کینیا-چین دوستانہ تعاون سے کثیرالجہتی شراکت داری کیلئے پرامید ہیں ، صدر کینیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
بیجنگ : کینیا کے صدر ولیم رٹو نے چین کا سرکاری دورہ کیا۔ اس دوران، کینیا کےصدر نے چائنا میڈیا گروپ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں چین-کینیا تعلقات، چین-افریقہ تعاون اور دیگر موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ہفتہ کے روز صدر رٹو نے اپنا حلف اٹھانے کے بعد مسلسل تین سال میں تین بار چین کا دورہ کیا، انہوں نے کینیا اور چین کی دوستی کی گہرائی پر زور دیا۔ انہوں نے اس دورے کے دوران مزید تعاون کے مواقع تلاش کرنے کی توقع کی، خاص طور پر تجارت، سرمایہ کاری اور ثقافتی تبادلوں کے شعبوں میں۔ رٹو نے مزید کہا کہ چین نے کینیا کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں مدد فراہم کی ہے اور قریبی ثقافتی تبادلے کینیا اور چین کے دوستانہ تعلقات کی بنیادی وجوہات ہیں۔ کینیا اور چین ایک دوسرے کے لیے باہمی فائدے کے شراکت دار ہیں۔کینیا-چین تعاون کے نتائج کا جائزہ لیتے ہوئے، رٹو نے کہا کہ مستقبل میں نیروبی اور موسا میٹ ہائی وے ’’ڈیجیٹل ہائی وے‘‘ اور دیگر منصوبوں کی تعمیر کو فروغ دینے کی امید ہے۔ کینیا چاہتا ہے کہ وہ چین کے ساتھ شمسی توانائی سمیت سبز توانائی کے شعبے میں تعاون کرے۔ رٹو نے یہ بھی کہا کہ چین-افریقہ تعاون فورم نے افریقہ اور چین کے تعاون کے لئے ایک اعلیٰ معیار کا پلیٹ فارم فراہم کیا ہے، جو سرمایہ کاری کو فروغ دیتا ہے اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی راہ ہموار کرتا ہے۔امریکہ کی جانب سے شروع کردہ ٹیرف کی جنگ پر، رٹو نے کہا کہ یکطرفہ اور خود پسندی عالمی صورتحال کے مطابق نہیں ہے، جبکہ کثیرالجہتی تعاون تجارت کی ضمانت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے صدر شی جن پھنگ کی جانب سے پیش کردہ تین عالمی اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ علاقائی امن اور سلامتی کے مسائل کے حل میں بہت اہم ہیں۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اور چین رٹو نے کہا کہ
پڑھیں:
آئی ایم ایف کا پاکستان کے معاشی استحکام و ترقی میں تعاون جاری رکھنے کا عزم
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے معاشی استحکام و ترقی میں تعاون جاری رکھنے کا عزم کیا۔
وزیراعظم شہباز شریف سے آئی ایم ایف کے وفد کی ملاقات ہوئی، جس میں آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد سے متعلق معاشی اصلاحات اور مثبت نتائج پر اظہارِ اطمینان کیا گیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان معاشی استحکام کے بعد ترقی کی جانب گامزن ہے، میکرو اکنامک سطح پر اصلاحات کے ساتھ ادارہ جاتی اصلاحات میں بھی تیزی لائی جائے گی۔