جمہوری شہنشاہ اور جمہوری خاندان
اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT
ہم سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم یہ جو ’’جمہوری شہنشاہ اور جمہوری شاہی خاندان‘‘کا ذکر کرتے ہیں یہ کون لوگ ہیں۔کیا لوگ ہیں اور کیسے لوگ ہیں یعنی
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟
تو چلیے آج ان ہی شہنشاہوں اور شاہی خاندانوں کی بات کرتے ہیں اور اس کے لیے ’’جمہوریت‘‘ کا ویر اباوٹ معلوم کرنا ہوگا کہ یہ جہوریت کیا ہے؟ ویسے تو اس جمہوریت کے بارے بہت کہا گیا ہے، کہا جاتا ہے اور کہا جارہا ہے مثلاً
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
لیکن اب وہ بات نہیں رہی جدید جمہوریت میں بندوں کو گنتے نہیں بلکہ’’تولا‘‘ کرتے ہیں فرق یہ ہے کہ ’’تلنے‘‘ والوں کے ساتھ پلڑے میں کچھ اور بھی تولا جاتا ہے۔چنانچہ اس جمہوریت میں جو انتخاب نام کا ڈھونگ یا ڈرامہ ہوتا ہے اس میں صرف وہی لوگ کوالی فائی کرتے ہیں جن کے ساتھ’’پلڑے‘‘ میں لمبی چوڑی جاگیریں ، اچھے خاص فربہ قسم کے بینک بیلنس یا آباؤاجداد کی کمائی ہو۔غداریاں،وطن فروشیاں اور خدمات ہوتی ہیں۔یہ ایک خاص طبقہ ہوتا ہے جو خود کو’’اشرافیہ‘‘کہتا ہے لیکن ہوتا’’ابلیس‘‘ ہے۔
اس کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ پندرہ فیصد ہوکر وسائل کی پچاسی فیصد ہڑپتا رہتا ہے اور جو پچاسی فیصد عوامیہ ہوتی ہے جو اصل میں’’آدمیہ‘‘ ہوتی ہے اسے اپنی ہی کمائی میں سے پندرہ فیصد نہیں ملتا۔ظاہر ہے کہ ایسے میں صرف اشراف ہی منتخب ہوتے ہیں کہ انتخابات کے اخراجات یہی برداشت کرسکتے ہیں پچاسی فیصد عوامیہ میں اتنی سکت بھی نہیں ہوتی کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکے تو انتخابات میں کیا کھڑے ہوں گے ؟ اور ان انتخابات میں جو منتخب ہوجاتے ہیں وہی’’منتخب جمہوری شہنشاہ‘‘ کہلاتے ہیں کیونکہ سب کچھ کے مالک وہی ہوتے ہیں فنڈز،ساری نوکریاں،سارے تبادلے سارے ٹھیکے ان کی جیب میں ہوجاتے ہیں۔
یوں کہیے کہ ان کی مرضی کے بغیر ان کے حلقے میں ایک پتا تک نہیں ہلتا ہے بلکہ کوئی کاغذ چاہے رنگین ہو یا بلیک اینڈ وائٹ اپنی جگہ سے انچ بھر حرکت بھی نہیں کرسکتا ان کی مرضی ہوتی ہے تو صرف ایک گھر کے لیے بھی دس میل سڑک بن سکتی ہے، دس میل میں بجلی دوڑائی جاسکتی ہے اور گیس پائپ لائن بچھائی جا سکتی۔
مرضی نہ ہوتی تو ایک اینٹ بھی کہیں ہلائی نہیں جاسکتی۔پرانے غیرجمہوری شہنشاہوں اور ان جمہوری شہنشاہوں میں فرق یہ ہے کہ وہ شہنشاہ ملک کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے اور ایسا ہی خیال رکھتے جیسے کوئی اپنی ملکیت اپنی چیز کا خیال رکھتا ہے لیکن یہ نئے جمہوری شہنشاہ چند سالوں کے اجارہ دار ہوتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ جاتے جاتے کھیت میں ککھ بھی نہ چھوڑیں۔ہم نے دیکھا ہے بلکہ بھگتا بھی ہے کہ کوئی شخص مجبور ہوکر اپنی زمین کسی کو اجارے پر دیتا ہے پانچ دس سال کے لیے۔تو اجارہ دار پہلے تو زمین میں خوب کھاد ڈالتا ہے ہموار کرتا ہے زرخیز بناتا ہے بلکہ اکثر تو کناروں پر خالی جگہوں میں درخت بھی لگاتا ہے لیکن جب اجارے کی مدت ختم ہونے کو ہوتی ہے،کھاد وغیرہ بھی ڈالنا بند کردیتا ہے اور زمین میں آخری فصل ایسی بوتا ہے جو زمین کی رگ رگ سے توانائی چوس لیتی ہے جیسے جوار یا باجرہ یا کوئی ایسی فصل جو زمین کی حالت ایسی کردیتی ہے کہ آیندہ دوسال تک وہ کوئی فصل اگانے کے قابل بھی نہیں رہتی۔
