گورنر خیبر پختون خوا فیصل کریم کنڈی نے اپنے پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے حکم پر فوری طور پر کراچی سے پشاور پہنچ کر پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ سے حلف لیا۔پہلے انھوں نے وزیر اعلی کے انتخاب کو تسلیم نہیں کیا تھا اور مستعفیٰ وزیر اعلیٰ گنڈاپور کو اپنے پاس استعفے کی تصدیق کے لیے بلایا تھا ۔
ان کے جمہوریت پرست پارٹی چیئرمین نے جمہوریت کا علم بلند رکھا اور گورنر نے نئے وزیر اعلیٰ کے پی سہیل آفریدی سے حلف لیا ۔
گورنر ہاؤس میں پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا جہاں انھیں گورنر ہاؤس کے عملے نے سنبھالا اور پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ناپسندیدہ نعرے بھی لگائے کیونکہ حلف برداری کے موقع پر کے پی انتظامیہ نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو گورنر ہاؤس آنے کی اجازت دی تھی جو بڑی تعداد میں آئے تھے اور من مانی کرکے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے تھے جنھیں بہ مشکل کنٹرول کیا گیا اور عدالت عالیہ پشاور کے فیصلے پر عمل کرکے حلف اٹھا لیا گیا۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کارکنوں کے ہاتھوں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ سکتا تھا کیونکہ ہجوم کی جلد بازی کے نتیجے میں ہلاکتیں بھی ہو جاتی ہیں اور پی ٹی آئی کے جذباتی کارکن حلف نہ اٹھوانے پر گورنر صاحب سے ناراض تھے اور ان کا رویہ ناروا بھی ہو سکتا تھا۔
پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں نے ایک روز قبل بلاول بھٹو پر تنقید کی تھی کہ ان کا کردار جمہوریت پسندانہ نہیں ۔ مگر بلاول بھٹو نے جمہوریت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میاں رضا ربانی کی کتاب کی تقریب رونمائی میں اپنے گورنر کو ہدایت کی کہ وہ فوری طور پر وزیر اعلیٰ سندھ کا جہاز لے کر پشاور جائیں اور پی ٹی آئی کے اس وزیر اعلیٰ سے حلف لیں جنھیں کے پی اسمبلی نے گنڈا پور کے استعفے کی منظوری کی پروا کیے بغیر منتخب کر لیا تھا جن کے انتخاب کو پیپلز پارٹی سمیت کے پی کی کسی اپوزیشن پارٹی نے تسلیم نہیں کیا تھا۔
واضح رہے کہ سندھ کی طرح کے پی اسمبلی میں بھی برسر اقتدار پی پی اور پی ٹی آئی کی واضح اکثریت ہے اور دونوں اسمبلیوں میں ہی وہاں کی اپوزیشن کی نہیں سنی جاتی اور اپوزیشن کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور ایسا ہی پنجاب اسمبلی میں بھی ہوتا ہے کیونکہ وہاں بھی (ن) لیگ کی واضح اکثریت ہے، بس فرق یہ ہے کہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کی اپوزیشن پی ٹی آئی ہے جس نے اپنے بانی کے حکم پر قائمہ کمیٹیوں سے استعفیٰ دے رکھا ہے مگر سندھ اسمبلی اور کے پی اسمبلی میں اپوزیشن کی کسی پارٹی نے قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی نہیں چھوڑی، یہ کارنامہ صرف پی ٹی آئی سرانجام دے رہی ہے حالانکہ آئین اور جمہوریت کے لیے اپوزیشن کو اپنی اسمبلیوں کی قائمہ کمیٹیوں میں موجود رہنا چاہیے۔
2008 میں پیپلز پارٹی اور 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومتوں نے اپوزیشن رہنماؤں کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی جیسی اہم قائمہ کمیٹی کی سربراہی بھی دے رکھی تھی مگر پنجاب، سندھ اور کے پی اسمبلیوں میں ماضی کی طرح اپوزیشن کو پی اے سی کی سربراہی سے محروم رکھا گیا ہے جب کہ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ اپوزیشن کو وہ اہمیت اور مقام دیا جائے مگر تینوں اسمبلیوں میں اپوزیشن کی معقول تجویز بھی تسلیم نہیں کی جاتی جب کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کو اپوزیشن لیڈر اور چیئرمین پی اے سی کے عہدے بھی دیے گئے تھے۔
