ہارڈ اسٹیٹ، ریاست کی انگڑائی اور غالب
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251025-03-6
باباالف
ایسی لج لجی یا سوفٹ ریاست سے ہمیں تو وحشت ہونے لگی تھی۔ جسے دیکھو دانت پر دانت جماکر ہمارے اسکروٹائٹ کررہا ہے، ہماری ڈھبریاں کس رہاہے، ہم پر چیخ چلارہا ہے، مملکت پاکستان کے اندر گھسا چلا آرہا ہے۔ کسی کا کوئی کام بگڑ جائے الزام پاکستان پر، کسی کو کوئی کام درپیش ہو کھال کھینچ کر اخباری ردی بھروائے پاکستان میں۔ کھیل دنیا میں کہیں بھی ہورہا ہو گیند لگنے سے کھڑکی کا شیشہ ٹوٹے پاکستان کا۔ پان کوئی کھا رہا ہو، پیک کی پچکاریاں پڑیں ہمارے کپڑوں پر، چٹکی بجا بجا کر سگریٹ کی راکھ کوئی بھی جھاڑ رہا ہو راکھ گرے صرف ہماری ایش ٹرے میں۔ نائن الیون امریکا میں ہورہا ہے صدر بش مرغا پاکستان کو بنارہے ہیں، ریچرڈ آرمیٹج پوچھ پاکستان سے رہے ہیں ’’ہمارے ساتھ ہو یا دہشت گردوں کے‘‘۔ صدر ٹرمپ پہلے پہل جب الیکشن میں اُترے تو قریب ودور سے سب سے زیادہ پتھر پاکستان کو ہی مار رہے تھے۔ ’’ہم نے پاکستان کو اربوں ڈالر دیے اور بدلے میں ہمیں صرف جھوٹ اور فریب ملا‘‘، ’’پاکستان دہشت گردوں کی پناہ گا ہ ہے‘‘۔
بھارت میں نریندر مودی کو ہندوتوا کے نظریہ کو آگے بڑھانا اور منظم انتخابی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہو تو کھڑاویں بجائی جارہی ہیں پاکستان کی طرف، طیش آرہا ہے تو پاکستان پر۔ مضبوط قیادت کا تاثر پیدا کرنا ہو تو غصے میں پاگل ہورہے ہیں پاکستان پر۔ 2014 کے قومی انتخابات ہوں یا اس کے بعد کے قومی انتخابات، قومی سلامتی اور خارجی خطرات کو بطور بیانیہ نمایاں کرنا ہو تو 56 انچ کی چھاتی اوردم دکھایا اور پھلایا جارہا ہے پاکستان کوگالیاں دے دے کر۔ 2002 کے گجرات میں مسلم کش فساد سے لے کر 2019 کے پلوامہ حملے تک نریندر مودی کی ہر چراند کا نشانہ مسلمان اور پاکستان اس تواتر سے بنتے رہے کہ معاملہ مئی 2025 میں 7 بھارتی طیارے گرانے اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے اس رویے پر آکر شانت ہوا:
مودی آرہا ہے ننگے پائوں
جی میں آتا ہے بڑھ کے دوں جوتا
اندرونی طور پر پاکستان کے سوفٹ ریاست ہونے کا جتنا مزہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اٹھایا شاید ہی کسی نے اُٹھایا ہو۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کے ساختہ اور پرداختہ ہونے کے باوجود ان کا اور پاکستان کا معاملہ چیخنے اور پیر پٹخنے والا رہا ہے۔ وہ پاکستان کو عورت کے طور پر لیتے ہیں اور اسے اپنا اتنا ہی مطیع اور فرمانبردار دیکھنا چاہتے ہیں جتنا عورت کو۔ جس طرح ان کی عورت کا ہر شاعرانہ، معصومانہ اور شاطرانہ مکرو فن اپنے بچوں کے باپ پر مرکوز ہوتا ہے اسی طرح طالبان کی دہشت گردی کے ہر سلوک کا کشش ثقل کا مرکز پاکستان ہوتا ہے۔ ایک طالبانی کے بارے میں ہے کہ اس کی بیوی نے چائے لانے میں دیر لگادی اس نے بیوی پر راکٹ فائر کردیا۔ یہ عورت اور پاکستان کو اپنے خود ساختہ شرعی میدان میں ایسا ہی مخالف صف بستہ دیکھتے ہیں اور ہر دو سے سلوک بھی ویسا ہی کرتے ہیں۔
