دوا ساز کمپنیاں ٹرمپ کو یورپ پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کررہی ہیں، فرانسیسی اخبار
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
دوا ساز کمپنیاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو یورپ پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا چینی مصنوعات پر ٹیرف 80 فیصد تک لانے کا عندیہ
فرانسیسی اخبار لی مونڈے کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر کی جانب سے صحت کی دیکھ بھال کی دوائیوں پر محصولات عائد کرنے کی دھمکی دی گئی ہے اور دوا ساز کمپنیاں قیمتوں میں اضافے کی وکالت کر رہی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ دوا ساز کمپنیاں کہتی ہیں کہ یورپی براعظم میں علاج کا مناسب معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ تو کیا یورپ کو اپنی دوائیوں کے لیے زیادہ ادائیگی کرنی چاہیے؟
ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے امریکا میں درآمد کی جانے والی صحت کی دیکھ بھال کی مصنوعات پر محصولات عائد کرنے کے خطرے نے یورپ میں فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے ایک پرانے مسئلے کو زندہ کر دیا ہے۔
کمپنیوں کا کہنا ہے کہ یورپی براعظم میں علاج کے لیے مناسب معاوضہ نہیں دیا جاتا ہے اور اس وجہ سے وہ قیمتوں میں اضافے پر زور دے رہی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ فارماسیوٹیکل انڈسٹری اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ منافع بخش صنعتوں میں سے ایک ہے۔ سنہ 2023 میں، مارکیٹ کا تخمینہ تقریباً 1.
وائٹ ہاؤس کے منصوبوں نے دوا ساز کمپنیوں کو اپنا کیس پیش کرنے کا ایک مثالی موقع فراہم کیا ہے۔ دواؤں کی پیداوار کو اپنی سرزمین پر واپس بھیجنے کے لیے واشنگٹن کی کوششوں کے درمیان فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے اپنے حریف کے مقابلے میں یورپ کی کمزوریوں کو اجاگر کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
مزید پڑھیے: ٹرمپ ٹیرف: یورپی یونین نے جوابی کارروائی کے لیے سر جوڑ لیے
یورپی فیڈریشن آف فارماسیوٹیکل انڈسٹریز اینڈ ایسوسی ایشنز نے 8 اپریل کہا کہ امریکا اب ہر سرمایہ کار کے میٹرک پر یورپ کی قیادت کرتا ہے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ جب تک یورپ تیزی سے، بنیاد پرست پالیسی میں تبدیلی نہیں لاتا تب تک دواسازی کی تحقیق، ترقی اور مینوفیکچرنگ کا رخ امریکا کی طرف بڑھنے کا امکان ہے۔
ٹرمپ کا امریکا میں ادویات کی قیمیتیں کم کرنے کا حکمدریں اثنا امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پیر کے روز ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس میں دوا ساز کمپنیوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی دوائیوں کی قیمتوں کو دوسرے ممالک کے مطابق کم کریں۔
رائٹرز کے مطابق تجزیہ کاروں اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حکم پر عمل درآمد مشکل ہوگا۔
