اپنے ایک بیان میں حماس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ ان میں جنگ بندی کے بعد سے اب تک 90 فلسطینیوں کو شہید کرنا، رفح بارڈر کی بندش اور امداد کی فراہمی روکنے کی کوششیں شامل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ حماس نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم نہ کرنے کے امریکی موقف کو سراہا ہے۔ غزہ سے عرب میڈیا کے مطابق حماس کے ترجمان حازم قاسم نے کہا ہے کہ غزہ امن معاہدے کی کامیابی اور اس کے نفاذ کو یقینی بنانے کیلئے حماس پُرعزم ہے۔ اپنے ایک بیان میں ترجمان نے کہا کہ حماس کو غزہ امن معاہدے کیلئے مصر، قطر اور ترکیے سے واضح ضمانتیں موصول ہوئی ہیں، امریکا کی جانب سے بھی اس کی براہِ راست تصدیق کی گئی۔

حماس رہنماء نے مزید کہا امریکا کا مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم نہ کرنے کا موقف ایک مثبت قدم ہے، حماس نے زندہ قیدی اور متعدد لاشیں اسرائیل کے حوالے کرکے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کیا۔ حماس کے ترجمان حازم قاسم نے کہا اسرائیل کی جانب سے غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ ان میں جنگ بندی کے بعد سے اب تک 90 فلسطینیوں کو شہید کرنا، رفح بارڈر کی بندش اور امداد کی فراہمی روکنے کی کوششیں شامل ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: معاہدے کی

پڑھیں:

غزہ میں جنگی جرائم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251209-03-2
غزہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے تحت ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کی جس بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کی جارہی ہے اس نے دنیا پر اس امر کی حقیقت کو ایک بار پھر آشکار کردیا ہے کہ اسرائیل کسی طور اپنے جنگی اور جارحانہ عزائم سے باز آنے والا نہیں، میڈیا رپورٹس کے مطابق معاہدے کے باوجود اسرائیل 591 مرتبہ معاہدے کی خلاف ورزی کرچکا ہے، جن میں فضائی حملے، گولی باری اور دھماکے شامل ہیں۔ ان حملوں میں 373 فلسطینی شہید اور 970 زخمی ہوچکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں، بچوں اور خواتین کی ہے جب کہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ہزاروں عمارتیں بھی تباہ و برباد کی گئیں، اقوام متحدہ کے مطابق شمالی مغربی کنارے میں بھی اسرائیل درندگی کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہے جس کے نتیجے میں 227 فلسطینی شہید چکے ہیں اور 95 ہزار سے زائد افراد بری طرح متاثر ہوئے ہیں، رواں سال مقبوضہ مغربی کنارے میں غیرقانونی آبادکاروں کی جانب سے 1 ہزار 680 حملے کیے گئے۔ اس صورتحال پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے اسے انسانی حقوق اور معاہدے کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا جبکہ آئرلینڈ، اسپین، نیدرلینڈ اور سلووینیا کے سرکاری نشریاتی اداروں نے اعلان کیا ہے کہ وہ یورو وژن 2026ء کا بائیکاٹ کریں گے کیونکہ یورپی براڈکاسٹنگ یونین نے اسرائیل کو آئندہ مقابلے میں شریک ہونے کی اجازت دے دی ہے حالانکہ غزہ میں جاری انسانیت سوز تباہی کے تناظر میں اس فیصلے کے خلاف وسیع سطح پر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ امریکا اور معاہدے کے ثالث ممالک نوٹس لینے پر آمادہ نہیں۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اسرائیلی فوج غزہ میں جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے اس کے شواہد موجود ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے حماس کے خاتمے کے نام پر جو آپریشن شروع کیا ہے اس کے نتیجے میں پورا غزہ تباہ ہو چکا ہے۔ غزہ میں ہونے والے نقصان کی نوعیت اور شدت یہ ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیلی فوج کی کارروائی کے طریقہ کار میں سنگین خامیاں ہیں، ایسے شواہد موجود ہیں جن سے یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ دوسری جانب قطر کے دار الحکومت میں 23 ویں دوحا فورم 2025 کے آغاز کے موقع پر قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی اور مصری وزیرخارجہ نے فلسطینی سرزمین سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا کی ضرورت پر زور دیا۔ اس دوران ترک نمائندے نے بھی جنگ بندی معاہدے کی اہم شقوں پر اظہارخیال کیا۔ یہ تینوں ملک جنگ بندی معاہدے کے ضامن اور ثالث ہیں جسے امریکی صدر ٹرمپ نے رواں سال اکتوبر کے دوران بین الاقوامی منظوری کے لیے مصر کے شہر شرم الشیخ میں پیش کیا تھا۔ شیخ محمد بن عبد الرحمن الثانی کا کہنا تھا کہ دو ماہ سے جاری غزہ جنگ بندی اْس وقت تک مکمل نہیں سمجھی جائے گی جب تک امریکی اور اقوامِ متحدہ حمایت یافتہ امن منصوبے کے تحت اسرائیلی فوج فلسطینی علاقے سے واپس نہیں چلی جاتی۔ واضح رہے کہ غزہ جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے میں اسرائیل کو غزہ میں اپنی پوزیشنوں سے دستبردار ہونا ہے، عبوری انتظامیہ کو حکمرانی سنبھالنی ہے اور ایک بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کی تعیناتی طے ہے۔ مغربی اور عرب سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ غزہ کی بین الاقوامی اتھارٹی میں مشرقِ وسطیٰ اور مغربی ممالک کے بارہ رہنما شامل ہوں گے۔ رواں سال کے آخر تک اس تھارٹی کے اعلان کی توقع ہے۔ امن کونسل کے سربراہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہوں گے۔ یہ اتھارٹی اقوامِ متحدہ کی جانب سے تفویض اختیارات کے تحت دو سال کے لیے غزہ کی پٹی کا انتظام چلائے گی جس میں توسیع کا امکان بھی موجود ہے۔ فلسطینی ماہرین پر مشتمل ایک ٹیکنوکریٹ کمیٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا جائے گا، جو جنگ کے بعد غزہ کی پٹی کے روزمرہ انتظامات کی ذمے دار ہو گی۔ غزہ امن منصوبے کے دوسرے مرحلے میں تباہ حال غزہ کی پٹی کی دوبارہ تعمیر شامل ہے، لیکن مالیاتی ذرائع کے بارے میں ابھی واضح فیصلہ نہیں ہوا۔ حماس نے گزشتہ روز اعلان کیا تھا کہ وہ غزہ کی حکمرانی کے لیے ایک ٹیکنوکریٹ کمیٹی تشکیل دینے پر رضا مند ہے۔ حماس کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ خلیل الحیہ کا کہنا ہے کہ حماس اسرائیلی فوج کا قبضہ ختم ہونے کی صورت میں غزہ میں اپنے ہتھیار اس فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے کو تیار ہے جو اس علاقے کا انتظام سنبھالے، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہتھیار قبضے اور جارحیت کی وجہ سے ہیں، اگر قبضہ ختم ہو جائے تو یہ ہتھیار ریاست کے اختیار میں دے دیے جائیں گے۔ تاہم خلیل الحیہ کے دفتر نے وضاحت کی کہ وہ ایک آزاد اور مکمل خودمختار فلسطینی ریاست کی بات کر رہے تھے۔ حماس کے مذاکرات کار نے مزید کہا کہ ہم اقوامِ متحدہ کی فورسز کی تعیناتی کو قبول کرتے ہیں جو سرحدوں کی نگرانی کریں اور جنگ بندی پر عمل کروائیں تاہم ایسی بین الاقوامی فورس کو مسترد کرتے ہیں جس کا مقصد حماس کو غیر مسلح کرنا ہو۔ اس صورتحال کے باجود اسرائیل کی ڈھٹائی کا اندازہ اس سے لگا جاسکتا ہے کہ وہ اب بھی رفح کراسنگ کو یکطرفہ طور پر کھولنے اور غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کو مصر منتقل کرنے کے عزائم کا اظہار کر رہا ہے جس پر پاکستان، سعودی عرب، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، ترکی اور قطر نے جمعے کو اپنے مشترکہ بیان میں گہری تشویش کا اظہار کیا اور واضح کیا کہ فلسطینی عوام کی اپنی سرزمین سے بے دخلی کی کوششیں قبول نہیں کی جائیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ امن پلان کے نام پر مہذب دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جنگ بندی معاہدے کے باوجود آج غزہ اور مغربی کنارے پر اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے اس پر اسے امریکا کی مکمل حمایت اور سرپرستی حاصل ہے، مگر المیہ یہ ہے کہ عالمی ادارے اور مسلم حکمران اس صورتحال کا نوٹس لینے پر کسی طور آمادہ نہیں، جس سے نہ صرف جنگ بندی بلکہ معاہدے کے دوسرے دورکا آغاز بھی ممکن نہیں ہوسکے گا اور مشرقِ وسطیٰ بھی آتش فشاں کی طرح سلگتا رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنائے اور اسرائیل کو پابند کرے کہ وہ معاہدے کی پاسداری کرے، مربوط عالمی دباؤ، سنجیدہ اقدامات اور ٹھوس حکمت ِ عملی ہی سے غزہ میں امن کا قیام ممکن ہوسکے گا۔

اداریہ سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ اسرائیل کیجانب سے معاہدے کی خلاف ورزیاں روکنے تک شروع نہیں ہوسکتا، حماس
  • غزہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کا آغاز کب ہوگا؟ حماس کا بیان سامنے آگیا
  • غزہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے سے قبل حماس کا اہم بیان آگیا
  • جنگ بندی معاہدہ: اسرائیلی خلاف ورزیوں پر حماس کا دوسرے مرحلے پر عملدرآمد سے انکار
  • اسرائیل کی اردن سے مغربی کنارے کیلئے سامان کی ترسیل کی اجازت
  • غزہ میں جنگی جرائم
  • اسرائیل نے مقبوضہ یلو لائن کو غزہ کی نئی سرحد قراردیدیا
  • نواف سلام، صیہونیوں کا ترجمان!
  • اسرائیلی آرمی چیف کی ہٹ دھرمی، مقبوضہ یلو لائن کو غزہ کی نئی سرحد قرار دیدیا
  • اسرائیلی آرمی چیف کی ہٹ دھرمی، مقبوضہ یلو لائن کو غزہ کی نئی سرحد قرار دے دیا