اندھیرے اور روشنی کی مقدار
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
اڑھائی گھنٹے تک سینما ہال میں بھلا کون نیند پوری کرنے جاتا ہے، اوپر سے رمضان کریم کی رحمتوں والا مہینہ ہو۔ اس کے باوجود ایک دوست کے اصرار پر فلم دیکھنے جانا پڑا۔ یہ انڈین فلم تھی جس کا ’’پنٹو پانڈو‘‘ یا شائد اس سے ملتا جلتا کوئی نام تھا اور پورے ہال میں ہم گنتی کے چار ٹوٹرو تھے۔ جو بھلے مانس مجھےسینما ہال لے کر آیا تھا، فلم کی گھن گرج کے باوجود وہ جاتے ہی خراٹے لینے لگا اور میں پوری ایمانداری کے ساتھ اپنے سیل فون پر مطالعہ کرنے میں مصروف ہو گیا۔
فلم کا وقفہ ہوا تو میں نے دیکھا کہ دوسرے دونوں(بندہ اور بندی) فلم کے وقفے کے بعد واپس نہیں مڑے۔ ابھی فلم کو دوبارہ شروع ہوئے پندرہ بیس منٹ ہی گزرے تھے جب حسین مدثر کی آنکھ کھلی تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا، ’’چلیں‘‘ میں تذبذب میں پڑ گیا۔ میں فلم ختم ہونے تک بیٹھا چاہتا تھا مگر پوری توجہ سے فلم کو میں بھی نہیں دیکھ رہا تھا۔ میرے مطالعہ اور فلم بینی میں آنکھ مچولی چلتی رہی تھی۔ خیر میں نے دوسری سیٹ پر پڑے اپنے دونوں موبائل فون جیب میں ٹھونسے اور ہم دونوں باہر آگئے۔
اس سینما ہال کے بڑے دروازے سے باہر آنے سے پہلے میں نے واپس مڑ کر دیکھا تو فلم چل رہی تھی اور اس کی آواز ہال سے باہر بھی آ رہی تھی مگر فلم کو دیکھنے والا کوئی فلم بین سینما ہال میں موجود نہیں تھا۔ اسی سینما میں پانچ سال پہلے بھی ہم یہ تین بجے دن والا شو دیکھنے چلے گئے تھے اور پورے ہال میں وہ فلم دیکھنے والے صرف ہم تین دوست تھے۔ اس وقت رمضان شریف کا مہینہ نہیں تھا۔ ہم فلم کی بوریت سے بچنے کے لئے پاپ کارن اور ریڈ بل پیتے رہے تھے۔ اس دفعہ اضافی تجربہ یہ ہوا کہ جب ہم دونوں سینما ہال میں داخل ہونے لگے تو ہال کے اندر گھپ اندھیرا تھا۔ اتفاق سے چھت کی دیواروں کی ہلکی ایل ای ڈی لائٹس بھی بند تھیں۔ ہم نے ہال کے مین دروازے کو جونہی کھول کر اندر داخل ہونے کی کوشش تو اندھیرا اس قدر گہرا تھا کہ ہم دونوں نے ایک انجانی سی تنہائی محسوس کی اور ڈر گئے۔ جب میں نے آگے قدم رکھنے کی کوشش تو مجھے محسوس ہوا کہ میں نے اگر دوسرا قدم بھی آگے بڑھایا تو شائد میں کسی گہرے کنویں میں گر جائوں گا۔ موبائل فونز کی لائٹیں جلا کر آگے بڑھے، ہانپتے کانپتے اپنی سیٹوں پر تو پہنچ گئے۔ لیکن شدت کا اندھیرا ابھی بھی مجھے خوفزدہ کر رہا تھا۔فطرت نے کائنات میں اندھیرے اور اجالے کی برابر مقدار پیدا کی ہے۔ اگر ہم پوری کائنات کو بھی مصنوعی روشنیوں سے بھر دیں تو تب بھی دنیا میں اندھیرے کے مقابلے میں روشنی کی مقدار بڑھ نہیں سکتی ہے۔ سائنس کے مطابق کائنات کے کچھ مقامات پر اتنا زیادہ اور گہرا اندھیرا ہے کہ وہاں ہم اس سادہ جسم اور دل کے ساتھ داخل ہوں تو ہمارے دل اندھیرے کے دبائو اور خوف کی وجہ سے پھٹ جائیں گے، لیکن اس کے برعکس اگر ہم وہاں خود کو کسی طرح زندہ رکھ سکیں تو ہم اندھیرے میں رہ کر انتہائی حد تک گہری سوچ میں غوطہ زن ہو سکتے ہیں۔