بھارتی قیادت امن کی راہ اپنائے
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
پاکستان میں آپریشن بنیان مرصوص کی شاندار کامیابی پر جمعے کو یومِ تشکر بھرپور قومی جذبے، والہانہ عقیدت اور وطن سے غیرمتزلزل وفاداری کے ساتھ منایا گیا۔ وفاقی دارالحکومت، چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں21 توپوں کی سلامی دی گئی۔ وزیر اعظم ہاؤس میں پرچم کشائی کی تقریب ہوئی، وزیراعظم شہبازشریف نے قومی پرچم لہرایا، انھوں نے اسلام آباد میں معرکہ حق اور آپریشن بنیان مرصوص میں شاندار فتح پر یوم تشکر کی خصوصی تقریب سے خطاب کیا۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے اس خصوصی تقریب سے خطاب کے دوران کہا کہ دشمن کے خلاف ہم نے جنگ جیت لی ہے، فتح کے بعد اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو آج وہ مقام عطا کیا ہے کہ اب کوئی بڑی سے بڑی طاقت ہمارا راستہ نہیں روک سکتی۔ ہم نے اپنے دشمن کو سبق سکھا دیا ہے، وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہم امن چاہتے ہیں، ہم جارحیت کی مذمت کرتے ہیں، ہم ہمسائے ہیں اور ہم نے ہمیشہ ایک دوسرے کا ہمسایہ ہی رہنا ہے، جنگوں سے سبق یہی ملا ہے کہ ہم پرامن ہمسایوں کی طرح مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور جموں و کشمیر سمیت تمام مسائل حل کریں، جموں و کشمیر اور پانی کی تقسیم کے مسائل حل ہوجائیں تو پھر اس کے بعد ہم تجارت پر بات کرسکتے ہیں، انسداد دہشت گردی کے میدان میں بھی تعاون کرسکتے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان نے امن اور مذاکرات کی بات کر کے بھارت کی قیادت کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ بھی امن کی بات کا جواب امن کی صورت میں دے۔ بلاشبہ ہمسائے تبدیل نہیں کیے جا سکتے۔ اس لیے ہمسایوں کے درمیان اگر کبھی اختلافات ہو جائیں تو اسے حل کرنے کا بہترین طریقہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر گلے شکوے دور کرنا ہے اور اس حل کے سوا کوئی اور راستہ اختیار کرنا نقصان کا باعث ہی ہو گا۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جنگیں مسئلے یا تنازعات حل نہیں کرتیں بلکہ ان تنازعات کو پہلے سے بھی زیادہ سنگین اور گہرا کر دیتی ہیں۔ آج کی دنیا کا بہترین سبق یہی ہے کہ جنگ سے بچنا ہی درحقیقت ذہانت اور بہترین حکمت عملی ہے۔ پاکستان اور بھارت کی قیادت کو اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ بلاشبہ حالیہ جنگ دونوں ملکوں کے لیے بہتر نہیں لیکن ممکن ہے کہ یہ دونوں ملکوں کے لیے خیرمستور ہی ثابت ہو جائے اور اس میں سے مذاکرات کی راہ نکل آئے اور دونوں ملک اس قابل ہو جائیں کہ وہ اپنے معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کر لیں۔
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے یوم تشکر کی خصوصی تقریب سے خطاب کے دوران واضح کیا کہ آج پوری قوم مسلح افواج کے ساتھ کھڑی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ آج وقت آگیا ہے کہ اس سفر کا آغاز کردیں جس کے لیے پاکستان معرض وجود میں آیا تھا۔اب ہمیں معاشی میدان میں محنت کرنا ہے، اللہ تعالی نے پاکستان کو بے پناہ وسائل اور شاندار اذہان سے نوازا ہے، اگر ہم پرعزم ہوجائیں تو پاکستان ان شاء اللہ دنیا کی دوڑ میں بہت جلد آگے نکل جائے گا۔
وزیراعظم پاکستان نے ان غیرملکی سفیروں کا شکریہ ادا کیا جو پاکستان کے مؤقف کے ساتھ کھڑے رہے اور ان تمام دوست ممالک کا بھی شکریہ ادا کیا جنھوں نے جنگ بندی کی صورت میں اس خطے میں امن کے فروغ میں کردار ادا کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جرأتمندانہ لیڈرشپ اور جنوبی ایشیا میں امن قائم کرنے کے ان کے ویژن پر شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان کی کوششوں کے نتیجے میں دنیا کے اس خطے میں ہولناک جنگ کا خطرہ ٹل گیا، خدانخواستہ اگر جنگ بڑھ جاتی اور ایٹمی ہتھیاروں تک پہنچ جاتی تو تصور کیجیے کہ ایک ارب 60 کروڑ لوگوں میں سے کون یہ بتانے کے لیے زندہ بچتا کہ کیا ہوا تھا۔
