امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان سمیت متعدد ممالک سے امریکہ میں درآمد ہونے والی اشیا پر نئے ٹیرف کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان پر 29 فیصد ٹیرف عائد ہو گا۔
وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے اعلان کیا کہ تمام ممالک پر کم سے کم 10 فیصد ٹیرف عائد کیا جائے گا تاکہ امریکی معیشت کی بحالی میں مدد مل سکے۔ یہ نئی شرح تقریباً 100 ممالک کو متاثر کرے گی، جن میں سے 60 ممالک کو زیادہ درآمدی ٹیکس کا سامنا کرنا ہو گا۔
اپنے خطاب کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ امریکہ درآمد کی جانے والی غیرملکی کاروں پر بھی 25 فیصد ٹیرف عائد کر رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے مجموعی طور پر 185 ممالک پرجوابی ٹیرف عائد کردیا ہے۔ ٹرمپ نے پاکستان پر29 فیصد جوابی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کردیا اور کہا پاکستان امریکہ سے 58 فیصد ٹیرف چارج کرتا ہے۔
امریکی صدر کی جانب سے نئے ٹیرف کے اعلان کو دنیا بھر نے تجارتی جنگ قرار دیا ہے۔ چین نے اسے بلیک میلنگ سے تشبیہ دی ہے۔
امریکی ٹیرف کے پاکستان پر اثرات
پاکستان امریکہ کو کپڑے، چاول، سرجیکل آلات وغیرہ برآمد کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ٹیرف کا مطلب یہ ہے کہ امریکی خریداروں کو پاکستانی چیزیں مہنگی پڑیں گی، جس سے پاکستانی ایکسپورٹرز کو نقصان ہوگا۔
پاکستان کا ٹریڈ والیم امریکہ کے ساتھ سرپلس میں ہے۔ سادہ مطلب یہ ہے کہ پاکستان امریکہ کو پانچ ارب ڈالر کا سامان بیچتا ہے اور امریکہ سے اڑھائی سے تین ارب کا سامان خریدتا ہے۔
اس فیصلے کے بعد ڈالر کا زرمبادلہ ملک آنا کم یا بند ہو سکتا ہے جس سے پاکستان میں بے روزگاری بڑھنے کا امکان ہے۔
دوسری جانب ایسی صورتحال میں جب دنیا کی تمام بڑی سٹاک مارکیٹ کریش کر چکی ہیں پاکستان کی حصص مارکیٹ میں امریکی صدر کی جانب سے عائد کیے گئے 29 فیصد ٹیرف کا کوئی بڑا اثر دکھائی نہیں دے رہا۔
پاکستانی سٹاک ایکسچینج میں معمول کے مطابق ٹریڈنگ ہو رہی ہے۔ تادم تحریر پاکستانی حکومت کی جانب سے بھی امریکی اقدام پر کسی قسم کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ جب امریکہ نے جوابی ٹیرف عائد کیا ہے تو ایسے میں انہوں نے تجارتی معاملات پر دو طرفہ مذاکرات کا دروازہ بھی کھلا رکھا ہے تاکہ دونوں ممالک بات چیت کے ذریعے ٹیرف کا تعین کریں۔
معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان مجموعی تجارت سات ارب ڈالر ہے۔ امریکہ کے ساتھ پاکستانی تجارت سرپلس میں ہے یعنی پاکستان امریکہ کو زیادہ مالیت کی چیزیں بیچتا ہے اور کم مالیت کی چیزیں خریدتا ہے۔ اگر پاکستان کی مجموعی برامدات کو دیکھا جائے تو امریکہ کوئی بہت بڑا تجارتی پارٹنر نہیں ہے اس کے باوجود مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ کی جانب سے ٹیرف حوصلہ شکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کسی بھی قسم کا رد عمل دینے سے پہلے دیگر ممالک بالخصوص چین انڈیا اور یورپی ممالک کو دیکھنا چاہیے کہ وہ اس پر کیسا رد عمل دیتے ہیں۔ پاکستان کے پاس یہ موقع موجود ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرے اور جو ہم 58 فیصد ٹیرف وصول کر رہے ہیں اس کے جواب میں امریکہ نے جو 29 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے اس کو متوازن بنانے کی کوشش کی جائے۔