اس کے بعد آنے والا یہی واویلا کرتا ہے کہ خزانہ خالی ہے سارے مسائل باقی ہیں۔ اگر ایسا نہ بھی ہو تو یہ واویلا ضروری ہے کہ آخر وہ بھی تو منتخب ہوکر آتے ہیں کچھ ان کا بھی ’’حق‘‘ ہوتا ہے آخر وہ بھی تو منتخب شہنشاہ ہوتے ہیں۔ یہ تو جمہوری منتخب شہنشاہوں کا مختصر تعارف ہے کبھی کسی اور وقت اس کی تاریخ بھی بیان کروں گا۔ فی الحال ذرا جمہوری شاہی خاندانوں کا بھی ذکر ہوجائے، یہ شاہی جمہوری خاندان بھی ہوبہو خاندانی حکیموں جیسے ہیں۔ ان کالموں میں ہم نے کہیں آپ کو بتایا تھا کہ افغان مہاجرین کے ساتھ بہت سارے سکھ بھی افغانستان سے آگئے جن میں اکثر نے خاندانی حکیموں کا پیشہ اپناکر جگہ جگہ دکانیں کھول لی تھیں۔ہمارے گاؤں میں بھی دو بھائیوں نے خاندانی حکیم کی دکان کھولی دونوں ایک جیسی داڑھی ایک جیسی پگڑی ایک جیسے لباس میں آیا کرتے تھے۔
ہمیں آئیورویدک طب سے دلچسپی تھی سوچا یہ لوگ یقیناً آئیورویدک کی طب کے وید ہوں گے لیکن جب ان سے پوچھا تو ان کو نہ آئیورویدک کے بارے میں کچھ پتہ تھا بلکہ نام نہیں جانتے تھے، نہ یونانی طب کے بارے، نہ ہومیو پیتھک اور ایلوپیتھک سے واقف تھے۔
ہمارے سوال کے جواب میں وہ یہی کہتے کہ جی ہم خاندانی حکیم ہیں۔کافی دنوں میں ہمیں معلوم ہوا کہ وہ کسی بھی طب کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تھے اور اپنے خاندانی نسخے استعمال کرتے اور کئی پشتوں سے خاندانی حکیم چلے آرہے ہیں اور ہمارے یہ شاہی جمہوری خاندان بھی ایسے ہی شاہی جمہوری خاندان ہیں۔
البتہ ایک فرق ہے کہ خاندانی حکیموں کے پاس ’’مزار‘‘ نہیں ہوتے اور ان شاہی جمہوری خاندانوں کے پاس مزار بھی ہوتے ہیں۔چنانچہ دیکھیے تو مسلم لیگ کے پاس بھی دو مزار ہیں۔پی پی پی کے پاس بھی دو مزار، جے یو آئی کے پاس مزار تو ابھی صرف ایک ہے لیکن حضرت مولانا بھی کچھ کم مرجع خلائق نہیں ہیں۔بانی کے پاس مزار تو نہیں ہے لیکن پیرنی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شاہی جمہوری خاندان جمہوری شہنشاہ کرتے ہیں ہوتے ہیں بھی نہیں ہوتی ہے ہے لیکن کے بارے ہیں اور کے پاس ہے اور بھی نہ
پڑھیں:
قدسیہ علی کا پاکستانی مردوں سے کیا شکوہ ہے؟
اداکارہ قدسیہ علی نے انکشاف کیا ہے کہ آج بھی پاکستان میں اداکاراؤں کو شادی کے معاملے میں سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا اور پاکستانی مرد اداکاراؤں سے شادی نہیں کرتے۔
یہ بھی پڑھیں: ’ہمدان عینا کو نئے کپڑے لے دو‘ ڈراما سیریل میں ثنا جاوید کی وارڈروب چوائس صارفین کو گراں گزر گئی
مزاحیہ شو مزاق رات میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ آزاد اور خود مختار خواتین کو معاشرہ اب بھی جس نظر سے دیکھتا ہے وہ نہایت تکلیف دہ ہے۔
قدسیہ علی جنہوں نے ڈرامہ اولاد میں ایک خصوصی بچے کا کردار ادا کر کے شہرت حاصل کی، کا کہنا تھا کہ اس شعبے میں کام کرنے والی خواتین کے بارے میں لوگوں کے رویے نہیں بدلے۔
انہوں نے کہا کہ 2025 آ گیا لیکن خواتین خاص طور پر اداکاراؤں کے حوالے سے معاشرے کی سوچ وہی ہے۔
اداکارہ نے بتایا کہ انہیں حال ہی میں ایک شخص نے دوستی کے بعد یہ شرط رکھی کہ اگر وہ سنجیدہ تعلق چاہتی ہیں تو اپنا پیشہ چھوڑ دیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام میں مردوں کی 4 شادیاں، پاکستانی سیلیبریٹیز کی کیا رائے ہے؟
قدسیہ کے مطابق لوگ خواتین اسٹارز کو دیکھتے ہیں، ان کی تعریف بھی کرتے ہیں لیکن انہیں اپنی زندگی یا خاندان کا حصہ بنانے سے گریز کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آزاد اور خود مختار خواتین پر آج بھی تنقید کی جاتی ہے اور انہیں مختلف زاویوں سے پرکھا جاتا ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ معاشرہ ابھی بھی ذہنی طور پر بدلنے کو تیار نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news پاکستانی مرد شادی قدسیہ علی