جہاں سے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے پی ٹی آئی کے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور شبلی فراز عدالتی سزاؤں کے باعث نااہل ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ بانی چیئرمین نے اپنی پارٹی کو نظرانداز کر کے دوسری پارٹی کے رہنماؤں کو یہ دونوں اہم عہدے دینے کی ہدایت کی ہے جو ناجانے کون سی جمہوریت ہے۔پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو پی ٹی آئی پر مہربان ہوئے ہیں مگر پی ٹی آئی ان کے والد کی صدارت کو تسلیم کرتی ہے نہ (ن) لیگ کی حکومت کو، مگر بلاول بھٹو پی ٹی آئی کو رعایت دے رہے ہیں جب کہ پی ٹی آئی کو بلاول بھٹو کی صرف وہ باتیں پسند ہیں جو (ن) لیگ کے خلاف اور پی ٹی آئی کے حق میں ہوں، تو یہ ان کی جمہوریت پسندی مانی جاتی ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما پی پی کے چیئرمین کے فیصلوں کو صرف اپنے مفاد کے لیے ہی اہمیت دیتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی سابق وفاقی حکومت میں پیپلز پارٹی میں صرف بلاول بھٹو کو نہ جانے کیسے بخش دیا گیا تھا، ورنہ ان کے والد و پھپھو سمیت اہم پی پی رہنماؤں پر مقدمات بنوا کرگرفتارکرایا گیا تھا صرف بلال زرداری محفوظ رہے تھے جو نہ جانے پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کی کون سی جمہوریت پسندی تھی۔ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنوانے کے لیے کیا جمہوریت پسندی کا مظاہرہ ہوا تھا۔
پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ نے موجودہ حکومت بنوانے کے لیے معاہدے کے تحت صدر مملکت آصف زرداری کو منتخب کرایا اور چار اہم آئینی عہدے اور بلوچستان حکومت پی پی کو ملی تھی تو پی پی موجودہ حکومت کا حصہ نہیں تو پھر کیا ہے۔ جمہوریت کے نام پر عہدوں کی بندر بانٹ ماضی میں بھی ایسے ہی ہوتی تھی اور برسر اقتدار لوگ حکومت کا حصہ ہوتے تھے مگر پی پی رہنما اس حکومت کو اپنا نہیں مانتے جس میں ان کے رہنما سربراہ مملکت ہیں یہ کیسی جمہوریت پسندی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جمہوریت پسندی اور پی ٹی آئی کے پی اسمبلی پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کے اپوزیشن کو بلاول بھٹو اسمبلی میں وزیر اعلی رہنماو ں میں پی کے لیے
پڑھیں:
این ایف سی میں خیبرپختونخوا کا حصہ لینے کیلئے صوبائی حکومت اور اپوزیشن متحد ہوگئیں
پشاور:قومی مالیاتی کمیشن کے تحت خیبرپختونخوا کا حصہ بڑھانے اور بقایاجات کے حصول کے لیے تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتیں متحد ہوگئی ہیں، چار دسمبر کو ہونے والے این ایف سی کے اجلاس میں صوبہ کا موقف پیش کرنے کے حوالے سے خیبرپختونخوا حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کو بھی اعتماد میں لے لیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے صوبے کے حقوق کے حصول کے لیے ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے، حکومت کا موقف ہے کہ وہ این ایف سی اجلاس میں صوبے کا حصہ 14.6 سے بڑھا کر 19.4 کرنے کا مطالبہ کریں گے ہم کوئی خیرات، بھیگ نہیں مانگ رہے ہم آئین و قانون کے تحت اپنا حق مانگ رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا اسمبلی کا اجلاس اسپیکر بابر سلیم سواتی کی صدارت میں شروع ہوا تو پیپلز پارٹی کے احمد کنڈی نے تجویز پیش کی کہ چار دسمبر قومی مالیاتی کمیشن کا اجلاس ہونے جارہا ہے، معمول کی کارروائی روک پر اس پر بحث کی اجازت دی جائے جس پر اجلاس میں معمول کی کارروائی روک کر این ایف سی بحث کرائی گئی۔
حکومتی ارکان عبدالکریم خان، منیر حسین لغمانی، داؤد شاہ، معاون خصوصی برائے اطلاعات شفیع جان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ این ایف سی کے تحت خیبرپختونخوا حکومت کا جو حق بنتا ہے وفاق وہ حق نہیں دے رہا، قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد خیبرپختونخوا کی شرح بڑھ چکی ہے، پہلے یہ شرح 14.4 فیصد تھی اب یہ شرح بڑھ کر 19 فیصد تک بڑھ چکی ہے، بجلی کے خالص منافع پانی کے استعمال پر بھی ہمارا حق نہیں دیا جارہا، یہ صرف تحریک انصاف کا نہیں خیبرپختونخوا کا ایشو ہے اس پر تمام سیاسی جماعتوں کو بھی آواز اٹھانی چاہیے۔