پاکستان کے بڑے ایکسپورٹر اور ماہر معاشی امور مرزا اختیار بیگ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ جب امریکہ نے پاکستانی مصنوعات پر 29 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے تو ایسے وقت میں امریکہ کی جانب سے ان ممالک پر بھی کم و بیش اتنا ہی ٹیرف عائڈ کیا ہے جن سے پاکستان کے متبادل اشیا امریکہ میں درآمد کی جا سکتی ہیں۔ تاہم جو امریکی خریدار ہے وہ پہلے عالمی مارکیٹ میں دیکھے گا کہ پاکستان سے کم ٹیرف کس ملک پر لگایا گیا ہے اور کیا جو اشیا پاکستان سے امریکہ منگوائی جا رہی ہیں وہ کسی دوسری جگہ سے سستی منگوائی جا سکتی ہیں تو ایسے میں پاکستانی ایکسپورٹرز کا نقصان ہوگا۔ اس نقصان کی صورت میں پاکستان میں زر مبادلہ کی آمد میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ایک ایسے وقت میں پاکستان پر 29 فیصد ٹیرف عائد کیا ہے جب پاکستان امریکہ کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔
مرزا اختیار بیگ کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد پاکستان میں سب سے بڑا شعبہ جو متاثر ہوگا وہ ٹیکسٹائل ہے۔ نئے امریکی اقدام کے نتیجے میں پاکستانی ایکسپورٹرز کو نئے مقابلہ جاتی رجحان کو سامنے رکھتے ہوئے نئے ریٹس دینا پڑیں گے تاکہ عالمی مارکیٹ بالخصوص امریکہ کی مارکیٹ میں پاکستانی مصنوعات پہنچتی رہیں۔
’یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ امریکہ نے پاکستانی مصنوعات پر جی ایس پی پلس سٹیٹس کی طرز پر مراعاتی ڈیوٹیز عائد کر رکھی تھی کیا وہ بھی ختم کر دی گئی ہیں یا برقرار ہیں اگر وہ ختم کی جاتی ہیں تو اس سے پاکستانی تجارت کو بڑا دھچکا پہنچے گا۔
پاکستان کے پاس حل کیا ہے؟
ماہرین کے مطابق اس کا حل یہ ہے کہ پاکستان انسانی حقوق میں بہتری لائے۔ تاکہ یورپ کے ساتھ جی ایس پی پلس کا سٹیٹس قائم رہے اور پاکستان یورپی مارکیٹ میں زیرو ٹیکس ایکسپورٹ کو انجوائے کر سکے۔ اس کے علاوہ مڈل ایسٹ سے تجارت بڑھانی ہو گی۔
ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دنیا میں اپنی پروڈکٹ بیچنے کے لیے پیداواری معیار کو مزید بہتر بنانا ہوگا تاکہ امریکی ٹیرف کے باوجود درآمدات میں کمی نہ ہو اور ملک کو زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستانی مصنوعات کو ویلیو ایڈیشن کے ذریعے دنیا میں پہنچانے کے لیے محنت کرنا ہوگی۔ جس طرح کے حالات ہیں ایسے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستانی حکام اس کے لیے تیار نہیں تھے بلکہ وہ تیار ہوں گے اور ان کے پاس صورتحال سے نکلنے کا راستہ بھی موجود ہوگا۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کا کہنا ہے کہ جب ممالک کے درمیان ٹیرف کی جنگ شروع ہو جاتی ہے تو پھر دونوں ممالک کے عوام اس کا شکار ہوتے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے ٹیرف لگائے جانے کے بعد پاکستانی مصنوعات امریکہ میں مہنگی ہو جائیں گی اور یوں امریکہ میں مہنگائی میں اضافہ ہوگا تو دوسری جانب پاکستانی ایکسپورٹرز متاثر ہوں گے اور اگر پاکستان نے جوابی ٹیرف عائد کیا تو ایسی صورت میں پاکستان کے عوام کو بھی مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
’صرف یہی نہیں بلکہ ایکسپورٹ میں کمی واقع ہونے سے پاکستان میں زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی آنے کا بھی امکان ہے۔ ‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اپنا جی ایس پی پلس سٹیٹس بچانے کے لیے تگ و دو کرنی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں نئی مارکیٹوں کی تلاش شروع کرنی چاہیے تاکہ ہماری برآمدات میں کوئی کمی واقع نہ ہو۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: پاکستانی ایکسپورٹرز فیصد ٹیرف عائد کیا امریکہ کی جانب سے پاکستانی مصنوعات ٹیرف عائد کیا ہے پاکستان امریکہ امریکہ کے ساتھ ہے کہ پاکستان کا کہنا ہے کہ میں پاکستان پاکستان میں پاکستان کے نے پاکستان مارکیٹ میں پاکستان پر سے پاکستان امریکہ میں امریکی صدر امریکہ کو امریکہ نے نے کہا کہ انہوں نے ٹیرف کے کے لیے ہے اور

