وزیراعلیٰ سندھ نے کراچی سیف سٹی منصوبے میں توسیع کی منظوری دے دی
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 اکتوبر2025ء) وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کراچی سیف سٹی منصوبے کی توسیع کی منظوری دیتے ہوئے متعلقہ محکموں کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس عوامی تحفظ کے اہم منصوبے کی بروقت تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے اس کے نفاذ کی رفتار میں نمایاں تیزی لائیں۔یہ ہدایات وزیراعلی نے وزیراعلی ہائوس میں کراچی سیف سٹی منصوبے (فیز ون)کی پیش رفت کا تفصیلی جائزہ اجلاس کی صدارت کے دوران دیں۔
اجلاس میں وزیرداخلہ ضیا الحسن لنجار، چیف سیکریٹری آصف حیدر شاہ ، سیکریٹری داخلہ اقبال میمن، آئی جی پولیس غلام نبی میمن، چیئرمین منصوبہ بندی و ترقیات نجم شاہ، سیکرٹری وزیراعلی رحیم شیخ، ڈی جی سیف سٹی اتھارٹی آصف اعجاز شیخ اور دیگر نے شرکت کی ۔(جاری ہے)
وزیراعلی نے کہا کہ سیف سٹی منصوبہ محض ایک نگرانی کا منصوبہ نہیں بلکہ شہری سلامتی اور انتظام کا ایک جامع نظام ہے جو پولیسنگ اور ایمرجنسی رسپانس کو جدید خطوط پر استوار کرے گا۔
اجلاس کو بتایا گیا کہ 31 مئی 2024 کو شروع ہونے ولا منصوبے کا پہلا مرحلہ 30 نومبر 2025 تک مقررہ وقت پر مکمل کر لیا جائے گا۔ اس مرحلے میں جدید مصنوعی ذہانت (اے آئی)سے مزین کیمروں کا نیٹ ورک نصب کیا جا رہا ہے، کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر قائم کیے جا رہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ڈیٹا بیس کو ضم کیا جا رہا ہے تاکہ جرائم کی روک تھام، ٹریفک کے بہتر انتظام اور ہنگامی صورتحال میں فوری ردعمل کو ممکن بنایا جا سکے۔اب تک کی پیش رفت میں سی سی ٹی وی کیمروں، کھمبوں، پوائنٹ آف پریزنس (پی او پی)سائٹس، سرورز اور ڈیٹا اسٹوریج کے ڈھانچے کی تنصیب شامل ہے۔ چہروں کی شناخت، گاڑیوں کی نگرانی اور حقیقی وقت میں مانیٹرنگ کے لیے تجزیاتی ٹولز کے انضمام کا عمل جاری ہے۔وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار نے وزیراعلی کو بتایا کہ اس وقت 12 ایمرجنسی ریسپانس وہیکلز(ای آر ویز)فیلڈ میں تعینات ہیں جو کمانڈ سینٹر سے منسلک ہیں تاکہ زمینی سطح پر فوری ردعمل کو ممکن بنایا جا سکے۔وزیراعلی نے سیف سٹی اتھارٹی کو ہدایت دی کہ وہ ڈیٹا کی بلا رکاوٹ ترسیل کے لیے نیٹ ورک کنیکٹیویٹی تیار کرے اور نادرا، پولیس اور گاڑیوں کی رجسٹریشن جیسے مختلف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ڈیٹا بیس کو ضم کرے تاکہ اسمارٹ پولیسنگ کو فروغ دیا جا سکے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فیز ون کے معیار اور مقررہ مدت میں کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی۔فیز ٹو کے منصوبے کے بارے میں اجلاس کو بتایا گیا کہ اس کے تحت کراچی کے مزید ہائی رسک، تجارتی اور رہائشی علاقوں بشمول ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ ای)اور جنوبی، شرقی اور ملیر اضلاع میں نگرانی کے نظام کو توسیع دی جائے گی۔