حکومتی ارکان نے کہا کہ آئین کے مطابق ہر پانچ سال بعد این ایف سی تشکیل دینا ہوتا ہے لیکن نئے این ایف سی کی تشکیل میں تاخیر کی جاتی رہتی ہے، قبائلی علاقوں کو دہشت گردی کا سامنا ہے جب قبائلی علاقے شامل ہوئے تو ایک فیصد دہشت گردی کے خلاف شیئر دینے کا فیصلہ کیا گیا لیکن وہ بھی نہیں دیا جارہا، این ایف سی کے مسئلے کو سیاسی بنادیا گیا ہے یہ آئینی مسئلہ ہے اور سیاست سے بالاتر ہوکر ہم نے صوبے کے حقوق کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔
اپوزیشن ارکان ارباب عثمان، نثار باز خان، سردار شاہجہاں، احمد کنڈی، اشبر خان جدون، آمنہ سردار نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے حقوق کے حصول کے لیے تمام اپوزیشن حکومت کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں، تحریک انصاف کی خیبرپختونخوا میں تیسری حکومت ہے لیکن صوبے کے کیس کو وفاق کے سامنے پیش نہیں کیا گیا، جب صوبے کے حقوق کی بات آتی ہے تو صوبائی کابینہ ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہے، صوبائی حکومت این ایف سی کے تحت صوبے کے حق تو بات کرتی ہے لیکن پی ایف سی کے تحت اضلاع کو حق نہیں دے رہی، بلدیاتی نمائندے بے اختیار ہیں، مقامی حکومتیں صرف نام کی ہیں، نعرے لگانے سے حق نہیں ملے گا بیٹھ کر بات کرنا ہوگی وفاق کے خلاف محاز آرائی سے حقوق نہیں ملنے والے وزیراعلی اپوزیشن کو لیکر جائیں اور این ایف سی اپنا مقدمہ لڑیں۔
صوبائی وزیر مینا خان نے حکومتی موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلی خیبرپختونخوا نے این ایف سی کے اوپر خیبرپختونخوا کے مقدمے کو مؤثر طریقے سے پیش کیا، ہمارا این ایف سی میں حصہ 14 اعشاریہ 62 فیصد بنتا ہے، آرٹیکل 107 کے اندر واضح لکھا ہے کہ یہ 4 صوبوں میں تقسیم ہوگا، 1 فیصد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے مختص کیا گیا تھا، آج فاٹا خیبرپختونخوا کا حصہ ہے، 90 فیصد شہادتیں خیبرپختونخوا کی عوام کے ساتھ فورسز نے دی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 100 ارب روپے ضم اضلاع کے لئے سالانہ وعدہ کیا گیا تھا، 22 سے 25 سو ارب روپے قاضی فارمولے کے تحت بقایا ہے، ضم اضلاع کے اخراجات 130 ارب روپے ہے 80 ارب روپے خیبر پختونخوا حکومت ادا کر رہی ہے، این ایف سی میں حصہ اور دیگر بقایاجات آفر صوبہ کو مل جائے تو صوبہ ترقی کریگا، صوبہ کی عوام کو اس حوالے سے خوشحالی ملے گی اور صوبہ ترقی کرے گا، ہم کسی سے خیرات یا بھیک یا چوری نہیں کر رہے ہیں، یہ سب وسائل ہمارے ہیں اور یہ ہمارا حق ہے، تمام تجاویز کو شامل کر کے تمام سابق وزراء کو بھی بلائیں گے اور تجاویز لیں گے۔
این ایف سی کے معاملے پر اسپیکر کی زیر صدارت اہم اجلاس
خیبرپختونخوا اسمبلی سیکرٹریٹ میں اسپیکر بابر سلیم سواتی کی زیرصدارت ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں این ایف سی ایوارڈ اور صوبے کے مالی حقوق کے حوالے سے مجموعی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں مختلف جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز، اراکینِ اسمبلی اور محکمہ خزانہ و دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران شرکاء کو این ایف سی ایوارڈ سے متعلق موجودہ پیش رفت، صوبے کو درپیش مالی مشکلات اور وفاقی سطح پر وسائل کی تقسیم سے متعلق اٹھنے والے اعتراضات پر بریفنگ دی گئی۔
شرکاء نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ صوبے کے مالی حقوق، خصوصاً ضم شدہ اضلاع کے ترقیاتی و انتظامی اخراجات سے متعلق اہم معاملات مسلسل نظرانداز کیے جا رہے ہیں، جس کا براہ راست اثر صوبے کی گورننس، امن و امان اور ترقیاتی عمل پر پڑ رہا ہے۔
اسپیکر بابر سلیم سواتی نے واضح کیا کہ خیبر پختونخوا حکومت اور صوبائی اسمبلی صوبے کے عوام کے مالی و آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے مکمل طور پر یکسو ہیں۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے صوبے کے جائز مؤقف کو مضبوطی سے ہر فورم پر پیش کیا جائے گا اور کسی بھی صورت صوبے کے ساتھ ہونے والی ناانصافی برداشت نہیں کی جائے گی۔
اجلاس کے اختتام پر اسپیکر نے کہا کہ خیبر پختونخوا اپنی مشکلات اور ضروریات کے تناظر میں ایک مضبوط کیس رکھتا ہے اور صوبائی حکومت اس معاملے میں نہ صرف سنجیدہ ہے بلکہ تمام وسائل بروئے کار لا کر اپنے عوام کا مقدمہ بھرپور انداز میں لڑے گی۔