پڑھیں:

ایران پر اسرائیلی حملے اور پاکستان پر ممکنہ اثرات (آخری قسط)

آج اسرائیل، ایران جنگ کو شروع ہُوئے آٹھ دن ہو چکے ہیں۔اسرائیل اگر پچھلے آٹھ دنوں میں ایران کے کئی شہروں پر پیہم خونریز حملے کررہا ہے تو ایران بھی اسرائیل کو بھرپور جواب دے رہا ہے۔

اسرائیل اور امریکہ کو ایرانی مزاحمت کا اندازہ نہیں تھا۔ امریکی صدر جس بے انصافی سے ایران اور اس کی سینئر ترین قیادت کو خونی دھمکیاں دے رہے ہیں ، اِس اسلوب نے امریکی باطن کو عیاں کر دیا ہے ۔

اسرائیل ، ایران مناقشے نے سارے مشرقِ وسطیٰ سمیت پاکستان کو بھی یکساں متاثر کیا ہے ۔ یہ جو ابھی حکومتِ پاکستان نے تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کرکے عوام کی کمر توڑی ہے، یہ بھی اسرائیل ایران جنگ کے پاکستان پر پڑنے والے منفی اثرات کا ایک حصہ سمجھنا چاہیے ۔ ایسے میں ہمارے فیلڈ مارشل، جنرل عاصم منیر، نے واشنگٹن میں امریکی صدر سے ملاقات کی ہے تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ یہ ملاقات کس قدر حساس ہوگی ۔

تازہ جنگ سے قبل ایرانی میزائلوں کی بڑی شہرت سنتے رہے ہیں، جن کی مبینہ مار 2ہزار کلومیٹر سے بھی متجاوز ہے ۔یہ میزائل اسرائیلی دارالحکومت ، تل ابیب، سمیت ہر اسرائیلی شہر کو بآسانی ہدف بنانے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔ ایرانی جنگی ڈرونز کا بھی بے حد شہرہ رہا ہے ۔ مبینہ طور پر رُوس نے یہ جنگی ڈرونز ایران سے خریدے اور یوکرین کے خلاف استعمال کیے ۔

حیرت کی بات مگر یہ ہے کہ ابھی تک مذکورہ ایرانی میزائل اور ڈرونز جارح و حملہ آور صہیونی اسرائیل کے خلاف کیوں بروئے کار نہیں لائے جا سکے تاکہ اسرائیلی فوجی قیادت کا خاتمہ کرکے پورا بدلہ لیا جا سکتا ؟پاکستانی تو ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کے ہاتھوں صہیونی ظالم و قاہر اسرائیل کی تباہی دیکھنے کے شدت سے منتظر ہیں ۔ ویسے تو صدام حسین مرحوم کے مشہورِ عالم ’’اسکڈ میزائلز‘‘ کی بھی بڑی دھوم تھی۔ جب انھیں اسرائیل کے خلاف ( خلیجی جنگ کے دوران) آزمانے کا وقت آیا تو وہ ٹھس ہو کررہ گئے ۔

