چین اور امریکہ کے مابین تعاون ہی مسائل کا درست حل ہے، چینی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT
بیجنگ : چین اور امریکہ کے مابین جنیوا میں اعلی سطحی اقتصادی اور تجارتی مذاکرات کے مشترکہ بیان کے بعد بین الاقوامی رائے عامہ نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ عالمی تجارتی تنظیم کی ڈائریکٹر جنرل ایویرا نے کہا کہ چین امریکہ اقتصادی بات چیت کی پیشرفت نہ صرف چین اور امریکہ بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کے لئے بھی بہت اہم ہے، اور یہ تمام فریقین کی توقعات کے مطابق بھی ہے۔یہ بات چیت امریکہ کی درخواست پر منعقد ہوئی جو اپریل میں امریکہ کی جانب سے چین پر بھاری محصولات عائد کرنے اور چین کی جانب سے جوابی کارروائی کے بعد دونوں اطراف کی پہلی براہ راست ملاقات تھی۔ اس بات چیت میں “عملی پیشرفت” حاصل کی گئی، اور اس نے چین اور امریکہ کی معیشت کے قریبی تعلق کے بارے میں فریقین کی آگاہی کو ظاہر کیا اور تعاون بڑھانے کی بنیاد فراہم کی۔اپریل کے بعد سے، امریکہ نے محصولات کے اقدامات کو مسلسل بڑھایا، اور چین نے اس کا مضبوطی سے جواب دیا۔ اس عمل کے دوران، امریکہ کی جانب سے عائد کردہ بھاری ٹیرف سے خود امریکہ کے نقصانات مزید نمایاں نظر آ رہے ہیں ۔ امریکہ کے اقتصادی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ٹیرف پالیسی میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی تو امریکہ کی معیشت میں کمی کے امکانات 60 فیصد سے زیادہ ہیں، اور اس سال مہنگائی کی شرح 3.
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: چین اور امریکہ امریکہ کی امریکہ کے کی معیشت بات چیت چین کی
پڑھیں:
چینی فضائیہ کی جدید ترین طیارے اور ٹیکنالوجی کی نمائش
اسپوتنک نیوز کے مطابق یہ پیش رفت چین کی نئی ٹیکنالوجی اور فوجی خودکفالت کے عزم کی علامت ہے۔ چین کی فضائیہ 11 نومبر 1949 کو قائم ہوئی تھی اور آج یہ دنیا کی سب سے بڑی اور جدید فضائی قوتوں میں شمار ہوتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ چین کی فضائیہ نے اپنی 76ویں سالگرہ کے موقع پر جدید ترین اسلحہ اور دفاعی ٹیکنالوجی کی شاندار نمائش کی، جس میں ریڈار سے پوشیدہ رہ کر پرواز کرنیوالے ڈرون GJ-11، پانچویں نسل کا جنگی طیارہ J-20 اور الیکٹرانک وارفیئر جیٹ J-16D شامل تھے۔ خبر رساں ادارہ تسنیم کے بین الاقوامی شعبے کے مطابق چین کی فضائیہ نے منگل کے روز اپنی سالگرہ کے موقع پر جاری کیے گئے ایک ویڈیو پیغام میں ان تینوں جدید پرندوں کو متعارف کرایا۔ اس اقدام کو چین کی بڑھتی ہوئی ہوائی اور دفاعی صلاحیت کا مظہر قرار دیا جا رہا ہے۔ اسپوتنک نیوز کے مطابق یہ پیش رفت چین کی نئی ٹیکنالوجی اور فوجی خودکفالت کے عزم کی علامت ہے۔ چین کی فضائیہ 11 نومبر 1949 کو قائم ہوئی تھی اور آج یہ دنیا کی سب سے بڑی اور جدید فضائی قوتوں میں شمار ہوتی ہے۔
اس کی ابتدائی حکمتِ عملی فعال دفاع (Active Defense) پر مبنی تھی، یعنی دفاعی پالیسی کے تحت محدود مگر مؤثر جارحانہ کارروائی۔ چین کی تیز رفتار اقتصادی ترقی کے ساتھ ہی ملکی جنگی صنعت میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہوئی، اور J-10، J-20 جیسے مقامی طیارے اور جدید ڈرونز تیار کیے گئے۔ اس وقت چین کی فضائیہ کے چار لاکھ سے زائد فعال اہلکار ہیں، جو پانچویں نسل کے لڑاکا طیاروں، جدید بمبار جہازوں اور الیکٹرانک جنگی نظاموں سے لیس ہیں۔ چینی فضائیہ، جو اپنے آغاز میں سوویت ٹیکنالوجی پر انحصار کرتی تھی، اب اکیسویں صدی میں ایک خودمختار اور تکنیکی طور پر ترقی یافتہ قوت بن چکی ہے — جو بیجنگ کی طویل المیعاد حکمتِ عملی، یعنی فوجی طاقت اور عالمی اثرورسوخ میں اضافہ، کی عکاسی کرتی ہے۔