WE News:
2025-10-23@07:11:06 GMT

خالصتان تحریک اور مودی کا خوف

اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT

باور کیا جاتا ہے کہ خالصتان 20ویں صدی کے آواخر میں جنم لینے والی کوئی تحریک ہے۔ سو لازم ہے کہ اس تحریک کا بیک گراؤنڈ سمجھ لیا جائے۔

سکھ مذہب 15ویں صدی کے آواخر میں بابا گروناک کی تعلیمات کی روشنی میں وجود میں آیا۔ خدا کی وحدانیت، مساوات اور انصاف اس مذہب کے اہم ستون ہیں اور گرنتھ صاحب اس کی مقدس کتاب۔ اس مذہب کے 10ویں گرو گوبند سنگھ جی نے 1699 میں خالصہ پنتھ (پاک، آزاد سکھ برادری) کی بنیاد رکھی ہے۔  یہی وہ اصطلاح ہے جو آگے چل کر خالصتان میں بدلی۔گروگوبند جی کے  100 سال بعد رنجیت سنگھ نے پہلی سکھ ریاست بنا بھی لی۔ مگر جلد ہی برٹش ہندوستان پر قبضے کے لئے آپہنچے اور بالآخر 1849 میں سکھ سلطنت بھی برٹش قبضے میں چلی گئی۔ لیکن قابل غور نکتہ یہ ہے کہ سکھوں نے برٹش سرکار کے لیے کوئی درد سر پیدا کرنے کی بجائے اس کی ’برٹش انڈین آرمی‘ کو بڑی تعداد میں سپاہی فراہم کیے۔

یہ بھی پڑھیں: شرم الشیخ معاہدہ: وجوہات اور امکانات

یہی وہ عرصہ ہے جب سکھوں نے اپنی الگ مذہبی شناخت کے لیے جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا اور یوں 1920 میں ان کی سب سے پرانی جماعت ’اکالی دل‘ وجود میں آئی۔ مگر بڑا جھٹکا انہیں تب لگا جب تقسیم ہند کے نتیجے میں پنجاب بھی 2 ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ یہ ان کے لیے بڑا بحران یوں ثابت ہوا کہ آبادی ان کی مشرقی پنجاب میں زیادہ تھی جو انڈیا کا حصہ بن گیا لیکن ان کے اکثر مقدس مقامات پاکستان والے پنجاب میں چلے گئے۔

مگر بات اتنی سی بھی نہ تھی۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی پیدا ہوگیا کہ انڈیا کی سب سے بڑی ریاست مشرقی پنجاب میں بھی یہ اقلیت تھے۔ اور پنجابی ہندوؤں نے ان کے ساتھ واردات یہ کر ڈالی کہ سرکار کے کھاتے میں اپنی زبان ہندی لکھوائی، جس سے پنجاب کی سرکاری زبان ہندی ہی بن گئی۔ یہاں سے سکھوں کی جانب سے الگ صوبے اور لسانی شناخت کی تحریک شروع ہوگئی جس کا نتیجہ 1966 میں ایسے پنجاب کی صورت ظاہر ہوا جس سے ہریانہ کو الگ کرلیا گیا تاکہ پنجابی زبان اور سکھ شناخت کا مسئلہ حل ہوسکے۔ لیکن ایک مسئلہ حل ہوا تو دوسرے نے سر اٹھا لیا۔ہریانہ کے الگ ہونے پر سکھوں کو یہ شکایت پیدا ہوگئی پنجاب کی زرعی زمین کم کردی گئی۔ اور یہ بے چینی 70 کی دہائی تک چلی آئی۔ وہی دہائی جس میں ’خالصتان‘ کا جن بوتل سے باہر آنے کے لیے انگڑائی لینے کو تھا۔

