو کہا کہ آؤ پہلگام واقعے کی انکوائری کریں، وزیراعظم نے کھل کر کہا کہ واقعے کی تحقیقات کریں۔ انہوں کہا کہ پاکستان کے بھارت کے خلاف اقدامات سے سب کو پتہ چل گیا کہ پاک فوج کتنی مضبوط ہے، پوری قوم افواج پاکستان سے اظہارِ یکجہتی کے لیے نکلی، سب کو ایک ہو کر ملک کے لیے سوچنا ہوگا۔

مختلف تھانوں میں انچارج انویسٹی گیشنز کے تقرر و تبادلے

 امیر مقام نے کہا کہ بھارت نے جھوٹے الزامات لگائے اور ایف آئی آر بھی کٹوائی اس لیے بدنام ہوا، بین الاقوامی سطح پر بھی انڈیا نیچھے آگیا۔ 

انہوں نے کہا کہ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی نومنتخب کابینہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، وکلاء کے مسائل حل کرنے کےلیے ہر ممکن تعاون فراہم کریں گے، وکلاء نے ہمیشہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کےلیے اپنا کردار ادا کیا ہے۔

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: کہا کہ

پڑھیں:

 احمد ندیم قاسمی کی علمی و ادبی حیات کا روشن تذکرہ

قدرت کے دلکش لفظ و معنی کی ودیعت کے انعام یافتہ لکھاری احمد ندیم قاسمی ایسے شاعر ہیں کہ اگر چاہیں تو اس جدید ادب کے قافلے کی نمائندگی سے اس کے سفر کی صحیح سمت کا تعین کر سکتے ہیں، ان کی زبان اور قلم دونوں قابل ستائش ہیں، لوگ انہیں حق گو خیال کر کے پڑھتے ہیں اور حق نگار قلم کے لکھاری مانتے ہیں۔

 یہ اپنے اسلوب نگارش اور انداز بیان میں اپنا علیحدہ رستہ رکھتے ہیں اور نظم ہی نہیں نثر میں بھی وہ منفرد ہیں ، جہاں وہ ایک باشعور ادیب ہیں وہیں ان کی صوفیانہ خصوصیات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، انہوں نے حب الوطنی اور انسان دوستی میں قابل رشک قربانیاں دی ہیں ، وہ فکر و خیال کے ساتھ عمل کو بھی واجب رکھتے تھے اور یہی وہ خصوصیات ہیں جو شاعری کا دریچہ پیغمبری کے صحن میں کھول دیتی ہیں ، بحیثیت انسان احمد ندیم قاسمی اپنے دور کے جدید شعراء میں بلند کردار کے حامل تھے، ان جیسے چند لکھاریوں کی وجہ سے ہی لوگوں میں شاعری عظیم فن خیال کی جاتی ہے۔ آئیے آپ کو ان ذاتی علمی، ادبی، قلمی حیات کے روشن پہلوؤں کے تذکرے سے جوڑ کر منور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

احمد ندیم قاسمی 20 نومبر 1916کو ہندوستان کے مغربی پنجاب کی وادی سون سکیسر ضلع خوشاب کے گاؤں انگہ میں پیدا ہوئے ۔ اصل نام احمد شاہ اور ندیم ان کا تخلص ہے اور قاسمی اپنے پردادا محمد قاسم کی وجہ سے لگاتے تھے، ایک بھائی محمد بخش قاسمی اور ایک بہن تھی ۔ والد پیر غلام نبی اپنی عبادت زہد و تقویٰ کی وجہ سے اہل اللہ میں شمار ہوتے تھے ، والدہ کا نام غلام بی بی تھا ، والد کے انتقال کے بعد چچا حیدر شاہ کے پاس کیمبل پور آ گئے جس کا نام پاکستان میں اٹک کے نام سے تبدیل ہوا ہے۔

یہاں کے ہائی اسکول سے 1931میں فارغ التحصیل ہوئے ۔ جب انہوں نے اپنی پہلی نظم لکھی اس وقت وہ گورنمنٹ کالج اٹک میں تعلیم حاصل کر رہے تھے ، بعدازاں انہوں نے بہاولپور کے صادق ایجرٹن کالج میں تعلیم حاصل کی ۔ انہوں نے 1935میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے گریجویشن مکمل کر کے صحافت شاعری و افسانہ کے ذریعے دنیائے ادب میں قدم رکھتے ہوئے انسانی جذبات کی عکاسی پر مبنی قلمی سفر کا آغاز کیا جو دنیا میں ادب کی نئی خوشبو بن کر پھیلتا چلا گیا، ان کی شاعری کی ابتدا 1931میں ہو چکی تھی جب پہلی نظم جو مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر لکھی تھی روزنامہ سیاست لاہورکے سرورق پر شائع ہوئی، جو ان کے لیے ایک شاندار اعزاز اور حوصلہ افزاء ثابت ہوئی ، یہ سلسلہ روزنامہ انقلاب ، روزنامہ زمیندار و دیگر اخبارات کے سرورق تک پھیلتا چلا گیا جو عالم نوجوانی میں ہی غیر معمولی شہرت کی وجہ بنتا چلا گیا ۔

تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں جہاں تک دیکھوں

حسن یزداں سے تجھے حسن بتاں تک دیکھوں

دل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتا

میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں

صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں

میں تیرا حسن تیرے حسن بیاں تک دیکھوں

تو نے یوں دیکھا ہے جیسے کبھی دیکھا ہی نہ تھا

میں تو دل میں تیرے قدموں کے نشاں تک دیکھوں

اک حقیقت سہی فردوس میں حوروں کا وجود

حسن انساں سے نپٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں

ابتدائی زندگی مشکلات بھری ہے جس کے پیش نظر آبائی گاؤں کو خیر باد کہہ کر لاہور ہجرت کر لی، جہاں مذہبی علمی ادبی ماحول میسر آیا، یہاں فاقہ کشی کی نوبت کے باوجود ان کی غیرت نے ان کے حالات کسی پر عیاں کرنے کی اجازت نہ دی، 1936میں ریفارم کمشنر لاہور کے دفتر میں بیس روپے ماہوار پر محرر کی حیثیت سے ملازم ہوئے، 1937تک یہیں کام کرتے رہے ۔

اس وقت بادشاہی مسجد کے امام مولانا غلام مرشد جو ان کے قریبی عزیز تھے جنہوں نے اُس وقت کی ادبی شخصیت صوفی غلام مصطفی تبسم سے متعارف کروایا، معروف شاعروں اور صحافیوں سے شناسائی حاصل ہوتی چلی گئی، کرشن چندر اور سعادت حسن منٹو سے دوستانہ مراسم پیدا ہوئے ، انہی دنوں ان کی ملاقات اختر شیرانی سے ہوئی جو انہیں بے حد عزیز رکھتے ہوئے حوصلہ افزائی کرتے ۔ قاسمی صاحب اختر شیرانی کی شاعری کے گرویدا تو پہلے سے ہی تھے مگر ان کے مشفقانہ رویے نے قاسمی صاحب کو ان سے شخصی طور پر بھی بہت قریب کر دیا۔

اختر شیرانی کی شخصیت اور شاعری سے قاسمی صاحب کا لگاؤ آخری وقت تک قائم رہا۔ احمد ندیم قاسمی کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ چوپال 1939میں شائع ہوا، فلم دھرم پتنی کے گانے اور مکالمے انہوں نے 1940ء میں لکھے، بدقسمتی سے یہ فلم کبھی مکمل نہ ہو سکی، آپ محکمہ ایکسائز میں بطور انسپکٹر بھی بھرتی ہوئے مگر 1942میں نوکری سے بیزار ہو کر استعفیٰ دے کر امتیاز علی تاج کے اشاعتی ادارے میں شامل ہو گئے ۔ آپ کو بچوں کے میگزین پھول اور خواتین کے میگزین تہذیب نسواںاور نقوش کی ادارت کے فرائض سونپے گئے ۔

1943 میں معروف جریدے ادب لطیف کے ایڈیٹر بنے تو منٹو کی کہانی بو شائع کرنے کی وجہ سے انہیں 1944میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑا ۔ 1946میں ادب لطیف کی صدارت چھوڑ کر اسی برس اپنا مجموعہ کلام جلال و جمال شائع کروایا، اس سے پہلے دھڑکنیں اور رم جھم بھی شائع ہو چکا تھا ، آپ نے تعمیری سیاست کے تناظر میں مسلم لیگ کی تنظیم و توسیع میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1947کے بعد ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان پشاور کے انتہائی اصرار پر وہاں سکرپٹ رائٹر کے طور پر ملازمت اختیار کرتے ہوئے بہت سے ملی گیت، قومی نغمے اور حب وطن کے موضوع پر فیچر اور ڈرامے تحریر کیے ۔

