بھارت کی پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کروانے کی کوششیں بے نقاب
اشاعت کی تاریخ: 25th, May 2025 GMT
اسلام آباد:
بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر بے بنیاد پروپیگنڈے اور ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں دوبارہ شامل کروانے کی کوششیں بے نقاب ہو گئی ہیں۔
بھارت نے پاکستان کے لیے ورلڈ بینک کے 20 ارب ڈالر کے منصوبے کی بھی مخالفت کی ہے اور عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کی امداد پر اعتراض کر کے اپنی خوفزدگی ظاہر کی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت خطے میں بالادستی قائم رکھنے اور پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کرنے کے لیے بین الاقوامی سازشوں میں مصروف ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے متنازع بیان "میری نسوں میں خون نہیں، سندور بہتا ہے" نے بھارتی عوام میں شدید غصے کی لہر دوڑا دی ہے اور عوام نے مودی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صرف انتخابی فائدے کے لیے گمراہ کن بیانات دے رہے ہیں جبکہ پہلگام واقعے کے متاثرین کی داد رسی تک نہیں کی گئی۔
پاکستان نے بھارتی ریاستی دہشت گردی کے ناقابل تردید ثبوت ایک بار پھر دنیا کے سامنے رکھ دیے ہیں، جن میں بلوچستان میں دہشت گردی، شرم الشیخ مذاکرات میں بھارتی مداخلت، کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور اعترافات، وکی لیکس کے انکشافات اور حالیہ خفیہ ایجنٹوں کے اعتراف شامل ہیں۔
دفاعی ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان کو نشانہ بنانے والی بھارتی کارروائیاں نہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک کے لیے بھی خطرہ ہیں۔
بھارتی دفاعی تجزیہ کار پراوین سواہنے نے پاکستان کے خلاف حالیہ بھارتی حملے کو "غلط اقدام" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت نے جارحیت کر کے کچھ حاصل نہیں کیا بلکہ اپنی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بھرپور جواب دیا اور اب بھارتی پالیسی ساز اپنی ناکامی تسلیم کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
بھارتی تنہائی کی وجہ مودی کا خبط عظمت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایک عرصے سے بھارت تنہائیوں کی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے۔ آغاز اس خبر سے کرتے ہیں کہ چار ممالک کا ایک اتحاد کواڈ کے نام سے ہے جس میں امریکا، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان شامل ہیں یہ اتحاد امریکا نے چین کے خلاف بنایا ہے۔ چین اور جاپان کی تو آپس میں پرانی چپقلش ہے اسی وجہ سے امریکا نے اس کو اس اتحاد میں شامل کیا ہے لیکن اس کے باوجود ان دونوں ملکوں کے درمیان ایک ہزار ارب ڈالر سالانہ کی تجارت ہوتی ہے۔ امریکا کے علاہ ان تین ممالک کی سرحدیں بھی چین سے لگتی ہیں۔ چین کا آسٹریلیا سے تو کوئی تنائو یا کھچائو نہیں ہے باہم تجارت ہوتی اور سماجی تعلقات بہت اچھے ہیں آسٹریلیا میں بہت بڑی تعداد میں چینی رہتے ہیں وہاں چینیوں کے نام سے بڑی بڑی آبادیاں قائم ہیں۔ چین میں چونکہ ایک بچے سے زیادہ پیدائش پر پابندی ہے اس لیے بہت چینی کاروباری اور متمول حضرات آسٹریلیا میں جاکر شادی کرلیتے اور وہ چار پانچ بچوں کے باپ بن جاتے ہیں اس طرح آسٹریلیا میں رہنے والے چینیوں کی ایک بیوی چین میں اور ایک آسٹریلیا میں ہوتی ہیں۔ انڈیا کے چین سے تعلقات دوستی اور دشمنی کے درمیان معلق ہے بلکہ تھوڑا سا جھکائو دشمنی کی طرف ہی جاتا ہے۔ آئے دن سرحدی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ 1962 میں ایک بڑی جنگ بھی ہوچکی ہے۔ پھر یہ کہ امریکا چین کے خلاف بھارت کو جدید اسلحے سے لیس کررہا ہے۔
کواڈ میں کیا ہوا بھارت نے سوچا کہ یہ چند بڑے ممالک کا چھوٹا سا لیکن موثر فورم ہے لہٰذا اس اجلاس میں متفقہ قرارداد میں پاکستان کو دہشت گرد ملک کے طور پر متعارف کرایا جائے کواڈ اتحاد نے پہل گام حملے میں بھارت کے پاکستان مخالف بیانیے کی حمایت سے انکار کردیا۔ گروپ نے کسی ملک کا نام لیے بغیر واقعہ کی مذمت کی اور ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے پر زور دیا۔ بھارت کی جانب سے پاکستان پر بغیر کسی ثبوت کے حملے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ بھارت کے لیے ایک سفارتی دھچکا ہے اور اس سے پاکستان کے خلاف بھارتی پروپیگنڈے کو عالمی سطح پر نقصان پہنچا ہے۔ اس سے پہلے پچھلے ماہ چین میں شنگھائی تعاون تنظیم کی وزارت دفاع کے اجلاس میں بھارت کو پاکستان سے اس وقت ایک اور ذلت آمیز شکست اور سبکی کا سامنا کرنا پڑا جب اس نے پہل گام واقع سے پاکستان کا تعلق جوڑنے کی کوشش کی تو بھارت کے سوا تمام شرکاء نے متفقہ طور پر اس کا موقف مسترد کردیا اجلاس نے اس کے بجائے بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بھارت کے ملوث ہونے کے بارے میں پاکستان کا موقف اپنے مشترک اعلامیے میں شامل کرلیا۔ اس پر بھارتی وفد اجلاس سے بائیکاٹ کرگیا اور اعلامیے پر دستخط بھی نہیں کیے۔ شنگھائی تنظیم مغربی ملکوں کے طاقتور بلاکس کے مقابلے میں چین اور وسط ایشیائی ملکوں کا سیاسی پلیٹ فارم ہے بھارت اس میں اس لیے شامل ہوا تھا سینٹرل ایشیا کے ملکوں میں اپنا اثر رسوخ بڑھا سکے مگر وہ اپنے عزائم میں ناکام رہا۔ مئی کی جنگ میں شکست کے بعد بھارت ویسے تو دنیا میں منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہا لیکن بھارتی میڈیا نے تو رہی سہی کسر بھی نکال دی، مغربی میڈیا نے بھارتی میڈیا پر سخت تنقید کی اور اس کا مذاق بھی اُڑایا۔ ابھی دودن قبل چین میں ایس سی او کے وزرائے مواصلات کا اجلاس تھا اس وزارتی اجلاس میں بھارتی وزیر غائب رہے وہ پاکستان کا سامنا نہیں کرسکے جبکہ پاکستان سے وزیر مواصلات عبدالعلیم خان وفد کے ہمراہ شریک تھے۔
یہ تو کچھ تازہ واقعات تھے لیکن جنگ کے فوری بعد بھارت نے جو 67 رکنی وفد دنیا کے کئی ممالک میں بھیجے جن پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔ اس پورے دورے میں بھارتی وفد کو شدید قسم کی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کسی ملک نے بھارتی موقف کی تائید نہیں کی اور اس وفد کو مایوس واپس لوٹنا پڑا اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پوری دنیا میں اسرائیل کے سوا کوئی ملک ہندوستان کے ساتھ نہیں ہے۔ لیکن اس سے بھی بہت پہلے بھارت کے اپنے قریبی پڑوسی ممالک سے تعلقات خراب ہوچکے تھے ان میں بنگلا دیش، سری لنکا، برما، بھوٹان، نیپال اور مالدیپ جیسے چھوٹے ممالک ہیں۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی ان سب ممالک سے پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ کر مکالمہ کرتے ہیں اور انہیں اپنے سے بہت کمتر سمجھتے ہیں۔ پچھلے سال بنگلا دیش کی حسینہ واجد کا اقتدار عوامی غیظ و غضب کے سیلاب میں بہہ کر غرق ہوگیا اور وہ بھارت فرار ہو گئیں پاکستان سے تو اس کا چھتیس کا آکڑا رہتا اور چین جو انڈیا سے کہیں بڑا ملک ہے اس سے بھی نہیں بنتی۔ سارک تنظیم کو یورپی یونین کے طرز پر چلانے کی سب کی خواہش تھی لیکن نریندر مودی کے دور حکومت میں سارک غیر فعال ہوگئی صرف اس وجہ سے اس میں بھارت اپنی چلانا چاہتا تھا اور اپنے پڑوس کے چھوٹے ممالک بالخصوص سارک سے وابستہ ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت بھارت اپنا حق سمجھتا تھا اسی لہے ان ممالک سے تعلقات خراب ہوگئے اور اس طرح بھارت تنہا رہ گیا۔
اب ہم اس بات کا جائزہ لیں گے بھارت کو اس صورتحال کا سامنا کیوں کرنا پڑرہا ہے۔ سب سے پہلی اور اہم وجہ تو بھارتی حکمرانوں کا وہ مائنڈ سیٹ ہے جس کے تحت وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح خفیہ تنظیم سی آئی اے جس کو چاہے مروا دیتی ہے جس حکومت کا چاہے تختہ الٹ دیتی ہے، موساد بھی یہی کام کرتی ہے ایم فائیو اور کے جی بی کے بارے میں بھی اسی طرح کا تاثر ہے تو پھر ہم بھی امریکا، اسرائیل، برطانیہ اور روس کے برابر ہیں اس لیے ہماری خفیہ تنظیم را کو بھی یہ حق حاصل ہے وہ اپنے مخالفین کو جس ملک میں چاہے قتل کروا سکتی ہے۔ جیسا کے پچھلے دنوں کنیڈا میں ایک سکھ رہنما کو قتل کیا تھا جس پر حکومت کنیڈا نے بہت سخت احتجاج کیا تھا۔
یہ نریندر مودی کی خبط عظمت کا مسئلہ ہے کہ وہ اس طرح کے قتل اور ملکوں میں مداخلت کرکے حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں اور پھر برملا اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ سی آئی اے، موساد، کے جی بی نے یا کبھی ان کے ممالک نے یہ نہیں کہا کہ ہم نے اپنے فلاں دشمن کو قتل کروایا ہے یہ الگ بات ہے کہ بیس پچیس سال بعد کوئی پیپر لیک ہوجائے یا کوئی صاحب اپنی کتاب میں انکشاف کریں کہ فلاں رہنما کا قتل اس تنظیم نے کیا تھا۔ یہاں تو 2015 میں مودی نے ڈھاکا میں خطاب کرتے ہوئے برملا یہ کہا کہ ہم نے اپنی فوج بھیج کر پاکستان کے دو ٹکڑے کیے۔ اسی طرح کنیڈا، پاکستان، امریکا اور دیگر ممالک میں را نے اپنے مخالفین کے جو قتل کیے بھارتی وزراء نے بڑے فخر سے کہا کہ ہم نے اپنے مخالفین کو ان کے ملکوں میں گھس کر قتل کیا ہے۔ دو ماہ قبل نیو یارک ٹائم نے تو اس کی پوری تفصیل دی تھی کہ کس طرح را نے امریکا سمیت دیگر ممالک میں اپنے مخالفین کو قتل کیا ہے۔ ترقی یافتہ اور بڑے ممالک کے حکمران اسی لیے مودی سے ناراض ہیں کہ وہ ملک جہاں پچاس فی صد سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جس کی معاشی حالت بھی کوئی بہت آئیڈیل نہیں وہ اپنی پگڑی ہمارے برابر رکھنا چاہتا ہے چھوٹے ممالک پہلے ہی خفا تھے پہل گام واقع میں نریندر مودی کا غرور اور تکبر اپنے عروج پر تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ ہم ایک ہی جھٹکے میں پاکستان کو مزا چکھا دیں گے۔ لیکن غرور کا سر نیچا ہوا مودی جی زمین پر پڑے اکیلے کراہ رہے ہیں اور کوئی ان کی مدد کو نہیں آرہا ہے۔ کچھ دن بعد جب مودی جی خبط عظمت کے سحر سے باہر آئیں گے تو پھر ان کو زمینی حقائق کا پتا چلے گا۔