Express News:
2025-10-04@16:57:14 GMT

جشن فتح کے بعد…

اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT

پاک بھارت کے درمیان محاذ آرائی اور جنگ کے شعلے کسی بھی وقت بھڑکنے کی ’’ہونی‘‘ یقین کی حد ہمیشہ سروں پر منڈلاتی رہتی ہے۔ یہ ’’ہونی‘‘ یا اس ’’ہونی‘‘ کی دھمکی بی جے پی اور نریندر مودی کی سیاست کا اٹوٹ انگ رہا ہے۔ جس سرعت اور حیرت انگیز تیقن کے ساتھ بھارتی حکومت نے پہلگام واقعے کو پاکستان کے سر پر تھوپا، اسی سے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ ’’ہونی‘‘ اب ہوئی کہ ہوئی۔

پاک بھارت کے درمیان ماضی میں ہونے والی جنگوں کے دورانیے کئی کئی ہفتوں پر محیط رہے، حالیہ جنگ کی طوالت کے بارے میں بھی کچھ ایسے ہی اندیشے تھے۔ ان توقعات کو بھارت میں مین اسٹریم میڈیا کے شعلہ بار اینکرز اور من گھڑت خبر ساز نیوز اینکرز نے اس قدر ہوا دی کہ کم از کم بھارت کی حد تک جنگ جلد ختم ہونا وہم و گمان سے بھی نکال دیا گیا۔ اسی لیے پانچ روز بعد جس حیران کن انداز میں جنگ بندی کا اعلان ہوا، اس نے بھارت کے جنگ باز اینکرز، من گھڑت خبر ساز نیوز چینلز اور ان کے ناظرین کو چکرا کر رکھ دیا۔ اس کے بعد سے تنقید اور الزامات کی توپوں کا رخ اپنی ہی سرکار اور میڈیا کی طرف ہو گیا۔

پانچ روزہ جنگ میں بھارت کی جنگی چالیں اور جنگی انداز و اسباب کیا تھے اور پاکستان کا جواب کیا رہا، اس نے پاکستان اور بھارت بلکہ دنیا بھر کے عوام و خواص کو حیران کر دیا۔ پاکستان کے فیصلہ کن جواب نے چند پہروں میں ایسی دھاک بٹھائی کہ گھنٹوں میں اس قدر جلد جنگ بندی کی ’’انہونی‘‘ ہو گئی۔ دونوں جانب سے پانچ روزہ جنگ جس انداز میں لڑی گئی، وہ ماضی کے برعکس ایک نئے جنگی رجحان اور انداز کی غماز تھی۔ ٹیکنالوجی، سائبر مہارت، ملٹی ڈومین تکنیک، ڈرونز، میزائل اور فضائی طاقت نے جنگ کا ایک نیا باب تحریر کیا۔

بھارت کی جانب سے فرانسیسی طیارے رافیل، ڈرونز، میزائل اور ایس 400 سمیت بہت سے نئے ساز و سامان کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ اس نئے، مہنگے اور ہائی ٹیک سازو سامان پر بھارت کا اعتماد تکبر اور غرور کی حدوں سے بھی آگے نکل گیا۔ اس ہائی ٹیک بوچھاڑ کا پاکستان نے جو جواب دیا، اس سے بھارت، دنیا اور خود پاکستان کی عوام کو حیرت ہوئی۔ امریکا اور یورپ کی ٹیکنالوجی کے برعکس چین کے ساتھ جنگی اشتراک اور تعاون کے ساتھ جنگی سازو سامان کی پیداوار، جنگی طیاروں کی مینوفیکچرنگ اور سائبر نظم کے مربوط ہائی ٹیک نظام کے ساتھ انتہائی عمدہ ٹریننگ نے ایک کرشمے کو جنم دیا جو گزشتہ پاک بھارت جنگوں سے بالکل الگ اور انوکھا تھا۔

پاکستانی فورسز کا اعتماد، تیاری، دفاع، جواب اور جواب کے لیے منتخب ٹارگٹس نے جنگ کے پھیلاؤ کو صرف عسکری ٹکراؤ تک محدود رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دشمن اور دنیا کو بھی باور کروا دیا کہ اب کی بار بہت کچھ نیا ہے۔ بھارت کی جنگی پاور کا بھرم دو تین دنوں میں کھل گیا، دوسری طرف پاکستان کی حکمت عملی اور تیاری کا بھی دوست دشمن کو اندازہ ہو گیا جس نے حیرت انگیز تیزی سے جنگ بندی کو ممکن بنایا۔

