دکی، کوئلہ کانوں کی بندش، مقامی مزدوروں کی زندگیاں متاثر
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
لاہور:
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ بلوچستان کے علاقے دکی میں کوئلہ کانوں کی بندش نے مقامی مزدوروں کی زندگیوں کو شدید متاثر کیا۔
سیکیورٹی خطرات، غیر محفوظ کام کے حالات اور ہنگامی امداد کی عدم دستیابی کے باعث مزدور نہ صرف خوفزدہ ہیں بلکہ روزگار کے محدود مواقع کے سبب شدید مالی مشکلات کا شکار بھی ہو رہے ہیں، اکتوبر 2024 میں دکی کی کوئلہ کانوں پر ایک دہشت گرد حملے میں کم از کم 21 مزدور جاں بحق ہوگئے تھے جس کے بعد کان کنوں نے ہڑتال کر دی اس کے نتیجے میں کئی کانیں بند ہوگئیں اور کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد نصف سے بھی کم رہ گئی۔
مزید پڑھیں: کوئٹہ، کوئلے کی کان کے حادثے میں 12 مزدور جاں بحق، 11 لاشیں نکال لی گئیں
رپورٹ کے مطابق سکیورٹی خدشات کے باعث مزدوروں کے لئے کانوں کے قریب رہنا مشکل ہوگیا جس کی وجہ سے وہ روزانہ طویل سفر کرکے کام پر پہنچنے پر مجبور ہیں۔
تحقیقاتی ٹیم کے مشاہدے کے مطابق نہ صرف سکیورٹی ناکافی ہے بلکہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں مزدوروں کو فوری مدد بھی دستیاب نہیں ہوتی، اس تشویشناک صورتحال میں بھی کئی مزدور مالی مجبوریوں کے باعث ان خطرناک کانوں میں کام جاری رکھنے پر مجبور ہیں ، جہاں انہیں نہ صرف کام کے دوران حادثات کا خطرہ لاحق رہتا ہے بلکہ دہشت گرد حملوں کا خدشہ بھی مستقل موجود ہے۔
ایچ آر سی پی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ڈوکی میں کوئلہ کانوں کی سیکیورٹی کو یقینی بنائے کا مطالبہ کیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کوئلہ کانوں
پڑھیں:
تخیل سے حقیقت تک،پاکستان کا خاموش سفر
(گزشتہ سے پیوستہ)
خاموش قاتل،ففتھ جنریشن سٹیلتھ طیاروں کی حقیقت آخرہے کیاکہ پاک وہندہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اس طیاروں میں دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ دراصل یہ طیارے’’خاموش قاتل‘‘کہلاتے ہیں،نہ دکھائی دیتے ہیں،نہ آسانی سے روکے جاسکتے ہیں،اورنہ ہی ان کی نقل و حرکت کوآسانی سے سمجھا جا سکتاہے۔جدیدترین خوبیوں نے اس طیارے کو پانچویں نسل کی فضائی بالادستی کا نشان بنادیاہے۔یادرہے کہ ففتھ جنریشن اورسٹیلتھ طیارہ اس وقت’’ففتھ جنریشن‘‘کہلاتاہے جب وہ سٹیلتھ ہو، سپرکروز کرے،نیٹ ورکڈ ہو،ملٹی رول ہو اورایویانکس میں ہم آہنگی ہواورسب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ سٹیلتھ اس وقت معتبرہے جب دشمن کوطیارہ دیکھنے سے پہلے مارکھا جائے۔
اس کی پہلی خوبی اس کی سٹیلتھ صلاحیت ہے جواسے ریڈارسے اوجھل اوردشمن کے ہرقسم کے نظاموں سے چھپادیتی ہے۔دوسری اہم خوبی یہ ہے کہ اس کی سپرکروزپروازہے یعنی آوازکی رفتارسے بھی کہیں زیادہ تیز،کم ایندھن کے ساتھ طویل فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت موجودہے۔تیسری خوبی ایویانکس اور سینسر فیوژن کی ہے،تمام سسٹمزکاہم آہنگ ہونا یعنی جیسے انسان کی پانچوں حواس ایک مرکب شعورمیں ڈھل جائیں،ویسے ہی یہ طیارے اپنے تمام نظاموں کوہم آہنگ کرکے دشمن پرکاری ضرب لگاتے ہیں۔چوتھی خوبی اس کی سپر کروزیعنی بغیرایندھن کے ضیاع کے تیزرفتاری سے ہدف کوتباہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اورپانچویں خوبی نیٹ ورکڈوارفیئرکی ہے تمام فضائی وزمینی نظام سے ربط باقی رہتا ہے جیسے ہرمشین، ہرڈرون، ہرریڈارکے ساتھ جڑے،گویافضامیں ایک جال بچھا دیا ہو ۔
فضائی توازن کی نئی بساط میں اس وقت دنیامیں محض پانچ اقوام کے پاس ایسے طیارے موجود ہیں۔امریکاکے ایف22ریپٹراورایف 35،روس کا ایس یو57،اورچین کے جے 20 اورجے35 ہیں۔ ان کے بعدکی قطارمیں برطانیہ،اٹلی، جاپان، ترکی، فرانس،جرمنی اوراسپین کے تیارکردہ طیارے ہیں جوابھی تیاری کے مراحل میں ہیںجیسے ’’ٹیمپسٹ‘‘ ،’’ایف سی اے ایس‘‘اور’’کے اے اے این‘‘لیکن پاک چین کے اشتراک سے بنے طیاروں نے حالیہ پاک وہندکی جنگ میں جونمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں،اس کے بعد پاکستان کی فضائی کارکردگی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تکنیکی مہارت نے بھی اپنالوہامنوالیاہے۔
عالمی میڈیاکے مطابق پاکستان نے جہاں میدان جنگ میں فتوحات حاصل کی ہیں وہاں کامیاب سفارتی کوششوں سے میدان مارلیاہے جس کی واضح مثال جے35،ایچ کیو19، کے جے 500کے حصول اورقرضوں میں نرمی کی شرائط سے ملتی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف کی زیر قیادت چین سے مؤخرادائیگی جیسے معاملات فقط فوری عسکری فائدے نہیں بلکہ ایک طویل المیعادحکمت عملی کی علامت ہیں۔یہ وہ مقام ہے جہاں عسکری فیصلے، اقتصادی وسعت اور سفارتی بصیرت ایک مثلثی توازن میں داخل ہوچکے ہیں۔یہ کامیابیاں اس امر کی بھی غمازہیں کہ پاکستان اب سفارت کاری کوفقط بیانات تک محدودنہیں بلکہ 3.7ارب ڈالرقرض کی موخر ادائیگی بھی پاک چین دوستی تعاون کی ایک علامت ہے،یہ وہ کامیابیاں ہیں جوصرف مذاکراتی میزپرممکن ہوئیں،میدان جنگ میں نہیں۔ موجودہ حکومت کے یہ سفارتی اقدام اسے معاہدات، نظام اوراس سے کہیں بڑھ کردفاعی بندوبست تک لے گیا ہے۔ پاکستان نے اب یہ فیصلہ کرلیاہے کہ وقتی ضرورت کواہمیت دیتے ہوئے دیرپاپالیسیوں پر عملدرآمد ضروری ہے اوریہ نئی پالیسی کی پہلی قسط ہے جس میں تلوارکی دھاراورقلم کی نوک،دونوں شریک ہیں۔
جب پاکستان نے چینی دفاعی سامان خریدنے کاعندیہ دیا،توپاکستان کی چینی اسلحہ میں گہری دلچسپی نے چینی معیشت میں زبردست قسم کی جنبش پیداکردی بلکہ بیجنگ کی دفاعی صنعت ’’ایوک‘‘میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ یہ اقتصادی جھٹکادراصل ایک سیاسی ارتعاش تھا۔ گویاپاکستان کی عسکری پسندیدگی نے چین کی اسٹاک مارکیٹ کے بازارِحصص کو جھنجھوڑڈالابلکہ جھومنے پر مجبور کردیااور حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعداقوام عالم کے کئی ممالک نے مغربی اسلحہ سے مشرق کے اسلحہ کوخریدنے کے لئے انتہائی سنجیدگی سے دلچسپی لیناشروع کردی ہے۔ جب ایوک شینیینگ ایئرکرافٹ کمپنی کی قیمتوں میں9.3اضافہ ہوا،تواس کے پیچھے فقط ایک معاشی حقیقت نہیں،بلکہ ایک عالمی اعتمادکی جھلک تھی،یہ سرمایہ دارانہ دنیاکاوہ لمحہ تھا جب جنگی تیاری نے معیشت کونئی روح بخشی اورچینی اسلحہ اورجہازوں کی سٹاک ویلیومیں اضافہ دیکھنے کوملا۔چینی اسلحہ سازکمپنی ایوک کے حصص میں اضافہ اس بات کی دلیل ہے کہ دفاع صرف میدان جنگ کامعاملہ نہیں،بلکہ بازارِمعیشت کی دھڑکن بھی ہے۔
اگرچہ چہ مگوئیاں برسوں سے جاری تھیں،مگر پاکستان کی باضابطہ لب کشائی،جوایک نئے دورکے آغازکاپتہ دیتی ہے،پاکستانی حکومت کی پہلی باضابطہ تصدیق نے ان افواہوں کو ایک رسمی شکل دیتے ہوئے اپنے قومی عزم کااعلان کرتے ہوئے فیصلہ سنادیاکہ ہم نے خاموشی کوترک کرکے اپنی ملکی دفاعی تیاری کوترجیح دی ہے اورہم وطنِ عزیزکے لئے ہرقسم کی جدید تیاری کو اولیت اور فوقیت دیتے ہوئے سٹیلتھ ٹیکنالوجی کے حصول کواپنی منزل قراردے دیاہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آخرسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے مزین ان طیاروں میں خاص کیابات ہے؟سٹیلتھ ٹیکنالوجی کیوں ضروری ہے؟دنیاکی جنگیں اب میدانِ کارزارمیں نہیں بلکہ اسکرینوں اورسینسرزپرلڑی جارہی ہیں۔سٹیلتھ ٹیکنالوجی دشمن کی آنکھ میں دھول جھونکنے کا فن ہے۔جس کے پاس یہ صلاحیت نہیں،وہ گویارات کے اندھیرے میں چراغ جلائے جنگ لڑنے نکلے،بے وقت،بے فائدہ،اورخطرناک۔یہ سوال فقط تکنیکی تجسس نہیں،بلکہ اس عہدکااستفسارہے جس میں جنگ زمینی نہیں رہی۔یہ طیارے دشمن کی آنکھ سے اوجھل، اس کے ریڈارسے پوشیدہ،اوراس کے دماغ سے پہلے حملہ آور ہوتے ہیںگویاہواسے باتیں کرتے ہیں،لیکن دشمن کوسننے بھی نہیں دیتے۔ جدیدجنگ میں کامیابی کا راز چھپنے اور دیکھنے کی طاقت میں ہے۔جودکھائی دے،وہ ماراجائے۔سٹیلتھ اسی فلسفے کاعملی اظہارہے۔
دنیامیں صرف تین ممالک امریکا، روس اور چین ایسے ہیں جنہوں نے اس نایاب ٹیکنالوجی کوعملی جامہ پہنایا۔یہ وہ اقوام ہیں جونہ صرف عسکری برتری رکھتی ہیں،بلکہ عالمی سیاست میں بھی اونچابولتی ہیں۔ مستقبل میں سٹیلتھ ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے کے لئے برطانیہ،یورپ،اورترکی کی کاوشیں بھی منظرعام پرآرہی ہیں۔اس کے علاوہ برطانیہ، جاپان، اٹلی مستقبل کے طیارے’’ٹیمپسٹ‘‘کی تیاری پرکام کررہے ہیں اورفرانس،جرمنی،اسپین مستقبل کے ایف سی اے ایس طیاروں کی تیاری کے لئے بڑی سرگرمی سے کام کر رہے ہیں اور مسلمان ملک ترکی بھی ’’کان‘‘ نامی طیارے کی تیاری میں آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔یادرہے کہ ترکی واحدمسلمان ملک ہے جس کے تیارکردہ ڈرونزکی بڑی تعدادکے خریدار روس اورچین ہیں۔گویااس طرح مستقبل کی جنگوں کی تیاری میں آنے والی صدی کی فضائی شہنشاہی کی بنیادیں ڈالنے کاعمل جاری ہے۔
