Nai Baat:
2025-07-05@09:08:41 GMT

تعلیم اور ہمارا مستقبل….!

اشاعت کی تاریخ: 8th, February 2025 GMT

تعلیم اور ہمارا مستقبل….!

یہ26 ستمبر1947ءکی بات ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا: ”تعلیم پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔دنےا اتنی تےزی سے ترقی کر رہی ہے کہ تعلےمی مےدان مےں مطلوبہ پےش رفت کے بغےر ہم نہ صرف اقوام عالم سے پےچھے رہ جائےں گے بلکہ ہوسکتا ہے کہ ہمارا نام ونشان ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائے“۔
عصر حاضر میں جب وطن عزیز کی تعلیمی اداروں پر طائرانہ نظر دوڑاتے ہیں توعیاں ہوتا ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے جدید تقاضا کو پورا نہیں کرتے ،ہمارے تعلیمی ادارے ڈگریاںدیتی ہیں لیکن تعلیم کے ساتھ طلبہ کی تربیت نہیں کرتے، اس لئے ڈگریوں کے حصول کے بعد ہمارے طلبہ روزگار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔
تقرےباً پندرہ صدی قبل اللہ رب العزت کے محبوبﷺ غار حرا مےں محو عبادت تھے کہ حضرت جبرائےل آمےن تشرےف لائے اور فرماےا کہ "پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے انسان کو خون کی پھٹک سے پےدا کےا۔پڑھ اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کرےم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھاےا۔انسان کو سکھاےا جو وہ نہےں جانتا تھا۔” یعنی اللہ رب العزت سورة العلق میں فرماتے ہیں ۔”اقرا باسم ربک الذی خلق ۔خلق الا نسان من علق۔اقرا و ربک الاکرم۔الذی علم بالقلم۔علم الانسان مالم ےعلم۔©”اللہ رب العزت کے ابتدائی کلمات مےںتعلےم کا تذکرہ اس بات کی دلےل ہے کہ انسان کو علم کے درےچوں مےں جھانکنا چاہےے اور انسان کے لئے علم کی کتنی اہمےت ہے؟انسان علم کے بغےر حےوان کی طرح ہے۔
خاکسار نے حال ہی میں کالاباغ کے گورنمنٹ گرلز کالج کا وزٹ کیاتو تعمیر و مرمت کا
کام بند تھا، وہاں پر بتایا گیا کہ گذشتہ چھ ماہ سے فنڈ بند ہیں،حالانکہ کالاباغ لاہور سے بھی قدیم شہر ہے،وہاں پر اعلیٰ تعلیمی ادارے ہونے چاہیے تھے، اس حلقے کے ایم پی اے میجر (ر) اقبال خٹک صوبائی اسمبلی پنجاب میں اپنے علاقے کے مسائل اجاگر کرتے رہتے ہیں،ان کی کاوشیں قابل تعریف ہیں،اسی علاقے کے ممبر قومی اسمبلی جمال احسن خان انسان دوست اور صاحب علم ہیں،وہ اپنے لوگوںکے مسائل کے حل کے لئے کوشاں رہتے ہیں،وہ اب ایم این اے ہیں مگر وہ حسب اختلاف میں ہیں،اس لئے وہ سرعت سے ترقیاتی کام نہیں کراسکتے ہیں اور نہ ہی قانون سازی میں کلیدی کردار ادا نہیں کرسکتے ہیںلیکن ان کی حب الوطنی ، اخلاص اور دیانت پر کوئی شبہ نہیں،ان کو جب بھی موقع ملے گا ،وہ اپنے ملک اور علاقے کے لئے صلاحیتوں کا استعمال کریں گے۔دس بارہ برس قبل انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ خالد خان ! اقتدار مےں آکر تعلےم، صحت اور روزگار کو ترجیح دوں گا۔ جدےد تعلےم حاصل کرنا ہمارے بچوں کا بنےادی حق ہے۔حکمرانوں سے تھانہ کچہری کی سےاست، سےورےج نالی اور گلےاں مانگنے کی بجائے صرف اور صرف تعلےم اور اچھے تعلےمی اداروں کا تقاضا کرےں۔” ان کی باتوں سے خا کسار افکار مےں کھوگےا کہ انھوں نے درست فرمایا۔ انسان کے لئے ان تےن چےزوں کا ہونا ناگزےر ہے، تعلیم ، صحت ، روزگار۔ (اول)تعلےم ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ (دوم) صحت کے بغےر کوئی کام نہےں ہوتا ےعنی جان ہے تو جہان ہے(سوم) انسان کے لئے روزگار بہت ضروری ہے۔
بلاشبہ تعلےم و تربیت ہی ترقی اور دوام کے لئے لازم ہے،اس کے بغےر ترکےب ِ زےست ناممکن ہے بلکہ اس کے بغےر ہمارا ٹھکانا نہ رہے گا۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے گرےبان مےں جھانکےں اور ماضی کی غلطےوں کو دھرانے کی بجائے ان سے سبق حاصل کرےں۔ اپنے منشور ، پلان اور فیصلہ جات مےں ان تےن درج بالا نکات کو سر فہرست رکھےں۔جدےد عصری تقاضوں سے ہم آہنگی کے لئے ہنگامی بنےادوں پرتعلےم کے فروغ کے لئے کام کرےں، سائنس اور ٹےکنالوجی کے علوم پر خصوصی توجہ دیں، دور دراز علاقوں مےں تعلےم کے فروغ کے لئے عملاً اقدامات اٹھائیں کہ طلبہ کو اپنے ہی علاقے میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع ملےں، اس سے ان کے اخراجات بچ جائیں گے اور بڑے شہروں پر بوجھ بھی کم ہوجائے گا۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ابتدائی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک جامع پلان بننا چاہیے،جس میں طلبہ کےلئے تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت لازمی ہو، پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ اخلاقی تربیت بھی ہو۔اخلاقی تربیت سے ہی کافی مسائل حل ہوسکتے ہیں، اخلاقی تربیت کا باقاعدہ پیریڈہونا چاہیے،اسی طرح تعلیمی اداروں میںجسمانی تربیت کا اہتمام ہونا چاہیے ۔نوجوان نسل کی جسمانی، اخلاقی اور پیشہ ورانہ تربیت کریں گے تو اس کے نتائج مثبت اوردور رس ہونگے ۔تعلیم و تربیت ہی کی بدولت سے وطن عزیز میں ترقی اور خوشحالی کا انقلاب بھرپا کیا جاسکتا ہے۔تعلیم وتربیت کے لئے اساتذہ کرام کی ذہنی آسودگی ناگزیر ہے،اس کےلئے لازمی ہے کہ اساتذہ کی تنخواہیں اور پنشن معقول ہو۔اساتذہ کرام کی عزت و احترام ہو، اساتذہ کو دوران سروس اور پنشن کا ایسا پیکیج دیںکہ اُن کواپنے مطالبات کےلئے سڑکوں پر آنا نہ پڑے۔قارئین کرام !ضرورت اس امر کی ہے کہ قائد کے فرمان کے مطابق تعلےمی مےدان مےں کسی سے پےچھے نہےں رہنا چاہےے کیونکہ تعلےم اقوام کےلئے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کے بغےر کے لئے

پڑھیں:

بجٹ 2025-26 ء

کہنے کو یہ ایک مالی سال کے بجٹ کا آغاز ہے، مگر سننے والے کانوں میں یہ بجٹ نہیں، کفن کی سلائی کی آواز ہے۔ سرکاری کاغذوں میں اسے ’’ترقی کا منشور‘‘ کہا گیا ہے، مگر گلیوں میں یہ فاقہ زدہ چہروں کی آخری دعا بن چکا ہے۔
وزیر خزانہ ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ سجائے فرماتے ہیں ’’ہم نے عوام کو ریلیف دیا ہے‘‘ مگر وہ شاید کسی اور عوام کی بات کر رہے تھے ۔ کلف لگی شیروانیوں، پرتعیش عشرت کدوں ، اور خفیہ بینک اکائونٹس والے عوام کی!
ادھر، وہ عوام جن کے بچے فیس نہ دے سکیں، جن کی تنخواہیں صرف مہینے کے پہلے عشرے کی مہمان ہوتی ہیں، جن کے چولہے گیس سے نہیں، دعا کی آنچ سے جلتے ہیں ان کے لیے یہ بجٹ کفایت شعاری کا اعلان نہیں، بلکہ معاشی قتل کا پروانہ ہے۔ایک طرف ’’خود کفالت‘‘ کے نعرے، دوسری طرف آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن‘ ایک طرف ترقیاتی دعوے، دوسری طرف خالی پیٹوں پر پتھر باندھنے کی تنبیہ۔۔!
یہی وہ تضاد ہے جو اس بجٹ کو مالیاتی دستاویز نہیں، بلکہ متوسط طبقہ کا نوحہ بنا دیتا ہے یہ کیسا بجٹ ہے جومفلسوں سے لہو کا تقاضہ لئے ہے،تنخواہ دار کی جیب پر ڈاکہ ڈالتا ہے۔
وزیر خزانہ2025-26 ء کا بجٹ پیش کر رہے تھے اور حکومتی بنچوں پر بیٹھے ارکان ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشیاں کر رہے تھے۔جبکہ عوام کے چہروں پر ابھرتی ،پھیلتی شکنیں پسینے سے لبریز ہو رہی تھیں ۔ہندسوںکا وہی پرانہ کھیل شروع ہوا ،خوشنما لفظوں کا کھیل ،ادھورے حقائق کا کھیل ،متوسط طبقے کی قربانی کی طلب کا کھیل۔
2025-26 ء کا بجٹ جس میں دفاع کے لئے 2122 ارب روپے،ملکی ترقی و خوشحالی کے لئے1500 ارب روپے،تعلیم کے لئے 110 ارب روپے ،صحت کیلئے35 ارب روپے رکھے گئے۔جبکہ تنخواہ دار طبقے کی پیٹھ پر 220 ارب روپے کا اضافی انکم ٹیکس لادا گیا ۔
وہ متوسط طبقہ جو ہر صبح چنگ چی یا موٹر سائیکل پر جانوروں کی طرح لادے اپنے بچے اسکول چھوڑتا اور اپنی اہلیہ کی خوشنودی کا سودا سلف خرید کر اس کی بارگاہ میں پیش کرتے ہوئے دفترپہنچتا ہے۔یہی وہ انسان نما جانور ہیں جو ہر مہینے روتے ،پیٹتے بجلی کے بل ادا کرتے ہیں۔
سرکارکی جانب سے انہیں یہ بھاشن دیا جاتا ہے کہ’’قربانی تم نے دینی ہے خوشحال ہم نے ہونا ہے‘‘ اور اب تو ترقی کے فربہ ہاتھی آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں ہر سو بھوکے لوگ ہی دکھائی دیتے ہیں۔
ٹیکس نیٹ پر نظر ڈالیں تو 10پرسینٹ امیروں پر لاگو ہوتا ہے ،متوسط طبقہ اور تنخواہ دار 65 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔ جبکہ 700 ارب روپے سالانہ ٹیکس چوری ہونے کی شرح ہے ، کاپوریٹ سیکٹر میں ہر بار تنخواہ دار طبقے کو کٹوتیوں کی بھینٹ چڑھا یا جاتا ہے ۔
مہنگائی کی موجودہ شرح 22.5 فیصد اور تنخواہوں میں اضافہ روتے پیٹتے 12 فیصد۔اور بھی ضروری نہیں تنخواہ بڑھے نہ بڑھے اشیائے ضروریات کی قیمتیں تو بہر حال بڑھنی ہی ہوتی ہیں۔
کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ ’’ یہ بجٹ نہیں شام غریباں ہے ‘‘ ہاں البتہ سیاسی وعدوں کی چوسنیاں اور بجلی سستی کرنے کاخواب روز دکھا یا جاتا ہے ۔
ملک ہمارا، ملیں ہماری ،ادارے ہمارے محنت ہماری ،،حکومت ہمارے ووٹوں سے بنتی ہے اور بجٹ آئی ایم ایف تیار کرتا ہے ۔ پڑھتا ہمارا وزیر بے تدبیر ہے جو لفظوں کا خوبصورت جال ہوتا ہے۔ متوسط طبقے کا جنازہ جو ہر سال بڑی دھوم سے اٹھتا ہے آور لاشہ بیچ قبرستان کے بے کفن پھینک دیا جاتا ہے کہ’’ اگلے سال سہی‘‘ اور اگلا سال کس نے دیکھا ’’کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک‘‘ اب ایک نگاہ اپنے اور اپنے ارد گرد ممالک کی تعلیم اور تعلیمی بجٹ پر پاکستان آبادی تقریباً 24 کروڑ شرح تعلیم 58 فیصدبنگلہ دیش آبادی لگ بھگ 17 کروڑ شرح تعلیم 78 فیصدسری لنکا آبادی2.18 کروڑ شرح خواندگی 94 فیصدجنوبی کوریا آبادی 5.17 کروڑشرح خواندگی 99.5 فیصد۔
اب ذرا ان ممالک کا تعلیمی بجٹ ملاحظہ فرمائیں۔پاکستان۔وفاقی بجٹ میں صرف 97 ارب روپے رکھے گئے یعنی کل بجٹ 0.5 پرسینٹ بنگلہ دیش کل بجٹ کا7.97 فیصدسری لنکا کل بجٹ 6 ہزار ارب تعلیم کے لئے 232 ارب روپے جنوبی کوریا کل بجٹ 656بلین تعلیم کے لئے 13.3 فیصد ۔کیا ایسے ہوتی ہے غریب عوام کی خدمت؟یہی ہوتا ہے متوط طبقے کا خیال ؟

متعلقہ مضامین

  • ہمارا کوئی رکن کہیں نہیں جارہا، بجٹ پاس نہ کرتے تو ہماری حکومت ختم ہوجاتی، علی امین
  • ہمارا کوئی رکن کہیں نہیں جارہا، بجٹ پاس نہ کرتے تو ہماری حکومت ختم ہوجاتی، علی امین گنڈا پور
  • ٹیکنالوجی کی مدد سے چین کے دیہی علاقوں کا مزید تابناک مستقبل
  • بجٹ 2025-26 ء
  • عدم اعتماد ہمارا حق، جب نمبر پورے ہوں گے تو تحریک بھی لائیں گے : گورنر کے پی کے 
  • چین میں انسان نما روبوٹس کا فٹبال میچ، انسانی ٹیموں سے زیادہ جوش و خروش پیدا کرگیا
  • اسکول آف اسکالرز: جہاں بچیاں صرف پڑھتی نہیں، مستقبل بھی تراشتی ہیں
  • مکران میں مستقبل میں تباہ کن زلزلے کی پیشگوئی
  • مودی نے مسلمانوں سے سر چھپانے کا حق بھی چھین لیا، صرف ایک ضلع میں 700 سے زائد گھر مسمار
  • غیبت کا کلچر اور اس کی بنیادیں