خود اعتمادی کا حصول اور استعمال
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
اسلام ٹائمز: خود اعتمادی کیلئے بچے کو دو چیزوں کا سکھانا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ میرے دور کی خصوصیات اور ضروریات کون سی ہیں۔؟ یعنی میں کس زمانے کا انسان ہوں؟ اور دوسرے یہ کہ میں اپنے زمانے کے تقاضوں کو کیسے پورا کرسکتا ہوں۔؟ یعنی میں اپنے زمانے کے تقاضوں کے ساتھ کیسے چل سکتا ہوں۔؟ واضح رہے کہ خود اعتمادی یہ نہیں کہ ہم کبھی نہ گریں، بلکہ یہ ہے کہ ہر گرنے کے بعد خدا پر توکل کرتے ہوئے اٹھ کر اپنے سفر کو جاری رکھیں۔ جس انسان کو اپنے قدموں پر یقین نہ ہو تو اُسے زمین پر گرنے کیلئے کسی اونچے پہاڑ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر سات سال کی عمر میں بچے کی ٹانگیں مضبوط نہ ہوں تو ساٹھ سال کی عمر میں تو ویسے ہی کانپیں ٹانگ جاتی ہیں۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
میرے ایک چھوٹے سے ہمسائے کی عُمر ابھی صرف سات سال ہے۔ وہ سکول بس میں سوار ہونے کیلئے روزانہ اپنے والد صاحب کے ساتھ بس اسٹاپ تک جاتا ہے۔ اِن دنوں اُس کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ شاید یہی سکول آنا جانا ہے۔ اپنی زندگی کے پہیے کو دوسروں کے ریلے کے ساتھ گھمانے سے مشکلات حل نہیں ہوتیں۔ لہذا حسین کیلئے ضروری ہے کہ اگلے چند سالوں میں وہ تنہاء بس اسٹاپ تک جانا سیکھ جائے۔ گزشتہ روز اتوار تھا۔ اُس دن بھی حسین مجھے گلی میں ٹیویشن پڑھنے کیلئے جاتا دکھائی دیا۔ یعنی وہ اتوار کو بھی پڑھائی کی چھٹی نہیں کرتا۔ اس عمر میں تعلیم اُس کی بہت ساری تفریحات اور کھیلوں کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ میں اُس کے والدین سے بھی کبھی کبھار ملتا رہتا ہوں۔ وہ اُس کی تعلیم کو ہی اُس کیلئے تفریح و تربیّت بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔ تعلیم اور تذکیہ نفس، تعلیم اور تفریح، تعلیم اور سیروسیاحت یہ سب حقیقت میں ایک ہی ہیں۔ انہیں الگ الگ دیکھنا اور الگ انجام دینے کی کوشش کرنا سات سالہ حُسین سے سکون، اطمینان اور خود اعتمادی چھیننے کیلئے کافی ہے۔
اپنی زندگی کی موجودہ مشکلات کو عبور کرنے کیلئے حسین کو اِن دنوں بہت زیادہ خود اعتمادی چاہیئے۔ چونکہ خود اعتمادی کا حامل انسان اپنے حالات کو ایک سیڑھی طرح دیکھتا اور اوپر چڑھتا رہتا ہے۔ حسین کے والدین، عزیز و اقارب، اساتذہ اور ہمسایوں کو یہ احساس کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی انسان یا معاشرے کی سب سے بڑی جنگ وہ ہوتی ہے، جو وہ احساسِ کمتری کے خلاف لڑتا ہے۔ خود اعتمادی وہ روشنی ہے، جو اندھیروں میں بھی راستہ دکھاتی ہے، مگر اکثر لوگ اپنے بچوں، شاگردوں اور عزیز و اقارب کی روشنی کو احساسِ کمتری و مایوسی کے سائے میں دبا دیتے ہیں۔ پروردگار ایسے لوگوں کو جنجھوڑ کر کہتا ہے: "وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُؤْمِنِينَ"، "کمزور نہ پڑو اور نہ غمگین ہو، اگر تم مومن ہو تو تم غالب رہو گے۔" (سورۃ آل عمران: 139) خود اعتمادی کے حصول کیلئے خدا پر توکل اور اُس سے دعا کرنا ضروری ہے۔ جب انسان خود اعتمادی کے ساتھ خدا سے لو لگاتا ہے تو اُس کیلئے پہاڑوں اور سمندروں میں بھی راستے بن جاتے ہیں۔ اسی لئے تو قرآن مجید کہتا ہے: "ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ"، "تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔" (سورۃ غافر: 60)
