اسرائیل، لبنان و شام سے انخلا اور فلسطین پر قبضہ ختم کرے، پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
واشنگٹن:
قطری وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی مقامی وقت کے مطابق آج اتوار کی صبح ساڑھے 8 بجے نافذ ہو جائے گی۔ جی ایم ٹی کے مطابق ساڑھے 6 بجے سیز فائر شروع ہوگا۔
جنگ کے 470دنوں میں اسرائیلی فوج نے تاریخ کا بدترین قتل عام کرتے ہوئے 46899فلسطینیوں کو شہید کردیا ہے۔ وزارت صحت میں ریکارڈ اس تعداد کے علاوہ دیگر ہزاروں مرنے والے تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دب کر بھی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ جنگ بندی اعلان کے بعد بھی اسرائیل نے 127فلسطینیوں کو شہید کردیا ہے۔
42 روز کے پہلے مرحلہ میں 33اسرائیلیوں کے بدلے 1904فلسطینی رہا کیے جائیں گے۔ اسرائیل کی وزارت انصاف نے رہائی پانے والے فلسطینی قیدیوں کی ایک فہرست جاری کردی ۔ 737فلسطینی قیدیوں پر مشتمل اس فہرست میں الفتح کے اہم رہنما مروان برغوثی اور زکریا الزبیدی کے نام بھی شامل ہیں۔
دریں اثنا اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے شام اور لبنان کی سرزمین سے اسرائیل کے انخلا، لبنان اور شام کی خودمختاری کے احترام اور فلسطین کی سر زمین پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے کا مطالبہ کر دیا۔
وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے مطابق یو این میں پاکستانی مندوب منیر اکرم نے سلامتی کونسل میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کے قبضے کی مذمت کرتے ہوئے شام میں ایک جامع حکومتی ڈھانچے کے قیام کا مطالبہ کیا۔
رواں ماہ سلامتی کونسل کے غیر مستقل رکن کی حیثیت سے اپنی 2 سالہ مدت کا آغاز کرنے کے بعد پاکستان نے اقوام متحدہ کے چارٹر کو برقرار رکھنے اور عالمی تنازعات کے منصفانہ حل کو فروغ دینے کا عہد کیا ہے۔ پاکستانی سفیر نے سلامتی کونسل میں مطالبہ کیا کہ شام کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو بحال کیا جانا چاہیے۔
منیر اکرم نے امید ظاہر کی کہ غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ جنگ بندی کا معاہدہ ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا جس میں ایک خودمختار اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام بھی شامل ہوگا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہونے کا دعویٰ کیا کہ یہ ایک عارضی جنگ بندی ہے۔ ہمیں یہ اجازت دی گئی ہے کہ ضرورت پڑنے پر ہم امریکا کی تائید سے دوبارہ جنگ شروع کردیں۔ ضرورت پڑنے پر ہم پوری قوت سے دوبارہ جنگ شروع کردیں گے۔ ہم فلاڈیلفیا میں فوج برقرار رکھیں گے۔
غزہ پر جنگ کے 470 ویں دن اسرائیلی شہر تل ابیب میں چاقو سے حملہ کیا گیا جس میں ایک اسرائیلی ہلاک اور دو زخمی ہوگئے۔ حملہ آور کو قتل کردیا گیا۔
عالمی ادارہ صحت نے اسرائیلی حکومت کی جانب سے غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کی منظوری کے بعدامداد میں اضافے کے منصوبے کا اعلان کردیا۔ منصوبے کے مطابق امداد کی ترسیل کو یومیہ 600 کے قریب ٹرک تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ 12,000 سے زیادہ مریضوں کا طبی انخلا ہونے کی توقع ہے۔
اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے کے تحت آج اتوار کو مقامی وقت کے مطابق شام چار بجے رہا ہونے والے 95 فلسطینی قیدیوں کی فہرست جاری کردی ہے جن میں 69 خواتین، 16 مرد اور 10 نابالغ شامل ہیں۔ فلسطینی پارلیمنٹ کی رکن اور قانون ساز خالدہ جرار بھی رہا ہونیوالوں میں شامل ہیں۔ انہیں جنگ کے آغاز میں گرفتار کیا گیا تھا۔
جنگ بندی کے بعد غزہ کی پٹی پر کون حکومت کرے گا، یہ معاملہ ابھی ابھام کا شکار ہے تاہم حماس نے تصدیق کی ہے کہ اس کی فوجیں کل اتوار کو طے شدہ جنگ بندی کے نافذ العمل ہوتے ہی پٹی میں تعینات ہو جائیں گی۔ اسرائیلی کابینہ نے بھی غزہ میں جنگ بندی معاہدے کی منظوری دے دی۔
اس سے قبل اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے جنگ بندی کی منظوری دی تھی۔ یہ سوال جواب طلب رہا ہے کہ اس مرحلے میں وہ 33 یرغمالی کون ہوں گے جن کو غزہ سے اسرائیل کے حوالے کیا جائے گا۔ حماس کے قریبی دو ذرائع نے بتایا کہ رہا ہونے والے یرغمالیوں کا پہلا گروپ تین اسرائیلی خاتون فوجیوں پر مشتمل ہے۔ رہائی پانے والے فلسطینیوں کی فہرست میں فلسطینی صدر محمود عباس کی فتح پارٹی کے مسلح ونگ کے سربراہ زکریا زبیدی بھی شامل ہیں۔
زبیدی 2021 میں پانچ دیگر فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کی گلبوا جیل سے فرار بھی ہوئے تھے۔ حماس رہنما باسم نعیم نے اعتراف کیا ہے کہ سیز فائر معاہدہ ٹرمپ کے بغیر ممکن نہ ہوتا۔ یورپی یونین نے کہا ہے کہ جنگ بندی کے بعد یورپی یونین اپنے فوجیوں کی رفح راہداری پر تعیناتی کے لیے تیار ہے۔
یمن میں حوثیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے اسرائیل پر ایک میزائل حملہ کیا ہے۔ لبنان کے صدر جوزف عون نے کہا ہے کہ اسرائیل کو 26جنوری کی ڈیڈ لائن تک جنوبی لبنان سے لازمی نکلنا ہوگا۔ اسرائیلی وزیر قومی سلامتی ایتمار بین گویر کے بعد اسرائیلی کنیسٹ ( پارلیمنٹ ) کے رکن زیوی سککوٹ نے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کو حماس کی فتح قرار دے دیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جنگ بندی کے کے مطابق شامل ہیں ہے کہ اس کیا ہے کے بعد
پڑھیں:
فلسطین، مزاحمت اور دو ریاستی حل کی حقیقت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250919-03-5
میر بابر مشتاق
فلسطین کی زمین انسانی تہذیب، ثقافت اور مذہبی ورثے کی ایک زندہ علامت رہی ہے۔ ہزاروں سال سے یہاں انسانی تاریخ رقم ہوتی رہی، مقدس مقامات قائم ہوئے اور معاشرتی اصول پروان چڑھے۔ مگر بیسویں صدی میں یہ خطہ ایک غاصب منصوبے کا شکار ہوا، جس نے فلسطینی عوام کی زمین چھین لی اور انہیں بے گھر کر دیا۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد فلسطینی بے دخلی کا سلسلہ شروع ہوا، اور آج تک حقیقی فلسطینی ریاست قائم نہیں ہو سکی۔ اسرائیل نے نہ صرف فلسطینی زمین پر اپنی بستیوں کی تعداد بڑھائی بلکہ قدس شریف میں آبادیاتی تبدیلیاں کیں، غزہ میں بمباری کر کے بنیادی سہولتیں تباہ کیں اور انسانی زندگی اُجاڑ دی۔ ہر موقع پر فلسطینی حق ِ ملکیت، حق ِ واپسی اور بنیادی انسانی حقوق کو نظر انداز کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں اور عالمی اقدامات اکثر علامتی رہ گئے، جبکہ اسرائیل عالمی طاقتوں کے تحفظ اور تعاون سے فلسطینی حق کو دباتا رہا۔
دو ریاستی حل، جسے اکثر امن کا حل کہا جاتا ہے، فلسطینی عوام کے لیے قابل قبول نہیں۔ یہ حل 1967 کی سرحدوں تک محدود ہے اور اسرائیل کو قبضے کو جاری رکھنے کا قانونی جواز دیتا ہے، جبکہ فلسطینی حق ِ واپسی اور تاریخی حقوق پس ِ پشت ڈال دیے جاتے ہیں۔ اگر دو ریاستی حل واقعی قابل قبول ہوتا تو آج فلسطینی ریاست قائم ہو چکی ہوتی، مگر اسرائیل اور عالمی طاقتوں نے اسے ہمیشہ روکا۔ فلسطینی مزاحمت، خاص طور پر حماس، صرف عسکری نہیں بلکہ عوامی شعور اور سیاسی بقا کی نمائندگی کرتی ہے۔ 2006 کے انتخابات میں عوام نے حماس کو مینڈیٹ دیا، جو آج تک اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے قائم ہے۔ مزاحمت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ فلسطین پر صرف فلسطینیوں کا حق ہے، جو انسانی، قانونی، اخلاقی اور شرعی اعتبار سے محفوظ ہے۔
اسرائیل نے گزشتہ دہائیوں میں فلسطینی علاقوں میں آبادکاری، قدس میں آبادیاتی تبدیلیاں، غزہ میں بمباری اور بنیادی سہولتوں کی تباہی کا سلسلہ جاری رکھا۔ 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی جارحیت میں 64,803 فلسطینی شہید اور 164,264 زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ غزہ کی 22 لاکھ آبادی میں سے تقریباً 20 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں، جبکہ 80 فی صد سے زائد مکانات تباہ ہو چکے ہیں۔ یہ مظالم اسرائیل کی غاصب ریاست ہونے کی واضح مثال ہیں۔ یہ سلسلہ 1948 سے نہیں بلکہ 1917 کے بالفور ڈیکلیریشن سے شروع ہوا، جب برطانیہ نے فلسطینی زمین پر یہودیوں کے لیے ’’قومی گھر‘‘ قائم کرنے کا وعدہ کیا، بغیر کسی مالک کی اجازت کے۔ برطانوی انتداب نے فلسطینیوں کے خلاف ظلم کیا: ہتھیاروں پر پابندی، مظاہروں پر گولیاں، اور یہودی آبادکاروں کو زمین کا تحفہ۔ 1947 میں اقوام متحدہ کی قرارداد 181 نے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا، حالانکہ فلسطینی آبادی 67 فی صد تھی مگر انہیں صرف 45 فی صد زمین دی گئی۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے موقع پر لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں سے نکالے گئے، جسے ’’نکبت‘‘ کہا جاتا ہے۔ 1967 کے بعد اسرائیل نے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا اور غیرقانونی بستیاں قائم کیں۔ ہائی ویز صرف یہودیوں کے لیے بنائے گئے اور ’’جدار علٰیحدگی‘‘ نے فلسطینیوں کو اپنی زمین سے کاٹ دیا۔ آج سات لاکھ سے زائد یہودی بستی نشین مغربی کنارے میں مقیم ہیں۔ غزہ، جو دنیا کا سب سے بڑا ’’اوپن ائر جیل‘‘ ہے، وہاں 2007 سے محاصرہ ہے۔ بچوں کو دودھ نہیں ملتا، اسپتال بجلی سے محروم ہیں اور گولہ بارود کے ذخائر ختم ہو چکے ہیں۔ 2014، 2021 اور 2023 کی جنگیں نسل کشی کی کوششیں تھیں، جن کی تصدیق اقوام متحدہ کے ماہرین حقوقِ انسان کر چکے ہیں۔
دنیا ’’انسانیت‘‘ کے نعرے لگاتی ہے، مگر امریکا ہر سال اسرائیل کو اربوں ڈالر دیتا ہے، جو فلسطینی بچوں کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ یورپی یونین حقوقِ انسان کی بات کرتی ہے، مگر اسرائیلی مصنوعات پر پابندی نہیں لگاتی۔ عرب حکمران اسرائیل کے ساتھ خفیہ معاہدے کرتے ہیں، جبکہ عوام سڑکوں پر فلسطین کے لیے رو رہے ہوتے ہیں۔ ’’ابراہیمی معاہدے‘‘ نے اسرائیل کو تسلیم کر کے عالمی انصاف کے اصولوں کو پامال کیا۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ عالمی طاقتیں مفادات کی پیروی کرتی ہیں، نہ کہ فلسطینی انصاف کی۔ فلسطینی مزاحمت صرف حماس کی راکٹ باری تک محدود نہیں۔ یہ وہ بچہ ہے جو پتھر لے کر ٹینک کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے، وہ ماں جو اپنے شہید بیٹے کی قبر پر فلسطینی جھنڈا لہراتی ہے، وہ نوجوان جو سوشل میڈیا پر اسرائیلی ظلم کی ویڈیوز شیئر کرتا ہے، اور وہ وکیل جو بین الاقوامی عدالت میں فلسطینی حق کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ فلسطینی ثقافت؛ گرافٹی، نغمے، کہانیاں، ڈائریاں۔ یہ سب مزاحمت کی شکلیں ہیں۔ بچوں کی ڈائریاں، جیسے شذا العجلہ یا محمد الدرہ، دنیا کو جھنجھوڑتی ہیں۔ مزاحمت کا سب سے بڑا ہتھیار ’’حقیقت‘‘ ہے، جو ہر دفعہ اسرائیلی جھوٹ کو بے نقاب کرتی ہے۔
دو ریاستی حل 1967 کی سرحدوں پر فلسطینی ریاست قائم کرنے کا خیال تھا، لیکن اسرائیل نے ہر سال نئی بستیاں بنائیں، ہر معاہدے کے بعد نئی شرائط لگائیں، اور ہر امن مذاکرے کے بعد نئی بمباری کی۔ اوسلو معاہدے کے بعد بھی دو لاکھ پچاس ہزار سے زائد یہودی بستی نشین مغربی کنارے میں منتقل ہوئے۔ اسرائیل نے کبھی فلسطینی ریاست کو قبول نہیں کیا۔ اقوام متحدہ کی قرارداد 242 اور 338 بھی نافذ نہ ہو سکیں۔ دو ریاستی حل اب صرف ایک ’’تسلی دینے والا خواب‘‘ ہے، جسے اسرائیل اور امریکا نے کبھی پورا ہونے نہیں دیا۔
فلسطین صرف ایک خطہ نہیں بلکہ اسلامی تاریخ، ثقافت اور روحانیت کا مرکز ہے۔ بیت المقدس کی اہمیت قرآن و حدیث میں واضح ہے۔ امت ِ مسلمہ کا فرض ہے کہ وہ فلسطین کے لیے جہاد، دعائیں، مالی امداد، سیاسی حمایت اور ثقافتی مزاحمت کرے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے کہا: ’’اگر کفار کسی مسلمان علاقے پر قبضہ کر لیں تو اسے چھڑانا فرضِ عین ہے‘‘۔ آج فلسطینی عوام تنہا نہیں، وہ پوری امت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مساجد، مدارس، یونیورسٹیاں اور میڈیا کا فرض ہے کہ فلسطین کی آواز بلند رکھیں۔ خاموشی گناہ ہے، بے حسی ناقابل ِ معافی۔ دو ریاستی حل کی ناکامی کے بعد نوجوان فلسطینی ایک ریاستی حل کی طرف رجوع کر رہے ہیں، جہاں تمام شہریوں کو مساوی حقوق ملیں، چاہے وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی۔ اسرائیل کو بائیکاٹ کرنا (BDS Movement) ایک مؤثر ہتھیار ہے، جس سے اسرائیلی معیشت اور عالمی تصویر متاثر ہوتی ہے۔
عالمی عوامی رائے، سوشل میڈیا اور نوجوان نسل کی بغاوت وہ طاقتیں ہیں جو مستقبل میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔ اسرائیل کی طاقت ہتھیاروں میں نہیں بلکہ عالمی خاموشی میں ہے۔
قدس اور فلسطین صرف ایک ملک نہیں بلکہ امت مسلمہ کا وقف ہیں۔ جہاد اور مزاحمت، تاریخی، قانونی اور اخلاقی طور پر فلسطینی حق کے لیے جائز اور ضروری ہیں۔ فلسطینی مزاحمت صرف عسکری محاذ نہیں بلکہ عوامی شعور، ثقافت اور سیاسی بقا کی نمائندگی کرتی ہے۔ فلسطینی عوام کی آواز آج بھی زندہ ہے:
نہ منہ چھپا کے جیے ہم، نہ سر جھکا کے جیے
ستم گروں کی نظر سے نظر ملا کے جیے
اب ایک رات اگر کم جیے تو کم ہی سہی
یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جیے
یہ عزم اسرائیل اور عالمی طاقتوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ نیویارک اعلامیہ اور دو ریاستی حل صرف کاغذ پر ہیں، مگر فلسطین زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ فلسطینی مزاحمت، شہداء کی قربانیاں اور عوامی عزم ہی حقیقی آزادی کی ضمانت ہیں۔