WE News:
2025-07-04@18:31:53 GMT

شہر قائد کا آسمان شہاب ثاقب کی وجہ سے جگمگا اٹھا

اشاعت کی تاریخ: 17th, March 2025 GMT

شہر قائد کا آسمان شہاب ثاقب کی وجہ سے جگمگا اٹھا

کراچی کے مختلف علاقوں میں شہاب ثاقب دیکھا گیا جس کی تیز روشنی سے آسمان جگمگا اٹھا۔

فضا میں شہاب ثاقب کے گزرنے کی ویڈیو شہریوں نے موبائل فون کے کیمرے سے محفوظ کرلی جو اب سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔

خلا سے آئے اس مہمان کو ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، اورنگی ٹاون اور اطراف کے علاقوں میں رات ڈھائی بجے کے قریب گزرتے دیکھا گیا۔

یہ بھی پڑھیے: خلا میں 9 ماہ تک پھنسے رہنے والے خلابازوں کو کتنا معاوضہ ملے گا؟

ماہرین کے مطابق شہاب ثاقب خلائی چٹان ہوتے ہیں جو کبھی کبھار زمین کے مدار میں بھی داخل ہوتا ہے۔ تاہم اکثر شہاب ثاقب زمین کی فضا میں موجود مختلف گیسوں سے رگڑ کھانے کے بعد تیز روشنی پیدا کرکے ختم ہوتے ہیں اور کم ہی ایسے پتھر زمین پر گرتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

خلا سائنس شہاب ثاقب کراچی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: خلا شہاب ثاقب کراچی شہاب ثاقب

پڑھیں:

