سندھ اسمبلی کے اجلاس سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی نے کہا کہ کے الیکٹرک کے دفتر شہریوں کے لیئے نو گو ایریا ہیں، جمعرات کو ہم نے پاور کمپنیوں کا اجلاس بلایا ہے، سکھر حیدر آباد کی بھی یہ ہی صورتحال ہے کمیٹی کے اجلاس میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔ اسلام ٹائمز۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر علی خورشیدی نے حالیہ قیامت خیز گرمی کے دوران کراچی میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ پر سخت احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اہم عوامی مسئلہ پر شہر کے منتخب نمائندوں کی بات کوئی سننے کو تیار نہیں ہے۔  سندھ اسمبلی کے اجلاس سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بجلی کی ترسیل کا نظام ایک پرائیویٹ کمپنی کے پاس ہے آج بھی شہر میں 16 سے 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے، کراچی کے تمام ارکان اسمبلی کے ہر حلقے میں لوڈ شیڈنگ ہے، لوگ اراکین اسمبلی سے رابطہ کرتے ہیں اور اپنے عوامی نمائندوں کے پاس شکایت لے کر آتے ہیں۔ علی خورشیدی نے کہا کہ ہم نے تمام شکایات کے الیکٹرک تک پہنچا بھی دیں مگر ان کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ انہوں نے کہا کہ مقامی حکومت ہو صوبائی حکومت ہو یا پھر وفاقی حکومت کراچی کے مسئلے پر تمام حکومتوں کی بے حسی واضح طور پر نظر آ رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایم پی ایز کی بات سننے کے لیئے کوئی تیار نہیں ہے۔

علی خورشیدی نے کہا کہ کراچی صوبائی دارالحکومت ہے، بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ یہ شہر ملک کا معاشی حب ہے اور تمام شہروں سے یہ مختلف شہر بھی ہے مگر دو کروڑ آبادی والے اس شہر کا کوئی پرسان حال نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کی آبادی ساڑھے تین کروڑ سے کم نہیں ہے لیکن پھر بھی اس شہر میں بنیادی ضروریات دستیاب نہیں ہیں حکومت اگر اچھی حکومت ہے تو وہ اس شہر میں کم از کم بنیادی ضروریات تو دے۔ انہوں نے کہا کہ شہر کراچی میں جو سہولیات ہیں وہ ہیں کتنی، دنیا اس شہر کے بارے میں کیا رائے رکھتی؟ یہ شہر دنیا کی پانچ بد ترین شہروں میں شمار ہونے لگا ہے مگر حکومت نے 17 سال سے شہر کو ایک قطرہ بھی اضافی پانی نہیں دیا ہے، 15 ہزار بسوں کی ضرورت ہے حکومت 17 سالوں میں صرف 400 بسیں لا سکی ہے۔ علی خورشیدی نے کہا کہ میں تو سپہ سالار سے اپیل کر رہا ہوں کہ ہمارے لئے بجلی کی لوڈشیڈنگ کرنے والے بھارت سے کم نہیں ہیں ان کے خلاف بھی اسی طرح کا ایکشن ہونا چاہیئے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ علی خورشیدی نے سندھ اسمبلی

پڑھیں:

دنیا وباؤں سے نمٹنے کا معاہدہ اختیار کرنے کو تیار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 19 مئی 2025ء) کیا دنیا کسی آئندہ وبا سے نمٹنےکے لیے بہتر طور پر تیار ہو سکتی ہے؟ یہ سوال کل جنیوا میں شروع ہونے والی ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کا بنیادی موضوع ہو گا جس میں ایک ایسے معاہدے کے لیے کوشش کی جائے گی جس کے ذریعے ہر ملک کو وباؤں اور طبی بحرانوں میں بہتر تحفظ میسر آئے۔

ورلڈ ہیلتھ اسمبلی اقوام متحدہ کا بنیادی طبی فورم ہے جہاں حکام وباؤں کا مقابلہ کرنے کی تیاری سے لے کر موسمیاتی مسائل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے طبی خطرات، ذہنی صحت، زچگی میں نگہداشت اور ماحولیاتی انصاف تک بہت سے اہم موضوعات پر گفت و شنید کرتے ہیں۔

اس وقت دنیا میں ارضی سیاسی تناؤ عروج پر ہے اور ایسے حالات میں یہ اسمبلی ان اہم معاملات پر بین الاقوامی تعاون کا امتحان ہو گا۔

(جاری ہے)

19 تا 27 مئی جاری رہنے والی اسمبلی میں درج ذیل امور اور مسائل بطور خاص زیربحث آئیں گے۔

© UNDP Malawi 1۔

محتاط خوش امیدی: وباؤں سے متعلق معاہدہ

کووڈ۔19 وبا نے ثابت کیا کہ ممالک کے اندر اور ان کے درمیان بیماریوں کی تشخیص، علاج اور ان کے خلاف ویکسین کی دستیابی کے معاملے میں واضح نابرابری پائی جاتی ہے۔ اس وبا کے نتیجے میں طبی خدمات پر بھاری بوجھ آیا، معیشتیں بری طرح متاثر ہوئیں اور 70 لاکھ جانوں کا ضیاع ہوا۔

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر کے ممالک نے متحد ہو کر ایک ایسے معاہدہ طے کرنے کی ضرورت محسوس کی جس سے یقینی بنایا جا سکے کہ دنیا کسی آئندہ وبا سے منصفانہ اور مزید موثر طور پر نمٹنے کے لیے تیار ہو۔

کل اسمبلی کے مندوبین اس معاہدے کا تفصیلی جائزہ لیں گے اور اس پر بحث مباحثہ کریں گے جسے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے آنے والی نسلوں کے لیے بہت اہم قرار دیا ہے۔

اگر اس معاہدے کو منظور کر لیا گیا تو وباؤں اور طبی بحرانوں سے نمٹنے کے طریقہ ہائے کار میں بہت بڑی اور مثبت تبدیلی آئے گی۔

تاہم اس پر ہونے والی بات چیت سیاسی اعتبار سے بہت نازک ہے کہ امریکہ سمیت متعدد ممالک نے قومی خودمختاری اور انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس سے متعلق خدشات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم، ڈاکٹر ٹیڈروز نے محتاط خوش امیدی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان خدشات کو دور کیا جا سکتا ہے۔2۔ موسمیاتی تبدیلی: وجودی خطرہ

موسمیاتی بحران محض بڑھتی عالمی حدت کا معاملہ ہی نہیں بلکہ اس سے زندگیوں کو بھی خطرہ لاحق ہے۔

دنیا بھر میں موسمی شدت کے واقعات عام ہو گئے ہیں اور کئی طرح کی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں جن سے لاکھوں لوگوں کی صحت خطرے میں ہے۔ 'ڈبلیو ایچ او' کے تیار کردہ ایک لائحہ عمل میں موسمیاتی اور طبی پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنے، استحکام کو بہتر بنانے اور کمزور لوگوں کو تحفظ دینے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کی بات کی گئی ہے۔

اس منصوبے کا مسودہ 2024 میں جاری کیا گیا تھا اور رواں سال ہیلتھ اسمبلی کے مندوبین متوقع طور پر اسے حتمی شکل دیں گے جس میں موسمیاتی تبدیلی سے متعلقہ طبی خدشات میں کمی لانے اور ان سے مطابقت پیدا کرنے کی حکمت عملی بھی شامل ہو گی۔

© WHO/Panos/Eduardo Martino 3۔

صحت سب کے لیے: طبی خدمات تک عام رسائی کا ہدف

ہر طرح کی معیاری طبی خدمات تک تمام لوگوں کی کم خرچ اور مکمل رسائی یقینی بنانا پائیدار ترقی کا ایک اہم ہدف (ایس ڈی جی) ہے۔ تاہم، اس ہدف کے حصول کی جانب دنیا کا سفر بے سمت ہے۔ درحقیقت گزشتہ دس سال کے دوران طبی خدمات میں بہتری لانے کا عمل جمود کا شکار ہے۔

تاہم، طبی نگہداشت تک عام رسائی (یو ایچ سی) اسمبلی میں ترجیحی طور پر زیربحث آنے والے موضوعات میں شامل ہو گا۔

اس دوران مندوبین ایسی حکمت عملی پر بات چیت کریں گے جس سے بنیادی طبی نظام مضبوط بنائے جا سکیں، صحت کی خدمات کے لیے پائیدار مالی وسائل مہیا ہو سکیں اور طبی اعتبار سے غیرمحفوظ آبادیوں کو ضروری خدمات فراہم کی جا سکیں۔4۔ صحت مند آغاز: زچہ بچہ کی صحت

دنیا میں ہر سال تقریباً 300,000 خواتین حمل یا زچگی کے دوران موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں جبکہ گزشتہ ماہ ہی 20 لاکھ سے زیادہ بچے اپنی عمر کے پہلے مہینے میں انتقال کر گئے تھے۔

'ڈبلیو ایچ او' نے زچہ بچہ کی قابل انسداد اموات کو روکنے کے لیے ایک سال کے عرصہ پر محیط مہم شروع کی ہے۔

'صحت مند آغاز: پرامید مستقبل' کے عنوان سے چلائی جانے والی اس مہم میں حکومتوں اور طبی برادری پر زور دیا جائے گا کہ وہ زچہ بچہ کی قابل انسداد اموات کو روکنے کی کوششوں میں تیزی لائیں اور خواتین کی طویل مدتی صحت و بہبود کے لیے ترجیحی بنیاد پر اقدامات کریں۔

اسمبلی میں ان قابل انسداد اموات کو روکنے کے لیے نئے اہداف اور نئے وعدوں کی توقع ہے۔

WHO/Eduardo Martino 5۔

غیرمتعدی بیماریاں: اموات کی روک تھام

امراض قلب، سرطان اور زیابیطس جیسی غیرمتعدی بیماریاں (این ڈی سی) ہر سال لاکھوں لوگوں کی جان لے لیتی ہیں۔ ان میں سے تقریباً تین تہائی اموات کم اور متوسط درجے کی آمدنی والے ممالک میں ہوتی ہیں۔

اگر زیادہ سے زیادہ ممالک کے پاس ان بیماریوں کی نشاندہی، طبی معائنے اور علاج کا موثر بندوبست ہو تو بہت سی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔

'این ڈی سی' اور ذہنی صحت پر ستمبر میں 'ڈبلیو ایچ او' کے اجلاس کی تیاریوں کے سلسلے میں اسمبلی کے مندوبین حکومتوں، سول سوسائٹی اور نجی شعبے کے ساتھ ادارے کے تعاون اور اشتراک کا جائزہ لیں گے تاکہ ان بیماریوں کو روکا اور ان پر قابو پایا جا سکے۔ اس موقع پر ضروری ادویات اور طبی ٹیکنالوجی تک رسائی بہتر بنانے کے طریقے بھی زیرغور آئیں گے۔

6۔ مالیاتی وسائل کا موثر انتظام

رواں سال اقوام متحدہ کے لیے بہت بڑے مسائل لایا ہے اور ادارے کے مالی وسائل پر بے حد دباؤ ہے۔ امریکہ اقوام متحدہ کو عطیات دینے والا بڑا ملک رہا ہے جس نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئندہ سال جنوری میں 'ڈبلیو ایچ او' کی رکنیت چھوڑ دے گا جبکہ دیگر ممالک نے بھی ادارے کو فراہم کیے جانے والے ترقیاتی اور امدادی وسائل میں بڑے پیمانے پر کمی کر دی ہے۔

اسمبلی میں رکن ممالک 'ڈبلیو ایچ او' کے بنیادی بجٹ میں 50 فیصد اضافے پر بھی بات چیت کریں گے جس پر 2022 میں ہونے والی اسمبلی کے بعد سے کام جاری ہے۔ اگر مالی وسائل میں اضافے کی منظوری مل گئی تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ 'ڈبلیو ایچ او' مزید رضاکارانہ مالی وسائل کے حصول کی کوشش بھی کر رہا ہے جبکہ رکن ممالک اور فلاحی اداروں کی جانب سے بھی اس ضمن میں وعدے متوقع ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کے اجلاس یہاں دیکھیے۔

متعلقہ مضامین

  • آئی ایم ایف نے پاکستان پر کوئی نئی شرط عائد نہیں کی، خرم شہزاد
  • سپیکر اور وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں، بیرسٹر گوہر
  • دنیا وباؤں سے نمٹنے کا معاہدہ اختیار کرنے کو تیار
  • جی بی کے طلباء کی گرفتاری سندھ حکومت کی بدترین فسطائیت ہے، کاظم میثم
  • پیپلز پارٹی کراچی کو اون کرنے کے لیے تیار نہیں، منعم ظفر خان
  • کراچی پریس کلب پر بغیر اجازت ممکنہ احتجاج کی اطلاع پر راستے بند
  • کراچی میں شدید گرمی، توانائی کے متبادل ذرائع کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ
  • کراچی: مختلف علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 14-12 گھنٹوں تک پہنچ گیا
  • منرلز بل کو بانی پی ٹی آئی کی رہائی سے مشروط نہ کریں: ایمل ولی خان