یورپ بھر کی طرح آسٹریا میں بھی موسمِ سرما کے وقت (Winter Time) میں تبدیلی اس ہفتے کے اختتام پر شروع ہو رہی ہے۔

25 اکتوبر کی رات سے 26 اکتوبر کی صبح کے درمیان گھڑیاں 1 گھنٹہ پیچھے کر دی جائیں گی، یعنی اتوار کی صبح 3 بجے گھڑی 2 بجے پر لائی جائے گی۔

اس طرح دن کے اوقات نسبتاً چھوٹے اور شامیں پہلے اندھیری ہونا شروع ہو جائیں گی۔

یورپ میں گھڑیاں بدلنے کا یہ عمل ڈے لائٹ سیونگ ٹائم کہلاتا ہے، اس نظام کا بنیادی مقصد قدرتی روشنی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا اور توانائی کی بچت کرنا ہے۔

موسمِ گرما میں گھڑیاں 1 گھنٹہ آگے کر دی جاتی ہیں تاکہ شام کے وقت روشنی زیادہ دیر تک برقرار رہے، جبکہ موسمِ سرما میں دن چھوٹے ہونے لگتے ہیں اس لیے گھڑیاں دوبارہ پیچھے کر دی جاتی ہیں تاکہ صبح کے اوقات میں روشنی کا بہتر استعمال ہو سکے۔

یہ طریقہ پہلی بار پہلی عالمی جنگ کے دوران توانائی بچانے کے لیے اپنایا گیا تھا اور بعد ازاں زیادہ تر یورپی ممالک نے اسے معمول کا حصہ بنا لیا۔

یورپی یونین میں گزشتہ چند برسوں سے اس نظام کو ختم کرنے یا برقرار رکھنے کے بارے میں بحث جاری ہے۔

آسٹریا سمیت پورے یورپ میں رہنے والے ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات اپنی گھڑیاں 1 گھنٹہ پیچھے کر لیں گے۔

ڈیجیٹل آلات جیسے اسمارٹ فونز اور کمپیوٹرز میں وقت خود بخود تبدیل ہو جائے گا لیکن دیوار یا کلائی کی گھڑیاں دستی طور پر درست کرنی ہوں گی۔

یہ نظام اگلے سال مارچ کے آخر تک جاری رہے گا جب ایک بار پھر موسمِ گرما کا وقت شروع کیا جائے گا۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پیچھے کر

پڑھیں:

یورپ کا نیا دفاعی ڈھانچہ اور ترکی

اسلام ٹائمز: تجزیہ کاروں کی پیش گوئی ہے کہ اگر یورپ کا نیا دفاعی ڈھانچہ تشکیل پا گیا، تو ممکنہ ماڈل کچھ اس طرح ہوگا: “ایک مرکزی دفاعی کور (Defensive Core) جو یورپی یونین کے رکن ممالک پر مشتمل ہوگا، اور اس کے ساتھ ضمنی تعاون کرنے والے اتحادی شراکت دار جیسے ترکی، ناروے، اور برطانیہ بطور وابستہ شریک (Associated Partners) اس میں شامل ہوں گے۔  خصوصی رپورٹ:

ان دنوں ترکی کے اخبارات اور ٹی وی چینلز میں بہت سے تجزیہ کاردوبارہ فوجی طاقت اور اسلحے کی خریداری کے موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں۔ اب جب کہ جرمنی نے ترکی کو یورو فائٹر جنگی طیارے فروخت کرنے کی منظوری دے دی ہے، تو یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ برلن کا یہ اقدام دراصل ترکی کو روس سے دور کرنے اور اس کی فوجی طاقت کو یورپ کے نئے دفاعی ڈھانچے میں شامل کرنے کی ایک کوشش ہے۔ ترک تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رجب طیب اردوغان یورپ کی دفاعی ساخت میں کردار ادا کرنے کے لیے گہری دلچسپی اور خواہش رکھتے ہیں، مگر ان کے راستے میں کئی اہم ساختی رکاوٹیں اور چیلنجز موجود ہیں۔

تاہم دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل کا یورپی دفاعی ڈھانچہ کس ماڈل پر قائم ہوگا، اور کیا یورپی ممالک ترکی کی فوج کو بھی اس نظام میں شامل کرنے پر آمادہ ہوں گے یا نہیں۔ یہ موضوع اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اردوغان حکومت نے گزشتہ چند برسوں میں یورپی یونین کے دفاعی و سلامتی کے حکام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بارہا ترکی کی جغرافیائی اہمیت اور اس کے جیو پولیٹیکل فوائد پر زور دیا ہے۔ جیسا کہ معروف ترک سفارت کار نامق تان کے بقول یہ اس قدر زیادہ بحث کی گئی ہے کہ اس سے مغربی ممالک نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اردوغان کی خارجہ پالیسی کی ساری بنیاد صرف جغرافیائی امتیازات پر ہے، اس کے علاوہ ترکی کی کوئی اضافی قدر یا اہمیت نہیں۔

دفاعی امور کے ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کے لیے فوجی اتحاد میں مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے صرف جغرافیائی محلِ وقوع کافی نہیں ہوتا، بلکہ اسے دیگر عملی و تکنیکی برتریوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اناضولو (Anadolu) نے ایک تفصیلی رپورٹ میں یہ مؤقف پیش کیا ہے کہ ترکی ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے اور وہ یورپ کی دفاعی منصوبہ بندی کو مضبوط کرنے اور اس کی تزویراتی (اسٹریٹیجک) کمزوریوں کو پُر کرنے کی اعلیٰ صلاحیت اور سنہری موقع رکھتا ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی تعلقات کے ماہر فدریکو دوناتیلی (Federico Donatelli) کا خیال ہے کہ ترکی یورپ کی اسٹریٹیجک خودمختاری کے حصول میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

دوسرے ماہرین، جیسے امانڈا پاول (Amanda Powell) جو یورپی پالیسی سینٹر کی سینئر محقق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی یورپ کی سلامتی کو مضبوط بنانے میں ایک مؤثر حصہ ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تاہم ان کے مطابق یہ موقع صرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے باعث پیدا ہوا۔ اگر ٹرمپ اپنے پیش رو صدور کی طرح نیٹو اور یورپی یونین کے ساتھ مکمل تعاون پر آمادہ ہوتے، تو ترکی کے ساتھ دفاعی تعاون کا موضوع شاید ماہرین اور تھنک ٹینکس کی توجہ کا مرکز ہی نہ بنتا۔

مغربی تجزیہ کاروں کی رائے؟
اٹلی کے سابق وزیراعظم انریکو لِتّا (Enrico Letta) وہ پہلے یورپی سیاست دان ہیں، جو حالیہ مہینوں میں بالخصوص صدر ٹرمپ کے یورپ کی سلامتی سے متعلق مؤقف کے بعد ترکی کی دفاعی طاقت کے موضوع کو زیرِ بحث لائے ہیں۔ انہوں نے ترکی ٹوڈے کے لیے ایک مضمون میں یہ خیال پیش کیا کہ یورپ کی سلامتی کے لیے کی جانے والی کوششیں صرف قومی فوجوں تک محدود نہیں رہنی چاہییں، بلکہ ان میں ترکی جیسے غیر یورپی یونین ممالک کے ساتھ تعلقات کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔

لیکن امریکہ اور یورپی ممالک کے بہت سے سیاسی و دفاعی تجزیہ کار لِتّا کی طرح ترکی کے ساتھ دفاعی تعاون کے بارے میں زیادہ خوش بین نہیں ہیں۔ واشنگٹن میں قائم فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسیز (FDD) کی ایک رپورٹ میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ ترکی حجم کے لحاظ سے پیداوار، فراہمی، اور فوجی عملے کی تیاری کے تمام شعبوں میں غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن گزشتہ برسوں میں یوکرین روس تنازع کے دوران صدر اردوغان کے رویّے نے یہ واضح کیا ہے کہ ترکی کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون لین دین (Give and Take) کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔ اگرچہ ترکی نے بحیرۂ اسود کے راستے اناج کی ترسیل میں مؤثر کردار ادا کیا، مگر روس پر مالی پابندیوں کے معاملے میں اس نے امریکہ اور یورپی ممالک کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔ 

ترک تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
ترک مصنف اور سیاسی تجزیہ کار ابراہیم کیراس (İbrahim Kiras) نے یورپی دفاعی نظام میں ترکی کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جرمنی نے ترکی کو یورو فائٹر طیارے اس شرط پر فروخت کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے کہ ہم یورپی نیٹو میں ایک قابلِ اعتماد دفاعی شریک کے طور پر کردار ادا کریں۔ ظاہر ہے کہ جرمنی کے اس فیصلے سے ترکی راضی ہے، کیونکہ اردوغان اور ٹرمپ کی ملاقات کے دوران، اگرچہ ہم نے 250 مسافر طیاروں کی خریداری کا آرڈر دیا تھا اور ایک بڑے قدرتی گیس کے معاہدے پر دستخط کیے تھے، پھر بھی ٹرمپ نے ترکی کو F-16 اور F-35 طیارے بیچنے سے انکار کر دیا، اور ترکی پر عائد پابندیاں بھی ختم نہیں کیں۔

