سجاد لون کا ریزرویشن نظام میں کشمیری بولنے والوں کو بے اختیار بنانے کا الزام
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
پیپلز کانفرنس کے چیئرمین نے کہا کہ ہمیں بالادستی کی ضرورت نہیں ہے، ہم ایک طویل عرصے سے یہاں بھائیوں کیطرح رہے ہیں اور ایسے ہی رہیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے چیئرمین اور کشمیر اسمبلی کے قانون ساز سجاد لون نے یہ کہتے ہوئے کہ جموں اور کشمیر میں کشمیر بولنے والی آبادی کے خلاف ریزرویشن کے نظام میں دھاندلی کی گئی ہے، اس میں سخت "علاقائی تفاوت" کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ جموں میں درج فہرست طبقہ سے لے کر اقتصادی طور پر کمزور طبقے (EWS) تک کے تمام زمروں میں ریزرویشن کا غلبہ ہے جب کہ وادی میں کشمیری بولنے والے باشندوں اور درج فہرست قبائل کے خلاف ریزرویشن کے نظام میں دھاندلی کی جاتی ہے۔ جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی سے اپنے سوالات کا جواب دیتے ہوئے ہندواڑہ کے ایم ایل اے سجاد لون نے کہا کہ وہ "سماجی ترتیب نو" کے ذریعے کشمیریوں پر دوسرے نسلی گروہوں کی سماجی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جموں میں درج فہرست ذات کے لئے پچھلے دو سالوں میں 67,112 ریزرویشن سرٹیفکیٹ جاری کئے گئے لیکن کشمیر میں کوئی نہیں۔ ان کے مطابق جموں میں 27,430 معاشی طور پر کمزور سیکشن سرٹیفکیٹ جاری کئے گئے جب کہ کشمیر میں 2,273 سرٹیفکیٹ جاری کئے گئے۔ اس کا مطلب ہے کہ وادی کشمیر میں محض 8 فیصد سرٹیفکیٹ جاری کئے گئے۔ اسی طرح جموں میں رہنے والے پسماندہ علاقوں کے 1,379 رہائشیوں کو RBA (Residents of Backward Area ) جاری کیا گیا جب کہ کشمیر میں 1,229 سرٹیفکیٹ جاری کئے گئے۔ سجاد لون کے مطابق دو سو اڑسٹھ ایکچوئل لائن آف کنٹرول سرٹیفکیٹ جموں میں جاری کئے گئے جب کہ کشمیر میں 16۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی سرحد کے ساتھ رہنے والے لوگوں کے لئے تمام 551 ریزرویشن سرٹیفکیٹ جموں میں آتے ہیں کیونکہ کشمیر اس زمرے کا حقدار نہیں ہے۔
سجاد لون نے کہا کہ سماجی ترتیب سے کام نہیں چلے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بالادستی کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اسے ہم پسند کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک طویل عرصے سے بھائیوں کی طرح رہے ہیں اور ایسے ہی رہیں گے۔ انہوں نے تحفظات کی وجہ سے کشمیر کو ہونے والے نقصانات کا مطالعہ کرنے کے لئے ایک سیمینار منعقد کرنے کا بھی اعلان کیا۔ سجاد لون نے مزید کہا کہ بہت سے لوگ تعلیم حاصل کرنے کے لئے پاکستان گئے لیکن انہیں پاسپورٹ نہیں دیا گیا۔ تنازعات کے بعد حکومتیں قیام امن کے اقدامات کرتی ہیں لیکن یہاں اس کے برعکس ہے، وہ سازگار ماحول پیدا نہیں کر رہے ہیں، وہ ہمیں ہر جگہ سے لوٹنے کے خواہشمند ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کشمیری بولنے والی آبادی کو بے اختیار کرنا اس سے مستقبل پر منفی اثرات ہو سکتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سرٹیفکیٹ جاری کئے گئے سجاد لون نے نے کہا کہ کہ کشمیر انہوں نے رہے ہیں کے لئے
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر، تشدد کے بعد کشمیری جوان کی لاش دریائے جہلم سے برآمد
ذرائع کے مطابق بانڈی پورہ ضلع میں تین بچوں کے والد فردوس احمد میر کو 11 ستمبر کو گرفتار کیا گیا تھا، جنہیں دوران حراست بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی لاش دریائے جہلم سے برآمد ہوئی۔ اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشتگردی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔مختلف اضلاع میں روزانہ بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن جاری ہیں اور نوجوانوں کو جبری طور پر حراست میں لیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق بانڈی پورہ ضلع میں تین بچوں کے والد فردوس احمد میر کو 11 ستمبر کو گرفتار کیا گیا تھا، جنہیں دوران حراست بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی لاش دریائے جہلم سے برآمد ہوئی۔ فردوس احمد کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف حاجن بانڈی پورہ میں شدید احتجاجی مظاہرے ہوئے، جن میں عوام نے متاثرہ خاندان کو انصاف دینے اور مجرم بھارتی فوجیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ یہ بانڈی پورہ میں دو ہفتوں کے دوران دوسرا واقعہ ہے، اس سے قبل نوجوان زہور احمد صوفی بھی پولیس حراست میں شہید کیا گیا تھا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ نے ان کے گردے پھٹنے اور شدید تشدد کی تصدیق کی تھی۔ رپورٹ کے مطابق ان ہلاکتوں کے بعد علاقے میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے تاکہ عوامی ردعمل کو دبایا جا سکے۔ اس کے علاوہ ڈوڈہ ضلع کے ایم ایل اے معراج ملک کو بھی سیلاب متاثرین کے حق میں آواز بلند کرنے پر کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
کشمیری رکن پارلیمنٹ آغا روح اللہ نے کہا ہے کہ بھارتی حکومت کشمیریوں کی شناخت، زبان اور دین کو ختم کرنے کی سازش کر رہی ہے، مگر عوام اپنی عزت اور انصاف کے لیے لڑتے رہیں گے۔ ذرائع کے مطابق قابض فوج نے صرف پہلگام واقعے کی آڑ میں 3190 کشمیریوں کو گرفتار کیا، 81 گھروں کو مسمار کیا اور 44 نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کیا۔ مقبوضہ وادی میں روزانہ احتجاج، ہڑتالیں اور مظاہرے اس بات کا ثبوت ہیں کہ بھارت دس لاکھ فوج کے باوجود کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو ختم کرنے میں ناکام ہے۔