فضائی حدود کی بندش: بھارت کو اب تک کتنے ملین ڈالر کا نقصان ہوچکا؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, May 2025 GMT
پاکستان کی جانب سے بھارت کے لیے فضائی حدود بند کیے جانے کے باعث بھارتی ایئر لائنز کو بھاری مالی نقصان کا سامنا ہے، کموڈور عابد رانا اور ایوی ایشن کے ماہر صحافی طارق ابوالحسن کے مطابق، بھارتی پروازوں کو لمبے متبادل راستے اختیار کرنا پڑ رہے ہیں، جس سے وقت اور ایندھن دونوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق بھارت کا ہوائی نظام زیادہ فعال ہونے کے باعث اسے اس پابندی سے سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑرہا ہے، جبکہ پاکستان پر اس کے اثرات نہایت محدود ہیں۔
کموڈور عابد رانا کا کہنا ہے کہ پاکستانی فضائی حدود کی بندش کے باعث بھارت کو اب تک 100 ملین ڈالر سے زائد نقصان ہو چکا ہے، جہازوں کو لمبا روٹ اختیار کرنا پڑ رہا ہے۔ اور راستے تبدیل کرنے پڑ رہے ہیں، جس کی وجہ سے زیادہ ایندھن خرچ ہو رہا ہے۔ خاص طور پر یورپ اور ایشیا کے درمیان سفر کرنے والی پروازوں کے لیے کافی مشکلات کھڑی ہوچکی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کو دفاعی، معاشی اور سفارتی اعتبار سے کتنا نقصان ہوا؟
کموڈور عابد رانا سمجھتے ہیں کہ پاکستان اگلے ایک مہینے بعد، شاید جولائی تک، اپنی فضائی حدود دوبارہ کھول دے، کیونکہ اس پر سماجی اور سیاسی عوامل اثر ڈال رہے ہیں۔
کس ملک کا نقصان زیادہ ہے؟ اس کے جواب میں کموڈور عابد رانا کا کہنا تھا کہ بھارتی ایئر لائنز کو زیادہ نقصان ہو رہا ہے کیونکہ بھارت کا ہوائی نظام پاکستان کے مقابلے میں بڑا اور زیادہ فعال ہے۔
ایوی ایشن امور ہر گہری نظر رکھنے والے صحافی طارق ابوالحسن کا کہنا تھا کہ پاکستانی فضائی حدود پر بھارت کے لیے ایک ماہ کے لیے پابندی لگائی گئی ہے، جو کمرشل اور فوجی دونوں طیاروں پر عائد کی گئی ہے۔ 2019 میں پلوامہ اور اس سے قبل کارگل کے دوران جب پابندی لگائی گئی، تو اس دوران بھی پاکستان سے کہیں زیادہ نقصان بھارت کو ہوا تھا۔
مزید پڑھیں:پاکستانی فضائی حدود کی بندش، بھارتی ایئرلائنز کو 10 روز میں کتنا نقصان ہوا؟
’اس پابندی سے قبل بھارت کی تقریباً روزانہ کی بنیاد پر 70 سے 100 پروازیں پاکستان کی فضائی حدود استعمال کرتی تھیں، جس کے مقابلے پر پاکستان کی فقط ایک پرواز کولمبو کے لیے تھی، جو بھارتی فضائی حدود سے گزرتی تھی، لہذا پاکستان کا تو کوئی بڑا نقصان نہیں ہے۔‘
طارق ابوالحسن کے مطابق مذکورہ پاکستانی پرواز اب جو نیا روٹ استعمال کرے گی، وہ اسلام آباد سے کشمیر اور پھر چین اور پھر دوسرے ممالک جائی گی، اگر پاکستان ایک سے زائد پروازیں بھی چلاتا ہے، تو بھی پاکستان کا نقصان بھارت سے کم ہوگا۔
’بھارتی پروازوں کو ایک بہت لمبا روٹ طے کرنا پڑے گا جو تقریباً 2 گھنٹے طویل ہے، دہلی، امرتسر، ممبئی اور اطراف کی فلائٹس کو پاکستان کی فضائی حدود سے گزرنا ہوتا ہے۔ ان فلائٹس کی منزل افغانستان، ایران، وسط ایشیا، روس، مشرقی وسطیٰ، سعودی عرب اور افریقہ اور یورپ کی جانب آئیں تو پورا یورپ شامل ہے، پھر بحرہ اوقیانوس کے پار امریکا وغیرہ شامل ہے۔‘