2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور میں عالم حیوانی کی اتھاہ گہرائیوں میں جانے سے لے کر حالیہ واقعات تک جن میں ٹی ٹی پی روزانہ کی بنیادوں پر پاکستان میں دہشت گردی کرتی رہی ہے اور اپنے حملوں کی شدت میں اضافہ کرتی رہی ہے جس کے جواب میں نیشنل ایکشن پلان بنا، آپریشن ضرب عضب اور نہ جانے کیا کیا آغاز ہوا۔ ریاست پاکستان نے ٹی ٹی پی کے خلاف ہارڈ اسٹیٹ بننے کی کوشش تو کی لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ اسلحہ برداری کے ساتھ محلہ داری بھی برقرار رہے لیکن جب تک ان حکمت عملیوں میں جنگ، صلح اور معاہدہ شامل نہیں کیا گیا افغان حکومت اور طالبان اپنی نسلی خواہشات سے باز نہ آسکے۔ لگتا یہی ہے طالبانی زخم صرف جزوقتی بند ہوا ہے بھرا نہیں ہے۔
تحریک لبیک اور اسٹیبلشمنٹ 2015 میں باہمی رشتے داری میں بندھے۔ یہ نواز حکومت کے خلاف تلخ، ناقابل معافی اور ناقابل رحم رویے کا اظہار تھا جو عمران خان کے قوت آفرین دھرنے کے بعد سامنے لایا گیا۔ بعد میں دونوں ہی ریاست اور اسٹیبلشمنٹ کے گلے پڑگئے۔ تبدیلی یوں گلے پڑی کہ بھارت پاکستانی فوج کے خلاف نفرت کے اظہار کا جو ماحول اور فضا اربوں روپے خرچ کرکے اور سازشیں کرکے پیدا نہیں کرسکتا تھا وہ عمران خان نے پیدا کر دکھایا۔ پاکستان میں کون تصور کرسکتا تھا کہ راولپنڈی میں جی ایچ کیو اور دفاتر پر حملے ہوں، کورکمانڈر ہائوس لاہور پر مشتعل ہجوم دھاوا بولے، عمارت کو آگے لگائے، توڑ پھوڑ کرے، قومی ہیروز کے مجسموں اور مزارات کو توڑے پھوڑے۔ ملک بھر میں دس بیس نہیں سیکڑوں ایسے واقعات ہوئے جن کا تصور بھی پاکستان میں اجنبی تھا۔ دوسری طرف تحریک لبیک نے گزشتہ ہفتے عشرے میں سیاسی مطالبات کو مذہب کا نام دے کر احتجاج اور سیاسی سرگرمیوں کو اس حد پر پہنچادیا جہاں ریاست نانی کا گھر اور عوام یرغمال بن جاتے ہیں، ان کی جان، مال اور آزادی بے وقعت ہوجاتی ہے۔
یوں بیرونی دبائو، اندرونی دہشت گردی، سیاسی اور مذہبی انارکی نے جب یہ صورت اختیار کی کہ مذ ہبی جتھوں، سیاسی گروہوں، عسکری تنظیموں کے ہاتھوں ریاست یرغمال بننے لگی۔ نظام عدل، ریاست مدینہ اور تبدیلی ایک نرم لچکدار اور عوامی مزاج رکھنے والی ریاست کی بقا کے درپے ہونے لگی تب پاکستان کو بجا طور پر ایک ہارڈ ریاست بننے کا فیصلہ کرنا پڑا جس کے فوری طور پر وہ حیرت انگیز نتائج سامنے آئے کہ بھارت اور افغانستان سمیت سب کو پاکستان کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔ خارجی اور داخلی دونوں محاذ پر۔ نیو نارمل کے جواب میں بھارت اپنے 7 طیارے گنوا بیٹھا۔ عالمی طور پر سبکی اٹھانا پڑی۔ افغان حکومت کو اپنی پراکسیز سے توبہ تائب ہونا پڑ رہا ہے۔ اندرون ملک بھی کہاں ریاست دفاعی پوزیشن میں تھی اب جارحانہ موڈ میں پیش قدمی کرتی نظر آرہی ہے۔
حکومتی ناقدین کو یہیں ہارڈ اسٹیٹ کے خیال کی ایک دوسری تعبیر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ وہ اسے ریاستی جبر کی وسعتوں کے معنوں میں لیتے ہیں، بالواسطہ طور پر ریاست کی دھمکی، اپنے خلاف اٹھنے والی ہر جائز اور ناجائز آواز کو طاقت کے استعمال سے دبانے کا عمل۔ ملک کو ایک ایسی پولیس اسٹیٹ بنانے کی جانب پیش رفت جہاں کسی کے انسانی حقوق ہوں گے اور نہ قانونی۔ ریاست جسے چاہے گی اُٹھالے گی، غائب کردے گی، جیلوں میں ڈال دے گی، مقدمات قائم کر دے گی۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر ہارڈ اسٹیٹ کو ایک ایسی ریاست قرار دیتے ہیں ’’جہاں تمام ادارے، انسٹی ٹیوٹ، ڈیپارٹمنٹس اور آرگنائزیشن آئین و قانون کے مطابق عمل کررہے ہوں اور آپریشنل ہوں‘‘ اگر یہی ہارڈ اسٹیٹ ہے تو آفرین آفرین۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو جب پاکستان میں دائیں بائیں کہنیاں چلائے بغیر آدمی دوقدم ہی سہی آگے بڑھ سکے۔ چار دن ہی سہی آزاد رہ سکے، چند فیصلے ہی سہی عدالتوں نے ایجنسیوں کے ایما کے بغیر کیے ہوں، حکومتیں فوج نے بناکر نہ دی ہوں۔ بے گناہوں پر ظلم نہ ہو۔ تاہم اس سب کے باوجود فیلڈ مارشل صاحب کی بات پریقین کرنے کو جی چاہتا ہے، پورا یقین، لیکن کیا کریں غالب گڑ بڑ کردیتے ہیں:
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان میں ہارڈ اسٹیٹ پاکستان کو ا رہا ہے
پڑھیں:
دہشت گرد قوم پر اپنا نظام مسلط نہیں کر سکتے، فوج کیساتھ کھڑے ہیں، وزیراعلی بلوچستان
دہشت گرد قوم پر اپنا نظام مسلط نہیں کر سکتے، فوج کیساتھ کھڑے ہیں، وزیراعلی بلوچستان WhatsAppFacebookTwitter 0 7 December, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس )وزیراعلی بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ دہشت گرد قوم پر اپنا نظام مسلط نہیں کر سکتے، بلوچستان کے لوگ اپنی فوج کے ساتھ تھے، ہیں اور رہیں گے۔اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ پرسوں ڈیرہ بگٹی میں 100کے قریب دہشت گردوں نے ریاست کے سامنے سرنڈر کیا، ہمیں پہاڑوں سے واپس آکر سرنڈر کرنے والوں کو ویلکم کرنا چاہئے، اگر کوئی یہ سوچ لے کہ ریاست زیادہ اہم ہے تو ہمیں اس کا ویلکم کرنا چاہئے۔سرفرازبگٹی کا کہنا تھا کہ ریاست پاکستان اوراس کا پرچم زیادہ اہم ہے، ریاست پاکستان کیلئے ہم ذاتی مسائل سائیڈ پر رکھ دیتے ہیں، ایک سال میں دہشت گردی کے 900واقعات ہوئے، جن میں 205 سکیورٹی اہلکار اور 6 افسران شہید ہوئے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں فخر ہے کہ بلوچستان کے 2شہدا افسران بھی دہشتگردی کی جنگ میں شہید ہوئے، 280سویلین کو بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا، خدانخواستہ تشدد کے ذریعے پاکستان کوتوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے، فورسز نے 760دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا، افغان بارڈر پر 50،50 دہشت گرد بھی مارے گئے۔
انہوں نے کہا کہ افغان نگران حکومت نے دوحہ معاہدے میں وعدہ کیا تھا کہ ہماری سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، افغان حکومت ساری دنیا کے سامنے وعدہ خلافی کررہی ہے، بلوچ کو لاحاصل جنگ میں ڈالا گیا ہے، آپ وائلنس کے ذریعے یہ جنگ نہیں جیت سکتے، فیلڈمارشل نے تدبر، دلیری سے اپنے سے 10گنابڑے دشمن کے عزائم خاک میں ملائے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ پورا پاکستان دہشت گردی کے خلاف متفق ہے، افغانستان جیسا ملک کئی دہائیوں سے عدم استحکام کا شکار ہے، خیبرپختونخوا اوربلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات کی تعداد زیادہ ہے، بلوچستان حکومت دہشتگردی کے خلاف جنگ میں لیڈ لے چکی ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ ہم سب کی ہے۔وزیراعلی بلوچستان نے کہا کہ ایک جماعت شہرت کا بیانیہ لے کر چلتی ہے، ضمنی انتخابات میں پنجاب میں اس جماعت کی شہرت کا بیانیہ سب نے دیکھ لیا، ابو جہل کا بیانیہ بھی زیادہ پاپولر تھا، ہمیں ریاست کو کمزور کرنے والے بیانیے کو ترک کرنا ہوگا، ہمیں آج اپنے رویوں پر غور کرنا ہوگا۔سرفرازبگٹی نے کہا کہ پاپولر لیڈر کے اپنے بیٹے لندن میں اورپاکستان کے بیٹے افواج کے جوان ملک کی خاطر خون دے رہے ہیں، روزانہ کتنے کرنل اورفوجی افسران پاکستان کی خاطر شہادتیں دے رہے ہیں، ہمیشہ سیاست سے زیادہ ریاست اہم ہونی چاہیے، ریاست ہوگی تو سیاست بھی ہوگی اورصحافت بھی ہو گی۔