اس بار فلم دیکھنے اور اس سے کچھ سیکھنے سے زیادہ اندھیرے کے بارے سوچنے میں زیادہ دلچسپی محسوس ہوئی۔ آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ ہم اکثر روشنی بجھا کر سوتے ہیں تو سونے سے پہلے اندھیرے کے دوران اتنے ہی گہرے اور تخلیقی خیالات دماغ میں آتے جتنا گہرا اندھیرا ہوتا ہے، اور اندھیرے ہی میں ہم زیادہ گہری نیند سوتے ہیں اور خواب بھی گہری نیند میں آتے ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ ہمارے سوچنے کا اندھیرے سے کیا تعلق ہے اور اندھیرے میں ہمارے محسوس کرنے کی طاقت کیوں اور کیسے بڑھ جاتی ہے؟ شائد اندھیرے میں خطرہ محسوس کر کے ہمارے دماغ کے کچھ سیلز بیدار ہو جاتے ہیں۔ مقولہ مشہور ہے کہ، ’’اتنا اندھیرا تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔‘‘ بعض دفعہ اندھیرا اتنا گہرا ہوتا ہے کہ ہم خود کو بھی دیکھ نہیں سکتے ہیں مگر صرف محسوس کر سکتے ہیں۔ جب اندھیرے میں ہمارا تخیل تیز تر ہو جاتا ہے تو ہمارے محسوس کرنے کی حس بھی بڑھ جاتی ہے۔ اڑھائی گھنٹے کی پوری فلم دیکھنے سے کچھ سیکھنے سے زیادہ اندھیرے میں دماغ میں ابھرنے والے یہ خیالات کئی گنا زیادہ اہم نکلے۔ہمارے معاشرے کے بہت سے لوگوں کی زندگیوں میں اندھیرا بھرا ہوا ہوتا ہے۔ وہ زندگی میں کوئی کام سوچ سمجھ کرتے ہیں اور نہ اپنے اندر پائے جانے والے اس اندھیرے سے کوئی فائدہ اٹھا کر دماغی طور پر بیدار ہوتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ روشنی سے ڈرتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ اندھیرے سے بھی ڈرتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں فائدہ مند وہی لوگ ہیں جو اندھیرے سے ڈرتے ہوں۔ روشنی کی طرف سفر کرنے کے لئے اندھیرے سے ڈرنا چایئے۔ یاد رکھیں روشنی انہی لوگوں کی زندگیوں میں آتی ہے جو روشنی اور اندھیرے کے اس فرق کو سمجھ جاتے ہیں، کیونکہ اندھیرے میں رہنے اور اندھیرے سے ڈرنے میں کوسوں کا فرق ہے۔ ہماری زندگی کی فلم ایک اندھیری رات کی کہانی ہے۔ جو لوگ اپنی زندگیوں میں روشنی بھرنا چاہتے ہیں وہ اندھیرے کے محسوسات کو سمجھیں۔ زندگی میں روشنی وہی پاتے ہیں جو دوسروں کی زندگیوں سے اندھیرے ختم کرتے ہیں۔ اندھیرا اور اجالا غم اور خوشی کا دوسرا نام ہیں۔ شمع خود کو اندھیرے میں جلاتی ہے تو روشنی کرتی ہے۔ دنیا سے اندھیرے ختم کرنے اور انہیں کائنات کے کسی دوسرے مقامات تک دھکیلنے کے لئے قربانی دینا اور جلنا سیکھیں۔ دنیا میں روشنی اور اندھیرے کی مقدار برابر ہے۔ آپ جتنے پسماندہ ہیں اور جتنا اندھیرے میں ہیں لگن اور محنت سے کام لیں گے تو اسی مقدار کے برابر ہے آپ کی زندگی روشنی سے جگمگانے لگے گی۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اندھیرے میں اور اندھیرے اندھیرے کے اندھیرے سے فلم دیکھنے سینما ہال کی زندگی ہال میں