وزیراعظم نے واضح کیا کہ پاکستان دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار ملک ہے جس نے 90 ہزار جانیں قربان کی ہیں، اس میں ہمیں ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا معاشی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے، کس قوم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتنا جانی اور مالی نقصان اٹھایا ہے۔ اگر ہماری افواج اور سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کا مقابلہ نہ کررہی ہوتیں تو یہ دنیا کے مختلف خطوں میں پھیل چکے ہوتے، چنانچہ دنیا کو پاکستان کی قربانیوں اور نقصانات کو تسلیم کرنا چاہیے۔
وزیراعظم پاکستان نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، بھارتی قیادت اور اقوام عالم کو اس پر غور وفکر کرنا چاہیے۔ دہشت گرد کسی کے دوست نہیں ہیں۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی کا مائنڈسیٹ پاور کے اصول کے سوا کوئی اور اصول نہیں سمجھتا۔ وہ خود بھی بندوق اور ہتھیار کی زبان استعمال کر کے ملکوں، قوموں اور قبائل کو خوف زدہ کر کے زیرنگیں لا کر ان کے وسائل اپنی مرضی اور مائنڈسیٹ کے مطابق استعمال کرتا ہے اور اپنے زیرقبضہ لوگوں کو چلانے پر یقین رکھتا ہے۔
جمہوریت، مساوات، انسانی حقوق، معاشی مساوات اور پرامن بقائے باہمی جیسے اصول انتہاپسند مائنڈسیٹ کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ پاکستان دہائیوں سے اس مائنڈسیٹ اور انتہاپسندی کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ پاکستان کی مسلح افواج کس قدر خطرناک دشمن سے برسرپیکار ہیں۔ اقوام عالم کو اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے اور بھارت کو خصوصاً اس پہلو کو سامنے رکھ کر پاکستان کے ساتھ معاملات کرنے چاہئیں۔ اب ایسی اطلاعات آ رہی ہیں جن میں بتایا جا رہا ہے کہ بھارت نے پاکستان کا پانی روکنے کے لیے دریائے چناب پر نہر کی توسیع اور دریائے جہلم اور دریائے سندھ پر نئے آبی زخیروں کی تعمیر کا منصوبہ بنا لیا ہے۔
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے جنگ بندی پر اتفاق رائے کے باوجود بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ تاحال معطل ہے بلکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے حکام کو دریائے چناب، جہلم اورسندھ پر پروجیکٹس کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد تیز کرنے کی ہدایت بھی کردی ہے۔
حالانکہ سب جانتے ہیں کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت چناب، جہلم اور دریائے سندھ کا پانی پاکستان استعمال کرتا ہے۔ اب جو باتیں سامنے آ رہی ہیں کہ بھارت دریائے چناب سے نکلنے والی رنبیر نہر کی لمبائی کو دگنا کر کے 120 کلومیٹر تک بڑھاناچاہتا ہے ، یہ نہر انیسویں صدی میں معاہدے پر دستخط ہونے سے قبل تعمیر کی گئی تھی ۔ بھارت کو دریائے چناب سے محدود مقدار میں پانی نکالنے کی اجازت ہے اور وہ بھی صرف آبپاشی کے لیے۔ اگر بھارت اس نہر کی لمبائی بڑھاتا ہے تو ظاہر ہے کہ پانی کی مقدار میں بھی اضافہ ہو گا جو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
پاکستان کے 80 فیصد نظام آبپاشی اورتقریباً تمام ہائیڈرو پاور منصوبوں کا انحصار دریائے سندھ پر ہے۔ واشنگٹن میں قائم سینٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے آبی تحفظ کے ماہر ڈیوڈ مشیل نے کہا کہ دہلی کی جانب سے کوئی بھی ڈیم، نہریں یا دیگر انفرااسٹرکچر تعمیر کرنے کی کوشش، جس سے دریائے سندھ پر بھارت کی طرف پانی کے بہاؤ کو روکا یا موڑا جائے،کی تعمیر میں برسوں درکار ہیں، مئی کے اوائل میں پاکستان میں دریائی نظام سے آنے والے پانی کی سطح اس وقت عارضی طور پر 90 فیصد تک گر گئی تھی جب بھارت نے دریائے سندھ پر تعمیر کردہ بعض پروجیکٹس کا مرمتی کام شروع کیا تھا۔
رائٹرز نے دو سرکاری دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے اس سے متعلقہ پانچ افراد کا مؤقف لیا ،جن کا کہنا تھا کہ نہر رنبیر کو وسعت دینے کے منصوبوں کے ساتھ ساتھ، بھارت ان منصوبوں پر بھی غور کر رہا ہے جن سے ممکنہ طور پر پاکستان کے لیے مختص کردہ دریاؤں سے پاکستان میں پانی کا بہاؤ کم ہو جائے گا۔دہلی نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے میں ہائیڈرو پاور منصوبوں کی ایک فہرست بھی تیار کی ہے۔
وزارتِ بجلی کی دستاویز کے مطابق بھارت نے کم از کم پانچ ڈیموں کے لیے موزوں مقامات کی نشاندہی بھی کرلی ہے جن میں سے چار دریائے چناب اور ایک دریائے جہلم کے معاون دریا پر بنایا جائے گا۔ پہلگام واقعہ کے بعد تیار کی جانے والی وزارت بجلی کی دستاویز کے مطابق آبپاشی کے منصوبوں پر کام کرنے والے ماہرین نے تجویز دی ہے کہ دریائے سندھ، چناب اور جہلم کا پانی شمالی ہندوستان کی تین ریاستوں میں ممکنہ طور پر دریاؤں میں تقسیم کیا جائے۔ ادھر پاکستان نے کہا ہے کہ وہ کئی بین الاقوامی فورمز، بشمول ورلڈ بینک،مستقل ثالثی کی عدالت یا بین الاقوامی عدالت انصاف میں قانونی کارروائی کی تیاری کر رہا ہے۔
بھارت کے اس قسم کے اقدامات اس خطے کے حالات کو مزید خراب کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ بھارتی قیادت کو چاہیے کہ وہ پاکستان کی جانب مذاکرات کا ہاتھ بڑھائے۔ دونوں ملکوں کی قیادت مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر تمام مسائل حل کرنے کی قابلیت اور اہلیت رکھتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں قیام امن کا یہ بہترین موقع ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دریائے سندھ پر دریائے چناب پاکستان نے مذاکرات کی پاکستان کے بھارت کی کے مطابق کے ساتھ ہے اور کے لیے کہا کہ رہا ہے
پڑھیں:
بھارتی اقدام کے بعد پاکستان کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھانے کا فیصلہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 جولائی 2025ء) پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھارت کی جانب سے پانی کو ہتھیار بنانے کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
منگل کے روز نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (این ای او سی) کے دورے کے دوران وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ بھارت کو سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے، کہا کہ ایک بین الاقوامی عدالت (ثالثی کی مستقل عدالت) نے ایک ضمنی حکم کا اعلان کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا، "لیکن دشمن کے پاکستان کے خلاف کچھ ناپاک عزائم ہیں اور وہ آبی معاہدے کے خلاف اقدامات کرنا چاہتا ہے۔ اسی لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنا پانی ذخیرہ کریں گے۔
(جاری ہے)
"
شہباز شریف نے کہا کہ حکومت دیامر بھاشا ڈیم اور دیگر پانی کے وسائل کو بروئے کار لا کر ایک "غیر متنازعہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت" بڑھائے گی۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ 1991 کے پانی کے معاہدے میں صوبوں کے درمیان پانی کی گنجائش بڑھانے کی واضح شق موجود تھی۔ انہوں نے کہا کہ "ہم اگلے چند سالوں میں اپنے وسائل سے یہ صلاحیت پیدا کریں گے۔ اس میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا اہم کردار رہے گا۔"