حسین جیسے ہزاروں بچے روزانہ سکول بس پر سوار ہوتے ہیں۔ کیا اُن سب کے والدین اور اساتذہ یہ جانتے ہیں کہ حسین کی اسکول بس کی مکینیکل حالت اور ڈرائیور کی ذہنی و اخلاقی صحت کیسی ہے۔؟ گھر سے نکلنے کے بعد بچے کو کہیں خوف و وسواس کی زنجیریں تو نہیں جکڑ لیتیں۔ یہ خوف اُستادوں کی ڈانٹ ڈپٹ، مار پیٹ، کلاس فیلوز کی منفی رقابت اور سکول بس کے ڈرائیور کے سخت روییّے کا بھی ہوسکتا ہے۔ ایسے میں خود اعتمادی ہی وہ چابی ہے، جو بچے کی زبان کھولتی ہے۔خود اعتمادی یہ نہیں کہ بچے خطرات سے خوف محسوس نہ کریں بلکہ خود اعتمادی یہ ہے کہ بچے خوف کے بارے میں اپنے والدین اور استادوں کو اپنے مسائل سے آگاہ کرسکیں اور اپنے اوپر اعتماد کرتے ہوئے والدین و اساتذہ کی رہنمائی میں آگے بڑھتے رہیں۔ بچے کی خود اعتمادی کے فقدان کی ایک وجہ اُس کیلئے منزل کی واضح تصویر کا نہ ہونا ہے۔ میرے کم سِن ہمسائے "حسین" کی منزل ان دنوں سکول جانا ہی ہے۔ کیا اگلے چند سالوں میں بھی اُس کی منزل صرف سکول جانا ہی ہوگی۔؟ کیا ساری زندگی اُس کی منزل سکول، کالج، یونیورسٹی اور دفتر جانا ہی ہونی چاہیئے۔؟
حسین کے والدین اور اساتذہ کیلئے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ حسین کے دل و دماغ میں اُس کی زندگی کا واضح نقشہ ابھار سکیں۔ آپ دو آدمیوں کو انتہائی زرخیز زمین دے دیں۔ اگر ایک کے پاس زراعت کی جانکاری ہو، وہ جانتا ہو کہ اس زمین سے مجھے کیا کرنا ہے تو اُس کی زمین سونا اُگلے گی جبکہ دوسرا اتنی زمین دیکھ کر خوابوں میں کھویا رہے گا۔ نقصان اور خسارے کا واویلا کرے گا اور آنسو بہاتا ہوا نظر آئے گا۔ پس حسین کی طرح ہر انسان کی خود اعتمادی کی جڑ اُس کے دماغ کے اندر موجود زندگی کے نقشے میں ہے، باہر نہیں۔ انسان کے پاس اُس کی منزل کا نقشہ نہ ہو تو اُس کے سُنہرے خواب محض سراب ہوتے ہیں۔ حسین روزانہ مقررہ وقت پر بس اسٹاپ پہنچتا ہے۔ کل کو وہ اپنی زندگی میں جو بھی بنے گا، اُس کی ناکامیوں یا کامیابیوں کا وہ اکیلے سبب نہیں ہوگا۔ حسین سمیت ہر بچہ بڑا ہو کر اپنے والدین، اُستادوں، دوستوں اور ماحول کا چلتا پھرتا عکس ہوتا ہے۔
کچھ اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اپنے اور اپنے بچوں کیلئے زرخیز ماحول کی تلاش بھی خود اعتمادی کے بغیر ممکن نہیں۔ جیسے ایک پودا روشنی کی تلاش میں زمین کی گہرائی میں جڑیں گاڑھتا اور بڑھتا جاتا ہے، ویسے ہی انسان کو بھی جہاں اچھا ماحول ملے، وہاں اسے اپنی جڑیں گاڑھنی چاہیئے۔ انسان، پتھر کی مانند نہیں ہے کہ وہ اپنا ماحول تبدیل نہ کرسکے اور جہاں ہے، وہیں پڑا رہے۔ اچھے ماحول کی تلاش میں ناکامی وہ نہیں، جو ہمیں گرا دے بلکہ وہ ہے، جو ہمیں اچھے ماحول میں جڑیں گاڑھنے سے روکے۔ حسین جیسے سکول جاتے ہر بچے کیلئے آج کا دن کل کا ماضی ہوگا۔ ماضی کی ناکامیاں دراصل اس وقت کی زندگی کا عکس ہوتی ہیں، جب ہم زندگی کو مکمل طور پر سمجھ نہیں پائے تھے۔ زندگی کو سمجھنے میں شکست کے تجربے سے گزرنا بھی ضروری ہے۔ ماضی کی شکست و ریخت انسان کو یہ سکھاتی ہے کہ اُس کا اصل مقام اس کی ہمت میں چھپا ہوتا ہے، نہ کہ اس کی کامیابیوں میں۔
انسان کا ماضی اُس کی تقدیر کا تعین نہیں کرتا بلکہ ماضی کے تجربات اُن تُند و تیز طوفانی ریلوں کی مانند ہوتے ہیں، جو راستے کی چٹانوں کو بہا کر لے جاتے ہیں۔ ماضی کا فقط وہ حصّہ قابلِ غور ہوتا ہے، جس سے ہم نے کچھ سیکھا اور اُس سے ہماری خود اعتمادی میں اضافہ ہوا۔ حسین کے اسکول بیگ یعنی بستے کو معمولی نہ سمجھئے۔ اُس کا بستہ اُس کی خود اعتمادی کا خزانہ ہے۔ وہ تو اپنا بستہ اٹھا کر روزانہ سکول جاتا ہے، لیکن اُس کی عمر کے سینکڑوں بچے بالکل سکول جاتے ہی نہیں۔ کیا سکول انتظامیہ اور والدین کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے کہ روزانہ اُٹھایا ہوا یہ بستہ حسین کی خود اعتمادی میں اضافے کا باعث بھی بنتا ہے یا نہیں۔؟ کیا جو بچے روزانہ بستہ اٹھا کر سکول نہیں جاتے، وہ خود اعتمادی کے لحاظ سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔؟ کیا بچوں کے والدین اور اساتذہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھنے کا سب سے اہم آلہ علم ہے۔ صرف یہی ایک آلہ ہے، جو زندگی کی تاریک راہوں میں انسان کی خود اعتمادی وبصیرت کو بڑھانے کا ذریعہ ہے۔
علم نہ ہو تو خود اعتمادی و بصیرت کیسی اور زندگی میں بلند درجات و ارتقا کا امکان کہاں!۔ کیا ہمارے ہاں کے اساتذہ اور والدین نے کبھی بچوں کے اسکول بیگز کو کھول کر یہ اندازہ لگایا ہے کہ ان بیگز میں کتابیں و کاپیاں کتنی ہیں اور خود اعتمادی کتنی ہے؟ کیا ہماری اس طرف بھی توجہ ہے: "يَرْفَعِ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ"، "اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اور جنہیں علم دیا گیا ہے، بلند درجات دیتا ہے۔" (سورۃ المجادلہ: 11) خود اعتمادی کے بغیر کاپیاں و کتابیں انسان کے کسی دکھ کی دوا نہیں۔ اس کے بغیر انسانی زندگی خزاں کے موسم میں کسی درخت کے لرزتے پتے کی مانند ہے۔ خود اعتمادی کیلئے بچے کو دو چیزوں کا سکھانا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ میرے دور کی خصوصیات اور ضروریات کون سی ہیں۔؟ یعنی میں کس زمانے کا انسان ہوں؟ اور دوسرے یہ کہ میں اپنے زمانے کے تقاضوں کو کیسے پورا کرسکتا ہوں۔؟ یعنی میں اپنے زمانے کے تقاضوں کے ساتھ کیسے چل سکتا ہوں۔؟ واضح رہے کہ خود اعتمادی یہ نہیں کہ ہم کبھی نہ گریں، بلکہ یہ ہے کہ ہر گرنے کے بعد خدا پر توکل کرتے ہوئے اٹھ کر اپنے سفر کو جاری رکھیں۔ جس انسان کو اپنے قدموں پر یقین نہ ہو تو اُسے زمین پر گرنے کیلئے کسی اونچے پہاڑ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر سات سال کی عمر میں بچے کی ٹانگیں مضبوط نہ ہوں تو ساٹھ سال کی عمر میں تو ویسے ہی کانپیں ٹانگ جاتی ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: میں اپنے زمانے کے تقاضوں خود اعتمادی یہ کہ خود اعتمادی کی خود اعتمادی خود اعتمادی کے سال کی عمر میں والدین اور کے والدین کی ضرورت انسان کو والدین ا ضروری ہے یہ ہے کہ نہ ہو تو سکول بس کی منزل کے ساتھ حسین کے حسین کی سات سال جاتے ہی تعلیم ا ہے کہ ا ہیں کہ بچے کی
پڑھیں:
سرکاری افسران کیلئے کرپشن کا دروازہ بند
قیصر کھوکھر : سرکاری افسران کیلئے کرپشن کا دروازہ بند، اپنے اور اہل خانہ کے اثاثوں کی تفصیلات ظاہر کرنا ہوں گی۔
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ سول سرونٹ اپنے اور اہلخانہ کے اثاثوں کی تفصیلات ظاہر کرنے کے پابند ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق سول سرونٹ ایکٹ کی شق 15 کے بعد شق نمبر 15 اے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سول افسران کے اثاثوں کی تفصیلات پبلک کی جائیں گی، گریڈ 17 سے 22 کے سول افسران اپنے تمام ملکی اور غیر ملکی اثاثے ظاہر کرنے کے پابند ہوں گے۔ سول سرونٹ افسران اپنی اہلیہ اور زیرکفالت بچوں کے ملکی، غیرملکی اثاثے اور قرض کی تفصیلات بھی فراہم کرنے کے پابند ہوں گے، سول سرونٹ افسران اپنے اور اہلخانہ کے اثاثوں کی تفصیلات ایف بی آر کو فراہم کریں گے، سول افسران کے اثاثوں کی تفصیلات پبلک کی جائیں گی۔ ذرائع کے مطابق اس اقدام کا مقصد بدعنوانی کاخاتمہ کرنا ہے ۔
آج کے گوشت اور انڈوں کے ریٹس -جمعہ16 مئی , 2025
Ansa Awais Content Writer