آرڈر میں دوائی بنانے والوں کو اگلے 30 دنوں میں قیمتوں کے اہداف ملے ہیں اور اگر وہ کمپنیاں آرڈر پر دستخط ہونے کے 6 ماہ کے اندر ان اہداف کی طرف اہم پیش رفت نہیں کرتیں تو قیمتوں کو کم کرنے کے لیے مزید کارروائی کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: دنیا میں 30 لاکھ بچے ادویات اثر نہ کرنے کے سبب چل بسے، اصل وجہ کیا ہے؟
ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اگر امریکا میں قیمتیں دوسرے ممالک کی قیمتوں سے مماثل نہیں ہیں تو حکومت کمپنیوں پر محصولات عائد کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ادویات کی قیمت میں 59 تا 90 فیصد کے درمیان کمی کے خواہاں ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا میں ادویات کی قیمتیں ایگیزیکٹو آرڈر دوا ساز کمپنیوں کی چال دواساز کمپنیاں ڈونلڈ ٹرمپ فرانسیسی اخبارذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: دواساز کمپنیاں ڈونلڈ ٹرمپ دوا ساز کمپنیاں امریکا میں کے لیے
پڑھیں:
ایئر انڈیا حادثہ؛ پاکستان اور بھارت کیلیے برطانیہ، یورپ، امریکا کا دہرا معیار
لاہور:پاکستان اور بھارت کے لیے برطانیہ، یورپ اور امریکا کا دہرا معیار سامنے آگیا، پی آئی اے جہاز کو حادثہ پیش آتے ہی ہوا بازی کے بین الاقوامی ریگولیٹرز اور دیگر اداے فوری حرکت میں آکر پابندیاں عائد کر دیتے ہیں لیکن بھارت کے لیے انتہائی نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان میں سے کوئی ادارہ حرکت میں نہیں آتا۔
بھارتی ائیر لائن پر پابندی عائد ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے پائلٹس پر جبکہ انٹرنیشنل سول ایوی ایشن سمیت یورپ برطانیہ اور امریکا کے ایوی ایشن ریگولیٹر قومی ایئر لائن پی آئی اے کے پائلٹس کی مہارت کے گن گاتے نہیں تھکتے بلکہ دنیا کی اس وقت کی صف اول کی ایئر لائن بنانے میں قومی ایئر لائن پی آئی اے کا کردار سب کے سامنے ہے۔
پی آئی اے کو بین الاقوامی سطح پر قبول بھی کیا جاتا ہے مگر پھر بھی بھارت کے ساتھ اتنا پیار اور پاکستان کی ایئر لائن کے ساتھ اتنی نفرت بین الاقوامی ایوی ایشن ریگولیٹرز کے کردار کو مشکوک بنا رہی ہے۔
پی آئی اے اور ایوی ایشن ذرائع کے مطابق 12 جون 2025 کی صبح، ایئر انڈیا کی پرواز 171 ایک جدید ترین بوئنگ 787-8 ڈریملائنر جو لندن کے لیے روانہ ہوئی تھی، احمد آباد کے سردار ولبھ بھائی پٹیل بین الاقوامی ہوائی اڈے سے پرواز کے فوراً بعد المناک حادثے کا شکار ہوگئی۔
جہاز میں سوار تمام 242 افراد اور زمین پر موجود مزید 39 افراد جاں بحق ہوگئے۔ سانحہ نے ہوا بازی کی پوری انڈسٹری کو ہلا کر رکھ دیا جو دعویٰ کرتی ہے ’’فضائی سفر سب سے محفوظ ہے۔‘‘
ہوابازی اتنی ہی محفوظ ہوتی ہے جتنا اس کا سب سے کمزور نظام اور بدقسمتی سے یہ کمزوریاں اب ٹیکنالوجی میں نہیں بلکہ اُن انسانوں میں ہیں جو اِن جہازوں کو اُڑانے، ریگولیٹ کرنے اور مینیج کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
