پاک بھارت جنگ کے بعد سے پاکستان کو سفارتی سطح پر ایک کے بعد ایک بڑی کامیابی مل رہی ہے اور اس وقت پاکستان دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ پاک سعودی عرب سٹرٹیجک معاہدے کی کامیابی کے بعد وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے امریکا گئے۔

اس موقع پر ان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے خصوصی ملاقات ہوئی جس میں فیلڈ مارشل جنرل حافظ سید عاصم منیر بھی شریک تھے۔ اسی دورے کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف نے مختلف ممالک کے سربراہان سے ملاقاتیں کیں اور اسلامی ممالک کے اجلاس میں بھی شرکت کی ۔

وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب بھی کیا جس میں پاک بھارت جنگ، امن کی پاکستانی خواہش، امریکی صدر کی نوبل انعام کیلئے نامزدگی، مسئلہ فلسطین و کشمیر،دہشت گردی، پانی اورموسمیاتی تبدیلی سمیت اہم موضوعات پر گفتگو گی۔ وزییر اعظم پاکستان کے اس اہم دورے کے مختلف پہلوؤں اور اس کے اثرات کے حوالے سے جاننے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میںایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

جاوید حسین

(سابق سفارتکار)

اس صدی کی سب سے بڑی پیش رفت امریکا اور چین کی بڑھتی ہوئی مخالفت ہے جس میں وقت کے ساتھ مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ چین اب ایک بڑی عالمی طاقت کے طور پر سامنے آیا ہے جسے امریکا قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اگر امریکا نے چین کو پُرامن انداز میں آگے بڑھنے کا راستہ نہ دیا تو تصادم ہوگا۔

اگرچہ ایٹمی جنگ کے امکانات کم ہیں لیکن اس خطے میں سنگین مسائل ضرور پیدا ہوسکتے ہیں۔جب امریکا عالمی طاقت کے طور پر ابھرا تو برطانیہ نے اسے راستہ دیا اور خاموشی سے پیچھے ہٹ گیا۔ آج چین کو بھی وہی موقع درکار ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا اسے کس طرح ڈیل کرتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ہمیشہ امریکا صدر نہیں رہیں گے لہٰذا یہ فیصلہ امریکی قوم کو کرنا ہے کہ وہ چین کے ساتھ کس انداز میں تعلقات کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ ان کے فیصلے کے عالمی اور علاقائی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

پاکستان کی عالمی ساکھ کی بات کی جائے تو پاک بھارت جنگ میں فتح سے ہماری حیثیت بہتر ہوئی ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور براہِ راست جنگ میں ہماری کامیابی معمولی بات نہیں تھی تاہم بھارت کے ساتھ طویل المیعاد مقابلے کے لیے معیشت، سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی اور وسائل کی دستیابی لازمی ہے۔ ہمیں معاشی طور پر خودمختاری حاصل کرنا ہوگی۔

یہ درست ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک ہمارے ساتھ کھڑے ہیں لیکن امریکا، چین، سعودی عرب یا کوئی اور ملک ہمارے معاشی مسائل حل نہیں کرسکتا، اس کے لیے ہمیں خود محنت کرنا ہوگی۔بھارت 2050ء میں دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن جائے گا لہٰذا اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں ہر ممکن معاشی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس کے لیے سیاسی عزم ناگزیر ہے۔ اگر ہم نے خود کو معاشی طاقت نہ بنایا تو اس کا نقصان ہمیں ہی اٹھانا پڑے گا۔ مئی 2025ء کا واقعہ ہمیں بہت آگے نہیں لے جا سکتا۔ دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ ہماری کمزوریاں کیا ہیں، ہمیں اب ان کو دور کرنا ہوگا۔اکیسویں صدی میں دنیا کا توازن بگڑ چکا ہے اور فیصلے طاقت کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں۔

ایسے حالات میں اقوامِ متحدہ کی بھی کوئی وقعت باقی نہیں رہی۔ طاقتور ممالک اپنی مرضی مسلط کر رہے ہیں۔ فلسطین پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے باوجود اسرائیل کی ظلم و بربریت جاری ہے کیونکہ امریکا اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ درحقیقت امریکا نے خود ہی لبرل ورلڈ آرڈر کو کمزور کیا ہے۔ مسئلہ فلسطین اور کشمیر اگر صرف اقوامِ متحدہ کی سطح پر رہے تو آئندہ ستر برس میں بھی ان کا کوئی حل نہیں نکلے گا۔پاکستان کو تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی پر خرچ کرنا ہوگا۔ ہماری شرح خواندگی صرف 50 فیصد ہے جس کے ساتھ دنیا کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔

ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی عوام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔ بدقسمتی سے نہ سول ملٹری دونوں ادوار میں ہی تعلیم پر توجہ نہیں دی گئی۔ یونیسکو کے مطابق جی ڈی پی کا کم از کم 4 فیصد تعلیم پر خرچ ہونا چاہیے لیکن ہم کبھی 2 فیصد سے اوپر نہیں گئے۔ موجودہ وقت میں تو یہ شرح محض 0.

8 فیصد پر آگئی ہے۔ اگر ہمیں دنیا میں مقام حاصل کرنا ہے تو بنیادی ڈھانچے میں انقلابی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔امریکا چین کے بڑھتے ہوئے کردار کو روکنا چاہتا ہے لہٰذا اس کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانا اور ساتھ ہی چین کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنا پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

امریکا نے چین کے اردگرد اتحاد قائم کیے ہیں اور جاپان، جنوبی کوریا، فلپائن اور آسیان ممالک جیسے خطوں میں اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے جہاں چین کے مفادات جڑے ہیں۔ بھارت کے ساتھ ٹرمپ کا سخت رویہ وقتی معلوم ہوتا ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے کردار کو روکنے کے لیے امریکا کو بھارت کی ضرورت ہوگی لہٰذا آنے والے برسوں میں بھارت کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ میرے نزدیک امریکا، بھارت کے ساتھ بہتر ڈیل کے لیے پاکستان کو بطور ڈھال استعمال کر رہا ہے۔ ہمیں سمجھداری اور احتیاط کے ساتھ چلنا ہوگا۔ امریکا نے پاکستان کے ساتھ کوئی باقاعدہ تجارتی معاہدہ نہیں کیا بلکہ صرف مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے ہیں جس کی خاص اہمیت نہیں۔

پاکستان اور امریکا ماضی میں کئی بار قریب آئے ہیں۔ ایک وقت میں ہم اس کے قریبی اتحادی تھے لیکن 90 کی دہائی میں ہم پر نیوکلیئر پروگرام رول بیک کرنے کا دباؤ ڈالا گیا اور پابندیاں بھی لگیں۔بھارت کے حوالے سے امریکا کی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ واشنگٹن میں ہونے والا معاہدہ آج بھی قائم ہے جس میں دفاع، خلائی تحقیق، تجارت اور دیگر شعبے شامل ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکا جتنا چین کے خلاف ہوگا، اتنا ہی بھارت کے قریب جائے گا لہٰذا پاکستان کے لیے سب سے اہم چین کے ساتھ تعلقات ہیں، جنہیں مزید مضبوط بنانا ہوگا۔چین اور امریکا کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کے لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ امریکا پاکستان سے کیا چاہتا ہے اور کیا چیز اس کے مفادات کے خلاف ہے۔ پاک امریکا مفادات میں انسداد دہشت گردی، امن، تجارت، سول ملٹری تعاون، ٹیکنالوجی، بی ٹو بی ڈیل اور سرمایہ کاری جیسے شعبے مشترک ہیں جن میں دونوں ممالک ایک دوسرے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

دوسری جانب مسئلہ فلسطین، چین کا بڑھتا ہوا کردار، سی پیک منصوبہ اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن جیسے معاملات امریکا کو پسند نہیں، ان پر اختلافات ہوسکتے ہیں۔پاکستان کے لیے ترجیح میں پہلے چین اور پھر امریکا ہونا چاہیے۔ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے اس وقت پاکستان کا کردار نہایت اہم ہے اور اس میں پیش رفت ہوسکتی ہے۔ پاک سعودی عرب اسٹرٹیجک معاہدہ بھی بے حد اہم ہے۔

دونوں ممالک کی قیادت نے واضح گائیڈ لائن دے کر اپنے عزم کا اظہار کیا ہے کہ کس طرح آگے بڑھنا ہے۔ اس معاہدے کی کئی جہتیں ہیں جو وقت کے ساتھ مزید واضح ہوں گی۔ آنے والے دنوں میں مسلم ممالک میں اتحاد بڑھے گا۔ ایرانی صدر نے بھی اس معاہدے کو سراہا ہے، اور امید ہے کہ یہ اتحاد مسلم اُمہ اور فلسطین کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔

ڈاکٹر امجد مگسی

(ماہر امورخارجہ)

مئی 2025ء کے واقعات کے بعد پاکستان ایک نئے انداز میں دنیا کے سامنے ابھرا ہے۔ 10 مئی سے پہلے پاکستان کے بارے میں عالمی رائے مختلف تھی لیکن جیسے ہی پاکستان نے بھارت کو بدترین شکست دی اور اپنی صلاحیت اور ٹیکنالوجی کا لوہا منوایا تو پاکستان ایک علاقائی طاقت کے طور پر سامنے آیا۔ 25 کروڑ آبادی والے ملک نے خود سے کئی گنا بڑی طاقت کو براہِ راست جنگ میں شکست دی، جو معمولی بات نہیں ہے۔

چین ہمیشہ سے ہمارے ساتھ رہا ہے اور ہمارا دیرینہ اور بہترین دوست ہے۔ پاک بھارت جنگ میں اس مرتبہ امریکا نے بھی کردار ادا کیا ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے  کہنے پر جنگ بندی ہوئی۔ میرے نزدیک پاکستان نے اپنے کارڈز بہت اچھے انداز میں کھیلے ہیں۔ پاکستان نے اپنی فتح کو عالمی سطح پر تسلیم کرایا اور خود کو ایک مضبوط ریاست اور خطے کی نمایاں طاقت کے طور پر منوایا۔امریکا میں پہلے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کو بہترین پروٹوکول ملا اور اب وزیراعظم شہباز شریف کو بھی اعلیٰ پروٹوکول دیا گیا۔

ان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہوئی اور اس دورے میں فیلڈ مارشل بھی ان کے ہمراہ ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کو عظیم شخصیات قرار دیا۔پاکستان نے اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف ہر فورم پر بھرپور آواز اٹھائی۔ ایران اسرائیل جنگ میں بھی پاکستان نے کھل کر ایران کی حمایت کی اور دنیا کے سامنے نمایاں کردار ادا کیا۔

حالیہ دنوں میں وزیراعظم پاکستان نے اقوامِ متحدہ میں بھرپور مؤقف پیش کیا اور فلسطین و غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت کی مذمت کی۔ پاکستان چونکہ ایک ایٹمی طاقت ہے، اسی لیے اسلامی ممالک کی ٹرمپ کے ساتھ غزہ کے مسئلے پر میٹنگ میں پاکستان کی شمولیت غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔

اس میں فلسطین کے دو ریاستی حل کی بات بھی کی گئی۔اسی طرح پاک سعودی عرب اسٹرٹیجک معاہدہ بھی ایک تاریخی پیش رفت ہے۔ یہ دفاعی اعتبار سے دونوں ممالک کے درمیان ایسا معاہدہ ہے جس نے پاکستان کی طاقت اور ساکھ میں مزید اضافہ کیا ہے۔ امریکا نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے بھی اعتماد میں لیا گیا ہے۔ ایران نے بھی اس معاہدے کو سراہا ہے۔امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات کے فروغ کے لیے پاکستان نے سفارتی اور تجارتی سطح پر کئی اقدامات کیے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل پرائز کے لیے نامزد کیا گیا۔ اسی طرح امریکا کے ساتھ 500 ملین ڈالر کا معاہدہ بھی کیا گیا، جس میں معدنیات، کرپٹو کرنسی اور دیگر معاملات شامل ہیں۔ امریکا کے پاکستان میں بڑے مفادات جڑے ہیں، اسی لیے وزیراعظم پاکستان کو امریکا میں ریڈ کارپٹ استقبال دیا گیا۔پاکستان نے کبھی بھی چین کے ساتھ تعلقات پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ پہلے وزیراعظم شہباز شریف نے چین کا دورہ کیا اور اس کے بعد صدر آصف علی زرداری نے 10 روزہ دورہ? چین کیا، جو بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