اس زمانے میں پنجاب اور ہریانہ سے لے کر دلی تک اکالی دل کا سیاسی اثر تھا جو کانگریس کے لیے انتخابی چیلنج تھی۔ اس چیلنج کے توڑ کے لیے اندراگاندھی 1977ء میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کو سامنے لے آئیں۔ آگے کا سین پاکستان سے خاصی مماثلت رکھتا ہے۔ بھنڈرانوالہ  ایک سکھ مذہبی درسگاہ کے سربراہ تھے اور ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا۔ یوں گویا ان کی مذہبی اہمیت کو اندرا نے اکالی دل کے خلاف ’مذہب کارڈ‘ کے طور پر استعمال کیا۔ سیاست کا مزہ چکھتے ہی بھنڈرانوالہ 1980 میں خود سیاسی لیڈر بن گئے۔ یوں سکھوں کو میسر آیا ایسا لیڈر جو صرف سیاسی نہ تھا بلکہ اس کی قائدانہ شناخت ’مذہبی سیاسی رہنما‘ کی تھی۔ وہ رہنما جس کا سخت گیر مؤقف نوجوانوں میں تیزی سے پاپولر ہو رہا تھا۔ اور جو دہلی سے کہہ رہا تھا

’ہم بھارت کے دشمن نہیں، لیکن سکھوں کے ساتھ ناانصافی برداشت نہیں کریں گے‘

سیاست کا واجبی سا شعور رکھنے والا بھی جب یہ سطر پڑھے گا تو  یہ سمجھنے میں بالکل مشکل پیش نہ آئے گی کہ یہ سطر کسی بڑے خطرے کا چیختا الارم تھا۔ کیونکہ یہ لمحہ موجود میں دشمنی نہ ہونے کے اعلان کے ساتھ ساتھ جلد ہی دشمنی کی ابتدا ہونے کا بھی اشارہ تھا۔ بھنڈرانوالہ جسے ناانصافی کہہ رہا تھا اس کی ابتدا تو سکھوں کے نزدیک تقسیم کے ساتھ ہی ہوگئی تھی۔ بس ایک ہی سال لگا مشرقی پنجاب میں ہتھیار پھیلنے میں۔ 1981ء میں وہاں ہر طرف ہتھیار نظر آنے شروع ہوگئے۔  صرف یہی نہیں بلکہ کچھ اہم قتل بھی ہوگئے۔ ان میں سب سے اہم اکتوبر 1981ء میں لالاجگت نارائن کا قتل تھا جو ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے۔ بھنڈرانوالہ پر اس قتل کا مقدمہ بھی چلا مگر عدم ثبوت کی بنا پر بری ہوگئے۔ 1983ء تک صورتحال یہ ہوگئی کہ فائرنگ، بم دھماکوں اور قتل کی خبریں روزانہ کا معمول بن گئیں۔ ہندو تاجر اور پولیس اہلکار خاص طور پر ان حملوں کا نشانہ تھے۔

اس کے جواب میں شروع ہوا ریاستی بیانیہ جس میں 3 باتوں پر زور تھا، کہا گیا کہ سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ اور ان کے پیروکار

٭ علیحدگی کی تحریک  چلا رہے ہیں

٭ دہشت گردی پھیلا رہے ہیں

٭ انڈیا کی سالمیت کے لیے خطرہ ہیں

اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ بیانیہ فوجی آپریشن کے جواز کے لیے تراشا گیا تھا۔ وہی فوجی آپریشن جو جون 1984ء میں آپریشن بلیو سٹار کے نام سے گولڈن ٹیمپل پر چڑھائی کے صورت انجام دیا گیا۔ بھنڈرانوالہ اور اس کے پیروکار ہی نہیں بلکہ گولڈن ٹیمپل میں بڑے پیمانے پر عام شہری بھی مارے گئے۔ جن میں بوڑھے، جوان، مرد و زن اور بچے سب شامل تھے۔ یہ محض قتل عام نہ تھا بلکہ دنیا بھر میں موجود ہر سکھ کے لیے اپنے مقدس ترین مقام کی بدترین توہین کا بھی واقعہ تھا۔ یہ وہ دور تھا جب برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر تو انڈیا میں اندرا گاندھی کو آئرن لیڈی سمجھا جاتا تھا۔ آپریشن بلیو اسٹار کے ردعمل میں 31 اکتوبر 1984کو دو سکھ باڈی گارڈز نے انڈین آئرن لیڈی کو پگھلا ڈالا۔ اتنے بڑے ظلم کے بعد بھی اپنی سیکیورٹی ٹیم میں سکھوں کو شامل رکھنا حماقت کی آخری حد تھی جس کا سکھوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔

اندرا گاندھی کے قتل کا بھی ردعمل آیا۔ پنجاب سے باہر جو بھی سکھ نظر آیا مار دیا گیا۔ صرف دہلی میں ہی 8000 کے لگ بھگ سکھ قتل ہوئے۔ یوں سکھوں کی نفرت اب محض ریاست سے نہ رہی بلکہ ہندو دشمنی میں بھی بدل گئی۔ اگلے چند سال بہت خونریز ثابت ہوئے۔ مگر بالآخر 1995 کے وسط تک آتے آتے انڈین حکومت نے صورتحال پر قابو پالیا۔ بہت سے خالصتانی پولیس مقابلوں میں مارے گئے، اور ایک بڑی تعداد جلا وطن بھی ہوگئی۔ نائن الیون کے بعد تو گویا سناٹے کا ہی ایک 10 سالہ وقفہ آگیا۔

مزید پڑھیے: افغانوں کی عسکری حقیقت

اگرچہ سوشل میڈیا کا آغاز 21 ویں صدی کے پہلے عشرے کے وسط میں ہی ہوگیا تھا مگر اس نے باقاعدہ عوامی و عمومی رنگ 2010ء سے اختیار کرنا شروع کیا۔ یوں سوشل میڈیا انقلاب ان سکھوں کے لیے ہی بہت اہم ثابت ہوا جو اب تتر بتر تھے۔ خالصتان کی تحریک سوشل میڈیا پر منظم ہونا شروع ہوئی تو اگلے 10 سالوں میں اتنی طاقتور بن گئی کہ انڈین گلی کوچوں میں نظر نہ آنے کے باوجود نریندرمودی کے لیے ڈراؤنا خواب بن گئی۔ سو اسے بڑی چالاکی سے پاکستان کے لیے درد سر بنانے کا پلان بنایا گیا۔

اس پلان کے ماسٹر مائنڈ ’را‘ کے وہ اہلکار تھے جو کینیڈا میں خالصتان تحریک کے اندر تک رسائی حاصل کرچکے تھے۔ اگر یاد کیجیے تو 7 آٹھ سال قبل اچانک کینیڈا سے جوق در جوق سکھ وفود نے پاکستان آنا شراوع کردیا تھا۔ ہر آنے والا گروپ یہ چورن بیچتا کہ سینٹرل پنجاب کو سکھوں کے ایک بڑے مرکز میں تبدیل کرنا چاہیے۔ پاکستان میں جابجا پھیلے سکھوں کو یہیں یکجا بسانا چاہیے، ایک عظیم الشان قسم کی باباگرونانک یونیورسٹی کا قیام عمل میں لانا چاہیے۔ ساتھ ان گروپوں نے متروکہ وقف املاک میں بھی دلچسپی لینی شروع کردی۔ حیران کن طور پر ہمارے پنجاب کے کچھ دانشور اور اینکر ان کے سپورٹر بھی بن گئے۔

کچھ عرصہ تو ہمارے اداروں نے انہیں آنے دیا تاکہ سب کچھ کھل کر سامنے آجائے اور سینٹرل پنجاب پروجیکٹ سے جڑے سارے مقامی پنجابی بھی واضح ہوجائیں۔ جب یہ ہوگیا تو پھر خاموشی سے کچھ کارڈ اس مہارت سے کھیل دیے گئے کہ کینیڈا والے سارے ہی سکھ پاکستان کا راستہ بھول گئے۔ اب نہ کوئی گرونانک یونیورسٹی کا تذکرہ تھا اور نہ ہی سینٹرل پنجاب کو سکھوں کی آڑ میں را کا پلے گراؤنڈ بنانے کی بات۔ صرف یہی نہیں بلکہ ’کرتارپور‘ والا ماسٹر اسٹروک بھی کھیل دیا گیا جس نے مودی کو اس خوف میں مبتلا کردیا کہ یہ تو اصل خالصتانیوں کے لیے پاکستان کی کوئی بڑی سہولتکاری لگتی ہے۔ سو یہاں سے شروع ہوئی خالصتانیوں کی وہ ٹارگٹ کلنگ جو انڈیا میں بھی جاری ہے اور کینیڈا میں۔

