Express News:
2025-10-18@09:56:39 GMT

خوشی کی عالمی درجہ بندی

اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT

ہمارے ملک کے لوگ کس قدر خوش اور مطمئن ہیں؟ اس سوال کا جواب عمومی طور پر ہر شخص اپنے مخصوص ماحول اور معلومات کی بنیاد پر دینے کی کوشش کرتا ہے، لیکن دنیا میں ادارہ جاتی سطح پر اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ اس بات کا درست اندازہ لگانے کی کوشش کی جائے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں لوگوں کی خوشی اور اطمینان کی سطح کیا ہے۔ دنیا کی سب سے زیادہ خوش قوم کون سی ہے اور لوگوں کے خوش اور ناخوش ہونے کی عمومی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں۔

یہ ہمارے پڑھنے والوں کے لیے اس لیے بھی دلچسپ ہو گا کہ اس سلسلے میں ان کی اپنی کی ہوئی درجہ بندی کے درست یا غلط ہونے کا پتہ بھی چل جائے گا۔ دنیا کے 147ملکوں کی فہرست میں خوشی کے اعتبار سے پاکستان کا 109واں نمبر ہے۔ گزشتہ برس پاکستان 108ویں نمبر پر تھا اور رواں برس ہم ایک درجہ مزید کمی کے ساتھ 109ویں نمبر پر ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ خوشی میں اس قدر نچلے درجے پر ہونے کے باوجود اپنے خطے کے دو حریف ملکوں بھارت اور افغانستان کے مقابلے میں پاکستان کے لوگ زیادہ خوش ہیں۔ بھارت عالمی درجہ بندی میں 118ویں اور افغانستان 147ویں نمبر پر ہے۔

’گیلپ‘ کی سروے رپورٹ کے مطابق معاشی صورتحال سے ہٹ کر جو چیزیں لوگوں کو خوشی سے دور کرنے کا بڑا سبب بن رہی ہیں ان میں ریاست کی جانب سے سماجی سطح پر لوگوں کی مدد و اعانت سے محرومی اور آزادی پر پابندیاں شامل ہیں۔

یہ تو عالمی سطح پر عمومی درجہ بندی کی بات ہے۔ جن مختلف شعبوں میں لوگوں کی رائے معلوم کر کے جامع درجہ بندی کی جاتی ہے ان شعبوں میں عوامی ردعمل کا معاملہ زیادہ دلچسپ ہے۔ عالمی سطح پر لوگوں کو اپنی مرضی سے اپنے لیے چناؤ کرنے کی آزادی میں بھارت 23ویں جب کہ پاکستان135ویں نمبر پر ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں اپنی زندگی‘ اپنے ماحول اور سماجی اور سیاسی مستقبل کے لیے فیصلے کرنے کی آزادی حاصل نہیں ہے۔ ذہنی تناؤ‘ تفکرات اُداسی اور غصے میں مبتلا لوگوں کی اکثریت کے اعتبار سے بھارت ہم سے کہیں آگے ہے۔بھارت کے 61 فیصد جب کہ پاکستان کے 21فی صد لوگ اس طرح کی نفسیاتی کیفیت کا شکار ہیں۔ کسی اجنبی کے لیے رضا کارانہ طور پر مدد کے لیے آمادگی میں بھارت کے40.

7 فی صد لوگ مثبت رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں جب کہ پاکستان میں یہ تناسب 56.9 فی صد ہے، دوسری طرف رضا کارانہ طور پر سماجی سطح پر عملی کام میں 17.2 فی صد بھارتی حصہ لیتے ہیں جب کہ یہ تناسب پاکستان میں 13.3فی صد ہے۔

خیرات دینے میں پاکستان بھارت سے آگے ہے۔ بھارت میں 35 جب کہ پاکستان میں 39 فی صد لوگ خیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ سال 2025کی رپورٹ مرتب کرتے ہوئے ماہرین نے جن اہم نقاط کا ذکر کیا ہے وہ بھی قابل توجہ ہیں۔ماہرین کا ماننا ہے کہ محض معاشی ترقی انسانی خوشی کو یقینی بنانے میں کردار ادا نہیں کرتی۔ پاکستان معاشی اعتبار سے اتنی بہتر حالت میں نہیں لیکن اس تناسب سے خوشی کا معیار بہتر ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ انسانی خوشی میں فراخدلی‘ سماجی سطح پر برداشت اور صبر جیسی خصوصیات اور معاشرتی جڑت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ آزادی کا لگا بندھا تصور بھی خوشی کا ضامن نہیں ہوتا۔ ریاستی اداروں پر اعتماد کی سطح دونوں ملکوں میں نہایت نچلی سطح پر ہے۔ پاکستان کے حوالے سے جس اہم ترین بات کی نشاندھی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ معاشرتی اخلاقیات میں مذہب‘ خاندانی اقدار اور مشترکہ پہچان وہ غیر مادی ذرایع ہیں جن سے لوگوں کو نہایت کم مادی آسائشوں اور سہولیات میں بھی قناعت کی دولت حاصل رہتی ہے جو اطمینان کا باعث ہے۔

اس عالمی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2016 سے بھارت ہر سروے میں پاکستان سے پیچھے رہا ہے حالانکہ معاشی اور اقتصادی اعتبار سے بھارت کی حالت پاکستان سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ دوسری طرف مجموعی اعتبار سے 2012ء سے دونوں ملکوں کی حالت میں مسلسل تنزلی آ رہی ہے۔

’گیلپ‘ کے علاوہ ایک اور ادارہ عالمی سطح پر مختلف سماجی رویوں بالخصوص Market economy (منڈی کی معیشت) کے تناظر میں عالمی سرویز کااہتمام کرتا رہتا ہے جس کا نام IPSOS ’ایسپاس‘ ہے۔ یہ ادارہ بھی ہر برس عالمی سطح پر خوشی کی درجہ بندی کے لیے سروے کرواتا ہے۔

اس کا صدر دفتر پیرس میں ہے۔ اس ادارے کے ماہرین نے جو اہم نکات بیان کیے ہیں ان سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ انسان کی معاشی حالت اسے خوش رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ غربت انسان کو بدترین دُکھ اور تکلیف میں دھکیل دیتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ ہم اپنی عمر کے کس حصے میں ہیں‘ ہماری آمدن کتنی ہے اور ہم کس ماحول میں رہ رہے ہیں۔

دوسری اہم بات یہ بیان کی گئی ہے کہ 60برس کی عمر سے پہلے کا عرصہ عموماً انسان کو خوشی سے دور ہی رکھتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 60برس سے70برس کا عرصہ میں انسان سب سے زیادہ خوش اور مطمئن ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ خواتین عموماً 18سے59برس کے عرصہ میں زیادہ مطمئن اور خوش رہتی ہیں جب کہ مردوں میں  20 برس کی عمر کے بعد سے خوشی کی سطح گرنے لگتی ہے۔ ایسپاس نے عالمی سطح پر لوگوں کو خوشی کے معیار اور مقدار کے بارے میں سرویز کا سلسلہ 2011 میں شروع کیا تھا۔ آج تک کے ریکارڈ کے مطابق عالمی سطح پر خوشی میں کمی کا رجحان چلا آ رہا ہے۔ دنیا 2011 سے مسلسل خوشی کے معاملے میں تنزلی کی طرف گامزن ہے۔

ترکی میں خوشی کی سطح میں سب سے زیادہ 40%کی کمی آئی ہے۔ اسی طرح جنوبی کوریا 21فیصد‘ کینیڈا 18اور امریکا میں 16فی صد کی کمی ہوئی۔ اسپین وہ خوش قسمت ملک ہے جس میں خوشی کی سطح میں11فی صد اضافہ ہوا ہے اور یہ واحد ملک ہے جس نے دو ہندسی ترقی حاصل کی ہے۔ رواں برس جو ممالک خوشی میں پہلے دس نمبروں پر ہیں ان میں بالترتیب فن لینڈ‘ ڈنمارک‘ سویڈن‘ نیدر لینڈز‘ کرسٹاریکا‘ ناروے‘ اسرائیل‘ لیکسمبرگ اور میکسیکو شامل ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جب کہ پاکستان عالمی سطح پر پاکستان کے لوگوں کی لوگوں کو خوشی کی کے لیے کی سطح

پڑھیں:

امدادی کٹوتیاں: 14 کروڑ لوگوں کو فاقوں کا سامنا، ڈبلیو ایف پی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 اکتوبر 2025ء) عالمی ادارۂ خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے خبردار کیا ہے کہ رواں سال کے اختتام تک دنیا بھر میں 14 کروڑ لوگوں کو شدید بھوک کا سامنا ہو سکتا ہے جبکہ انسانی امداد میں کمی کے باعث چھ بحران زدہ علاقوں میں خوراک پہنچانے کے لیے اس کی کارروائیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔

ادارے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سنڈی مککین نے کہا ہے کہ افغانستان، جمہوریہ کانگو، ہیٹی، صومالیہ، جنوبی سوڈان اور سوڈان میں اس کے امدادی پروگرام کڑے مسائل سے دوچار ہیں اور یہ صورتحال مزید بگڑنے کو ہے۔

راشن کی فراہمی میں ہونے والی ہر کٹوتی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بچہ بھوکا سوتا ہے، کوئی ماں اپنا کھانا چھوڑ دیتی ہے یا کوئی خاندان زندہ رہنے کے لیے درکار مدد سے محروم ہو جاتا ہے۔

(جاری ہے)

Tweet URL

'ڈبلیو ایف پی' کی جاری کردہ نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ بحران ایسے وقت سامنے آ رہا ہے جب دنیا میں بھوک تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔

اس وقت 31 کروڑ 90 لاکھ لوگ شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، جن میں سے چار کروڑ 40 لاکھ کو ہنگامی حالات کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ، سوڈان اور غزہ میں قحط کی صورتحال ہے۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے مطابق، رواں سال ادارے کو ملنے والے امدادی وسائل میں 40 فیصد کمی کا خدشہ ہے جس سے اس کا متوقع بجٹ 10 ارب ڈالر سے کم ہو کر 6.4 ارب ڈالر رہ جائے گا۔

