وائٹ ہاؤس فائرنگ کیس میں پیش رفت، افغان حملہ آور کے گھر سے اہم شواہد برآمد
اشاعت کی تاریخ: 28th, November 2025 GMT
واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے قریب نیشنل گارڈز کے اہلکاروں پر فائرنگ کے واقعے کی تحقیقات میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ امریکی تفتیش کاروں نے مشتبہ حملہ آور اور اس سے منسلک افغان شہریوں کے گھروں پر چھاپے مار کر مختلف مقامات کی تفصیلی تلاشی لی ہے۔
ایف بی آئی نے ریاستِ واشنگٹن اور سان ڈیاگو میں کارروائیاں کرتے ہوئے متعدد گھروں سے الیکٹرانک آلات، موبائل فون، لیپ ٹاپ اور آئی پیڈ قبضے میں لے لیے ہیں جن کا تکنیکی تجزیہ جاری ہے۔ تفتیشی حکام کے مطابق ان شواہد سے فائرنگ کے پس منظر اور محرکات کے تعین میں مدد ملنے کی امید ہے۔
ایف بی آئی ڈائریکٹر کاش پٹیل کے مطابق گرفتار افغان شہری رحمان اللہ لکنوال کے رشتہ داروں سے بھی پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ رحمان اللہ اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ واشنگٹن میں مقیم تھا۔
امریکی حکام نے 29 سالہ مشتبہ حملہ آور کی تصویر جاری کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ وہ ماضی میں افغانستان میں سی آئی اے کے لیے کام کر چکا ہے۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان ریٹکلف نے بتایا کہ رحمان اللہ کو امریکا میں داخلے کی اجازت اسی بنا پر دی گئی تھی۔
ادھر نیشنل گارڈز پر حملے کے بعد امریکا نے افغان باشندوں کی امیگریشن درخواستوں کا عمل غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دیا ہے، جبکہ موجودہ انتظامیہ نے بائیڈن دور میں امریکا آنے والے تمام غیر ملکیوں کی ازسرِ نو جانچ پڑتال کا حکم بھی جاری کیا ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
وائٹ ہاؤس فائرنگ کا واقعہ: امریکی فوج کا سابق افغان معاون حملہ آور کے طور پر گرفتار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن:امریکی دارالحکومت میں وائٹ ہاؤس کے قریب نیشنل گارڈ کے اہلکاروں پر ہونے والی فائرنگ نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کیونکہ حملہ آور کے طور پر گرفتار ہونے والا شخص امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے والا سابق افغان شہری نکلا ہے۔ امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق 29 سالہ رحمان اللہ لکنوال نے بدھ کی سہ پہر گشت پر موجود دو گارڈز پر اچانک فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں دونوں شدید زخمی ہوئے جبکہ جوابی کارروائی میں حملہ آور بھی زخمی حالت میں پکڑا گیا۔
نیو یارک ٹائمز، سی بی ایس، این بی سی اور دیگر اداروں نے اپنی رپورٹس میں بتایا ہے کہ لکنوال 2021 میں ’آپریشن الائیس ویلکم‘ کے تحت امریکہ منتقل ہوا تھا، جس کے ذریعے افغانستان میں طالبان کے کنٹرول کے بعد امریکی فوج کے سابق معاونین اور اہلکاروں کو امریکہ لایا گیا تھا۔
معلومات کے مطابق لکنوال افغان اسپیشل فورسز میں 10 سال تک قندھار میں تعینات رہا اور مختلف اوقات میں امریکی اداروں خصوصاً سی آئی اے کے ساتھ بھی کام کر چکا تھا۔
امریکی سکیورٹی چیف کرسٹی نوم نے سوشل میڈیا پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ حملہ آور ان افغان شہریوں میں سے ہے جنہیں بائیڈن انتظامیہ نے بڑی تعداد میں امریکہ آنے کی اجازت دی تھی، مزید رپورٹس میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ لکنوال نے 2024 میں سیاسی پناہ کی درخواست دی تھی جو 2025 میں منظور ہوئی۔
واقعے پر سخت ردعمل دیتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے دہشت گردی کی کارروائی قرار دیتے ہوئے افغان شہریوں کی تمام امیگریشن درخواستوں پر فوری پابندی عائد کر دی، امریکی شہریت و امیگریشن سروسز کے مطابق اب افغان شہریوں کی نئی اور زیرِ سماعت درخواستیں غیر معینہ مدت تک روک دی جائیں گی۔
واشنگٹن پولیس کا کہنا ہے کہ حملہ آور نے گھات لگا کر فائرنگ کی جبکہ ایف بی آئی نے تصدیق کی کہ زخمی گارڈز کی حالت تشویشناک ہے۔ واقعے کے بعد پورے علاقے میں سکیورٹی مزید سخت کردی گئی اور وزیر دفاع نے دارالحکومت میں مزید 500 فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان کیا۔
دوسری جانب افغان ایویک نامی تنظیم نے اس فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغان تارکین وطن انتہائی سخت اسکریننگ سے گزرتے ہیں، لہٰذا ایک شخص کے جرم کو پوری کمیونٹی کے خلاف کارروائی کا جواز نہیں بنایا جا سکتا۔