جارحانہ خارجہ پالیسی رکھنے والے ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیز کے لیے تعلیمی ادارے نرسری ثابت ہوتے ہیں۔ سکھوں کی سائبر تحریک شروع ہونے سے کچھ ہی قبل مشرقی پنجاب کی اسٹوڈنٹ پالیٹکس میں سرگرم لارنس بشنوئی نام کے ایک لونڈے کے تیور بتا رہے تھے کہ اسے ڈان بننے کا بہت شوق ہے۔ سو اسے فری ہینڈ ملنے لگا کہ کیا پتہ کب اس کی ضرورت پیش آجائے۔ اور یہ فری ہینڈ اس حد تک ملا کہ آنے والے سالوں میں وہ سیدھا سیدھا سوشل میڈیا پر بتا کر لوگوں کو قتل کرنے لگا۔ اسے گرفتار کرکے جیل پہنچایا گیا تو یہ وہاں سے ویڈیو پیغامات کی صورت اپنے مستقبل کے عزائم کا ہی نہیں بلکہ قتل کی دھمکیاں اور ان دھمکیوں پر عملدرآمد کے بعد طربیہ ردعمل دینے لگا۔ پھر اچانک اسے گجرات کی جیل منتقل کردیا گیا جہاں اس سے ہر طرح کی آن ریکارڈ ملاقاتیں ممنوع ہوگئیں۔ اس کی ویڈیوز اور سوشل میڈیا پوسٹیں بھی بند ہوگئیں۔ مگر حیران کن طور پر اس کے گینگ نے مسلمانوں اور بالخصوص خالصتان تحریک سے جڑے لوگوں کو قتل کرنا شروع کردیا۔

پنجاب میں تو قتل کے یہ واقعات سمجھ آتے تھے لیکن دنیا چونکی تب جب کینیڈا میں ہردیپ سنگھ نجار کا قتل ہوگیا۔ یہ وہی قتل ہے جس کے بعد سے انڈیا اور کینیڈا کے تعلقات بری طرح بگڑ گئے۔ کینیڈین پولیس حکام نے پریس کانفرنس کرکے باقاعدہ بشنوئی گینگ کو نامزد کر رکھا ہے۔ کینیڈین پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ صرف ہردیپ سنگھ نجار کا ہی قتل اس گینگ نے نہیں کیا بلکہ تفتیش سے ثابت ہوا ہے کہ کچھ دیگر کینیڈین سکھوں کے قتل میں بھی یہ گینگ ملوث ہے۔

اب آپ ذرا موذی جی کی چالاکی دیکھیے۔ قبل اس کے کہ کینیڈین گورنمنٹ انڈیا سے لارنس بشنوئی کو حوالے کرنے کا باضابطہ مطالبہ کرتی۔ موذی جی نے کینیڈا میں موجود قاتلوں کو سزا سے بچانے کا پلان بنا کر عملدرآمد بھی شروع کردیا۔ اور وہ یوں کہ کینیڈین حکومت سے کہہ دیا کہ آپ بشنوئی گینگ کے کینیڈا میں موجود لوگ ہمارے حوالے کیجئے تاکہ ہم ان کے خلاف ایکشن لے سکیں۔

مزید پڑھیں: پاک سعودی تعلقات اور تاریخی پس منظر

سوچنے والی بات یہ ہے کہ خالصتان تحریک مکمل طور پر ایک سائبر تحریک میں بدل چکی، جو سوشل میڈیا کے لگ بھگ تمام پلیٹ فارمز استعمال کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا سے باہر انڈیا میں اس کا کوئی زمینی وجود نہیں۔ لیکن موذی جی اس سائبر تحریک سے بھی اتنے خوفزدہ ہیں کہ اس کی قیادت کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ قتل کروا رہے ہیں۔ وہ بھی صرف انڈیا میں نہیں بلکہ کینیڈا اور امریکا جیسے بڑے ممالک میں بھی۔ اور بھول رہے ہیں کہ سکھ سائیکی پر 3 بڑے قتل عاموں کا بہت گہرا اثر ہے۔

سو ایک پر امن سکھ تحریک کے خلاف دہشتگردی کے ہتھیار کا استعمال کب پنجاب کے حالات پھر سے بے قابو کردے کچھ پتا نہیں۔ اس کے لیے بس کسی تگڑے شفقت بھرے ہاتھ کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا ہاتھ کبھی بھی، کہیں سے بھی حرکت میں آسکتا ہے!

