امریکا کا مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم نہ کرنے کا موقف مثبت قدم ہے، حازم قاسم
اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT
اپنے ایک بیان میں حماس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ ان میں جنگ بندی کے بعد سے اب تک 90 فلسطینیوں کو شہید کرنا، رفح بارڈر کی بندش اور امداد کی فراہمی روکنے کی کوششیں شامل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ حماس نے مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم نہ کرنے کے امریکی موقف کو سراہا ہے۔ غزہ سے عرب میڈیا کے مطابق حماس کے ترجمان حازم قاسم نے کہا ہے کہ غزہ امن معاہدے کی کامیابی اور اس کے نفاذ کو یقینی بنانے کیلئے حماس پُرعزم ہے۔ اپنے ایک بیان میں ترجمان نے کہا کہ حماس کو غزہ امن معاہدے کیلئے مصر، قطر اور ترکیے سے واضح ضمانتیں موصول ہوئی ہیں، امریکا کی جانب سے بھی اس کی براہِ راست تصدیق کی گئی۔
حماس رہنماء نے مزید کہا امریکا کا مقبوضہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم نہ کرنے کا موقف ایک مثبت قدم ہے، حماس نے زندہ قیدی اور متعدد لاشیں اسرائیل کے حوالے کرکے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کیا۔ حماس کے ترجمان حازم قاسم نے کہا اسرائیل کی جانب سے غزہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ ان میں جنگ بندی کے بعد سے اب تک 90 فلسطینیوں کو شہید کرنا، رفح بارڈر کی بندش اور امداد کی فراہمی روکنے کی کوششیں شامل ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: معاہدے کی
پڑھیں:
پاکستان سمیت اسلامی ممالک کی مقبوضہ مغربی کنارے سے متعلق متنازع اسرائیلی قوانین کی شدید مذمت
اسلامی ممالک نے اسرائیل کی جانب سے دو متنازع مسودہ قوانین کی منظوری پر سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں، خصوصاً قرارداد 2334، کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
متنازع قوانین کا مقصد مقبوضہ مغربی کنارے پر نام نہاد ’’اسرائیلی خودمختاری‘‘ مسلط کرنا اور غیر قانونی بستیاں قائم کرنا ہے۔
مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ اسرائیل کے یہ اقدامات 1967 سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں، بشمول مشرقی یروشلم، کی آبادیاتی ساخت اور قانونی حیثیت کو تبدیل کرنے کی ایک واضح کوشش ہیں، جنہیں عالمی برادری نے بارہا مسترد کیا ہے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ بین الاقوامی عدالت انصاف کی مشاورتی رائے میں واضح طور پر اسرائیلی قبضے کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے، جبکہ مغربی کنارے میں بستیوں کے قیام اور الحاق کے تمام اقدامات کو کالعدم اور باطل ٹھہرایا گیا ہے۔
اعلامیہ پر دستخط کرنے والے ممالک میں سعودی عرب، اردن، انڈونیشیا، پاکستان، ترکیہ، جبوتی، عمان، گیمبیا، فلسطین، قطر، کویت، لیبیا، ملائیشیا، مصر، نائیجیریا، عرب لیگ اور تنظیم تعاون اسلامی (OIC) شامل ہیں۔
اسلامی ممالک نے 22 اکتوبر 2025 کو بین الاقوامی عدالت انصاف کی تازہ رائے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے اسرائیل کو پابند کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت مقبوضہ فلسطینی علاقوں، بشمول غزہ، میں عوام کی بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی یقینی بنائے اور اقوام متحدہ، خصوصاً یو این آر ڈبلیو اے، کی امدادی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا عالمی قانون کے منافی ہے۔
مزید برآں، عدالت نے فلسطینی عوام کے حق خودارادیت اور آزاد ریاست کے قیام کے حق کی بھی دوبارہ توثیق کی۔
اعلامیے میں خبردار کیا گیا کہ اگر اسرائیل نے اپنی یکطرفہ اور غیر قانونی پالیسیوں کو جاری رکھا تو یہ علاقائی اور عالمی امن کے لیے ایک سنگین خطرہ بن جائے گا۔
اسلامی ممالک نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی قانونی اور اخلاقی ذمہ داریاں پوری کرے، اسرائیل کو فوری طور پر غیر قانونی اقدامات سے باز رکھے، اور فلسطینی عوام کے حق خودارادیت اور آزاد ریاست کے قیام کی حمایت کرے، جو 4 جون 1967 کی سرحدوں اور مشرقی یروشلم کو دارالحکومت بنانے پر مبنی ہو۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ یہی راستہ ایک منصفانہ اور پائیدار امن کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