ہندی کی ماہر برطانوی پروفیسر بھارت سے ڈی پورٹ، وجوہات پر بحث چھڑ گئی
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
برطانیہ میں مقیم ہندی کی ممتاز محقق اور پروفیسر فرانچیسکا اورسینی کی ملک بدری نے علمی و ادبی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔
ناقدین اور ماہرین اس پر بحث کر رہے ہیں کہ آیا ویزے کی خلاف ورزی ہی اصل وجہ تھی یا اس فیصلے کے پیچھے اکیڈمک آزادی پر قدغن لگانے کا مقصد پوشیدہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی وزیراعظم ہاؤس میں دیوالی کی تقریب، نریندر مودی کو کچھ سیکھنا چاہیے، بھارتی اپنے ہی وزیراعظم پر پھٹ پڑے
میڈیا رپورٹس کے مطابق، لندن یونیورسٹی کے مایہ ناز اسکول آف اورینٹل اینڈ ایفریکن اسٹڈیز (SOAS) میں تدریس سے وابستہ پروفیسر فرانچیسکا اورسینی کو ہانگ کانگ سے دہلی پہنچنے پر داخلے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں واپس بھیج دیا گیا۔
Professor Francesca Orsini is a great scholar of Indian literature, whose work has richly illuminated our understanding of our own cultural heritage.
— Ramachandra Guha (@Ram_Guha) October 21, 2025
بھارتی حکام کے مطابق، انہوں نے سیاحتی ویزے کی شرائط کی خلاف ورزی کی تھی کیونکہ وہ ہندی ادیبوں سے غیر رسمی ملاقاتوں، ادبی مباحثوں اور ثقافتی تقریبات میں شرکت کے ذریعے تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف تھیں۔
وزارتِ داخلہ کی جانب سے تاحال کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔
مورخ رام چندر گوہا نے حکومت کے اس اقدام کو ’ایک غیر محفوظ، خوف زدہ اور تنگ نظر حکومت کی علامت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پروفیسر فرانچیسکا کے کام نے بھارت کے ثقافتی ورثے کو سمجھنے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں بھارت کی اسٹریٹیجک ڈیپتھ
دوسری جانب، صحافی ابھیجیت مجمومدار نے اس فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پروفیسر فرانچیسکا بھارت مخالف نظریات رکھتی ہیں اور انہوں نے شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجات میں کردار ادا کیا تھا۔
انہوں نے اپنی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ گہرے ریاستی عناصر سنسکرت، ہندی اور ہندوستانی مطالعات میں داخل ہو کر بھارت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اکیڈمک حلقوں میں اختلافمصنف و صحافی کُنل پُروہت نے اس واقعے کو ’قومی شرمندگی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس پروفیسر خاتون نے ہندی زبان کے لیے وہ کچھ کیا جو موجودہ تنگ نظر نظام کبھی نہیں کر سکتا۔
ٹی وی اینکر رجدیپ سردیسائی نے طنزیہ انداز میں کہا کہ مودی حکومت ایک طرف ہندی کو فروغ دینے کا دعویٰ کرتی ہے اور دوسری جانب ایک ایسی ماہر کو ملک بدر کرتی ہے جس نے ساری زندگی ہندی پر تحقیق کی۔
امریکی ماہرِ جنوبی ایشیا آڈرے ٹروشکے نے لکھا کہیہی وجہ ہے کہ ہندو قوم پرست حکومتیں تنقیدی سوچ رکھنے والے اساتذہ سے خائف ہیں۔ ’وہ علم کو نہیں، بلکہ خوف کو فروغ دیتی ہیں۔‘
مزید پڑھیں: بھارت: ’آئی لو محمدﷺ‘ کہنے پر مقدمات، مسلمانوں کے خلاف نیا کریک ڈاؤن
مصنف امیر شاہول کے مطابق، یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھارت کس طرح ان لوگوں کے ساتھ پیش آتا ہے جو اس کی زبانوں اور ثقافت پر تحقیق کرتے ہیں۔
’چاہے کوئی اورسینی کے خیالات سے اتفاق کرے یا نہ کرے، صرف ثقافتی مکالمے میں شرکت پر اسے سزا دینا ایک خوفناک پیغام ہے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک سمجھنے سے زیادہ قابو پانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔‘
دوسری جانب، کچھ سوشل میڈیا صارفین نے ان پر الزام عائد کیا کہ وہ ’ہندی کو جابرانہ زبان قرار دے کر بھارت کو تقسیم کرنے‘ کی کوشش کر رہی تھیں۔
مزید پڑھیں: لداخ میں بھارتی جبر میں اضافہ، اپنے حق کے لیے احتجاج کو روکنے کے لیے اقدامات میں مزید سختی
بہت سے ماہرین کے نزدیک، پروفیسر اورسینی پر پابندی ہندی مخالف رویے سے زیادہ فکری عدم برداشت کی علامت ہے۔
ایک ماہر نے کہا کہ جب کوئی قوم سوچنے والوں سے ڈرنے لگتی ہے، وہ ترقی کرنا چھوڑ دیتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسکول آف اورینٹل اینڈ ایفریکن اسٹڈیز بھارت ڈی پورٹ رجدیپ سردیسائی عدم برداشت فرانچیسکا اورسینی لندن یونیورسٹی نئی دہلی ہانگ کانگ ہندیذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بھارت ڈی پورٹ رجدیپ سردیسائی فرانچیسکا اورسینی لندن یونیورسٹی نئی دہلی ہانگ کانگ پروفیسر فرانچیسکا کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
کراچی ایئر پورٹ کی عمارت میں شہری سے کروڑوں کی ڈیجیٹل کرنسی لوٹ لی گئی
کراچی ایئرپورٹ کی عمارت میں شہری لٹ گیا، 2 سادہ لباس افراد نے کروڑوں روپےکی ڈیجیٹل کرنسی لوٹ لی۔
مبینہ واردات میں دو سادہ لباس افراد نے پشاور جاتے ہوئے شہری کو روکا اور اُسے ایک کمرے میں لے گئے۔
سادہ لباس افراد نے کمرے میں شہری سے پہلے موبائل فون چھینا اور پھر ڈیجیٹل کرنسی اکاؤنٹ سے ساڑھے 8 لاکھ ڈالرز ٹرانسفر کرلیے۔
ملیر کورٹ میں دائر درخواست میں شہری نے جان کا تحفظ یقینی بنانے کی استدعا کردی۔
30 ستمبر کو پیش آئے واقعے پر عدالت نے ایس ایس پی ملیر کو انکوائری کا حکم دے دیا۔