جنگ بہت مہنگا عمل ہے۔ قوموں کے لیے زندگی موت کا فیصلہ دفاعی قوت پر منحصر ہوتا ہے۔ وہ ممالک جہاں وسائل کی کمی اور دفاعی مسائل کی افراط ہو، وہاں دفاعی ضروریات کے لیے مناسب وسائل کی فراہمی ہمیشہ ایک چیلنج ہوتا ہے۔ پاکستان کے معاشی مسائل وقت کے ساتھ ساتھ بڑھے ہیں۔ وجوہات پاکستان کی اپنی سیاسی اور انتظامی بدنظمی اور کرپشن وغیرہ میں مضمر ہیں۔ ہمارے ہاں زمانۂ امن میں دفاعی ضروریات کے لیے وسائل کی فراہمی کے خلاف تنقید کا ایک طومار رہا ہے۔ بے تحاشہ دانشور صبح شام ایک ٹینک کی قیمت میں کتنے اسکول کھل سکتے ہیں، ایک طیارے کی مالیت سے کتنے اسپتال بن سکتے ہیں جیسے موازنے کرکے واہ واہ سمیٹتے رہے ہیں۔

ایسی تجاویز اور تنقید کا دفتر ماضی میں کبھی بند نہیں ہوا تاہم حالیہ پانچ روزہ پاک بھارت جنگ نے ان خام خیالیوں کو حقیقت آشنا کر دیا ہے کہ امن کی خواہش اچھی چیز ہے لیکن دفاعی طاقت اور قوت قائم رکھنا قومی بقاء کے لیے اہم تر ہے۔

بھارت میں جنگ بندی پر شدید تنقید اور لے دے ہو رہی ہے۔ گزشتہ چند سال کے دوران دنیا میں جنم لینے والی جنگوں کا جائزہ انتہائی چشم کشا ہے، عالمی برادری کو کہنے کی حد تک امن کی خواہش ضرور ہے لیکن عملی طور پر اسلحہ سازوں اور جیو پولیٹیکل مفادات کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ روس یوکرائن جنگ شروع ہوئی تو تین سال تک کسی بھی بڑے ملک نے جنگ بندی کے لیے سنجیدہ کوشش نہ کی۔ صدر ٹرمپ کے دوسرے دور صدارت میں پہلی بار گزشتہ ہفتے روس اور یوکرائن نے استنبول میں براہ راست مذاکرات کیے۔ اسرائیل نے غزہ پر جنگ مسلط کی جسے دنیا ڈیڑھ سال سے لائیو دیکھ رہی ہے۔ غزہ کی آبادی اور انفرااسٹرکچر تباہ ہو چکے لیکن عالمی برادری نے جنگ بندی کے لیے عملی کوششیں کرنے سے اغماض کیا۔ 

پاک بھارت جنگ کی طوالت کیا قیامت ڈھاتی، اس کا اندازہ لگانا بھی شاید مشکل ہو۔ اس پس منظر میں اس خطے کی خوش قسمتی ہے کہ جیسے بھی ہوا، جنگ بندی کی جلد صورت نکل آئی۔ اس پیش رفت میں کس نے پہل کی، یہ جاننا اہم ضرور ہے لیکن جنگ بندی کے لیے امریکا اور دوست ممالک متحرک ہوئے اور دونوں ممالک متفق ہو گئے، یہ اہم تر ہے۔ جنگ بندی کے بعد بھارت کی جانب سے مزید شدت کے ساتھ پاکستان دشمنی جاری رہنے کے واضح اشارے ہیں۔ پاکستان دشمنی میں بھارت اس قدر آگے نکل گیا ہے کہ ترکی کی ایک کمپنی جو بھارت میں ایئرپورٹ کے نظم و نسق چلاتی ہے، اسے سیکیورٹی کلیئرنس سے انکار کر دیا گیا۔

یہ کمپنی دہلی ہائی کورٹ میں شکایت لے کر پہنچی ہے۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو اپنے تئیں معطل رکھا ہے۔ رائٹر کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بھارت نے پاکستان کے دریاؤں سے پانی ذخیرہ کرنے کے لیے پانچ نئے ڈیمز کی جگہوں کی نشاندہی اور ایک پرانی نہر کی لمبائی ڈبل کرنے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے۔ سفارتی محاذ پر بھارت سالہاسال سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