 انوکھا ریسکیو آپریشن، خواتین نے کندھوں پر اٹھا کر زخمیوں کی جان بچائی

آزاد کشمیر کے ضلع حویلی فارورڈ کہوٹہ کی خاموش وادیوں میں گذشتہ اتوار کی سہ پہر ایک گاڑی کو حادثہ پیش آیا۔
یہ دُور افتادہ علاقہ نیلفری چراگاہ کہلاتا ہے جہاں محکمہ جنگلات کی ایک گاڑی اچانک بے قابو ہو کر کھائی میں جا گری۔ گاڑی میں سوار دو افراد، فاریسٹ آفیسر اور ڈرائیور طاہر راٹھور شدید زخمی ہوگئے۔
وہاں اِردگرد 9 خواتین اور ایک کم سن بچی کے علاوہ کوئی موجود نہ تھا۔ اس وقت ان خواتین نے زخمیوں کو کندھوں پر لاد کر چار کلومیٹر پیدل سفر کر کے ریسکیو کیا۔
پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر میں نیلفری چراگاہ جیسے کئی علاقے ہیں جہاں مقامی افراد اپنے مال مویشی لے کر جاتے ہیں۔ اس روز وہاں صرف خواتین اور کم سن بچے موجود تھے۔
ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر (ڈی ایف او) حویلی اعجاز قمر میر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ گاڑی محکمہ جنگلات کی تھی اور سرکاری رقبے کے معائنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔‘
’گاڑی میں ڈرائیور طاہر راٹھور اور فاریسٹ آفیسر کے علاوہ دیگر پانچ اہلکار بھی سوار تھے جو بعد میں گاڑی سے اُتر کر پیدل دوسری سائٹ کا معائنہ کرنے چلے گئے تھے۔‘
ان کے مطابق ’اس وزٹ کے لیے مظفرآباد ہیڈ آفس سے باقاعدہ منظوری لی گئی تھی اور محکمے نے معائنے کے لیے فور بائی فور گاڑی فراہم کی تھی۔‘
’یہ تمام اہلکار ایک سائٹ کا وزٹ کر کے واپس آرہے تھے۔ ڈرائیور اور ایک فارسٹ آفیسر کو دیگر اہلکاروں نے گاڑی میں واپس بھیج دیا اور خود دوسری سائٹ پر روانہ ہوگئے کیونکہ انہوں نے وہاں رات قیام بھی کرنا تھا۔‘
بقول اعجاز قمر میر کا کہنا ہے کہ ’ان علاقوں میں سڑکیں خستہ حال ہیں اور زیادہ تر لوگ پیدل سفر کو ترجییح دیتے ہیں یا پھر فور بائی فور گاڑی کا استعمال کرتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’واپس آتے ہوئے اُترائی میں گاڑی کی بریک فیل ہوگئی جس کے باعث وہ تیزی سے نیچے آتی گئی اور ایک مقام پر ٹکرانے کے بعد کھائی میں جا گری۔‘
جب گاڑی کو حادثہ پیش آیا تو وہاں کچھ فاصلے پر چند بچے کھیل رہے تھے جبکہ خواتین اپنے مویشیوں کو چارہ ڈال رہی تھیں۔
چوہدری محمد طارق کی خالہ بھی وہاں موجود تھیں۔ حادثے کے وقت وہاں سرور جان، نذیرہ بیگم، نسیم، شازیہ بانو، سبرینہ بانو، نسرین رحمت بیگم، فرزانہ بیگم اور نسیم اختر موجود تھیں جبکہ ایک کم سن بچی اُن کے پاس وہاں بیٹھی تھی۔
چوہدری محمد طارق بتاتے ہیں کہ ’وہاں پر کھیلتے ہوئے بچوں نے دیکھا کہ گاڑی بے قابو ہو کر تیزی سے نیچے کی طرف آکر گری ہے۔ ڈرائیور طاہر راٹھور مسلسل ہارن بجا رہے تھے تاکہ نیچے لوگوں کو معلوم ہو کہ گاڑی کی بریکس فیل ہو چکی ہیں۔‘
ان کے مطابق ’اسی دوران گاڑی کھائی میں جا گری اور حادثے کی آواز سنتے ہی خواتین جائے حادثہ پر پہنچ گئیں۔ میری خالہ نے گھر سے چارپائی اٹھائی، اس پر بستر اور تکیہ رکھا اور پتے ڈال کر زخمیوں کے لیے ایک عارضی سٹریچر تیار کیا۔‘
’نو خواتین اور ایک کم سن بچی نے مل کر اِس ناممکن نظر آنے والے مشن کو بالآخر ممکن بنانے کا سوچا۔ جائے حادثہ پر انہوں نے دیکھا کہ گاڑی کھائی میں گرنے کے بعد 20 فٹ آگے جا چکی تھی جبکہ زخمی ڈرائیور طاہر راٹھور اور فاریسٹ آفیسر زمین پر پڑے تھے۔‘
چوہدری طارق کہتے ہیں کہ ’خواتین نے زخمیوں کو پانی پلایا اور کم سن بچی دوڑ کر مزید پانی لے آئی۔ خواتین نے طاہر کا موبائل فون نکال کر اُن کے اہلِ خانہ کو اطلاع دی اور زخمیوں کو چارپائیوں پر منتقل کیا اور اپنے کندھوں پر اٹھا کر چار کلومیٹر تک پیدل چلتی رہیں۔‘
ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر اعجاز قمر میر کے مطابق ’جائے حادثہ سے قریبی شہر یا ہسپتال تک پہنچنے میں کم سے کم چار گھنٹے لگتے ہیں۔ ان خواتین نے اُنہیں قریبی علاقے تک پہنچایا جہاں مزید شہری اور اُن کے ورثا پہنچ گئے تھے۔‘
’زخمی ڈرائیور تین گھنٹے تک بات کر رہے تھے تاہم ہسپتال پہنچنے سے ایک گھنٹہ قبل چل بسے، جبکہ فارسٹ آفیسر کو بروقت ہسپتال پہنچا دیا گیا جہاں ان کا ابتدائی طبی معائنہ کیا گیا اور اب وہ روبہ صحت ہیں۔‘
ڈی ایف او اعجاز قمر اسے ’دنیا کا سب سے انوکھا ریسکیو آپریشن‘ قرار دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’یہ خواتین زندہ دِل اور بہادر ہیں۔ ہم انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔‘
’میرا خیال ہے کہ یہ دنیا کا انوکھا ریسکیو آپریشن ہے جس میں خواتین نے زخمیوں کو اپنی مدد آپ کے تحت شہر تک پہنچایا۔ یہ ایسی خواتین ہیں جو گھریلو کام کاج تو کرتی ہیں لیکن ایسے کاموں کے لیے اُن کا جذبہ کام آتا ہے۔‘

Post Views: 13

متعلقہ مضامین

  • کراچی،5 منزلہ عمارت زمین بوس،7 افراد جاں بحق12زخمیوں کو ملبے سے نکال لیا گیا
  • کراچی میں آئندہ 2 دنوں کے دوران موسم کیسا ہوگا؟
  • کراچی: لیاری کے بغدادی میں 5 منزلہ عمارت زمین بوس، ریسکیو آپریشن جاری
  • آج کا عظیم قائد
  • لانڈھی، ملیر اور کورنگی میں تواتر سے آنے والے زلزلوں کی وجہ کیا ہے؟ ماہرین کی رائے جانیے
  •  انوکھا ریسکیو آپریشن، خواتین نے کندھوں پر اٹھا کر زخمیوں کی جان بچائی
  • ایس آئی ایف سی نے معدنی وسائل، پالیسی اصلاحات اور خودکفالت کی جانب اہم قدم اٹھا لیا
  • ماحولیاتی آلودگی کا ڈیٹاجمع کرنے والے سیٹلائٹ کا رابطہ منقطع
  • جسٹس منصور علی شاہ نے ججز سینیارٹی بغیر مشاورت طے کرنے پر سوالات اٹھا دیے
  • فلیٹس میں رہنے والے لوگ کیسے اور کتنے میں سولر سسٹم لگوا سکتے ہیں؟