لیکن ایرانی بیلسٹک میزائل اسرائیلی دارالحکومت، تل ابیب، پہنچے اور اسرائیل کے ’’پنٹاگان‘‘کو تباہ کر ڈالا۔ ایرانی میزائلوں کا تل ابیب پہنچ کر تباہی پھیلا دینا اس لیے بھی ایران کی بڑی جنگی کامیابی ہے کہ ایرانی میزائلوں نے تل ابیب پہنچنے کے لیے راستے کی لاتعداد رکاوٹوں کو عبور کیا۔یہ تکنیکی رکاوٹیں ایرانی میزائلوں کو Intercept کرکے تباہ کرنے کی صلاحیتیں رکھتی ہیں ۔ اور یہ تکنیکی صلاحیتیں اسرائیل کے ہمسایہ میں بسنے والے اسلامی ممالک ( جو امریکی اتحادی بھی ہیں) میں بھی نصب ہیں ؛ چنانچہ اِن سائنسی اژدہوں کے منہ سے بچ کر تل ابیب پہنچنا ایرانی میزائلوں اور ایرانی سائنسدانوں کی زبردست کامیابی کہی جا سکتی ہے ۔

اب تو اسرائیل نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ایران کے بیلسٹک اور ہائپر سونک میزائل تل ابیب پہنچے ہیں اور تباہی کا سامان بن گئے ہیں۔ خاص طور پر تل ابیب میں اسرائیل کے نہائت اہم تحقیقاتی ادارے ( ویز مین انسٹی ٹیوٹ)پر ایرانی میزائلوں کا حملہ اور اِس کی بربادی ۔

ایران ہمارا ہمسایہ ، برادر اسلامی ملک ہے ۔ ہم اس کا خسارہ اور نقصان برداشت نہیں کریں گے۔ ایران نے پاکستان کے ہر بحران میں پاکستان کی ممکنہ اعانت کرنے کی سعی کی ہے ۔ حالیہ پاک بھارت چار روزہ جنگ میں ایران کھل کر پاکستان کا ہمنوا دیکھا گیا۔ پاکستانی عوام دل و جان سے ، اسرائیل کے مقابلے میں، ایران کے حامی اور حمائتی ہیں۔ ایران پر اسرائیلی حملوں کے اثرات، لامحالہ، پاکستان پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔

اس لیے پاکستان کی کمزور معیشت کو مدِ نظر رکھتے ہُوئے پاکستانی قیادت کو سوچ سمجھ ہی کر فیصلے کرنا ہوں گے ۔ اسرائیل ، ایران جنگ کے دوران پاکستانی قیادت کا ایرانی سینئر قیادت سے قریبی اور بار بار رابطے بتا رہے ہیں کہ پاکستان اِس جنگ کو کس قدر سیریس لے رہا ہے اور یہ کہ پاکستان دُور اندیشی کا ثبوت دیتے ہُوئے اسرائیل ، ایران جنگ کے منفی اثرات سے خود کو کیسے محفوظ اور مامون رکھ سکتا ہے ۔

پاکستان کو اسرائیل کے خلاف ایران سے برادرانہ و اسلامی اخوت نبھاتے ہُوئے یہ حقیقت بھی پیشِ نگاہ رکھنا ہوگی کہ بھارت ، اسرائیل اور امریکہ گڑھ جوڑ گہرا ہے ۔ حال ہی میں ، مبینہ طور پر، پاک بھارت چار روزہ فیصلہ کن جنگ میں خفیہ طور پر اسرائیل نے بھارت کا ساتھ دیا ۔ اگرچہ اِس اعانت و امداد کے باوجود پاکستان نے نہائت مہارت سے بھارت کی ناک زمین سے رگڑ کر رکھ دی ۔ اگر اسرائیل کو ،خدانخواستہ، ایران پر بھی واضح جنگی بالا دستی حاصل ہو جاتی ہے تو آیندہ اسرائیل آگے بڑھ کر بھارت کے تعاون سے پاکستان پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے۔ اور اگر ایران بحری پیش قدمی کرتے ہُوئے ’’آبنائے ہرمز‘‘ کا ناطقہ بند کر دیتا ہے تو اِس سے تیل کی عالمی منڈی میں ترسیل میں شدید ترین رکاوٹیں پیدا ہوں گی ۔

یوں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں سرعت سے بڑھیں گی ۔ پاکستان بھی اِس کے منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ اور یوں شائد پاکستان میں نئے سرے سے مہنگائی کا طوفان اُمنڈ پڑے گا۔ تازہ بجٹ نے تو پہلے ہی پاکستان کے اکثریتی پسماندہ عوام کی کمر توڑ دی ہے۔