مزید پڑھیں: بھارت کی جارحیت سے پاکستان کی فتح تک، کب کیا ہوا؟ اسحاق ڈار نے پوری کہانی بیان کردی
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کی جانب سے بھارتی طیاروں کے لیے فضائی حدود بند کیے جانے کے باعث بھارت کو اب تک 1300 کروڑ روپے سے زائد کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے، 18 دنوں میں مجموعی طور پر 2000 پروازیں متاثر ہوئی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جارحانہ بھارتی رویے کے جواب میں پاکستان کی جانب سے فضائی حدود بھارتی پروازوں کے لیے بند کرنے سے بھارتی فضائی کمپنیوں کو نہ صرف پروازوں میں تاخیر بلکہ ایندھن سمیت دیگر اخراجات میں دوگنا اضافے جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی جنگ پسندی صرف ایئرلائن انڈسٹری ہی نہیں بلکہ معیشت کے دیگر شعبوں کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے، خاص طور پر کاروباری طبقہ بری طرح متاثر ہوا ہے، فضائی کمپنیوں کا ماننا ہے کہ اگر پاک بھارت کشیدگی کم ہوجائے اور تعلقات معمول پر آجائیں تو ایوی ایشن سیکٹر کو بڑا ریلیف مل سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان امریکا ایئرلائن انڈسٹری ایران بحرہ اوقیانوس بھارتی طیاروں پاکستان روٹ فضائی حدود فلائٹس یورپ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان امریکا ایئرلائن انڈسٹری ایران بحرہ اوقیانوس بھارتی طیاروں پاکستان روٹ فلائٹس یورپ کموڈور عابد رانا پاکستان کی کہ پاکستان کے مطابق بھارت کو نقصان ہو کا کہنا کے باعث کی جانب رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
اقوام متحدہ: 2026 کے مجوزہ بجٹ میں اصلاحات اور 500 ملین ڈالر کٹوتیاں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ نے 2026 کے لیے اپنے مجوزہ پروگرام بجٹ کے ترمیم شدہ تخمینوں کو حتمی شکل دے دی ہے جس میں 500 ملین ڈالر سے زیادہ کٹوتیاں کی گئی ہیں جبکہ ادارے کو مزید مضبوط و موثر بنانے کی کوشش (یو این 80) کے تحت ابتدائی اقدامات بھی متعارف کرائے گئے ہیں۔
گزشتہ روز مشاورتی کمیٹی برائے انتظامی و میزانیہ امور (اے سی اے بی کیو) کو پیش کیے نظرثانی شدہ تخمینوں میں رواں سال کے مقابلے میں اقوام متحدہ کے وسائل میں 15.1 فیصد اور اسامیوں میں 18.8 فیصد کمی کی تجویز دی گئی ہے۔
26-2025 میں قیام امن کی کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے فنڈ میں بھی کٹوتیاں کی جائیں گی۔ اس فنڈ کے ذریعے امن کاری سے متعلق مشن اور عملے کے لیے مالی وسائل مہیا کیے جاتے ہیں۔(جاری ہے)
(اے سی اے بی کیو) جنرل اسمبلی کا ذیلی مشاورتی ادارہ ہے جو ان تجاویز کا جائزہ لینے کے بعد اپنی سفارشات جنرل اسمبلی کی پانچویں کمیٹی کو پیش کرے گا جہاں اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک انتظامی اور میزانیے (بجٹ) کے امور پر فیصلے کریں گے۔
مالی کٹوتیاں اور اضافےاقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے رکن ممالک کے نام خط میں کہا ہے کہ یہ کٹوتیاں ان اقدامات کے بعد کی گئی ہیں جو اس بات کا جائزہ لینے کے لیے اٹھائے گئے تھے کہ اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں کا نفاذ کیسے ہو رہا ہے اور ان کے لیے وسائل کس طرح مختص کیے جا رہے ہیں۔
ادارے کے چارٹر کے تین بنیادی ستونوں یعنی امن و سلامتی، انسانی حقوق اور پائیدار ترقی کے درمیان توازن کو برقرار رکھتے ہوئے سیکرٹریٹ کی مختلف اکائیوں نے خدمات کی فراہمی بہتر بنانے کے طریقے ڈھونڈے تاکہ وسائل کے استعمال کو مؤثر بنایا جا سکے۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ کٹوتیاں ہر شعبے پر یکساں طور سے لاگو کرنے کے بجائے سوچ سمجھ کر اور مخصوص جگہوں پر کی گئی ہیں۔ رکن ممالک بالخصوص کم ترین ترقی یافتہ، خشکی سے گھرے اور چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک کی مدد اور براعظم افریقہ کی ترقی سے متعلق پروگراموں اور سرگرمیوں کے لیے مالی وسائل میں کٹوتیاں نہیں کی گئیں۔ اسی طرح، قیام امن کے لیے فنڈ اور رکن ممالک میں ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر کے نظام کے لیے بھی وسائل کو برقرار رکھا گیا ہے۔
علاقائی اقتصادی کمیشن کے لیے وسائل میں معمولی ردوبدل ہو گا جبکہ تکنیکی تعاون کے لیے باقاعدہ پروگرام (آر پی ٹی سی) کے لیے وسائل میں اضافہ جاری رہے گا تاکہ ترقی پذیر ممالک کی صلاحیت بڑھانے میں مزید مدد فراہم کی جا سکے۔
سیکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ اس پیمانے کی کٹوتیاں لازمی طور سے بعض سمجھوتوں کا تقاضا کرتی ہیں۔ اداروں نے ان کے ممکنہ اثرات کی نشاندہی بھی کی ہے تاہم بنیادی ذمہ داریوں اور خدمات کے معیار کو برقرار رکھ کر ان اثرات کی تلافی کی جائے گی۔
اس ضمن میں اعلیٰ اثرات کے حامل نتائج کو ترجیح دینا، مختلف اداروں کے درمیان مہارتوں کو جمع کرنا اور ورچوئل ذرائع و خودکاری پر انحصار بڑھانا شامل خاص طور پر اہم ہے۔ان کا کہنا ہے کہ آج اقوام متحدہ ایک ایسے عالمی ماحول میں کام کر رہا ہے جو سیاسی اور مالیاتی لحاظ سے مسلسل غیر یقینی کا شکار ہے۔ ایسے حالات میں 'یو این 80' اقدام کا مقصد اقوام متحدہ کو مزید مضبوط و مستحکم بنانا ہے۔
نظرثانی شدہ تخمینے اسی عزم کی عکاسی کرتے ہیں اور ان میں یہ تجاویز شامل ہیں کہ ادارہ بہتر طریقے سے کیونکر کام کر سکتا ہے۔اصلاحاتی اقداماتنظرثانی شدہ تخمینے 'یو این 80' اقدام کے تحت اقوام متحدہ کے سیکریٹریٹ کے لیے اولین تجاویز بھی پیش کرتے ہیں جس کا تعلق ادارے کے انتظام و انصرام سے ہے۔ یہ اقدامات درج ذیل ہیں:
تنخواہوں کی ادائیگی کا نظام نیویارک، اینٹیبے اور نیروبی کے درمیان ایک واحد عالمی ٹیم میں ضم کرنا اور چند ذمہ داریاں نیویارک اور جنیوا جیسے مہنگے مراکز سے کم لاگت والے مراکز میں منتقل کرنا۔
