آسٹریا سمیت یورپ بھر میں کل صبح گھڑیاں 1 گھنٹہ پیچھے کر دی جائیں گی
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
یورپ بھر کی طرح آسٹریا میں بھی موسمِ سرما کے وقت (Winter Time) میں تبدیلی اس ہفتے کے اختتام پر شروع ہو رہی ہے۔
25 اکتوبر کی رات سے 26 اکتوبر کی صبح کے درمیان گھڑیاں 1 گھنٹہ پیچھے کر دی جائیں گی، یعنی اتوار کی صبح 3 بجے گھڑی 2 بجے پر لائی جائے گی۔
اس طرح دن کے اوقات نسبتاً چھوٹے اور شامیں پہلے اندھیری ہونا شروع ہو جائیں گی۔
یورپ میں گھڑیاں بدلنے کا یہ عمل ڈے لائٹ سیونگ ٹائم کہلاتا ہے، اس نظام کا بنیادی مقصد قدرتی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا اور توانائی کی بچت کرنا ہے۔
موسمِ گرما میں گھڑیاں 1 گھنٹہ آگے کر دی جاتی ہیں تاکہ شام کے وقت روشنی زیادہ دیر تک برقرار رہے، جبکہ موسمِ سرما میں دن چھوٹے ہونے لگتے ہیں اس لیے گھڑیاں دوبارہ پیچھے کر دی جاتی ہیں تاکہ صبح کے اوقات میں روشنی کا بہتر استعمال ہو سکے۔
یہ طریقہ پہلی بار پہلی عالمی جنگ کے دوران توانائی بچانے کے لیے اپنایا گیا تھا اور بعد ازاں زیادہ تر یورپی ممالک نے اسے معمول کا حصہ بنا لیا۔
یورپی یونین میں گزشتہ چند برسوں سے اس نظام کو ختم کرنے یا برقرار رکھنے کے بارے میں بحث جاری ہے۔
آسٹریا سمیت پورے یورپ میں رہنے والے ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات اپنی گھڑیاں 1 گھنٹہ پیچھے کر لیں گے۔
ڈیجیٹل آلات جیسے اسمارٹ فونز اور کمپیوٹرز میں وقت خود بخود تبدیل ہو جائے گا لیکن دیوار یا کلائی کی گھڑیاں دستی طور پر درست کرنی ہوں گی۔
یہ نظام اگلے سال مارچ کے آخر تک جاری رہے گا جب ایک بار پھر موسمِ گرما کا وقت شروع کیا جائے گا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پیچھے کر
پڑھیں:
پاکستان کی مشرقِ وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست میں بڑھتی دلچسپی کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟
اسلام ٹائمز: اسلام آباد کا مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں فعال کردار، ملک کے اندرونی فرقہ وارانہ تنازعات کو دوبارہ بھڑکا سکتا ہے۔ چانچہ اب اسلام آباد کو کیا انتخاب کرنا ہے، اس کا بہت احتیاط کے ساتھ فیصلہ کرنا ہوگا۔ کیا پاکستان، مشرق وسطیٰ کے سیکیورٹی تنازعات میں ملوث ہونے کا خطرہ مول لینے کے قابل ہے یا اس کے بجائے دور دراز کے اقتصادی شراکت دار بننے پر توجہ مرکوز کرنا زیادہ محفوظ ہوگا؟ تحریر: خرم عباس
پاکستان کی سوچ سمجھ کر بنائی گئی مشرق وسطیٰ کی حکمتِ عملی کے واضح ہونے کے ساتھ ہی بے یقینی کے بادل آہستہ آہستہ چھٹ رہے ہیں۔ اسلام آباد نے مشرق وسطیٰ کے خطے میں اپنے سیکیورٹی اثر و رسوخ کو بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور یہ خواہش دو طرفہ اور کثیر الجہتی سطح پر سلامتی کے تعاون کے ذریعے سامنے آئی ہے۔ یہ بات سعودی عرب کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدے پر دستخط سے ظاہر ہوتی ہے جس میں ایک عرب-اسلامی ٹاسک فورس کے قیام کی تجویز دی گئی، جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ منصوبے میں ان کی حمایت کرکے، غزہ میں قائم بین الاقوامی استحکام فورس میں شمولیت اور قطر کے ساتھ مشترکہ دفاعی معاہدے کی پیشکش بھی پاکستان کی حکمت عملی میں نمایاں ہیں۔
اسلام آباد کی مشرق وسطیٰ میں سیکیورٹی سرگرمیاں، اس کے لیے عالمی سطح پر متعلقہ رہنے کا اہم طریقہ بن چکا ہے۔ لیکن اس سے ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے، پاکستان مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست میں اعلیٰ کردار ادا کرنے کی کوشش کیوں کر رہا ہے؟ سب سے پہلے پاکستان نے کئی عرب خلیجی ممالک کے ساتھ مضبوط ادارہ جاتی سیکیورٹی تعاون قائم کر لیا ہے۔ مثال کے طور پر، فوجی دستوں کی تعیناتی، بحری اور فضائی افسران کی تربیت، ہتھیاروں کی خریداری، مشترکہ فوجی مشقیں وغیرہ، وہ شعبے ہیں جہاں اسلام آباد اور بعض خلیجی ممالک کے درمیان پہلے ہی عملی تعاون موجود رہا ہے۔