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خالصتان تحریک سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ ہندوستان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خالصتان تحریک ہندوستان خالصتان تحریک ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا کینیڈا میں انڈیا میں سکھوں کے سکھوں کو سکھوں کی پنجاب کی رہے ہیں دیا گیا میں بھی کے ساتھ کے بعد اور ان کے لیے

پڑھیں:

تحریک انصاف کے گرفتار ضلعی صدر شہباز بھٹی کو عدالت میں پیش کر دیا گیا

تحریک انصاف کے گرفتار ضلعی صدر شہباز بھٹی کو عدالت میں پیش کر دیا گیا۔

پی ٹی آئی رہنما کی 26 نومبر کے 4 مقدمات میں گرفتاری ڈال دی گئی، پولیس نے چاروں مقدمات میں شہباز بھٹی کا 10 روزہ جسمانی ریمانڈ مانگ لیا۔

وکلائے صفائی نے گرفتاری غیر قانونی قرار دے کر کیسوں سے ڈسچارج کی استدعا کی اور مؤقف اپنایا کہ شہباز بھٹی کی ایک سال بعد گرفتاری سیاسی انتقامی کارروائی ہے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ سرکاری پراسیکیوٹر نے جسمانی ریمانڈ کی حمایت کر دی تفتیش ہوگی تو پتہ چلے گا بے گناہ ہے یا ملزم،  شہباز بھٹی کو تھانہ سٹی صادق آباد نیو ٹاؤن اور وارث خان درج مقدمات میں گرفتاری ڈالی گئی، اس کے علاوہ اڈیالہ جیل باہر سے گرفتار پی ٹی آئی کارکن عثمان جوڑا کو شناخت پریڈ کیلئے جیل بھیج دیا گیا۔

پی ٹی آئی یوتھ پنجاب کے لیڈر راجہ شہباز احمد بھٹی کی بازیابی کی درخواست پر سماعت 

اسلام آباد ہائی کورٹ میں راجہ شہباز احمد بھٹی کی گرفتاری کی  رپورٹ عدالت میں پیش کردی گئی جس کے مطابق وہ راولپنڈی کے مقدمہ میں گرفتار ہیں، راجہ شہباز بھٹی کے خلاف تھانہ شالیمار میں کوئی مقدمہ درج نہیں اور نہ گرفتاری ہے۔

رپورٹ کے مطابق راجہ شہباز بھٹی کو راولپنڈی پولیس نے گرفتار کررکھاہے، راجہ شہباز بھٹی کے خلاف تھانہ سٹی راولپنڈی میں دہشتگردی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہے، عدالت نےوفاقی پولیس کی جانب سے رپورٹ پیش ہوجانے پر بازیابی درخواست نمٹادی۔

متعلقہ مضامین

  • تحریک انصاف کے گرفتار ضلعی صدر شہباز بھٹی کو عدالت میں پیش کر دیا گیا
  • وفاقی حکومت کی عمران خان کو بنی گالہ منتقل کرنے کی پیشکش
  • وزیر داخلہ محسن نقوی  کی سنی تحریک کے چیئرمین ثروت قادری سے ملاقات، مذہبی اتحاد پر زور
  • تحریک تحفظ آئین پاکستان کون رجسٹر کرا رہا ہے؟ تین جماعتیں مکر گئیں
  • ٹی ایل پی دہشتگرد اور تحریک فساد ایک سکے کے دو رخ
  •  محمود اچکزئی کی اپوزیشن لیڈر تقرری کی درخواست جمع
  • میں تحریک لبیک سے اعلان لاتعلقی کرتا ہوں: ٹی ایل پی ٹکٹ ہولڈر
  • کیا تحریک لبیک کا احتجاج اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوتا ہے؟
  • گلگت، تحریک بیداری کے نمائندہ وفد کی سید راحت حسین سے ملاقات