جب نازیوں نے پولینڈ میں یہودی نسل کشی کے لیے کنسنٹریشن کیمپ بنائے تو یہودیوں کو مال گاڑیوں میں جانوروں کی طرح بھر بھر کے ان کیمپوں میں پہنچایا جاتا۔مشقت کے قابل تنومند جوانوں کو الگ کر کے بچوں ، بوڑھوں اور لاغر خواتین کو فوراً گیس چیمبرز میں بھیج دیا جاتا۔
یہودیوں کو مال گاڑیوں میں سوار کروانے کے لیے یہ جھوٹ بولا جاتا کہ آپ کو نئی بستیوں میں آباد کیا جائے گا جہاں تمام بنیادی سہولتیں حاصل ہوں گی۔بطور زاِدِ سفر فی خاندان مکھن شہد ، بریڈ ، بسکٹ سے بھرا تھیلا ملے گا۔خوفزدہ اور فاقوں کے مارے انسان قاتل کے جھانسے میں آ جاتے جیسے بھیڑ بکریوں کو چارہ دکھا کے مذبح خانے کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے۔اور پھر مال گاڑیوں میں سوار ہونے والے ان بدقسمتوں کی کوئی خبر نہ آتی۔
اسرائیل اسی نسل کش نازی مثالیے کو فلسطین میں استعمال کر رہا ہے۔ادنی ترین مثال یہ ہے کہ فلسطینیوں کی ستتر برس سے دیکھ بھال کرنے والی اقوامِ متحدہ کی تنظیم انرا کے ڈھانچے کو تتر بتر کرنے کے بعد اسرائیل اور امریکا نے غزہ میں امدادی ہانکہ لگا کے فاقہ زدوں کو گھیرنے کے لیے ’’ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن ‘‘ ( جی ایچ ایف ) کے نام سے موت کا ایک مشترکہ پھندہ بنایا ہے۔
ہزاروں فلسطینی جب مئی کے اواخر سے کھولے گئے جی ایچ ایف کے تین ’’امدادی مراکز ‘‘ کا رخ کرتے ہیں تو اردگرد موجود مسلح اسرائیلی فوجی انھیں جانوروں کی طرح تاک تاک کے شکار کرتے ہیں۔ان میں وہ بچے بھی شامل ہیں جن کے خاندان کے سب بڑے مارے جا چکے ہیں اور ان کی مائیں بہنیں انھیں امداد لینے کے لیے آگے بھیجتی ہیں اور اکثر امدادی تھیلے کے بجائے ان کی لاش وصول کرتی ہیں۔ کئی بڑے اور بچے تو اس انداز میں گولیوں کا نشانہ بنے کہ مرنے کے بعد بھی ان کی بند مٹھی میں خالی تھیلا تھا۔
غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن کا نام تین ماہ پہلے تک کسی نے نہیں سنا تھا۔مگر رفتہ رفتہ یہ کھلا کہ دراصل جی ایچ ایف اسرائیل اور امریکا کی مشترکہ ’’ فرنٹ ‘‘ کمپنی ہے۔اس کے کرتا دھرتا فل رائلے نامی ایک صاحب ہیں۔وہ ایک امریکی سیکیورٹی کمپنی کے وائس پریذیڈنٹ بھی رہ چکے ہیں جو عراق پر امریکی قبضے کے بعد قتلِ عام کی متعدد وارداتوں میں ملوث رہی۔
غزہ ہومینیٹیرین فاؤنڈیشن کی دوسری پارٹنر یو جی سلوشنز نامی امریکی کمپنی ہے۔اس کمپنی کو جنوری تا مارچ برقرار رہنے والی جنگ بندی میں غزہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والے نیتزرم فوجی کاریڈور پر فلسطینی پناہ گزینوں کی تلاشی کے کام پر مامور کیا گیا تھا۔اس کام کے عوض کمپنی کے ہر محافظ کو گیارہ سو ڈالر روزانہ کی دہاڑی مل رہی تھی۔
سوا ماہ قبل جب سے جی ایچ ایف نے غزہ میں امداد کی تقسیم شروع کی اب تک اس کے تینوں مراکز پر روزانہ فائرنگ میں چھ سو سے زائد فلسطینی جاں بحق اور چار ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔متاثرین میں لگ بھگ نصف تعداد بچوں کی ہے۔
امداد کے نام پر موت کے مراکز کے مقامی عینی شاہد بتاتے ہیں کہ ان مراکز کے اندر اور باہر خنجروں اور ریوالوروں سے مسلح مقامی جرائم پیشہ مسٹنڈے منڈلاتے رہتے ہیں۔وہ جی ایچ ایف کے عملے اور اسرائیلی فوجیوں کی آنکھوں کے سامنے کسی نہ کسی طور امداد لینے میں کامیاب ہونے والے بھوکوں سے یہ تھیلے چھین لیتے ہیں اور پھر انھیں بلیک مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔جب مشتعل مستحقین اور ان مسٹنڈوں میں جھگڑا ہوتا ہے تو اسرائیلی فوجی اور جی ایچ ایف کے مسلح محافظ گولیاں برساتے ہیں۔
اسرائیل کا اب تک یہ موقف رہا ہے کہ ان پناہ گزینوں کو کنٹرول کرنے اور انھیں اپنی طرف بڑھنے سے روکنے کے لیے مجبوراً گولی چلائی جاتی ہے۔تاکہ امدادی مراکز کے تحفظ پر متعین اسرائیلی فوجیوں کو حماس کے کسی ناگہانی مسلح حملے سے تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
مگر گزشتہ ہفتے بلی تھیلے سے باہر آ گئی جب موقر اسرائیلی اخبار ہاریتز میں اسرائیلی فوجیوں کی گواہی پر مشتمل یہ رپورٹ شایع ہوئی کہ فوج کے پراسکیٹوٹر دفتر نے ہائی کمان سے مطالبہ کیا ہے کہ ان اطلاعات کی تحقیقات کروائی جائیں کہ امداد کے متلاشی نہتے فلسطینیوں کو جان بوجھ کر ہلاک کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔
کچھ اسرائیل فوجیوں نے ہاریتز کو بتایا کہ یہ فلسطینی ہمارے لیے خطرہ نہیں ہوتے مگر ہمیں حکم ملتا ہے کہ بدنظمی پر قابو پانے کے لیے فساد کنٹرول کرنے کے مروجہ پولیس طریقے ( ڈنڈے ، آنسو گیس ، ربڑ کی گولیاں ، آبی توپیں وغیرہ ) استعمال کرنے کے بجائے سیدھی فائرنگ کی جائے۔جو ہتھیار استعمال کیے جاتے ہیں ان میں مشین گنیں مورٹار لانچرز حتی کہ ٹینکوں کا فائر بھی شامل ہے۔
ایک فوجی نے اخبار کو بتایا کہ امداد کے متلاشی فلسطینیوں کا ہجوم بطخوں کے جھنڈ کی طرح ہوتا ہے۔میں جس جگہ تعینات تھا وہاں ایک دن میں پانچ لوگوں کو تاک کر نشانہ بنایا گیا۔میں نے اپنے ساتھیوں سے یہ بھی سنا کہ دیگر امدادی مراکز پر فوجی آپس میں شرط لگاتے ہیں کہ آج کون کتنے ’’ گرائے ‘‘ گا۔
بین الاقوامی قانون کے کچھ ماہرین نے اسے سیدھا سیدھا جنگی جرم قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ان جرائم کے دائرے میں امدادی تنظیم جی ایچ ایف بھی آتی ہے جو امداد کے متلاشیوں کو مسلسل لاحق سنگین جانی خطرات کے باوجود جان بوجھ کے امداد تقسیم کر رہی ہے۔یہ عمل شریکِ جرم ہونے کے برابر ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے جی ایچ ایف کی اب تک کی ’’ شان دار کارکردگی ‘‘ سے مطمئن ہو کر خوراک کی اس جان لیوا تقسیم کے لیے گزشتہ ہفتے مزید تین کروڑ ڈالر کی امداد منظور کی ہے۔
غزہ کے فلسطینیوں کو دو مارچ کے بعد سے خوراک کی بین الاقوامی رسد نہیں پہنچی۔( جو ریاست انھیں بھوکا مار رہی ہے وہی ریاست امداد دینے کے بہانے ہلاک بھی کر رہی ہے )۔
اس وقت فلسطینیوں کے سامنے دو راستے ہیں۔بھوک سے مریں یا امداد حاصل کرنے کے دوران اسرائیلی فوج کی گولیوں سے مریں۔بلیک مارکیٹ میں آٹے کی قیمت پچیس سے تیس ڈالر فی کلوگرام ہے۔بیشتر لوگوں میں خریدنے کی سکت نہیں۔اکثر مسور کی دال کو کہیں سے میسر پانی میں ابال کے بطور سوپ چوبیس گھنٹے میں ایک بار کھا لیتے ہیں۔جی ایچ ایف کے امدادی مرکز سے جو تھیلہ ملتا ہے اس میں پاستا تو ہوتا ہے بچوں کا دوددھ نہیں ہوتا۔
کچھ مستحقین نے یہ بھی کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ امدادی مراکز موت کا پھندہ ہیں۔مگر ہم تب بھی پندرہ بیس کلومیٹر کا پیدل سفر کر کے یہ سوچتے ہوئے پہنچتے ہیں کہ بھوک سے رفتہ رفتہ مرنے یا کسی کو مرتا دیکھنے کے بجائے کسی گولی یا گولے سے فوری مرنا غنیمت ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسرائیلی فوجی جی ایچ ایف کے امدادی مراکز امداد کے کرنے کے کے بعد
پڑھیں:
نیتن یاہو کو چھوڑ دو! – ٹرمپ نے اسرائیل کی امداد روکنے کا اشارہ دے دیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے خلاف جاری عدالتی مقدمات پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ کارروائیاں نہ رکیں تو امریکا اسرائیل کو دی جانے والی اربوں ڈالر کی امداد پر نظرثانی کر سکتا ہے۔
اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر پوسٹ کرتے ہوئے ٹرمپ نے ان مقدمات کو "سیاسی انتقام" اور "انصاف کا مذاق" قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو اس وقت حماس سے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے اہم مذاکرات میں مصروف ہیں اور ایسے وقت میں ان پر عدالتوں میں پیشی کا دباؤ ڈالنا ایک "پاگل پن" ہے۔
ٹرمپ نے نیتن یاہو کو "جنگی ہیرو" اور ایران کے خلاف امریکی اسرائیلی کامیاب اتحاد کا معمار قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ معمولی الزامات جیسے سِگار یا تحفوں پر ایک اہم وزیر اعظم کو عدالت میں گھسیٹنا ایک خطرناک عمل ہے۔
انہوں نے تنبیہ کی کہ امریکا ہر سال اسرائیل کے دفاع کے لیے سب سے زیادہ مالی امداد دیتا ہے، اور یہ صورتحال اب قابل برداشت نہیں رہی۔
ٹرمپ نے اسرائیلی عدلیہ سے مطالبہ کیا کہ "نیتن یاہو کو چھوڑ دو، وہ ایک بہت اہم کام انجام دے رہے ہیں۔"
یہ پہلی بار نہیں کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو کے حق میں آواز بلند کی ہو؛ دو روز قبل بھی وہ عدالتی کارروائیوں کو "سیاسی انتقام" قرار دے چکے ہیں۔