بھارت: پاکستان کے ساتھ تصادم میں جنگی طیاروں کے نقصان کا 'اعتراف‘
انہوں نے مزید کہا کہ اسی کے پیش نظر حکومت نے صوبوں کے ساتھ واٹر ایکارڈ کے تحت غیر متنازعہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے منصوبوں کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
سندھ طاس آبی معاہدہ اور ہیگ کی عدالتبھارت نے اپریل میں اپنے زیر انتظام کشمیر کے پہلگام میں ہونے والے حملے کے بعد سندھ طاس معاہدہ (انڈس واٹر ٹریٹی) منسوخ کر دیا تھا۔ اس حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے تھے اور نئی دہلی نے بغیر کسی ثبوت کے اس کا الزم پاکستان سے اعانت حاصل کرنے والے عسکریت پسندوں پر عائد کیا تھا۔
پاکستان نے اس الزام کو سختی سے مسترد کر دیا تھا اور واقعے کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تفتیش کی پیش کش کی تھی، جسے بھارت نے تسلیم نہیں کیا۔
بھارت کا شنگھائی تعاون تنظیم کے مشترکہ بیان پر دستخط کرنے سے انکار
سندھ طاس آبی معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان سندھ طاس کے چھ دریاؤں کے پانی کو مختص کرتا ہے۔ اس کے تحت بھارت کو مشرقی دریا (راوی، بیاس، ستلج) کے پانی پر حق ہے۔ جب کہ پاکستان کو تقریباً 80 فیصد پانی مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) سے حاصل ہوتا ہے۔
پاکستان نے اپنے پانی کے حصے کو معطل کرنے کی کسی بھی کوشش کو "ایکٹ آف وار" یعنی جنگی عمل قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے۔
بعد میں اس نے معاہدوں کے قانون پر سن 1969 کے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا حوالہ دیتے ہوئے بھارت کے خلاف عدالتی کارروائی پر غور کرنے کی بات کہی۔
گزشتہ ہفتے ہی ہیگ میں ثالثی کی مستقل عدالت (پی اے سی) نے یہ فیصلہ سنایا کہ بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس آبی معاہدے کو منسوخ نہیں کر سکتا۔
بھارتی بحریہ کا اہلکار پاکستان کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار
پاکستان قدرتی آفات کی زد میںپاکستان کے قومی ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے اپنے ریمارکس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اس موقع پر 2022 کے سیلاب کے تباہ کن اثرات کو بھی یاد کیا، جس کی وجہ سے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مصائب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بدقسمتی سے ان ممالک میں شامل ہے، جو بادل پھٹنے جیسی قدرتی آفات سے سب سے زیادہ خطرے میں ہیں، جبکہ عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اس کا حصہ بہت کم ہے۔
وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے تعاون سے فون پیغامات کے ذریعے موسم کی وارننگ اور آفات کے خطرات کو باقاعدگی سے جاری کیا جانا چاہیے۔
ٹرمپ کا ثالثی کا دعویٰ: بھارت امریکہ کے درمیان تناؤ کا باعث
ان کا مزید کہنا تھا کہ گرمی کی لہروں سے گلیشیئرز پگھلنے کے واقعات پیش آ رہے ہیں، جس سے نمٹنے کے لیے اعلیٰ ترین سطح کی تیاری کی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سوات میں جو کچھ بھی، ہوا، جس میں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، اس نے پوری قوم کو اداس کر دیا ہے اور اس بات پر زور دیا کہ اس معاملے میں متعلقہ فریقوں کو اس واقعے کا دیانتدارانہ جائزہ لینا چاہیے۔
انہوں نے مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے صوبوں کے ساتھ مل کر ایک جامع میکنزم بنانے کی ہدایت کی۔ وزیر اعظم نے اس حوالے سے رپورٹ بھی طلب کی ہے۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)