UrduPoint:
2025-07-03@22:39:55 GMT

سابق امریکی صدر بائیڈن میں 'جارحانہ' کینسر کی تشخیص

اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT

سابق امریکی صدر بائیڈن میں 'جارحانہ' کینسر کی تشخیص

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 مئی 2025ء) سابق امریکی صدر جو بائیڈن کے دفتر نے اتوار کے روز بتایا کہ ان میں جمعے کے روز پروسٹیٹ کینسر کی ایک "جارحانہ" شکل کی تشخیص ہوئی ہے۔

ان کے دفتر نے کہا، "گرچہ یہ بیماری کی زیادہ جارحانہ شکل کی نمائندگی کرتی ہے، تاہم کینسر ہارمون کے تئیں حساس معلوم ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اس کا موثر انتظام ممکن ہے۔

"

پروسٹیٹ کینسر کی شدت کے لحاظ سے ایک سے 10 کے پیمانے پر درجہ بندی کی جاتی ہے، جسے گلیسن اسکور کہا جاتا ہے۔

جو بائیڈن کا آخری خطاب: 'طبقہ امراء' کے ہاتھ میں اقتدار کے خلاف تنبیہ

اس حوالے سے بیان میں کہا گیا ہے کہ بائیڈن کے پروسٹیٹ کی تشخیص کو نو کا گلیسن اسکور دیا گیا ہے، یعنی اس کے اثرات ہڈی تک پھیل چکے ہیں۔

(جاری ہے)

بیان میں مزید کہا گیا کہ 82 سالہ بائیڈن اپنے اہل خانہ کے ساتھ علاج کی تفصیلات کا جائزہ لے رہے ہیں۔

بائیڈن کا خاندان پہلے بھی اس بیماری سے متاثر ہو چکا ہے اور جو بائیڈن کے بیٹے بیو کا سن 2015 میں دماغی کینسر سے انتقال ہو گیا تھا۔

بائیڈن دور میں امریکہ، اتحادیوں کے قدم مضبوط ہوئے، سلیوان

جو بائیڈن کا سیاسی کیریئر

جو بائیڈن نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز سن 1972 میں اس وقت کیا، جب وہ شمال مشرقی ریاست ڈیلاویئر کے سینیٹر منتخب ہوئے۔

اس عہدے پر انہوں نے چھ بار خدمات انجام دیں۔

سن 2009 اور 2017 کے درمیان براک اوباما کے دو صدارتی ادوار کے دوران 47 ویں نائب صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے بعد بائیڈن نے موجودہ ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دے کر 2021 سے 2025 تک صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

انہوں نے جولائی 2024 میں جسمانی صحت اور ذہنی تندرستی کے بارے میں میڈیا کی شدید تشویش کے درمیان دوبارہ انتخاب میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔

اس طرح بائیڈن کی سابق نائب صدر کملا ہیرس نے ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی تسلیم کی اور انتخاب لڑا، تاہم انہیں ٹرمپ کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

بائیڈن نے جب 2020 کا الیکشن جیتا تھا، تو وہ امریکی تاریخ کے معمر ترین صدر تھے۔ تاہم چار برس بعد 78 سالہ ٹرمپ نے اس ریکارڈ کو بھی توڑ دیا۔

صدر بائیڈن نے اپنے بیٹے ہنٹر کے مجرمانہ الزامات معاف کر دیے

کینسر کی بیماری پر رد عمل

بائیڈن کے جانشین ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر ایک پوسٹ میں اس خبر پر افسوس کا اظہار کیا۔

ٹرمپ نے کہا، "میلانیا اور مجھے جو بائیڈن کی حالیہ طبی تشخیص کے بارے میں سن کر دکھ ہوا ہے۔ ہم جِل اور خاندان کے لیے اپنی گرم جوشی اور نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں، اور ہم جو کی جلد اور کامیاب صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔"

کملا ہیرس، جنہوں نے بائیڈن کے ماتحت نائب صدر کے طور پر خدمات انجام دیں، کہا کہ وہ فی الوقت سابق صدر کو اپنے خاندان کے "دلوں اور دعاؤں" میں رکھتی ہیں۔

انہوں نے کہا: "جو ایک فائٹر ہیں اور میں جانتی ہوں کہ وہ اس چیلنج کا مقابلہ اسی طاقت، لچک اور امید کے ساتھ کریں گے، جو ہمیشہ ان کی زندگی اور قیادت کی پہچان رہا ہے۔"

ٹرمپ اور بائیڈن کی ملاقات، اقتدار کی پرامن منتقلی کا وعدہ

سابق صدر براک اوباما، جن کے ماتحت بائیڈن نائب صدر رہے تھے، نے بھی اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

اوباما نے کہا، "کسی بھی شخص نے کینسر کی تمام شکلوں کا کامیاب علاج تلاش کرنے کے لیے جو بائیڈن سے زیادہ کام نہیں کیا اور مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے ٹریڈ مارک کے عزم اور فضل کے ساتھ اس چیلنج کا مقابلہ کریں گے۔ ہم ان کی جلد اور مکمل صحت یابی کے لیے دعا گو ہیں۔"

ادارت: جاوید اختر

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے خدمات انجام جو بائیڈن بائیڈن کے بائیڈن نے کینسر کی نے کہا کے لیے

پڑھیں:

مائیکرو سافٹ کا نیا اے آئی ڈاکٹر:تشخیص میں انسانوں سے 4 گنا بہتر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا دائرہ کار تیزی سے پھیل رہا ہے اور اب یہ شعبہ طب میں بھی انقلابی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن رہا ہے۔