پڑھیں:
اسلامی اقدار کی روشنی میں توہین اور دھمکی کا دندان شکن جواب دینا ضروری ہے، علامہ امین شہیدی
ایک بیان میں سربراہ امتِ واحدہ پاکستان نے کہا کہ امریکی و اسرائیلی سربراہان کے غیر ذمہ دارانہ بیانات پورے خطہ کو جنگ میں دھکیلنے کے مترادف ہیں، اگرچہ دینِ اسلام ہمیں تحمل اور بردباری کا سبق دیتا ہے لیکن اسلامی اقدار و قوانین کی روشنی میں توہین اور دھمکیوں کا بھرپور اور دندان شکن جواب دینا بھی لازمی امر ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ امین شہیدی نے اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے ایران پر مسلط کردہ جنگ کے تناظر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے ہاتھوں اسرائیل، امریکہ اور یورپ کی ذلت آمیز شکست کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی دنیائے اسلام کے عظیم رہنما آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کو جان سے مار دینے کی دھمکی کروڑوں انسانوں کی دل آزاری کا باعث ہے، شیشے کے گھر کے مکین شاید ویتنام اور لبنان کو فراموش کر چکے ہیں اور اُنہیں معلوم نہیں ہے کہ امتِ اسلامیہ کی لیڈرشپ کو دھمکانے کا نتیجہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، امریکی و اسرائیلی سربراہان کے غیر ذمہ دارانہ بیانات پورے خطہ کو جنگ میں دھکیلنے کے مترادف ہیں، اگرچہ دینِ اسلام ہمیں تحمل اور بردباری کا سبق دیتا ہے لیکن اسلامی اقدار و قوانین کی روشنی میں توہین اور دھمکیوں کا بھرپور اور دندان شکن جواب دینا بھی لازمی امر ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کو چاہیئے کہ وہ ماضی سے سبق سیکھے اور خود کو مزید مشکل میں ڈالنے سے گریز کرے، آئندہ ایسے کسی بھی جارحانہ اقدام پر مسلم امہ خاموش نہیں رہے گی، ایشیا سے افریقہ تک امریکی اور مغربی مفادات کا محفوظ رہنا ناممکن ہوگا اور مزاحمتی فورسز کو عملی اقدامات سے کوئی بھی نہیں روک پائے گا، اس کے نتیجہ میں دنیا ایک نئی جنگ میں داخل ہو جائے گی، لہذا امریکی فیصلہ ساز و ذمہ داران کو ایسے نالائق حکمران کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ اس طرح کی غیر دانشمندانہ گفتگو سے پرہیز کرے، ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر منطقی اقدام خود امریکہ اور امریکہ دوست اقوام کے لئے قابلِ تحمل نہیں ہیں، مغربی ممالک اسلامی و قرآنی تعلیمات کی روح سے ناآشنا ہیں جس کے مطابق راہِ حق میں اپنی جان دینا اور دشمن کی جان لینا دونوں کو اعلی و مقدس ترین عمل قرار دیا گیا ہے، واقعہ کربلا اس کی تاریخی اور زندہ مثال ہے جو 1400 برس گزر جانے کے بعد بھی ہر مسلمان کے دل کو گرما رہی ہے۔