WE News:
2025-09-19@01:12:21 GMT

پاکستان اور بھارت کے پارلیمانی وفود کی سرگرمیاں کیا ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, May 2025 GMT

پاکستان اور بھارت کے پارلیمانی وفود کی سرگرمیاں کیا ہیں؟

6  اور 7 مئی کی درمیانی شب شروع ہونے والی پاک بھارت فوجی کشیدگی میں بھارت کو جہاں فوجی محاذ پر شدید ہزیمت اٹھانی پڑی وہیں اسے سفارتی محاذ پر بھی شدید ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے بھارت کے اندر شدید تنقیدی آوازیں اٹھ رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس کشیدگی میں ملک سفارتی تنہائی کا شکار ہو گیا ہے کیونکہ سوائے اسرائیل کے کسی بھی ملک نے بھارت کے مؤقف کی حمایت نہیں کی۔

دوسری طرف پاکستان کو جہاں ترکیہ، چین اور آذربائیجان کی جانب سے حمایت حاصل رہی وہیں دنیا کی بڑی طاقتوں نے بھی پاکستان کے مؤقف کی تائید کی۔

یہ بھی پڑھیں: پہلگام واقعے کے بعد بھارت کی بڑھتی سفارتی تنہائی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کا اعلان ہو یا پہلگام واقعے پر سلامتی کونسل کی قرارداد میں کشمیر کو متنازعہ علاقہ لکھا جانا، یہ سب بھارت کی سفارتی ناکامیوں پر دلالت کرتے ہیں۔

بھارت اپنی سفارتی اور فوجی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے اب سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے جس میں اس کا سب سے بڑا ہتھیار جھوٹ اور غلط بیانی تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ بھارت نے 18 مئی کو اپنی پارلیمنٹ میں موجود تمام جماعتوں پر مشتمل ایک سفارتی وفد تشکیل دیا جس کا مقصد دنیا کے مختلف ممالک میں جا کر بھارت کے مؤقف کے لیے حمایت حاصل کرنا ہے۔ لیکن بھارت ہی سے اس وفد کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھا دیے گئے ہیں کہ اس کی منظوری پارلیمنٹ سے نہیں لی گئی۔

بھارتی کثیر الجماعتی وفد کا دورہ جاپان

بھارتی پارلیمانی وفد کا ایک گروپ جس کی قیادت بھارتی سیاسی جماعت جنتا دل کے رکن سنجے کمار جھا کر رہے ہیں اس وقت جاپان کے دورے پر ہے جہاں اس نے جاپانی وزیرخارجہ اور جاپانی تھنک ٹینکس سے ملاقاتیں کی ہیں۔

پاکستانی وفد کی سرگرمیاں

پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستانی وفد جلد روانہ ہو گا۔ دفتر خارجہ ذرائع نے پاکستانی وفد کی روانگی کے بارے میں ابھی تک حتمی طور پر آگاہ نہیں کیا لیکن پاکستانی وفد کو اب تک دفتر خارجہ میں دو بریفنگز دی جا چکی ہیں۔

18 مئی کو وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو اعلیٰ سفارتی وفد کی قیادت کے لیے نامزد کیا تھا۔

مزید پڑھیے: عالمی سطح پر بھارتی پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کے لیے پاکستانی وفد میں کون کون شامل ہے؟

8 افراد پر مشتمل یہ خصوصی سفارتی وفد لندن، پیرس، برسلز سمیت دنیا کے بڑے دارالحکومتوں میں جا کر بھارت کے  خلاف پاکستانی مؤقف کی ترجمانی کرے گا۔ اس وفد کا ایک حصہ روس بھی جائے گا جہاں یہ پاکستان کے مؤقف کو پہنچائے گا۔

وفد میں پاکستان پیپلز پارٹی سے بلاول بھٹو کے علاوہ سابق وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر اور امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر شیری رحمان بھی شامل ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن سے انجینیئر خرم دستگیر اور مصدق ملک جبکہ ایم کیو ایم سے فیصل سبزواری کے نام شامل کیے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سابق سیکریٹری خارجہ اور نگران وزیرخارجہ جلیل عباس جیلانی اور سابق سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ بھی وفد کا حصہ ہیں۔

سابق بھارتی وزیرخارجہ نے بھارتی وفد کو ڈھکوسلا قرار دے دیا

بھارت کے معروف سیاستدان اور سابق وزیرخارجہ یشونت سنہا نے ایک بھارتی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ’اگر راہول گاندھی پاکستانی ایجنٹ ہیں تو ان کو پارلیمانی وفد میں شامل کیوں کیا گیا‘۔

مزید پڑھیں: بھارتی وزیر خارجہ کی آمد پر واشنگٹن آزاد خالصتان کے نعروں سے گونج اٹھا

انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو ہر چیز پر صرف سیاست کرنی آتی ہے۔ انہوں نے 51 رکنی کل جماعتی وفد کو محض ایک ڈھکوسلا قرار دیتے ہوئے ناکام سفارت کاری پر بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بھارتی پارلیمانی وفد بھارتی وفد کے دورے پاک بھارت کشیدگی پاک بھارت مؤقف پاکستانی پارلیمانی وفد پاکستانی وفد کے دورے.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بھارتی پارلیمانی وفد بھارتی وفد کے دورے پاک بھارت کشیدگی پاک بھارت مؤقف پاکستانی پارلیمانی وفد پاکستانی وفد کے دورے پارلیمانی وفد پاکستانی وفد بھارت کے کے لیے وفد کی وفد کا

پڑھیں:

بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

کرکٹ کی تاریخ میں ایک نہایت منفرد اور افسوسناک لمحہ اس وقت سامنے آیا جب ایشیا کپ کے ایک میچ کے بعد بھارتی کھلاڑیوں نے روایت سے ہٹ کر پاکستانی کھلاڑیوں سے مصافحہ کرنے سے گریز کیا۔ یہ واقعہ اس کھیل کی اصل روح پر ایک کاری ضرب ہے ، کیونکہ کرکٹ کو ہمیشہ "جنٹل مینز گیم” کہا جاتا رہا ہے ، جہاں نہ صرف کھیل کے اصول بلکہ باہمی احترام اور تعلقات کی نزاکت بھی اہم سمجھی جاتی ہے ۔ لیکن بھارت کے کھلاڑیوں کا یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتہا پسندی کی لہر نے وہاں کھیل کے میدانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ یہ محض ایک لمحاتی رویہ نہیں تھا بلکہ ایک سوچ اور بیانیہ کی عکاسی تھی جسے بھارتی میڈیا اور سیاستدان بڑی شدت کے ساتھ پروان چڑھا رہے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ ہمیشہ سے محض کھیل نہیں بلکہ ایک بڑے اعصابی معرکے کے طور پر دیکھی جاتی ہے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کا جوش و خروش اپنی جگہ، لیکن کھیل کے بعد کھلاڑیوں کا ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ اور خوشگوار ملاقات ہمیشہ ہی ایک مثبت پیغام دیتی رہی ہے ۔ چاہے ماضی میں کتنے ہی کشیدہ حالات کیوں نہ رہے ہوں، کرکٹ نے دونوں ملکوں کے عوام کو قریب لانے کا ایک ذریعہ فراہم کیا ہے ۔ لیکن حالیہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت میں کھیل کی روایات بھی نفرت کی سیاست کے سامنے دم توڑ رہی ہیں۔
اس سے بھی زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ کھیلنے سے پہلے ہی بھارتی میڈیا نے ایک عجیب ہنگامہ برپا کیا۔ "گودی میڈیا”کہلانے والے بھارتی چینلز نے یہ بحث چھیڑ دی کہ بھارت کو پاکستان سے کھیلنا ہی کیوں چاہیے ؟ گویا کھیل کی دنیا میں بھی تعلقات کو دشمنی اور سیاست کی عینک سے دیکھنے کی عادت بن گئی ہے ۔ بھارتی میڈیا کا یہ کردار نہ صرف کھیل کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ بھارتی عوام کے ذہنوں میں بھی نفرت اور دوریاں بڑھا رہا ہے ۔ کرکٹ جیسے کھیل کو جنگ کا متبادل بنانے کی کوشش دراصل ایک خطرناک رجحان ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ کھیل ایک ایسا ذریعہ ہے جو دشمنی کے بادل چھانٹ کر امن کا پیغام دیتا ہے ، جب کہ جنگ تباہی اور بربادی لاتی ہے ۔ کھیل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کو قریب سے جان سکیں، تعلقات میں نرمی پیدا ہو اور اعتماد کی فضا قائم ہو۔ لیکن بھارت کی موجودہ انتہا پسندانہ روش نے اس فرق کو مٹا کر کھیل کو بھی نفرت کا اکھاڑا بنانے کی کوشش کی ہے ۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ کی تاریخ شاندار لمحوں سے بھری ہوئی ہے ۔ 1987ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان آئی تو جنرل ضیاء الحق نے "کرکٹ ڈپلومیسی” کے تحت راجیو گاندھی سے ملاقات کی، جس نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں وقتی بہتری پیدا کی۔ اسی طرح 2004ء میں جب بھارتی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو لاہور، کراچی اور راولپنڈی کے عوام نے بھارتی کھلاڑیوں کو بے مثال محبت دی۔ حتیٰ کہ شائقین نے بھارتی کھلاڑیوں کے لیے تالیاں بجائیں، ان کی کارکردگی کو سراہا اور دنیا کو دکھایا کہ کھیل کس طرح دشمنیوں کو مٹا سکتا ہے ۔ لیکن آج کا بھارت اپنی اسی تاریخ کو بھلا بیٹھا ہے اور کھیل کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا رہا ہے ۔