سلامتی کونسل ہو یا اقوام متحدہ کے مختلف پلیٹ فارمز، ایف اے ٹی ایف کا فورم ہو یا آئی ایم ایف جیسے ادارے، بھارت نے کبھی بھی پاکستان کی سفارتی اور معاشی مشکلات میں اضافہ کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، بھارت کی یہ روش مزید زور شور سے جاری رہنے کا امکان ہے ۔

جشن فتح منانے کے بعد پاکستان کو اگلے مرحلے کا سامنا ہے جو دشوار تر ثابت ہوسکتا ہے۔ سفارتی اور معاشی محاذ پر مشکلات کا یہ سفر تحمل، سفارتی و سیاسی مہارت اور ٹھہراؤ سے طے ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ بدلتے ہوئے جیو پولیٹیکل اور عالمی معاشی نظام میں رونما تبدیلیوں کا ادراک بھی ضروری ہے۔

ملک میں ایک پائیدار اور اجتماعی (Inclusive) سیاسی نظام، قابلیت اور اہلیت پر مبنی گورننس، پائیدار معاشی ترقی اور بین الصوبائی یگانگت بڑھانے کی ضرورت ہے۔ حتمی فتح کا راستہ یہیں سے نکلے گا۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جنگ بندی کے پاکستان کے پاکستان کی پاک بھارت بھارت کی کے ساتھ کے بعد کر دیا کے لیے

پڑھیں:

پاک سعودی معاہدے میں وسعت کا مطالبہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

۔20 ویں صدی عیسوی کے بہت سے اہم واقعات ہیں جن میں 2 عالمی جنگیں ہوئیں ایک اندازے کے مطابق اس میں مجموعی طور پر دو کروڑ سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ آزادی کی تحریکیں چلیں نو آبادیاتی دور کا خاتمہ ہوا دنیا میں کئی ممالک آزاد ہوئے اس صدی کے اہم واقعات میں خلافت منہاج النبوت کا سقوط بھی ہے جو کم وبیش پچھلے چودہ سو سال سے مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی عقیدت کا مرکز و محور تھا۔ اسی صدی میں دو نظریاتی مملکتیں بھی وجود میں آئیں، ایک اسرائیل جو صہیونیوں کی نظریاتی مملکت ہے اور دوسری مسلمانوں کی نظریاتی ریاست پاکستان ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک برطانوی راج کے دور ذوال میں وجود میں آئیں اسرائیلی حکومت کے قیام کے لیے تو زبردستی فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کرکے اور دنیا بھر سے یہودیوں لاکر یہاں بسایا گیا پہلے تو فلسطینیوں سے بہت مہنگے داموں ان کی زمینیں خریدی گئیں یہ کام 1917 سے شروع ہوا اس سے پہلے یہاں یہودیوں کی آبادی تھی لیکن فلسطین میں بہت بڑی اکثریت مسلمانوں کی تھی اور ان ہی کی حکومت تھی یہودیوں کی آبادی تو دس فی صد سے بھی کم تھی اسی لیے قائد اعظم محمد علی جناح کا کہنا تھا کہ فلسطین صرف مسلمانوں کا ہے اسرئیل تو ناجائز ریاست ہے آج جو لوگ دو ریاستی حل کی بات کررہے ہیں اس کی ہماری حکومت بھی حمایت کررہی ہے یہ قائد کے نظریے سے روگردانی ہے۔ ہم ذکر کررہے تھے بیسویں صدی کے اہم واقعات کا جس میں بات قیام پاکستان تک پہنچی تھی۔ قیام پاکستان کو اس صدی کا معجزہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ برطانوی حکومت کے حلق سے آزادی چھیننا اور ہندو اکثریت کے ظلم کا مقابلہ کرنا اور پھر اس مملکت کے قیام کے بعد بھی لاکھوں افراد کی جان و مال کی قربانیوں کے بعد پاکستان قائم ہوا اور اس کے قیام کے اگلے ہی روز سے اس نوزائیدہ مملکت کو ختم کرنے کی سازشیں شروع ہو گئیں، اور یہ بھی بیسویں صدی کا سانحہ ہے کہ ملک پاکستان کا ایک حصہ مشرقی پاکستان اس سے الگ ہوگیا اس سانحے میں یقینا اپنوں کی غداریوں اور غیروں کی سازشوں کا عمل دخل ہے، پاکستان کمزور ہوگیا لیکن یہ بھی اسی صدی کا معجزہ ہے کہ پاکستان نے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست ہوگی جس نے ایٹمی دھماکا کرکے اپنی سلامتی کو محفوظ کرلیا۔

