پی ایس ایل فرنچائزز نے سینٹرل پول شیئر میں اضافے پر اعتراض مسترد کردیا
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
کراچی:
پی ایس ایل فرنچائزز نے سینٹرل پول شیئر میں اضافے پر اعتراض مسترد کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ دنوں پبلک اکائونٹس کمیٹی میں آڈٹ رپورٹ کی بنیاد پر یہ کہا گیا تھا کہ چند برس قبل کرکٹ بورڈ نے فرنچائزز کا سینٹرل پول شیئر 95 فیصد کیا جس سے اسے اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔
ذرائع کے مطابق بدھ کو لاہور میں منعقدہ پی ایس ایل کی میٹنگ میں سی ای او سلمان نصیر نے فرنچائزز کو اس حوالے سے آگاہی فراہم کی، دلچسپ بات یہ ہے کہ جس وقت یہ معاہدہ ہوا تب سلمان ہی بورڈ کی قانونی معاملات دیکھ رہے تھے، وہ ان دنوں سی او او پی سی بی بھی تھے۔
ٹیم اونرز کا استدلال ہے کہ سب کچھ قانون کے مطابق ہوا، شیئر میں اضافے میں کوئی خلاف ضابطہ عمل شامل نہیں تھا، موجودہ انتظامیہ نے اس حوالے سے تحقیقات کا ابھی فیصلہ نہیں کیا۔
یاد رہے کہ پی سی بی نے 2016 میں 10 سال کیلیے 5 پی ایس ایل فرنچائزز کے مالکانہ حقوق فروخت کیے تھے، اس میں پھر ملتان سلطانز کا اضافہ ہوا، مالی مسائل کی وجہ سے بعد میں اس کے اونرز تبدیل بھی ہوئے، یہ معاہدے 2025 تک برقرار رہے، اب 11 ویں ایڈیشن سے قبل ویلیویشن کے بعد فیس میں اضافہ ہوگا۔
فرنچائزز کا شروع سے موقف تھا کہ انہیں مالی نقصان کا سامنا ہے لہذا فنانشل ماڈل تبدیل کیا جائے، 2020 میں معاملہ عدالت بھی پہنچ گیا بعد میں دونوں پارٹیز نے خود ہی بات چیت سے تنازع حل کرنے پر اتفاق کیا۔
سابق چیئرمین احسان مانی اور سی ای او وسیم خان نے مذاکرات شروع کیے، کئی ماڈلز پر کافی عرصے بحث کے بعد ایک پر کافی حد تک اتفاق ہو گیا، البتہ احسان مانی نے حکومت کی تبدیلی کی صورت میں قانونی پیچیدگیوں میں پڑنے کا جواز دے کر اسے خود منظوری نہیں دی، اسے اسمبلی میں پیش کرنے کی تجویز بھی مسترد ہو گئی۔
پھر یہ معاملہ جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی کے سپرد کیا گیا، انہوں نے رپورٹ بنا کر پی سی بی کو پیش کر دی لیکن اسے فرنچائزز کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا، احسان مانی کے جانے پر نئے چیئرمین رمیز راجہ نے ٹیم مالکان و آفیشلز سے ملاقاتیں کیں اور اپنے ساتھیوں کی مشاورت سے ایک نیا ماڈل فرنچائزز کو بھیجا جسے بعدازاں قبول کر لیا گیا۔
نئے ریونیو ماڈل میں فرنچائزز کواخراجات منہا کرنے کے بعد سینٹرل پول سے 95 فیصد حصہ دینے پر اتفاق ہوا جبکہ فیس کے لیے ڈالر کا ریٹ فکسڈ ہوگیا، البتہ اب آڈٹ رپورٹ میں اس پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سینٹرل پول پی ایس ایل
پڑھیں:
شاہ محمود قریشی نے عمران خان کی رہائی مہم میں شمولیت کی مبینہ پیشکش مسترد کر دی
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شاہ محمود قریشی نے تین سابق پارٹی رہنماؤں کی جانب سے عمران خان کی رہائی مہم میں شمولیت کی مبینہ پیشکش کو مسترد کر دیا۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی کے لاہور کے ہسپتال میں داخل ہونے کے بعد تین سابق پی ٹی آئی رہنماؤں نے اُن کے کمرے میں جا کر ملاقات کی، مبینہ طور پر انہیں ’عمران خان کی رہائی مہم‘ میں شامل ہونے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، تاہم شاہ محمود قریشی نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل رانا مدثر عمر کے مطابق سابق رہنما فواد چوہدری، عمران اسماعیل اور مولوی محمود جمعرات کو اُس وقت شاہ محمود قریشی کے کمرے میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے جب وہ اکیلے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ شاہ محمود قریشی انہیں دیکھ کر حیران رہ گئے اور فوراً ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار سے کہا کہ ان کے وکیل کو بلاؤ جو ابھی ایک منٹ پہلے ہی گیا ہے اور اسے بتاؤ کہ کچھ ’مہمان‘ آگئے ہیں۔
رانا مدثر نے مزید کہا کہ جب وہ واپس پہنچے تو سابق پی ٹی آئی رہنما جا چکے تھے، ملاقات تقریباً دس منٹ سے کچھ زیادہ جاری رہی اور اس دوران کوئی سیاسی گفتگو نہیں ہوئی۔
