ایئر انڈیا طیارہ ’جان بوجھ کر‘ گرایا گیا، دی ٹیلی گراف کی رپورٹ میں بڑے انکشافات
اشاعت کی تاریخ: 4th, December 2025 GMT
امریکی تحقیقاتی اداروں اور سابق سی آئی اے اہلکاروں نے الزام عائد کیا ہے کہ بھارت نے ایئر انڈیا کے احمد آباد طیارہ حادثے کی تحقیقات میں تعاون نہیں کیا اور متعدد اہم شواہد تک رسائی دینے سے انکار کر دیا۔
12 جون 2025 کے اس حادثے میں 260 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
امریکی صحافی اور سابق سی آئی اے اہلکار سارہ ایڈمز کے مطابق امریکی تفتیشی ٹیم کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حادثہ پائلٹ کی ممکنہ لاپرواہی کے باعث پیش آیا، تاہم بھارتی حکام اب بھی بلیک باکس ڈیٹا تک مکمل رسائی دینے سے گریزاں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر حادثے کی وجہ پائلٹ کی غلطی تھی، تو بلیک باکس ڈیٹا چھپانا کسی صورت بھی خودمختاری نہیں بلکہ مبینہ طور پر سیکیورٹی کے خدشات کو جنم دیتا ہے۔
امریکی جریدے دی ٹیلی گراف نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکی ایرو اسپیس ماہرین کے مطابق طیارے کی تباہی میں انسانی مداخلت کا امکان موجود ہے۔
رپورٹ کے مطابق بلیک باکس ڈیٹا میں یہ بھی ظاہر ہوا کہ کاک پٹ میں موجود کسی فرد نے انجن کا فیول سپلائی سسٹم خود بند کیا تھا۔
رپورٹ مزید کہتی ہے کہ امریکی تفتیشی ٹیم کو حادثے کے ملبے کی تصاویر لینے سے روکا گیا اور کچھ شواہد ان کے پہنچنے سے پہلے ہی غائب کیے گئے۔ علاوہ ازیں بھارتی حکام نے ماہرین کو کاک پٹ وائس ریکارڈر اور فلائٹ ڈیٹا کے مکمل تجزیے تک رسائی بھی نہیں دی۔
دی ٹیلی گراف اور وال اسٹریٹ جرنل دونوں نے اپنی رپورٹس میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ حادثہ ممکنہ طور پر دانستہ طور پر کیا گیا ہے۔
امریکی اداروں کے مطابق بھارتی عدالتوں اور تفتیشی نظام کی شفافیت پر اعتماد نہ کیے جانے سے تحقیقات مزید مشکوک ہوگئی ہیں، اور حادثے کی اصل وجوہات کے تعین کے لیے بین الاقوامی سطح پر مزید شفافیت ضروری ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے مطابق
پڑھیں:
حادثے کا مقام گلشن اقبال ٹاؤن کے دائرہ اختیار میں نہیںِ، خط میں انکشاف
حادثے کی جگہ گلشن اقبال ٹائون کے دائرہ اختیار اور حدود سے دور ہے
جہاں واقعہ پیش آیا وہ گلشن اقبال ٹائون کا علاقہ نہیں ہے،خط کا متن
یوسی چیئرمین نے کسی بھی ناخوشگوار واقعے کا خدشہ ظاہر کردیاتھا تھا،
اکتوبر میں کمیٹی میں 14 کھلے مین ہول پوائنٹس کی نشان دہی کی گئی تھی، دستاویز
کیا نیپا کے قریب گٹر میں معصوم بچے ابراہیم کے گرنے کے حادثے کا مقام گلشن اقبال ٹاؤن کی حدود میں آتا ہے؟
بلدیات کو لکھے گئے خط میں نیا انکشاف سامنے آیا ہے۔ کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں بچے کے گٹر میں گرنے کے معاملے میں میونسپل کمشنر گلشن ٹاؤن نے محکمہ بلدیات سندھ کو خط لکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ حادثے کی جگہ گلشن اقبال ٹاؤن کے دائرہ اختیار اور حدود سے دور ہے۔
خط کے متن کے مطابق جہاں واقعہ پیش آیا وہ گلشن اقبال ٹائون کا علاقہ نہیں ہے، یونیورسٹی روڈ کے ایم سی کے ماتحت سڑک ہے، سڑک اور ترقیاتی کام کے ایم سی کے زیر انتظام ہے، جب کہ سیوریج لائن واٹر بورڈ کی ذمہ داری ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی روڈ پر ریڈ لائن بی آر ٹی اور کے فور منصوبے کا کام جاری ہے، گلشن اقبال ٹائون نے واضح کیا کہ یہ حادثے کا مقام ان کے انتظامی دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔
ٹاؤن میونسپل کارپوریشن گلشن اقبال نے حادثے سے متعلق رپورٹ تیار کر لی ہے، یہ رپورٹ ٹی ایم سی کے میونسپل کمشنر نے تیار کی ہے جو محکمہ بلدیات کے ریجنل ڈائریکٹر کو بھی ارسال کر دی گئی ہے، اس رپورٹ میں ٹاؤن میونسپل کارپوریشن کو حادثے سے بری الزمہ قرار دیا گیا ہے۔
ٹاؤن کے میونسپل کمشنر نے کہا کہ یہ رپورٹ دائرہ اختیار اور محکمانہ ذمہ داریوں کی تصدیق کے بعد تیار کی گئی ہے، واقعہ یونیورسٹی روڈ پر پیش آیا، جس کا تعلق کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) سے ہے، یہ ٹی ایم سی گلشن اقبال، ڈسٹرکٹ ایسٹ کے انتظامی کنٹرول میں نہیں آتا۔
رپورٹ کے مطابق بی آر ٹی پروجیکٹ اورفورکے پروجیکٹ فی الحال اس راہداری کے ساتھ زیر تکمیل ہیں، اور ان منصوبوں سے متعلق کام متعلقہ ایگزیکٹو ایجنسیاں انجام دے رہی ہیں۔ جب کہ علاقے میں سیوریج کی مین لائن (سسٹم) کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے دائرہ اختیار میں ہے۔
اس رپورٹ میں واضح کر دیا گیا ہے کہ واقعے کا تعلق ٹاؤن میونسپل کارپوریشن گلشن اقبال، ڈسٹرکٹ ایسٹ سے نہیں ہے، متعلقہ روڈ پر جاری ترقیاتی کام اور سیوریج کا بنیادی ڈھانچہ دوسرے محکمے کے کنٹرول میں آتا ہے۔
کھلے مین ہول کی شکایت 29 اکتوبر کو بی آر ٹی آفس میں منعقدہ میٹنگ میں یو سی ٹو گلشن اقبال ٹاؤن کے چیئرمین ریاض اظہر نے کی تھی، میٹنگ میں بی آر ٹی ٹیم، گلشن اقبال ٹاؤن کے نمائندوں کی ٹیم اور اے ڈی بی کی ٹیم کے افسران موجود تھے۔
میٹنگ پوائنٹس کے مطابق یونیورسٹی روڈ پر جگہ جگہ کھلے مین ہولز پر ڈھکن لگانے اور رنگ سلیب لگانے کی درخواست کی گئی تھی، لیکن کمیٹی میں یو سی چیئرمین ریاض اظہر کی درخواست کو نظر انداز کیا گیا۔
دستاویز کے مطابق یوسی چیئرمین کی جانب سے کسی بھی ناخوشگوار واقعے کا خدشہ ظاہر کر دیا گیا تھا، ذرائع کے مطابق اکتوبر میں کمیٹی میں 14 کھلے مین ہول پوائنٹس کی نشان دہی کی گئی تھی، ریاض اظہرنے کہا کہ ان شکایات پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا، بلکہ جواب دیا گیا کہ ٹھیکے دار نے مزید کام کرنے سے منع کر دیا ہے۔