پاکستان موجودہ ادارہ جاتی انفرااسٹرکچر کو مضبوط کرتے ہوئے اور نئے سیکیورٹی اقدامات شامل کرکے مشرق وسطیٰ میں اسٹریٹجک اہمیت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ سول اور عسکری قیادت میں یہ شعور بھی موجود ہے کہ ماضی میں پاکستان نے ایک اہم اسٹریٹجک موقع اس وقت گنوا دیا تھا کہ جب اس کی پارلیمنٹ نے سعودی قیادت میں یمن کے خلاف مہم میں شمولیت کی دعوت کو مسترد کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
اسلام آباد اب یہ سمجھتا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں غیر جانبداری کے اپنے فیصلے کی وجہ سے اس نے اہم اسٹریٹجک، اقتصادی اور سیاسی قیمت ادا کی۔ غیرجانبداری کی پالیسی نے پاکستان کی اسٹریٹجک اہمیت کو کمزور کیا اور اسلام آباد کی ایک قابل اعتماد سیکیورٹی شراکت دار کے طور پر ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ اسی لیے پاکستان اپنے عرب شراکت داروں کے ساتھ اعتماد کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے نئے اسٹریٹجک اقدامات کرنے کے لیے پُرجوش ہے۔
دوسرا نقطہ یہ ہے کہ اسلام آباد کے لیے خطے میں زیادہ سیکیورٹی اثر و رسوخ اور اسٹریٹجک اہمیت یقینی بنائے گی کہ اسے مسلسل اقتصادی معاونت ملتی رہے اور ممکنہ مسلح تنازعے خاص طور پر نئی دہلی کے ساتھ صورت حال کے دوران بھی تیل کی فراہمی بلا تعطل جاری رہے۔ اس کے علاوہ سیکیورٹی کے میدان میں اس اعلیٰ کردار سے عرب و خلیجی ممالک کے ساتھ مشترکہ دفاعی پیداوار، ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی میں تحقیق و ترقی اور دیگر عسکری تعاون کے امکانات بھی مضبوط ہوں گے۔
تیسرا نقطہ یہ ہے کہ اسلام آباد نے اندازہ لگایا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اس کی فعال سیکیورٹی کوششیں واشنگٹن کے مفادات کے ساتھ ہم آہنگ ہوں گی۔ مثال کے طور پر پاک-سعودی معاہدہ اور اسلام آباد کی آئی ایس ایف میں شرکت واشنگٹن کو اس قابل بنائے گی کہ وہ خلیج کی سیکیورٹی کی کچھ ذمہ داریاں ایک مضبوط علاقائی شراکت دار پر منتقل کر دے کیونکہ اس سے پینٹاگون کی مستقل تعیناتی کی ضرورت کم ہو سکتی ہے۔
روایتی اتحادی کے طور پر خطے میں پاکستان کی موجودگی مشرق وسطیٰ میں امریکی حمایت یافتہ سلامتی کے ڈھانچے کو مضبوط کرے گی۔ ریاض کو دی جانے والی اسلام آباد کی سیکیورٹی یقین دہانیاں حوثیوں جیسے دشمن عناصر کو باز رہنے کا اشارہ دیں گی جبکہ یہ ایران کو سعودی عرب کے خلاف اسٹریٹجک پراکسی مہم شروع کرنے سے روکیں گی۔ اس کے علاوہ، اسلام آباد اور واشنگٹن دونوں توانائی کی فراہمی کے راستوں کی حفاظت کے مشترکہ مفادات رکھتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کی سیکیورٹی معاملات میں فعال کردار ادا کرکے اسلام آباد زیادہ قریب سے واشنگٹن کے اسٹریٹجک منصوبوں سے ہم آہنگ ہوسکتا ہے۔ جو بائیڈن انتظامیہ کا یہ خیال تھا کہ اسلام آباد پہلے ہی واشنگٹن کے بجائے بیجنگ کو ترجیح دے چکا ہے۔ چین اور پاکستان کے بڑھتے ہوئے اقتصادی اور اسٹریٹجک تعلقات کو واشنگٹن نے پاکستان کی ترجیح کے ایک اشارے کے طور پر دیکھا۔ اگرچہ پاکستان نے امریکا اور چین کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی اپنی پوزیشن پر قائم رہا لیکن وہ بائیڈن انتظامیہ کو قائل نہ کر سکا۔ تاہم ٹرمپ کے مثبت اشارے اور مشرق وسطیٰ کی سیکیورٹی ڈھانچے کے حوالے سے اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان ہم آہنگی نے اسلام آباد کو دونوں بڑی طاقتوں کے حوالے سے اپنا مؤقف دہرانے میں مدد دی۔