تیرہ اور چودہ اگست کی درمیانی شب کو انہی کا لکھا ہوا نغمہ نشر ہوا۔ 1949میں وہ پشاور ریڈیو کی نوکری چھوڑ کر لاہور واپس آ گئے ۔ احمد ندیم قاسمی عصری اردو ادب کی بڑی شخصیت ہیں جن کی شاعری انسانیت پسندی کے گرد گھومتی ہے ۔ آپ اردو زبان کے ایک پاکستانی شاعر ، صحافی ،ادیب، ڈرامہ نگار اور کہانی نگار مصنف ہیں جنہوں نے شاعری، افسانہ، تنقید اور صحافت فن جیسے موضوعات پر پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کیں جن میں جلال وجمال ،شعلہ گل ،دشت وفا، دوام، محیط، ارض و سما، افسانے ، چوپال، سناٹا،گنڈاسہ،کپاس کا پھول،آبلے،گھر سے گھر تک، نیلا پتھر، جوتا اور پھول سرفہرست ہیں ۔

احمد ندیم قاسمی بلاشبہ ہم عصر اردوادب کی ایک قدآور شخصیت کا نام ہے ، ان کے اردو افسانہ مختصر کہانی کے کام کو منشی پریم چند نے چند لمحوں میں دینی ثقافت کی عکاسی کا نام دیتے ہوئے خود سے بڑا ادیب جانا جبکہ جدید ہندوستان کے سب سے زیادہ بااثر ادیب گلزار صاحب احمد ندیم قاسمی کو اپنے مرشد گرو محبوب کا درجہ دیتے ہیں ۔

احمد ندیم قاسمی صاحب نے متعدد ممتاز ادبی روزناموں کے ذریعے بچوں کی ادبی ذہن سازی کی، جن میں، پھول ، تہذیب نسواں، ادب لطیف ،سویرا، نقوش اور ان کا اپنا فنون شامل حال رہے ، انہوں نے اردو روزنامہ امروز کے ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا، ان کاکا لم پنج دریا کے عنوان سے کئی برس تک روزنامہ امروز میں شائع ہوتا رہا ، جب 1969کو جنرل ایوب خان نے اس ادارے کو سرکاری تحویل میں لیا تو وہ اس سے الگ ہو گئے۔ احمد ندیم قاسمی طویل عرصہ تک روزنامہ جنگ، روزنامہ حریت ،روزنامہ ہلال احمر جیسے قومی اخباروں میںحرف و حکایت، موج در موج ، پنج دریا کے نام سے فکاہیہ کالم نویسی کرتے رہے ۔

کالم نگاری میں عبد الماجد کو اپنا استاد مانتے تھے، ان کی شاعری میں روایتی غزلیں اور جدید نظم دونوں شامل ہیں ، احمد ندیم قاسمی دوسروں کی راہنمائی اور تزئین میںاپنا حصہ ڈالنا خدمت ادب سمجھتے رہے ۔ 1948 میں ان کو پنجاب کے لیے انجمن ترقی پسند مصنفین کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا۔ 1949میں وہ پاکستانی تنظیم کے سیکڑیری جنرل منتخب ہوئے ۔ 1962میں احمد ندیم قاسمی نے خدیجہ مستور، ہاجرہ مستور، احمد فراز، امجد اسلام امجد ، عطا الحق قاسمی اور منو بھائی سمیت دیگر مضنفین اور شاعروں کی حمایت سے اپنا ادبی رسالہ فنون شائع کروانا شروع کیا۔ احمد ندیم قاسمی نے شاعرہ پروین شاکر کی سرپرستی و تربیت کا بھی فرض نبھایا ۔ 1974میں انہیں مجلس ترقی ادب کا سیکرٹری مقرر کیا گیا جو 1958میں حکومت مغربی پاکستان کا قائم کردہ ایک ادبی ادارہ تھا ۔

دسمبر 2011 میں پروفیسر فتح محمد ملک اور نامور کالم نگار عطا الحق قاسمی نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں احمد ندیم قاسمی کی زندگی اور کارناموں پر ایک سمینار کا اہتمام کیا جس میںان کے ادبی کام کو اردو مصنفین کے شاعروں اور نقادوں نے خوب سراہا، جبکہ ان کے ادبی کام کے علاوہ ان کی شخصیت پر بھی تنقید کی جاتی رہی ہے جس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آپ کلمہ حق بلند کرنے کی وجہ سے کئی بار پابند سلاسل بھی رہے ۔

1995میں کہانیوں کا آخری مجموعہ کوہ پیما شائع ہوا، اسی برس آپ کی شاعری کی آخری کتاب بسیط بھی شائع ہوئی ، 2000 میں آکسفورڑ یونیورسٹی نے آپ کی کہانیوں کا انگریزی ترجمہ شائع کیا جس کے مترجم فاروق حسن تھے ۔2002 میں میرے ہمسفر مجموعہ شائع ہوا جس میں آپ نے اپنے ہم عصر ادیبوں کے شخصی خاکے لکھے ، اس سے اگلے برس ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ پاسا الفاظ شائع ہوا۔ 1988میں آپ نے حج کی سعادت حاصل کی بعدازاں کئی بار عمرے کے لیے بھی جاتے رہے ۔ احمد ندیم قاسمی کے ادب اور عملی زندگی میں کوئی تضاد نہیں تھا ۔ انہوں نے وطن پاکستان کے لیے یہ دعا لکھی تھی ۔

خدا کرے کہ میری عرض پاک پر اترے

و ہ فصل گل جیسے اندیشہ زوال نہ ہو

1968میں صدر پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڑ ملا۔ 1980میں صدر پاکستان سے ستارہ امتیاز سٹار آف ایکسی لینسی ایوارڑ سے نوازا گیا، پاکستان اکیڈمی آف لیٹر کا لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڑ بھی ملا، اسلام آباد ساتویں ایونیو شاہراہ کا نام بدل کر احمد ندیم قاسمی کے نام پر رکھا گیا۔ احمد ندیم قاسمی کو ہفتے کے روز پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں دمہ اور دل کی تکلیف کی شکایت کے ساتھ داخل کروا دیا گیا تھا۔ اتوار کے روز ان کی حالت خراب ہو گئی جہاں نوے سال کی عمر گزارنے والے احمد ندیم قاسمی نے پیر کی صبح نو بجے10جولائی 2006 کو آخری سانس لیا، وہ ایک بیٹی اور بیٹے کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے اس دنیا فانی سے رخصت ہو گئے ، انہیں لاہور کے مقامی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا، جہاں آج بھی ادب کے چاہنے والے ان کی قبر پر فاتحہ کے دعائیہ پھول نچھاور کرتے ہیں ۔

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا

اس کی دولت ہے فقط نقش کف پا تیرا

ایک بار اور بھی طیبہ سے فلسطین میں آ

راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا

پورے قد سے جو کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم

مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا

متعلقہ مضامین

  • سب کو پتا چل گیا کہ پاک فوج کتنی مضبوط ہے: امیر مقام
  • پاک، بھارت ڈی جی ایم اوز آج ہاٹ لائن پر اہم رابطہ کریں گے
  • براہ راست مذاکرات کی تیاری: پاک بھارت ڈی جی ایم اوز آج ہاٹ لائن پر اہم رابطہ کریں گے
  •  احمد ندیم قاسمی کی علمی و ادبی حیات کا روشن تذکرہ
  • سیز فائر بھارت کے مفاد میں ہے،سابق مشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل(ر)ناصر جنجوعہ 
  • ہم سب ایک‘ قومی یکجہتی کیلئے پہلے عمران کو رہا کریں: اسد قیصر 
  • قوم کو عظیم کامیابی مبارک ہو، پاکستان سرخرو ہوا ،امیر مقام
  • ایبٹ آباد میں بھارتی جاریت کیخلاف وکلاء کی ریلی
  • سائبر حملوں کا خدشہ: قومی سائبر ایمرجنسی رسپانس ٹیم نے  اہم ایڈوائزری جاری کردی