وفاقی وزرا کی صدر زرداری سے اہم ملاقات، پیپلز پارٹی اور ن لیگ بیان بازی روکنے پر متفق
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
صدرِ مملکت آصف علی زرداری سے نائب وزیرِاعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار، اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے زرداری ہاؤس نواب شاہ میں ملاقات کی۔
ذرائع کے مطابق ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی، جہاں صدرِ مملکت نے وفد کے ارکان کو گلے لگا کر خوش آمدید کہا۔ ملاقات میں ملک کی سیاسی و سیکیورٹی صورتحال، علاقائی اور عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
مزید پڑھیں: صدر زرداری کا محسن نقوی کو اہم ٹاسک، کیا حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا خطرہ ہے؟
نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار نے صدرِ مملکت کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس اور عالمی رہنماؤں سے ہونے والی ملاقاتوں کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی۔
ذرائع کے مطابق ملاقات میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان جاری بیان بازی کے خاتمے پر اتفاق رائے طے پایا۔ صدر زرداری نے وفد سے گفتگو میں کہا کہ دونوں جماعتوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ ملکی معاملات میں استحکام پیدا ہو۔
مزید پڑھیں: آصف زرداری اور نواز شریف درد دل رکھنے والی شخصیات ہیں، ڈاکٹر فاروق عادل
ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ مستقبل میں کسی بڑے سیاسی یا حکومتی معاملے پر بات کرنے سے پہلے ایک دوسرے کے مؤقف سے آگاہی حاصل کی جائے گی۔
نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار نے کشیدگی کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، جبکہ صدر آصف علی زرداری نے ان کے تعاون کو سراہا۔ ملاقات میں پنجاب اور سندھ حکومت کے درمیان حالیہ کشیدگی اور اس سے پیدا ہونے والے سیاسی اثرات پر بھی غور کیا گیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق زرداری زرداری ہاؤس نواب شاہ وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار، وزیر داخلہ محسن نقوی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق زرداری ہاؤس نواب شاہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار وزیر داخلہ محسن نقوی اسحاق ڈار
پڑھیں:
ایوان بلوچستان میں وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی کے مخالف کون؟
بلوچستان کی سیاست ایک بار پھر شدید بے یقینی کا شکار ہے اور وزیر اعلیٰ میر سرفراز احمد بگٹی کی کارکردگی، طرز حکمرانی اور فیصلوں پر نہ صرف حکومت کے اندر بلکہ اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن میں بھی ناراضی بڑھتی نظر آ رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ بلوچستان کی تبدیلی کا کوئی معاہدہ نہیں دیکھا، رہنما ن لیگ سلیم کھوسہ
گزشتہ چند دنوں میں سامنے آنے والی سیاسی سرگرمیوں نے اس سوال کو تقویت دی ہے کہ کیا بلوچستان میں ایک اور سیاسی تبدیلی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے؟
پیپلز پارٹی میں بڑھتی ناراضیوزیر اعلیٰ بگٹی کے خلاف سب سے نمایاں اختلافات پاکستان پیپلز پارٹی کے اندر ابھرے ہیں۔
پارلیمانی سیکریٹری میر لیاقت علی لہڑی نے سب سے پہلے کھل کر وزیراعلیٰ کے طرز حکمرانی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں ایسا وزیراعلیٰ ہو جو عوامی مفاد میں فیصلے کرے اور صوبے کے مسائل کو سنجیدگی سے سمجھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی کے زیادہ تر اراکین تبدیلی چاہتے ہیں۔
مزید پڑھیے: پختون قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے مستقبل کو کتنا خطرہ ہے؟
صوبائی وزیر علی حسن زہری نے بھی اسی نوعیت کے تحفظات کا اظہار کیا اور بتایا کہ پیپلز پارٹی کے کئی اراکین موجودہ حکومتی کارکردگی سے غیر مطمئن ہیں۔
پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر سینیٹر سردار عمر گورگیج نے بھی اختلافات کے وجود کا بالواسطہ اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی کے 3 سے 4 ایم پی ایز کو تحفظات ہیں مگر یہ گھر کے اختلافات ہیں جو گھر کے اندر ہی حل ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کی تبدیلی کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
مزید پڑھیں: بلوچستان میں تبدیلی کی ہوا، سرفراز بگٹی کتنے مضبوط ہیں؟
تاہم ذرائع کے مطابق اصل مسائل ترقیاتی فنڈز کی غیر مساوی تقسیم، اہم فیصلوں میں مشاورت کی کمی اور وزیراعلیٰ کے مرکزیت پسند طرز حکمرانی ہیں جنہوں نے پارٹی میں بے چینی بڑھا دی ہے۔
صورتحال مزید سنگین اس وقت ہوئی جب مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما اور سینیٹر میر دوستین ڈومکی نے میڈیا پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں بیڈ گورننس کے باعث سرفراز بگٹی کو ہٹانے کا فیصلہ ہو چکا ہے پیپلز پارٹی نئے وزیراعلیٰ کے نام پر مشاورت کر رہی ہے۔
دوستین ڈومکی سابق نگراں وزیراعلیٰ علی مردان ڈومکی کے بھائی ہیں اور صوبائی سیاست میں اہم اثر رکھتے ہیں اس لیے ان کا یہ بیان معمولی نہیں سمجھا جا رہا۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان کی سیاست میں ہلچل، کیا وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی تبدیلی قریب ہے؟
مسلم لیگ (ن) کے رکنِ اسمبلی نوابزادہ چنگیز مری نے بھی کھل کر وزیراعلیٰ سے ناراضی ظاہر کی اور اعلان کیا کہ اگر بگٹی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آتی ہے تو میں سب سے پہلے ووٹ دوں گا۔
پیپلز پارٹی کی وضاحتیں اور زمینی حقائق میں تضاداگرچہ پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر صادق عمرانی اور صوبائی صدر عمر گورگیج مسلسل یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ کو ہٹانے کی کوئی بات نہیں، یہ سب افواہیں ہیں۔
مزید پڑھیں: ملک کے پسماندہ ترین علاقوں کی فہرست جاری، بلوچستان کے کتنے اضلاع شامل ہیں؟
لیکن دوسری جانب حقائق کچھ اور منظرنامہ پیش کر رہے ہیں۔ اسمبلی کے اندر ناراض اراکین کا حلقہ دن بدن وسیع ہو رہا ہے جبکہ اتحادی جماعتوں کے رہنما کھل کر میڈیا میں اپنے تحفظات بیان کر رہے ہیں۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر ناراض گروپ باقاعدہ منظم ہو گیا تو اگلے چند ہفتے حکومت کے لیے انتہائی مشکل ثابت ہو سکتے ہیں۔
بلوچستان کی سیاست پہلے ہی غیر یقینی اور اندرونی اختلافات کا شکار رہی ہے اور اتحادی حکومتیں اکثر ایسے ہی دباؤ میں کمزور پڑتی رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : وزیراعلیٰ بلوچستان کا گوادر میں پانی کے بحران کا نوٹس، ٹینکرز کے ذریعے سپلائی کا حکم
موجودہ حالات جن میں اتحادی جماعتوں کی بے چینی، ن لیگ کی سخت تنقید، وزرا اور ایم پی ایز کے کھلے بیانات سب اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی پر سیاسی دباؤ اپنے عروج پر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان بلوچستان اسمبلی پیپلز پارٹی سرفراز بگٹی کی مخالفت وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی