رواں سیزن میں بارشیں کم ہونے کے باعث ملک کے مختلف علاقوں میں شہریوں کو پانی کی قلت کا سامنا ہے، اور اب منگلا ڈیم میں بھی پانی کی سطح ڈیڈ لیول تک پہنچ گئی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق واپڈا حکام نے بتایا ہے کہ منگلا ڈیم میں پانی کی سطح 1050 فٹ پر پہنچ گئی ہے، جس کے بعد پانی کا اخراج بند کردیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں اگلے 4 سے5 روز میں منگلا، تربیلا ڈیمز میں پانی مکمل ختم ہونے کا خدشہ

ترجمان کے مطابق تربیلا ڈیم میں بھی پانی کی قلت ہے، اور پانی ڈیڈ لیول سے صرف 3 فٹ اونچا رہ گیا، اور آئندہ 36 گھنٹے تک یہ امکان ہے کہ یہ ڈیڈ لیول تک پہنچ جائےگا۔

واپڈا ترجمان نے کہاکہ تربیلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ 15 ہزار ایکڑ فٹ ہے، جبکہ منگلا میں پانی کا ذخیرہ 72 ہزار ایکڑ فٹ ہے۔

ترجمان کے مطابق تربیلا کےمقام پردریائے سندھ میں پانی کی آمد 22 ہزار 200، اخراج 20 ہزارکیوسک، منگلا کے مقام پر دریائے جہلم میں پانی کی آمد 19 ہزار 900 اور اخراج 28 ہزار کیوسک ہے جبکہ چشمہ بیراج میں پانی کی آمد 38 ہزار 400، اخراج 27 ہزار کیوسک ہے۔

ترجمان کا کہنا تھاکہ ہیڈ مرالہ دریائے چناب میں پانی کی آمد 10 ہزار 800، اخراج 6 ہزار 100 کیوسک اور نوشہرہ کے مقام پر دریائے کابل میں پانی کی آمد 14 ہزار 300، اخراج 14 ہزار 300 کیوسک ہے۔

واضح رہے کہ کچھ روز قبل یہ وارننگ جاری کی گئی تھی کہ منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ ختم ہورہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں مون سون کی بارشوں سے دریاؤں اور ڈیموں میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ

رواں سیزن میں ملک میں بارشیں نہ ہونے کے برابر رہیں، تاہم فروری اور مارچ میں شمالی علاقہ جات میں بارش اور برف باری ہوئی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews پانی کی سطح تربیلا ڈیم ترجمان واپڈا ڈیڈ لیول منگلا ڈیم وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پانی کی سطح تربیلا ڈیم ترجمان واپڈا ڈیڈ لیول منگلا ڈیم وی نیوز میں پانی کی ا مد ڈیم میں پانی پانی کی سطح تربیلا ڈیم منگلا ڈیم ڈیڈ لیول پانی کا

پڑھیں:

افغان مہاجرین کے انخلا سے بلوچستان میں کاروباری سرگرمیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

پاکستان میں مقیم غیرقانونی افغان مہاجرین کے انخلا کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے تارکین وطن کو افغانستان واپسی کے لیے 31 مارچ کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی جس کے بعد مہاجرین کا انخلا وقتا فوقتا جاری ہے ادھر بلوچستان کے مکتلف علاقوں سے مہاجرین کے انخلا کا عمل جاری ہے۔

محکمہ داخلہ کے ذرائع کے مطابق اب تک 32 ہزار تارکین وطن کو افغانستان بھیجا جا چکا ہے جبکہ روزانہ کی بنیاد پر ایک ہزار سے ڈیڑھ ہزار تک مہاجرین کو چمن اور برابچہ سرحدی علاقوں سے ہمسایہ ملک بھیجا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پاک افغان اہم مذاکرات: نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار ایک روزہ دورے پر کابل پہنچ گئے

بلوچستان میں گزشتہ تین دہائیوں سے افغان تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو کاروباری سرگرمیوں میں مصروف تھی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مہاجرین کے انخلا سے بلوچستان میں کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوں گی یا نہیں؟

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے ایوان صنعت و تجارت کے سابق صدر فدا حسین نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے ایک بار افغان تارکین وطن کو واپس بھیجنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے جس کے سبب روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں افراد افغانستان کا رخ کررہے ہیں، ایسی صورت میں بلوچستان میں کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ بلوچستان میں سرحدی تجارت سمیت کئی اہم کاروباری شعبوں میں مہاجرین دہائیوں سے کام کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کاروباری افراد نے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری یہاں کر رکھی ہے اگر ایسے میں یہ افراد وطن واپس جاتے ہیں تو یہ اپنا سرمایہ مارکیٹ سے کھینچ لیں گے اور یوں کاروباری سرگرمیوں میں یک دم کمی آئے گی جس سے چھوٹا کاروباری سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے: پاک افغان اہم مذاکرات: نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار ایک روزہ دورے پر کابل پہنچ گئے

فدا حسین نے بتایا کہ افغان مہاجرین نے بلوچستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری پراپرٹی کے شعبے میں کر رکھی ہے۔ صوبے میں سیکیورٹی کی مخدوش صورتحال کے سبب پہلے پراپرٹی کی قیمتیں کم ہوئی تھیں ایسے میں مہاجرین کے انخلا کے معاملے نے پراپرٹی کے کاروبار کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے، اس وقت مارکیٹ میں ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے کی پراپرٹی 70 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔

فدا حسین نے بتایا کہ پالیسی سازوں کی جانب سے غیرمستحکم فیصلے کاروباری سرگریوں کو شدید متاثر کررہے ہیں، اگر صورتحال یہی رہی تو بلوچستان میں کاروبار ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے: غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کا انخلا تیزی سے جاری

دوسری جانب وی نیوز سے بات کرتے ہوئے چمن کے رہائشی ستار خوندئی نے کہا کہ پاک افغان سرحدی شہر چمن میں اس وقت کاروباری سرگرمیاں ٹھپ ہو کر رہ گئی ہیں، سرحد بند ہونے سے پہلے ہی کاروبار شدید متاثر ہوا تھا لیکن اب اشیاء کی ڈیمانڈ نہ ہونے کی وجہ سے کاروبار دھول چاٹ رہا ہے۔ چمن میں بسنے والے لوگوں کی رشتہ داریاں اور کاروبار افغانستان کے علاقے قندھار میں موجود منڈی ‘ویش منڈی’ سے منسلک تھا۔ ماضی میں چمن کے لوگ ویش منڈی سے سامان لے کر چمن اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں لے جایا کرتے تھے اور اسی طرح چمن سے سامان خرید کر لوگ قندھار لے جایا کرتے تھے تاہم سرحد بند ہونے اور مہاجرین کے انخلا سے کاروبار شدید متاثر ہوا ہے۔

تجزیہ نگاروں کا موقف ہے کہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلوچستان میں یک دم افغان مہاجرین کے انخلا سے کاروباری سرگرمیوں میں خلا پیدا ہوگا لیکن اگر غیرقانونی طور پر آئے مہاجرین اپنے وطن کو لوٹ جاتے ہیں تو ایسے میں مقامی افراد کے لیے روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغان انخلا افغان شہری بلوچستان تجارت کاروبار معیشت

متعلقہ مضامین

  • پانی روکنے کی صورت میں بھارت کو سخت ردعمل کا سامنا ہوگا :دفتر خارجہ
  • پانی کی بندش کا اقدام جنگ کے مترادف ہو گا، پاکستان
  • بھارت نے یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کیا، پانی روکا تو بھرپور جواب دیا جائے گا، پاکستان
  • 25 ہزار ملازمین کے بیروزگار ہونے کا خدشہ
  • بھارت کی آبی دہشت گردی، دریائے چناب اور جہلم کا پانی روک لیا
  • متنازع کینال منصوبے کیخلاف احتجاج، 40 ہزار گاڑیاں پھنس گئیں
  • کلاسیکی تحریک کے اردو اد ب پر اثرات
  • افغان مہاجرین کے انخلا سے بلوچستان میں کاروباری سرگرمیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
  • چین کی مقبوضہ کشمیر میں سیاحوں پر فائرنگ کے واقعے کی مذمت
  • پہلگام حملہ :بھارتی وزیراعظم مودی سعودی عرب کا دورہ مختصر کر کے وطن واپس پہنچ گئے