ابتدائی تحقیقات اور ایئر ٹریفک کنٹرول (ATC) کے جاری کردہ لاگز کے مطابق، ایئر انڈیا 171 نے اچھے موسم میں پرواز کی تھی۔ کاغذی طور پر تجربہ کار عملے نے مبینہ طور پر متعدد اہم پروٹوکولز کو نظرانداز کیا، جن میں ٹیک آف کی روٹیشن، اسپیڈ اور پرواز کے منصوبے سے انحراف سے متعلق وارننگز شامل تھیں، جو طیارے کے سسٹمز اور ٹاور کی طرف سے موصول ہوئیں۔ پرواز کے دو منٹ کے اندر ہی طیارے نے طاقت اور کنٹرول کھو دیا۔
ماہرین کے مطابق، یہ ممکنہ طور پر کوک پٹ کے غلط فیصلوں کا نتیجہ تھا، جس میں لینڈنگ گیئرز کے بجائے فلیپس اٹھا دینا شامل ہے۔
اسی طرح کا افسوسناک سانحہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (PIA) کی پرواز 8303 کو بھی، مئی 2020 میں کراچی ایئرپورٹ پر لینڈنگ کی کوشش کے دوران پیش آ چکا ہے۔ اُس حادثے میں 99 میں سے 97 افراد جاں بحق ہوئے۔
تحقیق میں معلوم ہوا کہ اس حادثے کی بڑی وجہ بھی انسانی غلطی تھی کیونکہ پائلٹس نے ایئر ٹریفک کنٹرول کی ہدایات کو نظر انداز کیا، بغیر لینڈنگ گیئرز کے لینڈنگ کی کوشش کی، جس سے جہاز کی گلائیڈ اسلوپ خراب ہوئی، انجنوں کو نقصان پہنچا، اور بالآخر ایک خطرناک گو اَراؤنڈ کی کوشش کی گئی جو جان لیوا ثابت ہوئی۔
دونوں حادثات میں آخری تباہی کوک پٹ میں رونما ہوئی، جب طریقہ کار سے لاپروائی، ریگولیٹرز کی خاموشی اور فضائی حفاظت کے اصولوں کو نظر انداز کیا گیا اور درجنوں بھارتی پائلٹوں کی ڈگریاں بھی جعلی نکلی مگر ان سب کے باوجود پی کے 8303 کے لیے ردعمل سخت اور فوری تھا۔
یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (EASA)، برطانیہ اور امریکا کے ریگولیٹرز نے پی آئی اے پر غیر معینہ مدت تک یورپی فضاؤں میں داخلے پر پابندی لگا دی۔ یہ صرف ایک حادثے کا ردعمل نہیں تھا، بلکہ پاکستان کی ایئر لائن کو نقصان پہنچانا مقصود تھا اور پہنچایا بھی گیا جبکہ پی آئی اے کی مہارت کو پوری دنیا تسلیم کرتی ہے ہاں یہ ضرور ہوا کہ حفاظتی اور سیکیورٹی کی کچھ کمزوریوں اور آڈٹ رپورٹس، اُس وقت کے وزیرِ ہوا بازی کی مشہور تقریر نے ہوابازی کے نظام میں چونکا دینے والی بے ضابطگیاں ظاہر کیں۔
مشکوک پائلٹ لائسنس، پرانے سیفٹی مینولز اور ایک ناتواں ریگولیٹر لیکن تمام تر دعوؤں کے باوجود کہ ’’ہم نے سبق سیکھ لیا‘‘، یہ لگتا ہے کہ ایئر انڈیا اور بھارت کی ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن (DGCA) نے کچھ نہیں سیکھا البتہ پاکستان کے سول ایوی ایشن اور قومی ایئر لائن نے پیش آنے والے حادثے کے بعد نہ صرف سسٹم اپ گریڈ کیا بلکہ سیکیورٹی کے بھی سخت ترین قوانین کی پاسداری کی جس کی تصدیق امریکا، یورپ اور برطانوی ایئر سیکیورٹی کے اداروں سمیت بین الاقوامی سول ایوی ایشن اتھارٹی کی مختلف ٹیموں کی طرف سے پاکستان کے دورے مکمل کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں اقدامات پر مطمئن ہونے کا اظہار بھی کیا۔