آخر میں پاکستان خطے میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں فکر مند ہے۔ نئی دہلی کی عرب خلیجی ممالک کے ساتھ شراکت داری قائم کرنے کی کوششوں کو پاکستان میں منفی طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ بڑھتے ہوئے ہندو-عربی تعلقات کو نئی دہلی کی ایک کوشش کے طور پر لیا جاتا ہے کہ وہ اسلام آباد کو مشرقِ وسطیٰ کے قابلِ اعتماد اقتصادی اور اسٹریٹجک شراکت داروں سے محروم کر دے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد مشرق وسطیٰ کے سیکیورٹی ڈھانچے میں ایک وسیع اسٹریٹجک کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے تاکہ وہ خطے میں بھارتی اثر و رسوخ کو محدود کر سکے۔ اس تمام حساب کے باوجود، اسلام آباد کا مشرق وسطیٰ میں بڑھتا ہوا کردار پیچیدہ اور کئی سطح پر محیط خارجہ پالیسی کے چیلنجز کا باعث بھی بنے گا. سب سے پہلے اسلام آباد عرب و خلیجی ممالک کو ایک یکساں (مونولیتھک) اکائی کے طور پر دیکھتا ہے جو ایک ایسا نقطۂ نظر ہے کہ جس میں عیب ہے۔
خلیج تعاون کونسل کے 6 ممالک نے مشرق وسطیٰ و شمالی افریقہ (MENA) کے مختلف جغرافیائی سیاسی تنازعات کے حوالے سے منفرد پالیسیز اور حکمت عملی اپنائی ہیں۔ چھوٹے عرب ممالک سعودی عرب کے خطے میں سیکیورٹی انفرااسٹرکچر پر اجارہ داری کے بارے میں فکر مند ہیں۔ ریاض کے ساتھ زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے اسلام آباد ممکنہ طور پر کچھ چھوٹے عرب و خلیجی ممالک کے اسٹریٹجک مقادات کو متاثر کر سکتا ہے جوکہ پاکستان کے لیے سفارتی اور اقتصادی مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
دوسرا نقطہ یہ ہے کہ جغرافیائی سیاسی تنازعات میں فعال کردار ادا کرنے سے اسلام آباد کی ایک ’غیر جانبدار‘ ریاست کے طور پر اپنی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے جو عرب و خلیجی ممالک کے درمیان ثالثی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جیسا کہ قطر کے سفارتی بحران کے دوران کیا گیا تھا۔ تیسرا نقطہ یہ ہے کہ اسرائیل ممکنہ طور پر پاکستان کے مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے کردار کا خیرمقدم نہیں کرے گا۔ خطے میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی موجودگی تل ابیب کو بھارت کے ساتھ قریبی اسٹریٹجک شراکت داری قائم کرنے کی ایک اور وجہ فراہم کرے گی جو نئی دہلی کو پاکستان کے خلاف اقدامات کرنے کے لیے مزید حوصلہ دے سکتا ہے۔
چوتھا نقطہ یہ ہے کہ اسلام آباد کے مشرق وسطیٰ کی سیکیورٹی ڈھانچے میں اثر و رسوخ اسی وقت بڑھ رہے ہیں کہ جب تہران 1979ء کے بعد کی کمزور ترین پوزیشن میں ہے۔ ایران کے اندر حالیہ اسرائیلی اور امریکی فضائی حملوں نے بھی ایران کے خطے میں عزائم کو کمزور کیا ہے تو موجودہ صورت حال میں ایران ممکنہ طور پر پاکستان کے بڑھتے ہوئے کردار کو کھلے عام چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
تاہم اگر ایران خطے کی سیکیورٹی انفرااسٹرکچر میں دوبارہ بڑا اسٹریٹجک کردار حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تو یہ ناگزیر طور پر پاکستان کی سفارت کاری پر دباؤ بڑھا دے گا۔ پاک-سعودی مشترکہ جوابی اقدامات حوثیوں کے خلاف ایران کے عزائم کو مزید غیر مستحکم کرسکتے ہیں جس سے اسلام آباد کو ایک ہمسایہ (ایران) اور ایک اسٹریٹجک شراکت دار (سعودی عرب) کے درمیان مشکل فیصلے کرنے پڑ سکتے ہیں۔ اس سے قبل حوثیوں کی حالیہ کارروائی جس میں 24 پاکستانیوں کو لے جانے والی ایل پی جی بحری جہاز پر قبضہ کیا گیا، نے اسلام آباد-ریاض دفاعی معاہدے پر ان کی ناپسندیدگی کا اشارہ دیا ہے۔
آخر میں اسلام آباد کا مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں فعال کردار، ملک کے اندرونی فرقہ وارانہ تنازعات کو دوبارہ بھڑکا سکتا ہے۔ چانچہ اب اسلام آباد کو کیا انتخاب کرنا ہے، اس کا بہت احتیاط کے ساتھ فیصلہ کرنا ہوگا۔ کیا پاکستان، مشرق وسطیٰ کے سیکیورٹی تنازعات میں ملوث ہونے کا خطرہ مول لینے کے قابل ہے یا اس کے بجائے دور دراز کے اقتصادی شراکت دار بننے پر توجہ مرکوز کرنا زیادہ محفوظ ہوگا؟
اصل تحریر:
https://www.dawn.com/news/1958684