یہ غیر اعلانیہ ملاقات اُس وقت ہوئی جب مبینہ طور پر تینوں میں سے ایک رہنما کو شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی اجازت دینے سے انکار کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق سابق پی ٹی آئی رہنما یہ تاثر بھی دینا چاہتے تھے کہ اسد عمر بھی اُن کے عمران خان کی رہائی کے لیے رابطہ مہم شروع کرنے کے فیصلے سے متفق ہیں، تاہم اسد عمر نے وضاحت کی کہ وہ اس گروپ کا حصہ نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے تینوں رہنماؤں کو ہسپتال جانے سے روکا تھا کیونکہ اس سے پارٹی میں تناؤ پیدا ہوگا اور شاہ محمود قریشی کے خاندان کے لیے بھی تکلیف دہ صورتحال بن سکتی ہے۔
انہوں نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس مہم کا حصہ نہیں ہیں، کچھ سیاستدانوں کا ایک گروپ اسے نمایاں کرنے کی کوشش کر رہا ہے، یہ مؤقف انہوں نے ٹوئٹ میں بھی واضح کیا۔
اسد عمر نے لکھا کہ اگرچہ عمران خان اور دیگر قید رہنماؤں کی رہائی کے لیے کوئی بھی کوشش خوش آئند ہے، مگر وہ ’ریلیز عمران خان‘ نامی نئی مہم کا حصہ نہیں ہیں، انہیں صرف اخبارات سے پتا چلا کہ چند سابق رہنماؤں کی سربراہی میں یہ مہم شروع کی گئی ہے۔
آج اخباروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے نظر آیا کہ میں کسی عمران خان رہائی تحریک کا حصہ ہوں، جو تحریک انصاف کے ماضی کے رہنما شروع کر رہے ہیں ۔ کوئی بھی کاوش جو عمران خان اور دوسرے اسیروں کی رہائی کے لئے ہو، اچھی بات ہے۔ لیکن میں جس تحریک کا زکر ہو رہا ہے، اس کا حصہ نہیں ہوں۔
— Asad Umar (@Asad_Umar) November 1, 2025
مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کی کوشش
دوسری جانب سابق پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ وہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم کرنے، عمران خان اور بشریٰ بی بی کی رہائی ممکن بنانے اور سیاسی قیدیوں کے لیے ضمانت کے حق کو تسلیم کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اُن کا مقصد ایک ایسا ماحول بنانا ہے جس میں مذاکرات ہو سکیں، ملک میں سیاسی درجہ حرارت اسی وقت کم ہو سکتا ہے جب پی ٹی آئی ایک قدم پیچھے ہٹے اور حکومت ایک قدم آگے بڑھے۔
فواد چوہدری نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اعجاز چوہدری اور دیگر رہنماؤں سے بھی ملاقات کی اور خوشی ہے کہ وہ بھی سیاسی درجہ حرارت کم کرنے پر متفق ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اُن کا گروپ مسلم لیگ (ن) کے سینئر وزیروں اور مولانا فضل الرحمٰن سے بھی ملاقات کرے گا۔
وکیل کا ردعمل
شاہ محمود قریشی کے وکیل نے فواد چوہدری کے بیان کو گمراہ کن قرار دیا اور کہا کہ سابق پی ٹی آئی رہنما نے جمعرات یا جمعہ کو کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی قیادت سے کوئی ملاقات نہیں کی۔
انہوں نے بتایا کہ جیل میں ٹرائل صبح 10:30 سے شام 4:30 تک جاری رہا، اس لیے ہسپتال جانے کا مقصد مشکوک لگتا ہے۔
وکیل نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد، اعجاز چوہدری، میاں محمود الرشید اور عمر سرفراز چیمہ متحد ہیں اور عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
عمران خان کئی بار واضح کر چکے ہیں کہ وہ کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے اور قانونی طریقے سے اپنے مقدمات لڑیں گے۔
علاج اور سہولیات کی صورتحال
ذرائع کے مطابق شاہ محمود قریشی کو اگلے ہفتے پتھری کے آپریشن کے لیے ہسپتال میں رکھا گیا ہے، عمر سرفراز چیمہ اور میاں محمود الرشید بھی ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں، بتایا جاتا ہے کہ کوٹ لکھپت جیل میں قید رہنماؤں کو مناسب طبی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں۔
شاہ محمود قریشی کے وکیل نے کہا کہ عدالتیں گزشتہ چھ ہفتوں سے اُنہیں ہسپتال منتقل کرنے کے احکامات جاری کر رہی تھیں لیکن انتظامیہ عمل درآمد نہیں کر رہی تھی، بالآخر دو طبی معائنے کے بعد ڈاکٹرز نے انہیں ہسپتال میں داخل ہونے کا مشورہ دیا۔
انہوں نے بتایا کہ شاہ محمود قریشی کے مختلف لیب ٹیسٹ ہو رہے ہیں اور اگلے ہفتے ان کا آپریشن متوقع ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد کو بھی اُن کی صحت کے باوجود باقاعدہ فزیوتھراپی کی سہولت نہیں دی جا رہی۔