پاکستان ایئر پورٹ اتھارٹی کے ذرائع کے مطابق دوسری طرف گزشتہ دو سالوں میں، خصوصاً نجکاری کے بعد، ایئر انڈیا کے پائلٹس نے تھکن، غیر حقیقی ڈیوٹی شیڈولز، اور دباؤ کے تحت پرواز کرنے کی شکایات کیں۔ حالیہ افشاں ہونے والی اندرونی میموز ظاہر کرتی ہیں کہ جہازوں کو اکثر Minimum Equipment List (MEL) کے تحت روانہ کیا گیا یعنی ایسے تکنیکی نقائص کے ساتھ جو بظاہر قانوناً قابلِ قبول تھے، لیکن سخت رسک مینجمنٹ پروٹوکول کے تحت۔ فرق یہ ہے کہ بھارتی ایئر لائنز نے MEL کو معمول کے طریقہ کار کے طور پر اپنایا ہوا ہے، نہ کہ استثنائی حالات کے تحت۔
مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ بھارتی سول ایوی ایشن اتھارٹی (CAA) نے وہسل بلوورز کی شکایات پر سنجیدہ کارروائی نہیں کی۔ امریکا کی FAA، یورپ کی EASA، اور اب پاکستان CAA کی طرح بھارت کے ریگولیٹرز کے پاس نہ تو آزاد آڈٹ ادارے ہیں اور نہ شفاف تحقیقات کا کوئی مؤثر نظام۔ DGCA کی تحقیقات اکثر خفیہ رکھی جاتی ہیں اور شاذ و نادر ہی سخت اقدامات سامنے آتے ہیں، یہ ناقص ریگولیٹری کلچر صرف بھارت کا مسئلہ نہیں ہے۔ جب ایک جہاز کسی بھی بین الاقوامی ایئرپورٹ سے پرواز کرتا ہے تو وہ دنیا کے مشترکہ آسمان میں داخل ہوتا ہے۔
اگر ایئر انڈیا 171 یورپ کے فضائی حدود میں یا لندن میں، جو اس کی منزل تھی گر جاتا، تو اس کے جغرافیائی اور سیاسی اثرات شدید ہوتے۔ اسی لیے اب ذمہ داری عالمی ہوابازی کے ریگولیٹرز پر ہے۔ EASA، برطانیہ کا محکمۂ نقل و حمل، اور امریکا کا TSA فوری طور پر ایئر انڈیا اور بھارت کے تمام ایئر لائنز پر سیفٹی آڈٹ شروع کریں۔ اگر ان آڈٹس میں نظامی ناکامیاں سامنے آئیں، جیسے PIA کے ساتھ ہوا، تو بھارتی ایئرلائنز کو یورپی و امریکی فضاؤں میں اڑنے سے روکنا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہوگا۔
واضح رہے، یہ بھارتی ہوا بازی کے خلاف نہیں کیونکہ بھارت نے عالمی معیار کے پائلٹس پیدا کیے ہیں اور پیچیدہ فضائی نظاموں کو بخوبی سنبھالا ہے لیکن جب اُس کی سب سے بڑی ایئر لائن 280 سے زائد افراد کی جان ایک ایسے حادثے میں گنوا بیٹھے جو مکمل طور پر ایوی ایشن کے اصولوں پر مکمل عمل درآمد مناسب نگرانی اور حفاظتی اقدامات کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور نہ ہی اس کو چیک کرنے والوں نے روکا تو دنیا کو یہ خطرہ برداشت کرنا ہوگا۔
ایئر انڈیا 171 کا سانحہ صرف جانوں کا نقصان نہیں یہ وہ لاپروائیاں تھیں جنہیں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اگر ہم اب بھی سنجیدگی سے ردعمل نہ دے پائے، تو اگلا حادثہ ’’ہوگا یا نہیں‘‘ اس کا پتہ نہیں بلکہ ’’کہاں ہوگا‘‘۔
دوسری جانب قومی ایئر لائن پی آئی اے کی انتظامیہ اور پاکستان ایئر پورٹ اتھارٹی کو پورا یقین ہے کہ جلد ہی فرانس کی طرح برطانوی اور یورپ کے دیگر ممالک بھی پابندی ختم کر دیں گے اور پی آئی اے ایک بار پھر یورپ اور دیگر ممالک کی فضاؤں میں اڑتی نظر آئے گی۔