ایران اور اسرائیل جنگ کے سائے اگر طُول کھنچ گئے تواِن سے پاکستان کے غریب ہی بالآخر پہاڑ تلے آئیں گے۔اور اگر اِس جنگ کے کارن ایرانی مہاجرین نے بھی پاکستان کا رُخ کر لیا تو پاکستان کی اسٹریٹجی کیا ہوگی ؟ ہم تو پہلے ہی چار عشروں سے پچاس لاکھ افغان مہاجرین کے بوجھ تلے مرے جا رہے ہیں۔

اسرائیل ، ایران جنگ کے اِن ایام میں امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیل کی اندھی حمائت میں ایران کی سینئرقیادت ( بشمول ایرانی سپریم کمانڈر آئیت اللہ خامنہ ای صاحب) کے خلاف جو زبان استعمال کررہے ہیں، اِس پر تاسف کااظہار ہی کیا جا سکتا ہے ۔ ٹرمپ کے بیانات میں تکبر اور غرور عروج پر ہے ۔

اُن کے الفاظ کسی بھی مہذب ملک کے سربراہ کو قطعی زیب نہیں دیتے ۔ ایران کو بھی شاباش کہ وہ حوصلہ مندی سے امریکی صدر کی دھمکیوں کا ترنت جواب بھی دے رہا ہے اور امریکہ سے کسی بھی کمپرومائز کے لیے (فی الحال )تیار نہیں ہے ۔ جناب آئیت اللہ خامنہ ای کے خلاف ٹرمپ کے لہجے میں وہی غرور محسوس کیا گیا ہے جو سابق امریکی صدور نے عراق ، لیبیا اور شام کے صدور کے خاتمے اور اُن کی حکومتوں کی مکمل تباہی میں اختیار کیا تھا۔

یہ امر بھی افسوسناک ہے کہ G7کی حالیہ سہ روزہ کانفرنس ( جو کینیڈا میں 16تا18جون2025ء جاری رہی )کے مشترکہ اعلامئے میں بھی ایران کے خلاف زبان استعمال کی گئی ہے ۔ جی سیون کے لیڈروں نے بیک زبان ایران کوDeescalationکامشورہ تو دیا ہے لیکن اسرائیل کی ایران کے خلاف جارحیت کی مذمت کرنے سے گریز کیا ہے ۔کیا اِسے منافقت اور دوغلا پن نہیں کہا جائے گا؟ اسرائیل اور امریکہ ، مل کر، ایران کا سر جھکانا چاہتے ہیں ۔ دونوں یہودی و نصرانی قوتیں یکجا ہو کر اسلامی جمہوریہ ایران کو ایٹمی قوت بنتے نہیں دیکھ سکتیں ۔

اب تو ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ نے خبر دی ہے کہ اگر ایران پر اسرائیلی میزائلوں سے ایران نے سرنڈر نہ کیا تو ممکن ہے امریکہ 30ہزار پونڈ وزنی اور مہلک Bunker Busterبم ایران کے خلاف استعمال کرے ۔ امریکہ یہ بم استعمال کرکے ایران کے پہاڑوں کی گہرائیوں میں بروئے کار ایٹمی تنصیبات کو برباد کرنا چاہتا ہے ۔ آئیے ، ہم سب ایران کی سلامتی اور فتح مندی کے لیے مل کر دعا کریں ۔

متعلقہ مضامین

  • جسے چارہ ڈال رہے ہیں، وہ کھائے گا بھی اور دولتی بھی مارے گا ، سعدرفیق
  • غزہ: تیرہ سالہ عبدالرحمٰن کی کہانی جسے حصول خوارک میں گولیاں کھانی پڑیں
  • واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کی پاکستان-یو ایس ٹیک انویسٹمنٹ کانفرنس 2025” کے آخری سیکوئل کی میزبانی
  • پیرس ایئرشو، فرانس اور اٹلی کا تیار کردہ ایئرڈیفنس سسٹم لانچ کردیا گیا
  • امریکہ تاریخ کے دریئچہ میں
  • امریکہ سے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے، ایران
  • امریکا : ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کی مدت میں 90 روز کی توسیع
  • فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی امریکی صدر سے ملاقات کیسے ارینج کی گئی
  • ایران پر اسرائیلی حملے اور پاکستان پر ممکنہ اثرات (آخری قسط)
  • صدر ٹرمپ اور پاکستانی فیلڈ مارشل عاصم منیر میں کیا باتیں ہوئیں؟