بیسویں صدی کے اہم واقعات کے بعد ہم اکیسویں صدی کی بات کرتے ہیں۔ اس صدی کے حوالے سے بڑی بڑی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں۔ اس صدی کے سلور جوبلی والے سال میں دو اہم واقعات ہوئے جو ایک طرح سے پوری دنیا کی تاریخ و جغرافیہ بدل دینے کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے، پہلی تو یہ کہ مئی کی پانچ روزہ جنگ جس میں بھارت اور اسرائیل نے مل کر پاکستان پر حملہ کردیا اسرائیل نے اپنے جدید ڈرونز کے ذریعے سے جس کو آپریٹ کرنے کے لیے سو سے زائد انجینئرز بھی آئے تھے حملہ کیا اور بھارت نے بھی اپنی پوری قوت سے حملہ کردیا لیکن پاکستان نے جس طرح ان دونوں ممالک کی جارحیت کا جواب دیا ہے وہ تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ اسرائیل کے ستر سے زائد ڈرونز کو ناکارہ کردیا۔ بھارت نے ہمارے سات ملٹری بیسز پر حملے کیے جبکہ پاکستان نے بھارت کے 27 بیسز کو تباہ کردیا۔ فضائی جنگ بھی بڑی دلچسپ تھی انڈیا کے 33 رافیل سمیت 80 جہاز میزائلوں سے لوڈڈ حملہ کرنے آئے اور اپنی دفاع کے لیے پاکستان کے 40 جہاز فضاء میں مقابلے کے لیے پاکستان کے پاس کوئی رافیل نہیں تھا لیکن اپنا بنایا ہوا J-17 تھنڈر اور چین کے J-10/C  تھے ایک گھنٹے کی اس جنگ کا اسکور چھے صفر رہا یعنی پاکستان نے بھارت کے چھے جہاز گرائے جبکہ بھارت نے کوئی جہاز نہیں گرایا ہمیں اس کی مزید تفصیل میں نہیں جانا بتانا یہ ہے کہ جب بھارت نے پاکستان کے شہر بھاولپور اور مرید کے کی آبادی اور مساجد پر حملہ کرکے ہمارے تیس سے زائد شہریوں کو ہلاک اور دو مساجد کو شہید کردیا توکئی مسلم ممالک نے منع کیا کہ بھارت پانچ گنا بڑی فوجی طاقت رکھتا ہے اس لیے آپ جواب نہ دیں لیکن پاکستان نے کہا اب نہیں تو کبھی نہیں اور دس مئی بھرپور جواب دے کر بھارت کے تکبر کو ملیا میٹ کردیا۔ اس جنگ کے بعد ہی پاکستان کا وقار اقوام عالم میں پہلے سے زیادہ بلند ہوگیا۔