امریکہ سے مایوسی
ٹرمپ نے تو یہاں تک اجازت نہیں دی کہ ترکی طیاروں کے انجن فروخت کیے جائیں، جس کے نتیجے میں ہمارے مقامی جنگی طیارے قاآن (KAAN) کی تیاری کا عمل رک گیا۔ البتہ صحافیوں کے سامنے ٹرمپ نے اردوغان کی خوب تعریفیں کیں، لیکن ہمارے مطالبات کے بدلے میں ایک ناممکن شرط عائد کر دی کہ ترکی روس کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کرے۔ کیراس مزید کہتے ہیں کہ چونکہ اب امریکہ سے کسی مدد کی امید نہیں، اس لیے توقع ہے کہ ہم پہلے سے کہیں زیادہ یورپ کی طرف رجوع کریں۔ درست ہے کہ دولت باغچلی جو اردوغان کے سیاسی اتحادی ہیں، انہوں نے ایک اتحاد کا تصور پیش کیا تھا جسے ٹی آر سی (ترک روس چین) کہا گیا، لیکن سب جانتے ہیں کہ ایسا اتحاد حقیقت میں ممکن نہیں۔ ترکی نے صدیوں سے کبھی یہ نہیں چاہا کہ وہ یورپ سے دور ہو۔ تاہم یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ اردوغان حکومت کا موجودہ طرزِ عمل اور ترکی کا سیاسی ڈھانچہ ایسا نہیں جو یورپی یونین کے ساتھ گہرے تعاون کی طرف لے جائے۔ اسی لیے یہ غیر منطقی ہوگا کہ یورپی ممالک جلد ترکی کے ساتھ کوئی سنجیدہ دفاعی شراکت قائم کریں۔  کیراس یورپی نیٹو کے منصوبے کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ خیال بہت عرصے سے زیرِ غور ہے، مگر اس پر عمل درآمد کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔

ترکی کی سیاسی و اجتماعی تحقیر
اب جب کہ ٹرمپ نے سخت مؤقف اختیار کیا ہے اور یہ ظاہر کر دیا ہے کہ امریکہ حتیٰ کہ یورپی یونین کے ساتھ بھی دشمنی اور مخالفت پر اتر سکتا ہے، تو اب کوئی چارہ نہیں رہا تو یورپ کو ایک نئے دفاعی ڈھانچے کے بارے میں سوچنا ہی ہوگا۔ لیکن جو چیز اس وقت ترکی کے لیے باعثِ تشویش ہے، وہ یہ ہے کہ ترکی کو اس تمام معاملے میں صرف اس کی فوجی طاقت کی بنیاد پر دیکھا جا رہا ہے، ہمیں کوئی سیاسی وزن یا اعتبار نہیں دیا جا رہا۔ آپ نے دیکھا کہ ٹرمپ بھی ہمیشہ عربوں کی دولت اور ہماری فوج کی تعریف کرتا ہے۔ مگر یہ تعریفیں دراصل خوش فہمی کا باعث نہیں ہونی چاہییں۔ یہ وہی نقطۂ نظر ہے جسے جارج سوروس نے برسوں پہلے ظاہر کیا تھا  کہ ترکی کی سب سے اہم برآمد اس کی فوج ہے۔  

کیراس کے مطابق یورپیوں کی ترکی کے بارے میں نگاہ دراصل تحقیر آمیز ہے۔ وہ اس طرزِ فکر پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کل تک وہ ہمیں یہ کہتے تھے کہ شامی پناہ گزینوں اور دوسرے مہاجرین کو اپنے ملک میں ہی رکھو، اگر وہ یورپ کی طرف نہ جائیں تو ہم تمہیں پیسہ دیں گے۔ کبھی ہمارا جغرافیہ ان کے لیے مہاجرین کے عارضی کاروان سرائے کے طور پر اہم ہو جاتا ہے، اور کبھی ہماری فوج کی تعداد ان کے لیے ہماری قیمت کا تعین کرتی ہے۔ مگر ہمیں، بطور ترکی، ایسے حالات پر فخر نہیں کرنا چاہیے۔ ہماری فوج اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ہے، اور یہ انتہائی توہین آمیز بات ہے کہ ہماری دفاعی قوت کو دوسروں کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ ہمارے رہنماؤں کو اپنے بیانات اور طرزِ عمل پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے اور یہ سوچنا چاہیے کہ آخر یورپ ہمیں اس نظر سے کیوں دیکھتا ہے۔

