ایک وزیراعلیٰ کے ہوتے ہوئے دوسرے کا انتخاب نہیں ہو سکتا: ڈاکٹر عباد اللّٰہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
—فائل فوٹو
خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد اللّٰہ نے کہا ہے کہ ایک وزیراعلیٰ کے ہوتے ہوئے دوسرے کا انتخاب نہیں ہو سکتا۔
کے پی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کا استعفیٰ منظور نہیں ہوا، یہ عمل غیر قانونی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس کا حصہ نہیں بننا چاہتے، علی امین گنڈاپور نے دو دفعہ استعفیٰ دیا ہے۔ آئین کے مطابق جب آپ استعفے دیں تو منظور ہونے کے بعد کابینہ سے ڈی نوٹیفائی ہوگا۔
علی امین گنڈاپور ایوان میں پہنچے تو حکومتی اراکین نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر بابر سلیم سواتی نے کہا کہ خاموشی اختیار کر لیں، مجھے مجبور نہ کریں کہ سب کو نکال دوں، اسے بولنے دیں، سب کو اسمبلی میں بولنے کا حق ہے۔
ڈاکٹر عباد اللّٰہ نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے انتخاب کو کیوں متنازع بنا رہے ہیں، آپ کے پاس اکثریت ہے، وزیراعلیٰ کا انتخاب چار دن بعد بھی ہو سکتا ہے، ہم واک آؤٹ کر رہے ہیں، غیر آئینی اقدام کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔
جس پر اسپیکر نے کہا کہ چند لوگوں کی خواہش ہے کہ سہیل آفریدی وزیراعلیٰ نہ بنیں، آئین لوگوں کی خواہشات پر نہیں چل سکتا، آئین کے مطابق چلیں گے۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اسمبلی میں ہلڑ بازی کی۔
اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر عباد اللّٰہ کا کہنا تھا کہ یہ سب پارٹی کے ورکرز ہیں انہیں باہر نہ نکالیں، علی امین گنڈاپور نے اپنی کارکردگی بیان کی، میں ان کو اب بھی سی ایم سمجھتا ہوں، اگر ان کی کارکردگی اچھی ہوتی تو ان کو ہٹایا کیوں گیا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر عباد الل کا انتخاب نے کہا کہ
پڑھیں:
موجودہ ترقیاتی ماڈل 25 کروڑ آبادی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا، گورنر اسٹیٹ بینک
اسلام آباد:اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر جمیل احمدنے کہا ہے کہ پاکستان کا موجودہ معاشی ترقیاتی ماڈل 25 کروڑسے زائدآبادی کے تقاضے پورے کرنے کے قابل نہیں رہا،جبکہ مستقل بنیادوں پر مستحکم پالیسیوں کاجاری رہنابھی نہ توممکن ہے اور نہ ہی معیشت کیلیے فائدہ مند، وہ پاکستان بزنس کونسل کے ’معیشت پر مذاکرات‘ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔
گورنر نے بتایا کہ پاکستان کی معاشی نموگزشتہ تین دہائیوں سے مسلسل تنزلی کاشکار ہے،جو 30 سال کے اوسط 3.9 فیصدسے کم ہوکرگزشتہ پانچ سال میں صرف 3.4 فیصد پر آگئی ہے۔
ان کے مطابق کاروباری چکر مختصر ہو رہے اور موجودہ ماڈل ملک کوطویل مدتی استحکام فراہم نہیں کرسکتا، طویل عرصے سے جاری اقدامات نے عوام اورکاروباری طبقے کوبھاری ٹیکسوں اور مہنگی توانائی کے ذریعے متاثرکیا ہے۔
جبکہ حکومتی اخراجات پر مؤثرکنٹرول نظر نہیں آتا، موجودہ حالات میں بے روزگاری 21 سال کی بلند ترین سطح 7.1 فیصد پر پہنچ چکی ہے،جبکہ عالمی بینک کے مطابق غربت کی شرح 44.7 فیصد ہے۔
گورنر نے واضح کیا کہ ملک ایک ’’انفلیکشن پوائنٹ‘‘ پرکھڑاہے، جہاں فوری طور پر قلیل مدتی استحکام سے ہٹ کر دیرپا اور جامع معاشی نموکی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے پالیسی سازوں کو طویل المدتی اصلاحات کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کاروباری طبقے کوخبردارکیاکہ وہ مختصر منافع کے لالچ میں مستقبل کی مسابقت کوقربان نہ کریں،نجی شعبے کو اندرونی مارکیٹ پر انحصار چھوڑکر عالمی منڈیوں میں مسابقت کیلیے آگے آنا ہوگا۔
اپنی پیداواری صلاحیت جدید خطوط پر استوارکرنا ہوگی اور غیر رسمی شارٹ کٹس کے بجائے حقیقی مسابقت اختیارکرنا ہوگی۔
جمیل احمد کے مطابق اسٹیٹ بینک نے معیشت کو دوبارہ ’’بوم اینڈبسٹ‘‘ کے چکر میں جانے سے روکنے کیلیے پالیسی سازی کومزید پیشگی تجزیوں پر مبنی بنا دیا ہے، مہنگائی کم ہوچکی ہے اور آئندہ برسوں میں 5 تا 7 فیصدکے ہدف کے اندر رہنے کا امکان ہے۔
حکومت پچھلے تین برسوں سے مسلسل اپنی پرائمری سرپلس کے اہداف کو نہ صرف پوراکر رہی ہے،بلکہ انہیں عبور بھی کیا ہے،جس سے مالیاتی استحکام میں بہتری آئی ہے۔
گورنر نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے گزشتہ دو برس میں حکمتِ عملی کے تحت مارکیٹ سے بڑے پیمانے پر ڈالرخرید کر زرِمبادلہ ذخائر کو مضبوط کیا ہے۔
جمیل احمد نے زور دیا کہ پاکستان کو ہنگامی بنیادو ں پر مضبوط، پائیدار اور بیرونی دنیا سے مربوط معاشی نموکے ماڈل پرمنتقل ہونا چاہیے، ملک بار بار معاشی نمو اور استحکام کے تکلیف دہ اقدامات کے ادوارسے گذر چکا، موجودہ حالات طویل مدتی تبدیلی لانے کاحقیقی موقع فراہم کرتے ہیں ۔
گورنر نے وضاحت کی کہ موجودہ استحکام کامرحلہ گذشتہ ادوارسے کیوں مختلف ہے،اب کلی معاشی نظم و ضبط ہم آہنگ ،مستقبل بین زری اور مالیاتی پالیسیوں کے ذریعے مستحکم ہواہے اور اسی کی مددسے اس قبل از وقت نرمی سے بچاجاسکاہے،جو ماضی میں استحکام کومتاثرکرتی رہی ہے۔
سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین نے بتایاکہ پاکستان کی باضابطہ معیشت کاحجم تقریباً 350 ارب ڈالر ہے،مگر اسمگلنگ اور بغیر ٹیکس چلنے والی غیر رسمی معیشت کوشامل کیاجائے تو مجموعی حجم تقریباً 700 ارب ڈالر بنتاہے۔