مزید بچت املاک میں کمی کے ذریعے کی جائے گی اور ادارہ 2027 تک نیویارک میں کرائے پر لی گئی دو عمارتوں کو خالی کر دے گا جس کی بدولت 2028 سے سالانہ سطح پر بچت متوقع ہے۔
ان اقدامات کے ذریعے کام کی تکرار کو کم کیا جائے گا، معیار میں بہتری لائی جائے گی، ذمہ داریوں کی انجام دہی کو تحفظ ملے گا اور رکن ممالک کی ہدایات کے تحت اقوام متحدہ کو زیادہ موثر اور کفایت شعار ادارہ بنایا جائے گا۔
یو این 80 اقداممارچ 2025 میں شروع کیا گیا 'یو این 80' اقدام تین بنیادی ورک سٹریم (سلسلہ ہائے کار) کے گرد تشکیل دیا گیا ہے۔
ورک سٹریم 1: انتظامی بہتری اور تاثیر
اس کے تحت انتظامی اصلاحات اور مؤثر طریقہ کار سے متعلق تجاویز کو پہلی بار نظرِ ثانی شدہ تخمینوں میں شامل کیا گیا ہے جبکہ مزید اصلاحاتی تجاویز بعد میں پیش کی جائیں گی۔
ورک سٹریم 2: ذمہ داریوں پر عملدرآمد کا جائزہ
اس کے تحت تیار کردہ جائزہ رپورٹ اگست میں پیش کی گئی جو اب ایک نئے قائم کردہ غیر رسمی ایڈ ہاک ورکنگ گروپ کے پاس زیر غور ہے۔ اس گروپ کا اجلاس آج ہو رہا ہے۔
ورک سٹریم 3: ساختیاتی و عملی ہم آہنگی
اس کے تحت اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے درمیان ساختیاتی اور عملی ہم آہنگی بڑھانے پر غور کیا جا رہا ہے۔
اس ضمن میں ابتدائی تجاویز اسی ہفتے کے آخر میں رکن ممالک کو پیش کیے جانے کی توقع ہے۔سیکریٹری جنرل کے مطابق، یہ تینوں ورک سٹریم مل کر اقوام متحدہ کے کام کرنے کے انداز میں ایک بڑی تبدیلی لائیں گی تاکہ ادارہ موثر، قابل بھروسہ اور مستحکم رہے۔
آئندہ اقداماتسب سے پہلے مشاورتی کمیٹی ان نظر ثانی شدہ تخمینوں کا جائزہ لے گی جس کی سماعتیں اسی ہفتے سے شروع ہونے کی توقع ہے۔
اس کے بعد یہ تجاویز جنرل اسمبلی کی پانچویں کمیٹی کو بھیجی جائیں گی، جہاں اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک انتظامی اور بجٹ سے متعلق معاملات پر بات چیت اور فیصلے کریں گے۔منظوری ملنے کی صورت میں یہ تبدیلیاں 2026 میں مرحلہ وار نافذ ہونا شروع ہوں گی جبکہ مختلف ورک سٹریم سے جڑی آئندہ اصلاحات کو مستقبل کے بجٹ میں شامل کیا جائے گا۔
سیکرٹری جنرل کا خطاقوام متحدہ کے عملے کے نام ایک خط میں سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ یہ تبدیلیاں ان کے روزمرہ کام اور پیشہ ورانہ زندگی کو متاثر کریں گی، لیکن انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ عملے کو اس تمام عمل میں پوری طرح شامل کیا جائے گا اور ان کی معاونت کی جائے گی۔
انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ اس معاملے میں ادارے کے عملے کو معلومات کی متواتر فراہمی، مشاورت کے مواقع اور ہر مرحلے پر عملی رہنمائی فراہم کی جائے گی۔
سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ ان فیصلوں پر سب سے پہلے وہ خود جوابدہ ہوں گے۔ تبدیلیوں کو انصاف، ہمدردی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ نافذ کیا جانا چاہیے اور ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عمل کے دوران اقوام متحدہ کی اقدار کا تحفظ کرے۔