شہید حسن نصراللہ کے افکار و مشن کو زندہ اور عظیم قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، متحدہ علماء محاذ
اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT
دعائیہ تقریب سے مختلف مکاتب فکر کے علماء مشائخ نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطین کا دو ریاستی حل عدل و انصاف کا قتل اور شہدائے مقاومت فلسطین کے خون سے غداری اور فلسطینی عوام کے موقف سے انحراف ہے۔ اسلام ٹائمز۔ متحدہ علماء محاذ پاکستان کے زیر اہتمام بانی سیکریٹری جنرل مولانا محمد امین انصاری کی زیر صدارت مرکزی سیکریٹریٹ گلشن اقبال میں شہید القدس فلسطین حسن نصراللہ کی پہلی برسی کے موقع پر ان کی یاد میں منعقدہ دعائیہ تقریب سے مختلف مکاتب فکر کے علماء مشائخ نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہید القدس حسن نصراللہ کے افکار و مشن کو زندہ اور عظیم قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ مولانا محمد امین انصاری نے کہا کہ شہدائے مقاومت فلسطین نے اسلام کا سر فخر سے بلند کردیا۔ شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد داؤد نے کہا کہ حسن نصراللہ، اسماعیل ھنیہ جیسے لیڈر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ علامہ عبدالخالق فریدی سلفی نے کہا کہ شہدائے فلسطین کامیاب، اسرائیل، امریکہ مقاصد میں ناکام رہے۔ مولانا منظرالحق تھانوی نے کہا کہ حسن نصراللہ ایک فکر و نظریہ کا نام ہے جسے کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔
متحدہ علماء محاذ اور پاکستان نظریاتی پارٹی کے مرکزی رہنما خطیب شعلہ بیان مولانا حافظ محمد ابراہیم چترالی نے کہا کہ حکومتی سطح پر گلوبل صمود فلوٹیلا کی حمایت کا اعلان کیا جائے اور ان کی حفاظت کیلئے موثر اقدامات کئے جائیں۔ خطیب اہل بیت علامہ سید سجاد شبیر رضوی نے کہا کہ شہدائے مقاومت فلسطین بلاامتیاز مسلک وحدت امت، حریت و عزیمت کا عملی مظہر ہیں جن کا کردار قابل تقلید و ستائش ہے۔ مولانا قاری محمد اقبال رحیمی، علامہ ڈاکٹر مفتی عبدالغفور اشرفی، علامہ عبدالماجد فاروقی، مولانا مفتی وجیہہ الدین نے کہا کہ فلسطین کا دو ریاستی حل عدل و انصاف کا قتل اور شہدائے مقاومت فلسطین کے خون سے غداری اور فلسطینی عوام کے موقف سے انحراف ہے۔ دعائیہ تقریب سے مولانا مفتی علی المرتضیٰ، ڈاکٹر و ادیب فیضان فاروقی، مولانا پیر حافظ گل نواز خان ترک و دیگر نے خطاب کیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: شہدائے مقاومت فلسطین حسن نصراللہ نے کہا کہ
پڑھیں:
حرمِ مطہر امام رضا علیہالسلام میں علامہ طباطبائیؒ کی یاد میں تقریب
حجت الاسلام علی رضائی تہَرانی نے مفسرِ کبیرِ قرآن اور تفسیر المیزان کے مصنف علامہ سید محمد حسین طباطبائیؒ کے چوالیسویں یومِ وفات کی مناسبت سے دارالقرآن الکریم حرم رضوی میں ہونے والی تقریب میں قرآن کے مقام اور اس عظیم مفسر کے تفسیری منهج پر تفصیلی گفتگو کی۔ اسلام ٹائمز۔ مفسر قرآن کریم علامہ طباطبائیؒ کی یاد میں آستانِ قدسِ رضوی کے علمی و ثقافتی ادارے کے زیراہتمام محفل انس با قرآن منعقد ہوئی۔ ممتاز علمی شخصیات اور زائرانِ امامِ روف علیہ السلام حرمِ مطہر امام رضا علیہالسلام میں منعقد ہونیوالی نورانی محفل میں شرکت کی۔ حجت الاسلام علی رضائی تہَرانی نے مفسرِ کبیرِ قرآن اور تفسیر المیزان کے مصنف علامہ سید محمد حسین طباطبائیؒ کے چوالیسویں یومِ وفات کی مناسبت سے دارالقرآن الکریم حرم رضوی میں ہونے والی تقریب میں قرآن کے مقام اور اس عظیم مفسر کے تفسیری منهج پر تفصیلی گفتگو کی۔
انہوں نے ابتدا میں قرآن مجید کی عظمت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ قرآن آسمان سے بشریت کی جانب سے آویزاں ایک رسی اور اسلام کا آئینِ اساسی ہے، اس کی آیات ایسی عظمت رکھتی ہیں کہ اگر یہ کلام کسی پہاڑ پر نازل ہو تو وہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائے، معصومینؑ کی روایات کے مطابق قرآن میں اللہ کی تجلی موجود ہے، اور اگر ہم اس حقیقت کو محسوس نہیں کر پاتے تو یہ ہماری فہم کی کمزوری ہے، قرآن کے معانی و مفاہیم تک صحیح رسائی کیلئے تدبر، تفکر اور درست تفسیری طریقہ ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسلام کے تمام فرقوں میں اس بات پر اجماع ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، لہٰذا قرآن کی بہترین تفسیر وہ ہے جو قرآن کے ذریعے قرآن کی تفسیر کی گئی ہو اور علامہ طباطبائیؒ عصرِ حاضر میں اس طرزِ تفسیر کے بانی ہیں، علامہ طباطبائیؒ نے اس روش پر ایسی بلند پایہ تفسیر لکھی ہے جس کا کوئی بدل نہیں، اگرچہ اس انداز پر دیگر تفاسیر بھی لکھی گئی ہیں، لیکن المیزان آج بھی ان سب میں درخشاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ علامہ نے قرآن کو قرآن سے تفسیر کرنے کے بعد، آیات کو معصومینؑ کی معتبر احادیث کی روشنی میں بھی بیان کیا، جس نے المیزان کو ایک بے مثال اور دائم اثر تفسیر بنا دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ تفسیر میں علامہ نے صرف مستند روایات کو نقل کیا ہے، ایک بھی ضعیف روایت شامل نہیں، اگر ہم شیعہ و سنی معاصر علماء میں سے دس ایسی شخصیات کا انتخاب کرنا چاہیں جن کا علمی مقام آسمان کی بلندیوں کو چھوتا ہو، تو یقینی طور پر ان میں ایک عظیم نام علامہ طباطبائیؒ کا ہوگا، علامہ طباطبائیؒ فلسفہ، عملی عرفان، تفسیر، کلام، فقہ اور اصول ہر میدان میں اعلیٰ ترین مقام رکھتے تھے، اپنی عظیم علمی حیثیت کے باوجود وہ نہایت متواضع تھے، جس کی وجہ سے ان کے شاگرد ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور معاشرے اور خاندان میں بھی ان کی مقبولیت بے مثال تھی۔