امکانات:
امریکی اور یورپی تھنک ٹینکس نے واضح طور پر بیان کیا ہے یورپ کے دفاعی ڈھانچے (European Defense Architecture) میں شامل ہونے کے لحاظ سے ترکی کے پاس تین نمایاں برتریاں موجود ہیں: اول، امریکہ کے بعد نیٹو کی دوسری سب سے بڑی فوج۔ دوم بحیرۂ اسود، بحیرۂ ایجہ، بحیرۂ روم، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے سنگم پر واقع، اور جغرافیائی طور پر انتہائی اسٹریٹیجک محلِ وقوع۔ سوم ڈرون ٹیکنالوجی اور الیکٹرانک وارفیئر (جنگِ الیکٹرانیک) کے میدان میں قابل توجہ دفاعی صنعت۔  چیلنجز:
ان تین اہم حیثیتوں کے باوجود، ترکی کے سامنے چند بڑی رکاوٹیں اور چیلنجز بھی ہیں:
1۔  روس، شام، مشرقی بحیرۂ روم، اور قبرص کے معاملات پر ترکی اور یورپی یونین کے سیاسی مؤقف میں نمایاں تضادات ہیں۔
2۔ ترکی اگرچہ نیٹو کا رکن ہے، لیکن یورپی یونین کا رکن نہیں، لہٰذا یورپی نیٹو کے ممکنہ مالیاتی ڈھانچے میں اس کا حصہ اور مقام غیر واضح رہے گا۔
3۔  یونان ترکی بحری تنازعات اور یورپی پارلیمان کی جانب سے ترکی کی داخلی سیاست پر مستقل تنقید، یورپی شراکت داروں کے ساتھ بداعتمادی کا باعث بنتی ہے۔
4۔  ترکی کے کئی فوجی آلات و ہتھیار، خاص طور پر فضائیہ اور بحریہ کے شعبے میں، یورپی یونین کی افواج کے مقابلے میں کم معیار کے ہیں۔
مزید یہ کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ یورپی یونین ترک دفاعی کمپنیوں کو اپنے لاجسٹک و سپلائی نیٹ ورک میں شامل ہونے کی اجازت دے گی یا پھر صرف یورپی ساختہ خریداری (Buy European) پر اصرار کرے گی۔

نتیجہ: 
تجزیہ کاروں کی پیش گوئی ہے کہ اگر یورپ کا نیا دفاعی ڈھانچہ تشکیل پا گیا، تو ممکنہ ماڈل کچھ اس طرح ہوگا: “ایک مرکزی دفاعی کور (Defensive Core) جو یورپی یونین کے رکن ممالک پر مشتمل ہوگا، اور اس کے ساتھ ضمنی تعاون کرنے والے اتحادی شراکت دار جیسے ترکی، ناروے، اور برطانیہ بطور وابستہ شریک (Associated Partners) اس میں شامل ہوں گے۔ 

متعلقہ مضامین

  • لندن میں سمر ٹائم کا اختتام، گھڑیاں ایک گھنٹہ پیچھے کر دی جائیں گی
  • موسمِ سرما میں فلائٹ شیڈول میں تبدیلی
  • قدرت کا کمال: جنوبی کوریا میں گھاس گلابی رنگ اختیار کر گئی
  • کمزور گھڑیاں! افسانہ
  • ایم ڈی کیٹ 2025: امیدواروں کی سہولت اور امتحانی نظام کی شفافیت اولین ترجیح، پی ایم ڈی سی
  • ڈاکٹر راشد محمود نت وہ مسیحا جو بینائی سے محروم چہروں پر امید کی روشنی جگا رہے ہیں
  • الیکٹرک گاڑیوں کا عالمی رجحان، پاکستان پیچھے کیوں؟
  • یورپ کا نیا دفاعی ڈھانچہ اور ترکی
  • موسمِ سرما میں شدید سردی نہ پڑنے کی پیشگوئی