اصل مسئلہ بھارت کی اندرونی سیاست میں پنہاں ہے ۔ بھارتی حکمران جماعت نے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کے لیے پاکستان دشمنی کو ایک بیانیہ بنا لیا ہے ۔ انتخابی مہمات ہوں یا روزمرہ کی سیاست، پاکستان کے خلاف زہر اگلنا بھارتی رہنماؤں کے لیے ایک آسان ہتھیار ہے ۔ اس بیانیے کو بھارتی میڈیا نے مزید ہوا دی ہے ۔ ہر میچ کو ایک جنگ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ہر پاکستانی کھلاڑی کو ایک دشمن کے طور پر دکھایا جاتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام کے ذہنوں میں یہ نفرت اس حد تک رچ بس گئی ہے کہ کھیل کے بعد ایک مصافحہ بھی انہیں گوارا نہیں ہوتا۔یہ رویہ صرف پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ہی نقصان نہیں پہنچا رہا بلکہ بھارت کے اپنے کھیل کی ساکھ کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں کھیل کو امن اور دوستی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے ، لیکن بھارتی کھلاڑیوں کا یہ طرزِ عمل دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ بھارت کھیل کو بھی اپنی انتہا پسندی کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے ۔ بین الاقوامی سطح پر اس سے بھارت کی شبیہ متاثر ہو رہی ہے ، کیونکہ کرکٹ کے شائقین دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، وہ کھیل کے اندر دوستی اور عزت کو سب سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔
پاکستانی کھلاڑیوں نے ہمیشہ اپنی طرف سے کھیل کی اقدار کا احترام کیا ہے ۔ چاہے جیت ہو یا ہار، انہوں نے بھارتی کھلاڑیوں کے ساتھ مثبت رویہ اپنایا۔ لیکن بھارت کی جانب سے یہ سرد مہری اور غیر روایتی رویہ اس بات کا اظہار ہے کہ کھیل کو نفرت سے آلودہ کر دیا گیا ہے ۔ اس کا نقصان صرف پاکستان کو نہیں بلکہ خود بھارت کو بھی ہوگا، کیونکہ جب کھیل سے رواداری ختم ہو جاتی ہے تو اس کے بعد کھیل کا اصل حسن باقی نہیں رہتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے ؟ سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ کھیل کے میدانوں کو سیاست اور نفرت سے پاک رکھا جائے ۔ کرکٹ بورڈز کو چاہیے کہ وہ کھلاڑیوں کو کھیل کی اصل روح یعنی باہمی احترام اور رواداری کی تربیت دیں۔ بین الاقوامی ادارے مثلاً آئی سی سی اور اے سی سی اپنی ذمہ داری ادا کریں اور کھیل میں غیر اخلاقی رویوں کے خلاف سخت اقدامات کریں۔ میڈیا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کھیل کو سیاست کا میدان نہ بنایا جائے بلکہ اسے امن اور بھائی چارے کا ذریعہ بننے دیا جائے ۔ پاکستان اپنی کرکٹ ڈپلومیسی کو مزید فعال کرے اور دنیا کو یہ باور کرائے کہ کھیل کو سیاست سے بالاتر سمجھنا چاہیے ۔ دونوں ملکوں کے عوام کو یہ شعور دینا ہوگا کہ کھیل دشمنی نہیں بلکہ تعلقات بہتر بنانے کا ذریعہ ہے ۔آخر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جنگ اور کھیل میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ کھیل دلوں کو جوڑتا ہے ، جب کہ جنگ دلوں کو توڑتی ہے ۔ اگر بھارت واقعی ایک بڑی قوم بننا چاہتا ہے تو اسے کھیل کے میدانوں میں بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کے ساتھ کھیلنا کوئی کمزوری نہیں بلکہ ایک موقع ہے کہ دونوں قومیں قریب آئیں اور نفرت کی دیواریں توڑیں۔ کرکٹ کو نفرت کا نہیں بلکہ محبت اور امن کا ذریعہ بنانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • سیلاب متاثرہ علاقوں میں ریلیف سرگرمیاں، وزیراعلیٰ پنجاب کی ٹیم روانہ
  • پاکستان اور سعودی عرب میں دفاعی معاہدہ: بھارت میں سفارتی و عسکری حلقوں میں کھلبلی
  • آپریشن بنیان مرصوص کے بعد ہمارا ملک ابھر کر سامنے آیا ہے: شیری رحمان
  • ’میچ کھیل سکتے ہیں، تو سکھ یاتری پاکستان کیوں نہیں جا سکتے؟‘
  • کرکٹ: مصافحہ نہ کرنے کا تنازعے پر پاکستانی موقف کی جیت؟
  • پاکستان اور مالدیپ کے اسپیکرز کی ملاقات، دوطرفہ پارلیمانی تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • بھارتی کرکٹ ٹیم یا بی جے پی کا اشتہاری بورڈ
  • پاکستانی ٹیم سے ہاتھ نہ ملانے پر بھارتی بورڈ کا موقف سامنے آگیا
  • میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ کے خلاف پاکستانی اپیل ناکام, بھارتی ویب سائٹ کا دعوی
  • بھارت کی انتہا پسندی کرکٹ میدان میں بھی