مہا کمبھ میلہ، دس یاتری گنگا اشنان سے قبل چل بسے
اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 فروری 2025ء) بھارت میں جاریمہا کمبھ میلے کے لیے سفر کرنے والے دس یاتری ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ حکام نے بتایا ہے کہ اس حادثے میں انیس افراد زخمی بھی ہو گئے۔
چھتیس گڑھ سے یاتریوں کا ایک گروہ کار کے ذریعے ریاست اتر پردیش جا رہا تھا کہ پرایاگ راج - مرزاپور ہائی وے پر ایک بس سے کچل دیا۔
اس حادثے کی وجوہات معلوم نہیں ہو سکی ہیں تاہم حکام نے فوری تفیشی عمل شروع کر دیا ہے۔میڈیا رپورٹوں کے مطابق اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے حکام کو امدادی کام تیز تر کرنے اور زخمیوں کے مناسب علاج کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
ادھر بھارتی صدر دروپدی مورمو نے ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا کہ یہ ایک افسوس ناک حادثہ ہے۔ لاکھوں افراد مہا کمبھ میلے میں شریکدنیا کا سب سے بڑا اجتماع کہلایا جانے والا مہا کمبھ میلا اس وقت اتر پردیش کے پرایاگ راج میں جاری ہے۔ یہ مقدس ہندو تہوار ہر 12 سال بعد اس شہر میں منعقد ہوتا ہے۔
عقیدت مند گنگا، جمنا اور خیالی دریائے سرسوتی کے سنگم پر مقدس اشنان کرتے ہیں۔
اس میلے میں شرکت کے لیے بھارت بھر سےلوگ بے قرار دہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بالخصوص مغربی ممالک کے سیاح بھی اس رنگا رنگ میلے میں شرکت کے لیے بھارت کا رخ کرتے ہیں۔تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 13 جنوری کو شروع ہونے والے پانچ سو روزہ میلے میں پینتالیس ملین سے زائد لوگ شرکت کر چکے ہیں۔
اسی ہفتے مہا کمبھ میلے سے واپسی کے دوران مدھیہ پردیش میں ایک بس اور ٹرک کے تصادم میں سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
29 جنوری کو اس میلے کے احاطے میں علی الصبح بھگدڑ کے نتیجے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 30 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت پر اصل ہلاکتوں کی تعداد چھپانے کا الزام عائد کیا ہے۔
دھاروی وید (ع ب، ش ر)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اتر پردیش مہا کمبھ میلے میں ہلاک ہو ہو گئے
پڑھیں:
غزہ میں اسرائیلی فضائی حملوں اور فائرنگ سے 82 فلسطینی ہلاک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 جولائی 2025ء) غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت اور مقامی ہسپتالوں کے مطابق بدھ کے دن سے لے کر جمعرات کی صبح تک اسرائیلی فضائی حملوں اور فائرنگ کے واقعات میں کم از کم 82 فلسطینی ہلاک ہو گئے، جن میں سے 38 افراد اس وقت نشانہ بنے جب وہ شدید ضرورت کے تحت امدادی سامان حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
رپورٹس کے مطابق پانچ افراد ان مقامات کے قریب ہلاک ہوئے، جو حال ہی میں قائم کی گئی متنازعہ تنظیم ''غزہ ہیومینیٹیرین فنڈ‘‘سے منسلک بتائے جا رہے ہیں۔ یہ ایک خفیہ امریکی تنظیم ہے اور اسرائیل کی حمایت سے غزہ میں خوراک کی ترسیل کر رہی ہے۔ دیگر 33 افراد مختلف علاقوں میں امدادی ٹرکوں کا انتظار کرتے ہوئے فائرنگ کی زد میں آ کر ہلاک ہوئے۔
(جاری ہے)
وزارت صحت کا کہنا ہے کہ غزہ میں واقع انڈونیشی اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مروان سلطان اور ان کے اہلخانہ بھی ایک فضائی حملے میں مارے گئے۔ ان دعوؤں کی آزادانہ تصدیق ممکن نہیں ہو سکی اور اسرائیلی فوج کی جانب سے تاحال کوئی تبصرہ نہیں آیا۔
اسرائیلی فوج نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ہونے والے حملوں پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
اسکول کی عمارت پر حملے میں خواتین اور بچوں سمیت بارہ ہلاکغزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق جمعرات کو اسرائیلی فضائی حملے میں ایک اسکول کو نشانہ بنایا گیا، جہاں بے گھر فلسطینی پناہ لیے ہوئے تھے، جس کے نتیجے میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہو گئے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔
سول ڈیفنس کے عہدیدار محمد المغیر نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا،''مصطفٰی حافظ اسکول پر اسرائیلی فضائی حملے میں 12 افراد شہید ہوئے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، جب کہ بڑی تعداد میں افراد زخمی بھی ہوئے۔
‘‘یہ اسکول مغربی غزہ سٹی کے الرمال محلے میں واقع ہے اور وہاں دربدر افراد نے پناہ لے رکھی تھی۔ اسرائیلی فوج سے رابطہ کیے جانے پر اس نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ''اس رپورٹ کا جائزہ لینے کی کوشش کرے گی۔‘‘
غزہ میں جنگ بندی کی کوششیںدوسری جانب فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے کہا ہے کہ وہ مصر، قطر اور امریکہ کی جانب سے جنگ بندی کے لیے دی گئی نئی تجاویز پر غور کر رہی ہے۔
اس تنظیم کا یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس اعلان کے بعد سامنے آیا ہے کہ اسرائیل 60 روزہ جنگ بندی پر آمادہ ہو چکا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ وہ ''ذمہ داری سے‘‘ اس معاملے کا جائزہ لے رہی ہے۔اسرائیلی وزیر خارجہ گیدون سعار نے کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی اکثریت جنگ بندی معاہدے کی حامی ہے، بشرطیکہ اس میں یرغمالیوں کی رہائی شامل ہو۔ تاہم شدت پسند وزرا اتمار بن گویر اور بیزلیل سموٹرچ اس معاہدے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر یائر لاپید نے عندیہ دیا ہے کہ اگر حکومت معاہدہ کرتی ہے تو ان کی جماعت پارلیمان میں اس کی حمایت کرے گی۔
شکور رحیم، اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے کے ساتھ
ادارت: کشور مصطفیٰ، رابعہ بگٹی