انہوں نے کہا کہ یہاں بلوچستان میں دو قسم کے نوجوان ہیں، ایک وہ نوجوان ہیں جنہوں نے ریاست کے خلاف بندوق اٹھالی ہے، ریاست کا دل بہت بڑا ہے، ریاست نے معافی کا دروازہ کھلا چھوڑا ہوا ہے، جو ریاست کے سامنے سرنڈر کرنا چاہتا ہے ہم اس کا ویلکم کریں گے، اس لڑائی کو محرومی سے جوڑ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ریاست، مسلح افواج اور فیلڈ مارشل کے خلاف بیانیہ بنایا گیا، وزیراعلی خیبرپختونخوا سہیل آفریدی میرے لیے قابل احترام ہیں، سہیل آفریدی کے صوبے کے لوگوں کو اس وقت گورننس،ڈویلپمنٹ کی ضرورت ہے، آپ اپنے لوگوں کے حقوق پر وفاقی حکومت سے ڈائیلاگ کریں۔بلوچستان کے وزیراعلی نے کہا کہ آئین پاکستان میں واضح لکھا ہے آپ بطور وزیراعلی آرمڈ فورسز کے خلاف احتجاج نہیں کرنے سکتے، باقی تین صوبے پرامن طریقے سے اپنا کام کررہے ہیں، باقی تینوں صوبوں کا فوکس بہتری ہے، سہیل آفریدی کو مشورہ ہے وہ اپنے کام پر فوکس کریں۔سرفراز بگٹی نے کہا کہ بیانیہ بنایا جاتا ہے بلوچستان میں طاقت کا استعمال ہورہا ہے، بلوچستان میں کوئی ملٹری آپریشن نہیں ہورہا،صرف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن جاری ہے، ہم نے خیبرپختونخوا میں طاقت کا استعمال دیکھا، سینیٹ،پنجاب،سندھ اورخیبرپختونخوا اسمبلی میں ہنگامہ دیکھنے کو ملتا ہے، اللہ کا شکر ہے بلوچستان اسمبلی میں اس فتنے کی کمی ہے۔وزیراعلی بلوچستان نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس سے 100فیصد متفق ہوں، افواج مخالف پروپیگنڈے کی انہی الفاظ میں مذمت کرتا ہوں جو الفاظ ڈی جی آئی ایس پی آر نے استعمال کیے، کیا دہشتگردوں کو اجازت دے دیں کہ وہ اسلام آباد تک پہنچ جائیں؟ ۔ انہوں نے بتایا کہ دہشت گردی کے واقعات پہلے خیبرپختونخوا میں ہوتے تھے پھر اسلام آباد میں شروع ہوئے، 2018میں اسی موصوف نے دہشتگردوں کو یہاں بسنے کی اجازت دی، بلوچستان میں بھی دہشتگردوں کو لایا گیا،جیلوں سیواپس باہر نکالاگیا، آج بھی وہ دہشتگرد معصوم لوگوں کو قتل عام کررہے ہیں۔سرفرازبگٹی نے کہا کہ آج بھی دہشتگرد موسی خیل میں خواتین،معصوم بچوں کو قتل کررہے ہیں، ایک ایسے دہشتگرد سے جنگ لڑی جارہی ہے جو ہمارے سروں سے فٹبال کھیلتا ہے، آپ اس دہشتگرد کے ساتھ جاکر سیلفیاں بناتے ہیں اوران کوجیلوں سے چھوڑتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دہشتگرد کی کوئی قوم نہیں اوراس کو بلوچ بھی کہنا مناسب نہیں، آج بھی میرے ہاتھوں کی انگلیوں پر وہ نام ہیں جن کو چھوڑا گیا اوروہ فراری کیمپس میں جاکر ریاست کے خلاف لڑرہے ہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان نے بھارتی وزیر خارجہ کے پاک افواج سے متعلق اشتعال انگیز بیان کو مسترد کردیا پاکستان نے بھارتی وزیر خارجہ کے پاک افواج سے متعلق اشتعال انگیز بیان کو مسترد کردیا پاکستان ایکس سروس مین سوسائٹی کی مسلح افواج کیخلاف پروپیگنڈا مہم کی شدید مذمت ٹرمپ کی بڑی درخواست مسترد، اسرائیلی صدر نے کرپشن کیسز میں نیتن یاہو کو معافی دینے سے انکار کر دیا سکیورٹی فورسز کا قلات میں آپریشن، بھارتی حمایت یافتہ 12 دہشتگرد ہلاک پی ٹی آئی کے خلاف شکنجہ مزید سخت، کل سے ایسی کی تیسی ہوگی: فیصل واوڈا کا دعویٰ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان دشمن اسرائیل کی جاسوسی سازش کا پردہ فاش کر دیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم