وادی کشمیر کی تازہ صورتحال پر کشمیری رہنماء غلام نبی پروانہ کا خصوصی انٹرویو
اشاعت کی تاریخ: 12th, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز کیساتھ خصوصی انٹرویو میں وادی کشمیر کے سیاسی و سماجی رہنماء اور ڈیموکریٹک آزاد پارٹی کے ضلعی صدر کا کہنا تھا کہ کشمیر کے نامور سیاسی و سماجی رہنماء جیسے اسمبلی ممبر معراج ملک اور لداخ کے ماحولیاتی رہنما سونم وانگچک کو کالے قانون "پی ایس اے" کے تحت گرفتار کرکے جیل منتقل کیا گیا ہے، جو سراسر ناانصافی اور غیر جمہوری عمل ہے۔ متعلقہ فائیلیںغلام نبی پروانہ کا تعلق جموں و کشمیر کے ضلع بڈگام سے ہے۔ پولیس محکمے میں سات سال کام کیا اور پھر تقریباً انیس برس مختلف تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ غلام نبی پروانہ سماجی کارکن کی حیثیت سے فعال ہیں اور غلام نبی آزاد کی سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی کے ضلعی صدر ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے غلام نبی پروانہ سے کشمیر کی موجودہ صورتحال پر ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جس دوران انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام جان لیوا دباؤ کا شکار ہیں، کیونکہ دفعہ 370 کا خاتمہ کرکے کشمیری عوام کے حقوق پر شب خون مارا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے نامور سیاسی و سماجی رہنماء جیسے اسمبلی ممبر معراج ملک اور لداخ کے ماحولیاتی رہنماء سونم وانگچک کو کالے قانون "پی ایس اے" کے تحت گرفتار کرکے جیل منتقل کیا گیا ہے، جو سراسر ناانصافی اور غیر جمہوری عمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں نیشنل کانفرنس کی موجودہ حکومت نے اپنے منشور میں تو بڑے بڑے دعوے کئے تھے، لیکن میں مانتا ہوں کہ دفعہ 370 کی بحالی تو دور کی بات ہے، کم سے کم اگر نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع میسر کئے جاتے تو بڑے بات ہوتی، لیکن یہ حکومت بھی کشمیریوں کے زخموں پر مرہم لگانے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ خصوصی انٹرویو پیش خدمت ہے۔ قارئین و ناظرین محترم آپ اس ویڈیو سمیت بہت سی دیگر اہم ویڈیوز کو اسلام ٹائمز کے یوٹیوب چینل کے درج ذیل لنک پر بھی دیکھ اور سن سکتے ہیں۔(ادارہ)
https://www.
youtube.com/@ITNEWSUrduOfficial
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: غلام نبی پروانہ خصوصی انٹرویو کشمیر کے
پڑھیں:
کشمیر ٹائمز پر چھاپہ جموں و کشمیر میں آزادی صحافت کے لئے بڑھتی ہوئی مشکلات کا عکاس ہے، سی اے ایس آر
انورادھابھسین پہلے بھی کشمیر میں آزادی صحافت پر پابندیوں پر تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت میں شہری حقوق کی مختلف تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم ”کمپین اگینسٹ سٹیٹ رپریشن” نے جموں میں کشمیر ٹائمز کے دفتر پر ریاستی تحقیقاتی ادارے کے حالیہ چھاپے اور اس کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر اور غیر جانبدار صحافی انورادھا بھسین کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کی شدید مذمت کی ہے۔ ذرائع کے مطابق سی اے ایس آر نے ایک بیان میں انورادھابھسین کے خلاف کارروائی کو پریشان کن اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے جابرانہ اقدامات جموں و کشمیر میں صحافیوں کو درپیش ہراسانی کی عکاسی کرتے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کارروائیوں کا مقصد تنقیدی اور اختلافی آوازوں کو خاموش کرانا ہے۔ انورادھابھسین پہلے بھی کشمیر میں آزادی صحافت پر پابندیوں پر تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔ سی اے ایس آر نے کہا کہ ان کی کتاب ‘A Dismantled State: The Untold Story of Kashmir After Article 370’ جس میں جموں و کشمیر میں میڈیا اور شہری آزادیوں پر پابندیوں کو اجاگر کیا گیا ہے کے باعث انہیں عوامی تقریبات میں پابندیوں سمیت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تنظیم نے کہا کہ ان کے صحافتی اور ادبی کام کی بار بار چھان بین سے انتقامی کارروائی کا تاثر ملتا ہے۔ بیان میں صحافیوں کے خلاف تلاشی کارروائیوں، ایف آئی آرز، آلات کی ضبطگی، سفری پابندیوں اور پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA)، نیشنل سکیورٹی ایکٹ (NSA) اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام جیسے کالے قوانین کے تحت گرفتاریوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس واقعے کو کشمیر میں صحافت کے لیے بڑھتی ہوئی مشکلات کا عکاس قرار دیا گیا ہے۔
تنظیم نے صحافیوں کے خلاف جابرانہ کارروائیوں کو فوری طور پر بند کرنے، جموں و کشمیر میں صحافیوں کے تحفظ، اشاعتوں اور عوامی تقریبات پر پابندیوں کو ختم کرنے اور آزادی اظہار اور آزادی صحافت کی آئینی ضمانتوں کی پاسداری کا مطالبہ کیا ہے۔ تنظیم نے جموں و کشمیر میں نظربند صحافیوں کی فوری رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔ سی اے ایس آر نے اس اقدام کو جموں و کشمیر کے قدیم ترین اخبارات میں سے ایک کشمیر ٹائمز کی اشاعت کو روکنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے انسانی حقوق گروپوں، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور صحافیوں سے اپیل کی کہ وہ ان واقعات کے خلاف آواز اٹھائیں۔ سی اے ایس آر سے وابستہ تنظیموں AIRSO, AISA, AISF, APCR, ASA, BASF, CEM, CRPP, DTF, IAPL, ،NAPM, NTUI, SFISS, UNAP, RAISS. مزدور ادھیکار سنگٹھن، پیپلز واچ، بھیم آرمی، رہائی منچ، یونائیٹڈ پیس الائنس، فرٹرنٹی موومنٹ اور دیگر نے بیان کی توثیق کی ہے۔