انہوں نے خبردار کیا ہے کہ ان حالات میں بھوک کے خلاف دہائیوں کی محنت اور پیش رفت ضائع ہو سکتی ہے۔

ادارے نے افریقی خطے ساہل میں پانچ لاکھ افراد کو غذائی خود کفالت کے حصول میں مدد دی ہے۔ اگر امدادی وسائل مہیا نہ ہوئے تو یہ کامیابی بھی ضائع ہو جائے گی۔ہنگامی امدادی اقدمات کو خطرہ

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امدادی وسائل میں کمی کے باعث خوراک کی فراہمی میں کٹوتیاں ایک کروڑ 37 لاکھ افراد کو بھوک کی بحران زدہ سطح سے نیچے دھکیل کر ہنگامی درجے پر پہنچا سکتی ہیں جو کہ بھوک کا شکار افراد کی تعداد میں ایک تہائی اضافے کے مترادف ہو گا۔

افغانستان میں صورتحال تشویشناک حد تک خراب ہو چکی ہے جہاں غذائی امداد صرف 10 فیصد ضرورت مند لوگوں تک ہی پہنچ رہی ہے۔ جمہوریہ کانگو میں بھی بھوک ریکارڈ سطح تک پہنچ چکی ہے جہاں تقریباً 2 کروڑ 80 لاکھ افراد یا ملک کی چوتھائی آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ ادارے نے رواں ماہ ملک میں 23 لاکھ افراد کو خوراک فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن وسائل میں کمی کے بعد اب صرف 6 لاکھ افراد ہی اس سے مستفید ہوں گے۔

ہیٹی میں بھوکے لوگوں کے لیے تیار کھانےکی فراہمی کے پروگرام پہلے ہی بند کیے جا چکے ہیں اور لوگوں کو ادارے کی جانب سے معمول کے ماہانہ راشن کا صرف نصف حصہ مل رہا ہے۔

صومالیہ میں بھی صورتحال مسلسل بگڑ رہی ہے۔ گزشتہ سال ملک میں 22 لاکھ افراد کو امدادی خوراک دی جا رہی تھی جبکہ نومبر 2025 تک یہ تعداد گھٹ کر 3 لاکھ 50 ہزار رہ جائے گی۔ جنوبی سوڈان میں تمام مستحق افراد کے لیے راشن میں کٹوتی کر دی گئی ہے۔

سوڈان کی صورت حال بھی نہایت سنگین ہے۔ ادارہ جنگ سے متاثرہ اس ملک میں ہر ماہ 40 لاکھ افراد کو خوراک فراہم کر رہا ہے جہاں نصف آبادی یعنی دو کروڑ 50 لاکھ افراد شدید غذائی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔'ڈبلیو ایف پی' کا عزم

ادارے نے اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا ہے کہ مالی وسائل کی کمی نے بحران زدہ علاقوں کو امداد پہنچانے کی تیاری کے اقدامات کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔

تقریباً ایک دہائی بعد پہلی مرتبہ ہیٹی میں طوفانی موسم کے لیے کوئی ہنگامی غذائی ذخیرہ موجود نہیں اور افغانستان میں سردیوں کی آمد پر امدادی خوراک ذخیرہ نہیں کی جا سکی۔

ادارے نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ بھوک سے بری طرح متاثرہ علاقوں میں غذائی امداد کی فراہمی جاری رکھے گا۔ سنڈی مککین کا کہنا ہے کہ امدادی خوراک میں تباہ کن کٹوتیاں نہ صرف جانوں کو خطرے میں ڈالتی ہیں بلکہ استحکام کو بھی متاثر کرتی ہیں۔ ان سے نقل مکانی میں اضافہ ہوتا ہے اور وسیع تر سماجی و اقتصادی بحران جنم لیتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان کے لوگوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ دائمی تشدد کے بجائے باہمی سلامتی کا انتخاب کریں: فیلڈ مارشل
  • مودی حکومت کا سیاہ باب، بھارتی پاسپورٹ کی عالمی درجہ بندی میں بڑی تنزلی
  • گلبرگ ٹائون میں ترقیاتی کام تیز ، شہریوں میں خوشی کی لہر
  • افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
  • امدادی کٹوتیاں: 14 کروڑ لوگوں کو فاقوں کا سامنا، ڈبلیو ایف پی
  • بھارت-طالبان تعلقات: عالمی سطح پر خواتین کے حقوق کی نئی بحث
  • بھارت کی الیکٹرک وہیکل سبسڈیوں پر چین برہم، ڈبلیو ٹی او میں باضابطہ شکایت درج
  • پاک-سعودیہ دفاعی معاہدہ: پاکستانی قوم کا اعتماد اور خوشی دیدنی
  • پاکستان میں دہائیوں بعد سرد ترین سردی متوقع، ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجا دی