چین ہمارا بہترین دوست ہے اور اسے پیچھے چھوڑ کر امریکا سے تعلقات بڑھانا ممکن نہیں۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بہتری میں بھی چین نے اہم کردار ادا کیا ہے۔اس وقت عالمی سطح پر پاکستان کو ایک اہم ملک کے طور پر عزت اور وقار دیا جا رہا ہے۔ اب اصل امتحان یہ ہے کہ ہم اس بہتر ساکھ اور سفارتی کامیابیوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے معاشی مسائل کو حل کریں۔ فی الحال ہمارا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے۔

یہ وقت آزمائش کا ہے کہ امریکا، چین، سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کے تعاون سے کس طرح معاشی استحکام حاصل کیا جائے۔ امریکی صدر نے بھی پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کے فروغ کو سراہا ہے اور اس وقت ہم ’’ایڈ نہیں، ٹریڈ‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ دنیا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ پاکستان ٹیکنالوجی، صنعت اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے لیے بہترین ملک ہے۔ ہمیں پاکستان کو مضبوط معاشی ریاست بنانا ہوگا، اسی میں ملک اور عوام کی بھلائی ہے۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ

(ماہر امور خارجہ)

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس جاری ہے جس میں دنیا بھر کے رہنما شرکت کرتے ہیں۔ اس مرتبہ یہ اجلاس امریکا میں ہوا ہے اور موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ عالمی حالات کو امریکا کے تناظر میں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ٹرمپ کی شخصیت اور سوچ کا جائزہ لیا جائے۔ڈونلڈ ٹرمپ ایک منفرد شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ ’’گریٹر امریکا‘‘ کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئے اور اب وہ پہلے والے ٹرمپ نہیں رہے۔

انہوں نے سب سے پہلے یہ سوال اٹھایا کہ جن ممالک کو امریکا نے سپورٹ کیا، اس کے بدلے میں خود امریکا کو کیا فائدہ ہوا؟ بھارت اور یورپی یونین کے ساتھ امریکا کا تجارتی خسارہ بڑھا۔ بھارت کو امریکا کے ساتھ تعلقات سے بے حد فائدہ ہوا لیکن امریکا کو اتنا فائدہ نہیں ملا۔ اب ٹرمپ اس حساب کو برابر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔چین کے ساتھ امریکا کی تجارت 100 ارب ڈالر کی ہے جبکہ روس اور یورپی یونین کے ساتھ بھی اربوں ڈالر کی تجارت ہے۔

ٹرمپ کی سوچ یہ ہے کہ ان ممالک سے زیادہ سے زیادہ پیسہ نکلوایا جائے، اسی لیے وہ بھاری ٹیرف عائد کر رہے ہیں تاکہ خسارہ پورا کیا جا سکے۔ ٹرمپ اپنی قوم پر خرچ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ صنعتوں کو امریکا منتقل کر رہے ہیں تاکہ امریکی عوام کو روزگار فراہم کیا جا سکے۔پاک امریکا تعلقات کی بنیاد ہمیشہ امریکی سول و ملٹری امداد پر رہی ہے جس کے بدلے ہم اس کے اسٹرٹیجک پارٹنر بنے اور اس کے مفادات کا تحفظ کیا لیکن سفارت کاری میں کوئی ’’فری لنچ‘‘ نہیں ہوتا۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ٹرمپ کے دور میں پاکستان کو زیادہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

 اس لیے ہمیں خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔پاکستان نے ٹرمپ کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے دانشمندانہ قدم اٹھائے ہیں: انہیں نوبل انعام کے لیے نامزد کیا، تیل، نایاب معدنیات اور کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کی پیشکش کی۔ اس وقت نایاب دھاتوں پر چین کی اجارہ داری ہے اور امریکا اس اجارہ داری کو توڑنے کے لیے پاکستان سے یہ معدنیات حاصل کرنا چاہتا ہے۔

پاکستان نے ٹرمپ کی سوچ کے مطابق یہ امکانات پیش کیے جبکہ بھارت کو اس کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کے ساتھ امریکا کے پہلے ہی بڑے تجارتی تعلقات ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ٹرمپ بھارت کے ساتھ بہتر تجارتی ڈیل کے لیے پاکستان کو بطور ڈھال استعمال کر رہے ہیں، اس لیے ہمیں انتہائی سمجھداری سے چلنا ہوگا۔امریکی صدر نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں سخت الفاظ استعمال کیے اور اقوامِ متحدہ کی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اقوامِ متحدہ کی ناکامی میں 90 فیصد ذمہ داری امریکا پر عائد ہوتی ہے۔

دنیا کے 193 میں سے 192 ممالک اور سکیورٹی کونسل کے 15 میں سے 14 ممالک جنگ بندی اور امن کی بات کرتے ہیں مگر امریکا ویٹو کر دیتا ہے۔ امریکا نے اقوامِ متحدہ کے 8 ارب ڈالر بھی دینے ہیں، جو اب تک ادا نہیں کیے گئے۔

اس کے نتیجے میں امن مشن، غربت کے خاتمے اور موسمیاتی تبدیلی جیسے اہم معاملات پر مؤثر کام نہیں ہو رہا۔ٹرمپ نے ماحولیاتی مسائل پر بھی عجیب ردِعمل دیا لیکن اس کے برعکس چینی صدر نے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو فون کر کے نہ صرف ماحولیاتی مسائل پر کام کرنے پر شکریہ ادا کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ چین آئندہ دس برسوں میں کاربن کے اخراج میں 7 سے 10 فیصد تک کمی کرے گا۔ چین کی یہ گرین انرجی پالیسی دنیا کے لیے بہترین ہے۔

امریکی صدر نے 7 جنگیں رکوانے کی بات کی ہے لیکن اس پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ پاک امریکا تجارتی تعلقات کے فروغ کی بات کی جائے تو سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ ہم تو ابھی تک جی ایس پی پلس اسٹیٹس کا صحیح فائدہ نہیں اٹھا سکے تو امریکا کو کیا برآمد کریں گے؟ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح سب سے زیادہ ہے اور آبادی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ آبادی پر قابو پانے اور عوام کو غربت سے نکالنے کے لیے کوئی حکمت عملی موجود نہیں۔ ملکی ترقی کے لیے ہمیں فوری طور پر اس پر کام کرنا ہوگا۔   

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ متحدہ کی جنرل اسمبلی طاقت کے طور پر پاک بھارت جنگ بھارت کے ساتھ مسئلہ فلسطین چین کے ساتھ پاکستان کو شہباز شریف پاکستان کی فیلڈ مارشل پاکستان کے کر رہے ہیں کہ امریکا امریکا نے ہے اور اس میں دنیا لیے ہمیں نے اقوام نہیں کیا ممالک کے یہ ہے کہ دنیا کے کیا گیا میں بھی میں پاک چین کی رہا ہے کیا ہے کی بات کے لیے کے بعد

پڑھیں:

پاکستان اسرائیل کوتسلیم نہیں کرتا، پاکستانیوں کی بازیابی کیلئے دوست ممالک سے رابطے میں ہیں، وزیراعظم

اسلام آباد:

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کا مسئلہ فلسطین پر مؤقف دو ٹوک اور واضح ہے، اسرائیلی ریاست کو تسلیم نہیں کرتے اور گلوبل صمود فلوٹیلا سے حراست میں لیے گئے پاکستانیوں کی اسرائیل سے بازیابی کے لیے دوست ممالک اور بین الاقوامی اداروں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔

وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان سے ٹیلی فونک گفتگو کی اور دونوں رہنماؤں نے مشرق وسطیٰ کی صورت حال اور فلسطین میں جنگ بندی کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔

وزیر اعظم نے فلسطین میں جنگ بندی اور فلسطینیوں کے جاری قتل عام کی فوری روک تھام کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ پاکستان کا مسئلہ فلسطین پر مؤقف دو ٹوک اور واضح ہے، پاکستان نے ہمیشہ دنیا کے ہر فورم پر اپنے نہتے فلسطینی بہن بھائیوں کی آواز اٹھائی ہے اور آئندہ بھی اٹھاتا رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کا مقدمہ اقوام عالم کے سامنے ہمیشہ زوردار طریقے سے لڑا ہے۔