آنے والے وقتوں میں جنگ کامطلب ہوگا فضا کی وہ خاموش آندھی جوکسی کی آنکھ کونظرنہ آئے مگربستی اجاڑجائے۔پاکستان جیسے ملک کے لئے ایسی ٹیکنالوجی کاحصول محض عسکری نہیں،بلکہ قومی سلامتی، تہذیبی وقار،اورخودانحصاری کی علامت ہے۔جب مکار دپڑوسی ہرقسم کی جارحیت کے لئے متکبرانہ اندازمیں دہمکیاں دیکرمرعوب کرنے کی احمقانہ کوششوں میں مبتلاہوتوان حالات میں ضروری ہوگیاہے کہ پاکستان بھی موجودہ ففتھ جنریشن طیاروں کے نہ صرف حصول بلکہ چین کے اشتراک سے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کارخ کرے۔اس وقت امریکاکے ایف35لائٹننگ، ریپٹر اورایف22،روس کاایس یو57ففتھ جنریشن طیاروں کی تمام خوبیوں کا دعویٰ کررہے ہیں لیکن چین کا جے 35 اورجے20طیارے جونسبتاً نئے ہیں، مگرانتہائی خطرناک اورقیمت میں معتدل،یعنی موزوں ہیں اورپاکستاان جے35میں اپنی دلچسپی لے رہاہے تاکہ مستقبل میں چین کے اشتراک سے جے ایف17 تھنڈر کی طرح اسے بھی خودتیارکرکے خودکفالت کی طرف قدم بڑھا سکے۔
ففتھ جنریشن اسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے مزین طیارے یہ فقط دفاع نہیں،بلکہ نکتہ آغازہے جوپیشگی حملہ کی صلاحیت رکھتے ہوئے دشمن کے جہازوں کواڑان بھرتے ہی دبوچ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔یہ کم خرچ کے ساتھ زیادہ نفسیاتی دباؤکی تکنیک سے دشمن کی مکمل بصارت پرپردہ ڈال کران کوتباہ کرنے پرقدرت رکھتاہے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں پاکستانی شاہینوں کی یہی پالیسی نے اس کے رافیل اورروسی طیاروں کواپنے ملکی حدودسے ہی بھارتی سرزمین پرتباہ کرکے دنیاکودنگ کردیاتھا۔اب سٹیلتھ کی ضرورت اس لئے ضروری ہوگئی ہے کہ جدید جنگ میں جودکھائی دیا،وہ ماراگیا۔ جو چھپارہا،وہ جیتا۔سٹیلتھ ٹیکنالوجی،گویا غارِحراکی خلوت کی مانند،خامشی سے اپنی تاثیردکھاتی ہے۔
مستقبل کی فضائی جنگ گویاایک ایسی ہولناک جنگ ہوگی جہاں پائلٹ ہویانہ ہو،مگرطیارہ خوداپنے ہدف کونہ صرف تلاش کرکے مار گرانے کی صلاحیت رکھتاہوگابلکہ دشمن کے راڈار کوبھی چکمہ دیکرآنکھوں سے اوجھل ہوکراپنے ٹارگٹ کوتباہ کرکے واپس اپنی منزلِ مقصودپرلوٹ آئے گا۔فضامیں خاموشی ہوگی،مگرزمین پرشوربرپاہوگا۔دشمن کوپتہ بھی نہ چلے گا، اوراس کادفاعی نظام ناکارہ ہو چکاہوگا۔مستقبل کی جنگ کی جھلک کااس بات سے اندازہ لگالیں کہ مصنوعی ذہانت،بغیرپائلٹ کے جہاز،اورنیٹ ورک پرمبنی لڑائی ہوگی گویامستقبل کی جنگ میں فضاخاموش ہوگی،مگرموت کی آہٹ تیز تر ہوجائے گی اورپتہ بھی نہ چل سکے گاکہ ساراعلاقہ پلک جھپکتے ہی راکھ کامنظرپیش کررہاہوگا۔
پاکستان کایہ فیصلہ کہ وہ جے35جیسے جدید طیارے حاصل کرے،ایک نئی دفاعی حکمت عملی کی بنیادہے،یہ فقط عسکری طاقت نہیں،بلکہ سفارتی حکمت، اقتصادی فائدے اورعالمی سیاسی نقشے پرمقام حاصل کرنے کی کاوش ہے۔آنے والاوقت بتائے گاکہ پاکستان اس فضائی دوڑمیں محض تماشائی رہے گایامعرکہ آرائی کاعلمبردار۔
یادرکھیں جب قوموں کی فکری سطح بلند ہو جائے توان کی توپیں بھی تدبرسے گولہ داغتی ہیں۔ پس،وقت آگیاہے کہ ہم فضاؤں کی جنگ کومحض جنگ نہ سمجھیں، بلکہ تہذیبوں کے مکالمے کاایک باب جانیں۔