موجودہ صدی کا دوسرا اہم واقعہ ستمبر کے مہینے میں پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ ہے اس پر بات آگے بڑھانے سے پہلے ہم ایک بائیں بازو کے لبرل دانشور کا ایک انگلش کا جملہ نقل کرنا چاہیں گے جو انہوں نے اپنے ٹی وی ٹاک شو میں کہا۔۔ Pak Saudi Accord is the begining of Islami Era یعنی پاک سعودی اتحاد اسلامی نشاۃ ثانیہ کی شروعات ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس معاہدے نے پوری دنیا کا منظرنامہ تبدیل کردیا ہے وہ خلیجی ممالک جو امریکا کو اپنی سلامتی کا ضامن سمجھ رہے تھے۔ دوحا پر اسرائیلی حملے اور امریکا کی مجرمانہ خاموشی نے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا۔ پھر اسرائیل نے برملا یہ اعلان بھی کیا کہ کسی اور عرب ملک پرحملہ کرسکتا ہے دوحا پر حملے کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے اسرائیل کا دورہ کیا اور وہاں اسرائیل کو یقین دلایا کہ امریکا آج بھی اسرائیل کے ساتھ ہے اور کل بھی وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوگا اس کا مطلب یہ ہوا کہ سعودی عرب اور قطر میں امریکا کے جو فوجی اڈے ہیں وہ عرب ممالک کے بجائے اسرائیل کی حفاظت کے لیے ہیں۔ یہ بھی خبر نظر سے گزری کہ جو اسرائیلی طیارے حملہ کرنے آئے تھے دوحا کے فوجی اڈے سے ان کی فیولنگ کی گئی تھی اس واقع نے خلیجی ممالک کی سوچ میں تبدیلی پیدا کی اور پھر یہ پاک سعودی معاہدہ جس پر مہینوں سے کام جاری تھا وجود میں آیا۔ اس معاہدے نے پوری دنیا میں ایک ہلچل سی مچادی ہے دنیا کے بڑے بڑے اخبارات میں اس پر تجزیے اور تبصرے چل رہے ہیں کہ اس معاہدے سے سعودیہ کو ایٹمی اور پاکستان کو معاشی چھتری مل گئی۔ یہ پاکستانی قوم کی خوش قسمتی ہے کہ اسے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے حفاظت کی ذمے داری مل گئی۔

اس معاہدے کے بعد سننے میں آرہا ہے کہ کئی اور ممالک بھی اس میں شریک ہونا چاہتے ہیں 25 ستمبر کے اخبار میں امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کا بیان شائع ہوا ہے کہ پاک سعودی معاہدے میں ایران اور ترکیہ کو بھی شامل کیا جائے انہوں نے کہا کہ امریکا اسرائیل کی پشت پر ہے بار بار جنگ بندی کی قراردد کو ویٹو کرنا اس کی واضح مثال ہے میرے خیال سے حافظ نعیم کے اس مطالبے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس میں ایران اور ترکیہ کے ساتھ دیگر عرب ممالک کو بھی اس معاہدے کی چھتری تلے آجانا چاہیے یہ اتحاد مسلم ممالک کا ناٹو بھی بن سکتا ہے اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمان ملکوں کو اپنے آپس کے اختلافات کو بھی ختم کرنا چاہیے یہ تو بہت اچھا ہوا کہ چین نے ایران اور سعودی عربیہ کے اختلافات ختم کرادیے ابھی ایران اسرائیل جنگ کے دوران ایک سعودی وزیر نے ایران کا دورہ کیا اور سعودی حکومت کا اہم پیغام پہنچایا تھا کہ سعودی عرب فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے اسرائیل سے کسی بھی قسم کے روابط قائم نہیں کرے گا۔ اسی طرح سعودی عرب اور یمن کے اختلافات کو بھی ختم کرانے کی ضرورت ہے۔ بہر حال جس وقت پاکستان نے ایٹمی دھماکا کیا تھا اس وقت مغربی میڈیا نے اس کو اسلامی بم کا نام دیا تھا جواب میں کہا گیا کہ بھارتی ایٹم بم کو ہندو بم کیوں نہیں کہا جاتا اسرائیل کے ایٹم بم کو یہودی بم کہا جائے۔ جس طرح امریکا کا بم امریکی، اسرائیل کا اسرائیلی اور بھارت کا بھارتی ایٹم بم کہلائے گا اسی طرح یہ پاکستانی ایٹم بم ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ مغربی میڈیا کے تجزیے کچھ غلط نہیں تھے۔

جاوید احمد خان

متعلقہ مضامین

  • اگر بھارت نے نئی جارحیت کی کوشش کی تو پاکستان کا جواب سخت ہوگا، آئی ایس پی آر
  • کشمیریوں کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے، محبوبہ مفتی
  • ٹرمپ مودی کشیدگی کی وجہ پاکستان سے ٹرمپ کی قربت
  • پاک سعودی معاہدے میں وسعت کا مطالبہ
  • متنازعہ سر کریک پر بھارت کی پاکستان کو دھمکی
  • طالبان کے وزیرِ خارجہ کا اگلے ہفتے بھارت کا دورہ
  • بھارت میں ’آئی لَو محمد ﷺ‘ مہم میں تیزی، حکومت نے بوکھلاہٹ میں انٹرنیٹ بند کردیا
  • بھارت کی ہندو قیادت کا چھوٹا پن
  • ایس 400
  • بلوچستان میں بھارتی اسپانسرڈ دہشت گردی