اس توسیع کے تحت 4,750 کیمرے نصب کیے جائیں گے، 1,750 موجودہ کیمروں کو اپ گریڈ کیا جائے گا جبکہ 3,000 نئے کیمرے، جن میں انٹیلیجنٹ ٹریفک سسٹم (آئی ٹی ایس)کے کیمرے بھی شامل ہوں گے تاکہ ای چالان (ٹریکس)نظام کو سپورٹ کیا جا سکے، لگائے جائیں گے۔ایس فور سسٹم کو سیف سٹی پلیٹ فارم کے ساتھ ضم کیا جائے گا۔ مرکزی کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر سی پی او کراچی میں توسیع دی جائے گی تاکہ یہ 6,000 کیمروں کی مانیٹرنگ کر سکے جبکہ دو علاقائی کمانڈ سینٹرز بھی قائم کیے جائیں گے جنہیں ڈی آئی جی پی ساتھ کے دفتر اور سوک سینٹر میں موجود کنٹرول رومز کی اپ گریڈیشن کے ذریعے قائم کیا جائے گا۔فیز ٹو میں کمپیوٹر ایڈڈ ڈسپیچ (سی اے ڈی)کے جدید رسپانس سسٹم، اپ گریڈ شدہ کال سینٹر، تھری ڈی ڈیش بورڈز اور ایکوسیِک سمیت دیگر جدید تجزیاتی ٹولز شامل ہوں گے۔وزیراعلی نے فیز ٹو کے لیے عملے، بجٹ اور آپریشنل ضروریات کا بھی جائزہ لیا اور محکمہ خزانہ اور محکمہ داخلہ کو ہدایت دی کہ وہ مالیاتی ماڈل کو حتمی شکل دیں تاکہ کسی بھی انتظامی تاخیر سے بچا جا سکے۔وزیراعلی مراد علی شاہ نے کہا کہ کراچی پاکستان کا معاشی دل ہے، شہریوں، کاروباروں اور انفراسٹرکچر کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔انہوں نے تمام محکموں کو ہدایت دی کہ وہ فیز ون سے فیز ٹو کے درمیان ہموار منتقلی کے لیے تازہ ترین پیش رفت رپورٹس اور پالیسی تجاویز پیش کریں اور سیف سٹی اتھارٹی کو مزید بااختیار بنایا جائے تاکہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون سے واضح آپریشنل پروٹوکولز کے تحت کام کر سکے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے وزیراعلی نے کو ہدایت دی سیف سٹی جائے گا کے لیے کیا جا جا سکے فیز ٹو
پڑھیں:
بین الاقوامی سرمایہ کاری اور سی پیک؛ ترقی یا قرض کا جال؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251019-03-4
پاکستان کے لیے ایک غیر معمولی موقع، لیکن کیا ہم اسے دانشمندی سے استعمال کر پائیں گے؟ قومیں مواقع ضائع کرنے سے نہیں بلکہ ان کے درست استعمال نہ کرنے سے زوال پذیر ہوتی ہیں۔ یہی نکتہ آج پاکستان اور چین کے مشترکہ منصوبے سی پیک پر صادق آتا ہے۔ یہ صرف ایک اکنامک کاریڈور نہیں بلکہ ایک معاشی وژن ہے، جو پاکستان کے روشن مستقبل اور ترقی کی راہیں متعین کر سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس موقع کو ترقی میں ڈھال پائیں گے یا یہ قرضوں کا جال بن جائے گا؟
پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اسے عالمی سیاست و معیشت میں نمایاں کرتی رہی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع یہ ملک گوادر بندرگاہ کے ذریعے عالمی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے سب سے بڑے منصوبے کے طور پر سی پیک کا انتخاب کیا۔ اس منصوبے کی ابتدائی لاگت تقریباً 62 ارب ڈالر بتائی جاتی ہے، جس میں توانائی، شاہراہیں، ریل منصوبے اور گوادر کی ترقی شامل ہیں۔ حالیہ دنوں میں وزیر ِاعظم کے دورۂ چین کے دوران 8.5 ارب ڈالر کے معاہدے طے پائے۔ یہ سرمایہ کاری زراعت، توانائی، صنعت، صحت اور الیکٹرک گاڑیوں کے شعبوں میں تقسیم کی گئی ہے۔ زراعت میں ہائبرڈ بیج، ڈرون ٹیکنالوجی اور اسمارٹ فارمنگ کے منصوبے شامل ہیں۔ توانائی میں شمسی اور ہوائی بجلی کے منصوبے متعارف ہوں گے تاکہ مہنگے درآمدی ایندھن پر انحصار کم ہو۔ صنعت میں اسپیشل اکنامک زونز، اسٹیل ملز اور جدید کارخانے، صحت میں بائیوٹیک ریسرچ اور اسپتال، جبکہ ٹرانسپورٹ میں مقامی الیکٹرک گاڑیوں کی صنعت کو فروغ دیا جائے گا۔
یہ سرمایہ کاری پاکستان کے لیے کئی حوالوں سے گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ لاکھوں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، توانائی بحران میں کمی آئے گی، صنعتی برآمدات بڑھنے سے زرمبادلہ میں اضافہ ہوگا، اور گوادر کے ذریعے پاکستان خطے کا تجارتی مرکز بن سکتا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق صرف اگلے پانچ برسوں میں 20 لاکھ سے زائد براہِ راست و بالواسطہ روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ تاہم یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں۔ پاکستان پہلے ہی 100 ارب ڈالر سے زائد کے بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ اگر منصوبوں میں شفافیت اور بروقت تکمیل کو یقینی نہ بنایا گیا تو یہ سرمایہ کاری قرضوں کے بوجھ میں مزید اضافہ کر سکتی ہے۔ سیاسی عدم استحکام، پالیسی میں تسلسل کی کمی، ماحولیاتی خطرات اور مقامی کمیونٹیز کی شمولیت نہ ہونا مستقبل میں بڑی رکاوٹیں بن سکتی ہیں۔
سی پیک کا اصل فائدہ تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب ٹیکنالوجی کی منتقلی یقینی بنائی جائے، تعلیمی اداروں کو صنعت سے جوڑا جائے تاکہ نوجوان جدید ہنر سیکھ سکیں، اور پالیسیوں میں تسلسل قائم رکھا جائے۔ اگر ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا کو بھی اس منصوبے میں شامل کیا گیا تو پاکستان خطے کا معاشی پل بن سکتا ہے۔ سی پیک پاکستان کے لیے ایک نایاب موقع ہے۔ یہ محض سڑکوں اور بجلی گھروں کا منصوبہ نہیں بلکہ معاشی خودکفالت کی طرف ایک قدم ہے۔ لیکن اس کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ ہم اسے کس دانشمندی اور شفافیت کے ساتھ آگے بڑھاتے ہیں۔ اگر ہم نے یہ موقع گنوا دیا تو سی پیک قرضوں کا جال بن جائے گا، لیکن اگر ہم نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا تو یہ پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہوگا۔
کل ابتدائی لاگت (2013ء): 62 ارب ڈالر
بیجنگ معاہدے (2025ء): 8.5 ارب ڈالر
اہم شعبے: زراعت، توانائی، صنعت، صحت، الیکٹرک گاڑیاں۔
روزگار کے مواقع: متوقع 20 لاکھ براہِ راست و بالواسطہ۔
توانائی کا بوجھ: پاکستان کا 30 فی صد زرمبادلہ تیل و گیس پر خرچ۔
برآمدات میں اضافہ: 15–20 فی صد تک متوقع۔
اہم مرکز: گوادر بندرگاہ مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا اور چین کے درمیان پل ’’فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے؛ سی پیک یا تو ہمیں قرض کے اندھیروں میں دھکیل دے گا یا پھر ترقی کے روشن چراغ جلائے گا۔ اب یہ قوم کی دانشمندی پر منحصر ہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتی ہے‘‘۔