حال ہی میں ٹیکنالوجی کی دنیا کی بڑی کمپنی مائیکرو سافٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ایک ایسا اے آئی ماڈل تیار کر لیا ہے جو بیماریوں کی تشخیص میں تجربہ کار ڈاکٹروں سے بھی 4گنا زیادہ مؤثر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔

مائیکرو سافٹ کا یہ نیا ماڈل جسے AI Diagnostic Orchestrator کا نام دیا گیا ہے، جدید مشین لرننگ کی بنیاد پر ایک ایسے ورچوئل ڈاکٹرز کے پینل کو فعال کرتا ہے جو بیک وقت کئی زاویوں سے مریض کے مسائل کا جائزہ لے کر درست تشخیص کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کمپنی کے مطابق اس ماڈل نے طبی تشخیص کے ایک تحقیقی جائزے میں 85.5 فیصد درست نتائج دے کر ماہر ڈاکٹروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

یہ دعویٰ نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع ہونے والی ایک تفصیلی تحقیق میں پیش کیا گیا، جس میں 304 کلینیکل کیسز کا جائزہ لیا گیا۔ تحقیقی عمل کے دوران اے آئی ماڈل نے نہ صرف مریضوں سے سوالات کیے بلکہ ٹیسٹ کی ہدایات بھی دی اور فیصلہ سازی کے اس نازک اور پیچیدہ عمل کو از خود مکمل کیا۔

اہم بات یہ ہے کہ یہ اے آئی نہ صرف ڈیٹا کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے بلکہ سوالات اور جوابات کے ذریعے انسانی ڈاکٹروں جیسا تجزیاتی مکالمہ بھی قائم کرتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ ٹیکنالوجی کلینیکل سطح پر قابل عمل ثابت ہو گئی تو یہ میڈیکل شعبے میں ایک نئی انقلابی جہت متعارف کرائے گی۔ پیچیدہ یا مبہم طبی کیسز میں، جہاں انسانی تشخیص وقت لے سکتی ہے یا محدود ہوسکتی ہے، وہاں یہ اے آئی سسٹم ڈاکٹروں کے لیے ایک بہترین معاون کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

مائیکرو سافٹ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ فی الحال یہ ماڈل حقیقی دنیا میں مکمل استعمال کے لیے تیار نہیں ہے اور اس کی مزید جانچ اور کلینیکل آزمائش کی ضرورت ہے تاکہ اسے محفوظ اور مؤثر انداز میں مریضوں کی خدمت کے لیے استعمال کیا جا سکے۔

دوسری جانب گوگل بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں۔ گزشتہ برس اگست میں گوگل کی جانب سے بھی ایک نیا اے آئی ماڈل متعارف کرایا گیا تھا جسے “Health Acoustic Representations” کا نام دیا گیا۔ یہ ماڈل کھانسی کی آواز کے تجزیے سے بیماریوں کی ابتدائی شناخت کے لیے استعمال ہوتا ہے، بالخصوص ٹی بی (تپ دق) اور پھیپھڑوں کے دیگر امراض کی شناخت میں اسے کافی مؤثر پایا گیا ہے۔

گوگل کے اس ماڈل میں مشین لرننگ الگورتھمز استعمال کیے گئے ہیں جو کھانسی کی آواز میں موجود معمولی تبدیلیوں کو بھی شناخت کر سکتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق یہ اے آئی نظام ابتدائی مرحلے میں ہی ان علامات کی نشاندہی کر سکتا ہے جنہیں انسانی کان نظرانداز کر دیتا ہے اور یوں کم وسائل والے علاقوں میں صحت کی سہولیات بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔

دونوں ٹیکنالوجی کمپنیوں کی یہ پیشرفت دراصل اس بات کا ثبوت ہے کہ مستقبل کی صحت کی سہولیات میں مصنوعی ذہانت ایک بنیادی کردار ادا کرنے والی ہے۔ جہاں ایک طرف انسانی ڈاکٹرز کا تجربہ اور فہم اہمیت رکھتا ہے، وہیں اے آئی کی تیزرفتار، ڈیٹا پر مبنی فیصلہ سازی صحت کے شعبے میں جدت کی راہیں ہموار کر رہی ہے۔

ماہرین اس بات پر بھی زور دے رہے ہیں کہ ان سسٹمز کو مکمل طور پر انسانی ڈاکٹروں کا متبادل نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ مستقبل میں ایک سپورٹ سسٹم کے طور پر کام کریں گے جو پیچیدہ طبی صورتحال میں ڈاکٹروں کی مدد کریں گے اور مریضوں کے لیے بہتر اور تیز علاج کی راہیں کھولیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • کیٹ مڈلٹن کی کینسر سے صحتیابی کے مشکل سفر پر لب کشائی
  • صدارتی عہدہ خطرناک ،’پہلے معلوم ہوتا تو صدر نہ بنتا‘، ٹرمپ اپنے عہدے سے پریشان
  • امریکا مت آئیو
  • صدر ٹرمپ کی تباہ کن پالیسیاں
  • برطانوی شہزادی نے کینسر سے صحتیابی کے انتہائی درد بھرے لمحات کی روداد سنا دی
  •  جے شنکر کا نیا فیک بیانیہ؛ پورس کا ہاتھی بن کر اپنے "اب تک دوست" ٹرمپ کو ہی جھٹلا دیا
  • مائیکرو سافٹ کا نیا اے آئی ڈاکٹر:تشخیص میں انسانوں سے 4 گنا بہتر
  • بھارت کے سابق جرنیل کی اپنی مسلح افواج اور مودی سرکار کو اہم وارننگ
  • یہ لوگ میرے بھائیوں کی طرح ہیں میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا،سابق سی آئی اے افسر کی آئی ایس آئی کی تعریف
  • عام ٹیسٹ دل کی خطرناک بیماری کی تشخیص میں ناکام