گفتگو کے دوران وزیراعظم نے 1967سے قبل کی سرحدوں کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام اور القدس الشریف کے بطور اس کے دارالخلافہ کے پاکستان کے مؤقف کو بھی دہرایا اور کہا کہ 8 اسلامی ممالک فلسطین میں جنگ بندی کے لیے اپنی فعال اور بھرپور کوششیں کررہے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ پر امید ہیں کہ بہت جلد یہ کوششیں رنگ لائیں گی اور امن کے ساتھ ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کا دیرینہ خواب پورا ہوگا، گلوبل صمود فلوٹیلا سے اسرائیلی حراست میں موجود پاکستانیوں بالخصوص سابق سینیٹر مشتاق احمد خان کی وطن واپسی کے لیے حکومت اپنا فعال کردار ادا کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اسرائیلی ریاست کو تسلیم نہیں کرتا نہ اس کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں، پاکستانی شہریوں کی بازیابی و بحفاظت وطن واپسی کے لیے دوست ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بہت جلد گلوبل صمود فلوٹیلا سے اسرائیلی حراست میں لیے گئے پاکستانیوں کو بحاظت وطن واپس لائیں گے۔

اس موقع پر دونوں رہنماؤں کے درمیان کشمیر کی صورت حال پر بھی گفتگو ہوئی اور اس حوالے سے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کشمیر میں امن کے حوالے سے بھی اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے اور کرتی رہے گی۔

امیر جماعت اسلامی کی مشتاق احمد کی بازیابی کیلئے کوششیں تیز کرنے پر زور

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے وزیر اعظم شہباز شریف سے ٹیلیفونک رابطے کے دوران مشتاق احمد خان کی رہائی اور بازیابی کے لیے کوششیں تیز کرنے پر زور دیا، جس پر وزیراعظم نے کہا کہ اس سلسلے میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی ذمہ داری لگا دی گئی ہے۔

حافظ نعیم الرحمان نے ٹوئٹ میں بتایا کہ یہ صرف جماعت اسلامی کا معاملہ نہیں بلکہ پورے پاکستان کے حوالے سے اس کی اہمیت ہے، گلوبل صمود فلوٹیلا پر اسرائیلی حملہ اور گرفتاریاں انتہائی قابل مذمت ہیں۔

حافظ نعیم الرحمان کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ پروگرام پر قوم کی جانب سے سخت تحفظات کا اظہار کیا گیا۔

 حافظ نعیم الرحمان کا وزیر اعظم سے مطالبہ  کیا کہ پاکستان کو صرف آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے مطالبے پر قائم رہنا چاہیے، کسی ایسے پلان کی حمایت نہیں کرنی چاہیے جو بالآخر اسرائیل ہی کو طاقت فراہم کرے۔

امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ آزاد کشمیر کی تشویش ناک صورت حال  اس بات کی متقاضی ہے کہ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ احتیاط کا برتاؤ کیا جائے اور حکومت ذمہ داری کےساتھ اس معاملے کا بات چیت کے ذریعے حل نکالے۔

حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ ایسا کوئی بیانیہ جو صرف چند لوگ کے زیر اثر ہے اسے تمام کشمیریوں کا مؤقف نہ سمجھا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • فیلڈ مارشل کی بہترین حکمت عملی سے آپریشن بنیان مرصوص میں تاریخی کامیابی ملی، مریم نواز
  • فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بہترین حکمتِ عملی کی بدولت جنگ میں عظیم کامیابی ملی: مریم نواز
  • فیلڈ مارشل کی بہترین حکمت عملی کی بدولت جنگ میں عظیم کامیابی ملی، مریم نواز
  • حماس کی طرف سے قیدیوں کی رہائی کی پیشکش، شکست یا حکمت عملی؟
  • نہری اصلاحات کو سیاسی معاملہ نہیں بنانا چاہئے، پنجاب کیلئے فائٹ کروں گی: مریم نواز
  • پاکستان اسرائیل کوتسلیم نہیں کرتا، پاکستانیوں کی بازیابی کیلئے دوست ممالک سے رابطے میں ہیں، وزیراعظم
  • پابندیوں کی بحالی کا مطلب ایران کیساتھ سفارتکاری کا خاتمہ نہیں، فرانس
  • آزاد کشمیر کے موجودہ حالات انتہائی تشویشناک ہیں، دانشمندانہ حکمتِ عملی کی اشد ضرورت ہے: چوہدری محمد سرور
  •   آج پاکستان کو ایک معاملہ فہم قیادت اور دانشمندانہ حکمت عملی کی شدید ضرورت ہے، چوہدری محمد سرور
  • پاکستان‘ ازبکستان میں تجارت کے فروغ کیلئے عملی اقدامات ناگزیر: چوہدری شافع