چین کا امریکہ میں تیار ہو نے والی تمام درآمدات پر اضافی 50 فیصد ٹیرف عائد کر نے کا اعلان WhatsAppFacebookTwitter 0 9 April, 2025 سب نیوز

بیجنگ : امریکہ نے امریکہ کو برآمد کی جانے والی چینی مصنوعات پر 34 فیصد کا نام نہاد “ریسیپروکل ٹیرف” عائد کرنے کے ساتھ ساتھ مزید 50 فیصد کا ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اس کے جواب میں چین کی ریاستی کونسل کے کسٹم ٹیرف کمیشن نے بد ھ کے روز اعلان کیا کہ جمعرات کو دن 12 بجکر ایک منٹ سے امریکا میں پیدا ہونے والی تمام درآمدی اشیاء پر اضافی ٹیرف کی شرح 34فیصد سے بڑھا کر 84فیصد تک کردی جائے گی۔اسی دن چین کی وزارت تجارت کے ترجمان نے اعلان کیا کہ چین نے امریکا کی تازہ ٹیرف پالیسی کے خلاف ڈبلیو ٹی او تنازعات کے تصفیے کے طریقہ کار کے تحت امریکہ پر مقدمہ دائر کیا ہے۔

امریکہ کی طرف سے نام نہاد “ریسیپروکل محصولات” ڈبلیو ٹی او کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہیں، اور اس بار چینی مصنوعات پر اضافی 50 فیصد محصولات عائد کیے گئے ہیں، جو امریکی یکطرفہ غنڈہ گردی کو ظاہر کرتے ہیں.

چین اپنے جائز حقوق اور مفادات کا مضبوطی سے دفاع کرے گا۔

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: پر اضافی نے والی

پڑھیں:

جوہری مذاکرات سے امریکہ کے اہداف

اسلام ٹائمز: یاد رہے یہ تھنک ٹینک امریکی وزارت دفاع، پینٹاگون اور صیہونزم کے حامی شدت پسند عناصر کی نظریاتی رہنمائی کرتا ہے۔ امریکہ میں اس طرح کے اور بہت سے تھنک ٹینکس اور تحقیقاتی مراکز یہ تاثر پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام اس کے لیے نظریاتی حیثیت کا حامل ہے اور اسے محض مذاکرات سے روکا نہیں جا سکتا۔ اس بنیاد پر ان کا خیال ہے کہ ایران سے صرف فنی معاہدہ انجام پانا ممکن نہیں اور ایران کے نظریات اور افکار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے تاثرات صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق دیے جانے والے بیانات اور موقف سے مکمل ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ ان تاثرات کے اظہار کا مقصد امریکی حکام کی جانب سے ایران سے مطالبات کی سطح میں اضافہ کرنا اور امریکہ کی مذاکراتی ٹیم پر دباو ڈالنا ہے۔ تحریر: ہادی محمدی
 
کسی بھی طرح کے مذاکرات میں اس کے ممکنہ نتائج سمجھنے کے لیے پہلا قدم مذاکرات انجام دینے والے فریقین کے اہداف سے آگاہ ہونا ہے۔ صرف ان اہداف کی درست شناخت کی روشنی میں ہی فریقین کی جانب سے اپنائے جانے والے مختلف حربے اور ہتھکنڈے سمجھے جا سکتے ہیں اور مستقبل کے منظرنامے واضح کیے جا سکتے ہیں۔ امریکہ اور ایران میں جاری حالیہ جوہری مذاکرات بھی اسی بنیاد پر قابل فہم ہیں۔ امریکی حکام اور ان کے طرز عمل کو درست انداز میں سمجھ کر ہی ان کے حقیقی ارادوں اور اہداف کا فہم ممکن ہے۔ کیا امریکہ واقعی ایران کی جانب سے ممکنہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کرنے پر تشویش کا شکار ہے؟ یا 2015ء میں بھی اور اب بھی اس کے اصل اہداف کچھ اور ہیں اور ایران کی جانب سے ممکنہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کرنے کی بات محض ایک بہانہ ہے اور اس کی آڑ میں حقیقی محرکات چھپائے جا رہے ہیں؟
 
2015ء کے جوہری مذاکرات میں حاصل ہونے والے معاہدے "بورجام" میں بھی ایران کو غیر مسلح کرنے کا طریقہ کار شامل کیا گیا تھا جبکہ ان مذاکرات میں امریکہ کا اصل مقصد دھیرے دھیرے ایران کی قومی طاقت کے دیگر پہلووں پر بھی دباو بڑھانے پر مشتمل تھا۔ امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف پابندیوں کا ایک پیچیدہ سلسلہ تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ سلسلہ اس انداز میں تشکیل دیا گیا ہے کہ اگر کسی بھی وجہ سے امریکہ ان میں سے ایک پابندی ختم کرنے پر مجبور ہو جائے تب بھی کسی اور بہانے سے وہی پابندی دوبارہ عائد کرنے کا امکان موجود رہے۔ یوں ایران کے خلاف پابندیاں کبھی بھی ختم نہیں ہوں گی۔ موصول ہونے والی بعض معلومات اور رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان حالیہ بالواسطہ جوہری مذاکرات بھی بین الاقوامی صیہونزم سے وابستہ عناصر اور امریکہ میں صیہونی لابی سے شدید متاثر ہیں۔
 
اسی طرح اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اور اس کے شدت پسند حامی بھی ان مذاکرات پر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں۔ یہ اثرات 2015ء کے جوہری مذاکرات سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس بار بالواسطہ مذاکرات انجام پا رہے ہیں جس میں ایران اور امریکہ کی مذاکراتی ٹیمیں اپنا پیغام لکھ کر ثالثی کا کردار ادا کرنے والے عمان کے وزیر خارجہ کو دیتی ہیں اور یوں ان میں پیغامات کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ امریکہ میں صیہونی افکار اور رجحانات کے حامل تھنک ٹینکس نیز امریکی اسٹیبلشمنٹ صرف ایران کو غیر مسلح کرنے کا ہدف نہیں رکھتے بلکہ ایران کے نظریات بھی تبدیل کرنے کے درپے ہیں۔ اٹلینٹک کونسل، جو جانے پہچانے رجحانات کا حامل تھنک ٹینک ہے، نے جوہری مذاکرات سے متعلق اپنی رپورٹ میں یہ مشورہ دیا ہے کہ چونکہ ایران اور اسلامی مزاحمت کمزور ہو چکے ہیں لہذا ہمیں اپنے مطالبات کی سطح بڑھا دینی چاہیے۔
 
یاد رہے یہ تھنک ٹینک امریکی وزارت دفاع، پینٹاگون اور صیہونزم کے حامی شدت پسند عناصر کی نظریاتی رہنمائی کرتا ہے۔ امریکہ میں اس طرح کے اور بہت سے تھنک ٹینکس اور تحقیقاتی مراکز یہ تاثر پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ ایران کا جوہری پروگرام اس کے لیے نظریاتی حیثیت کا حامل ہے اور اسے محض مذاکرات سے روکا نہیں جا سکتا۔ اس بنیاد پر ان کا خیال ہے کہ ایران سے صرف فنی معاہدہ انجام پانا ممکن نہیں اور ایران کے نظریات اور افکار کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے تاثرات صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق دیے جانے والے بیانات اور موقف سے مکمل ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ ان تاثرات کے اظہار کا مقصد امریکی حکام کی جانب سے ایران سے مطالبات کی سطح میں اضافہ کرنا اور امریکہ کی مذاکراتی ٹیم پر دباو ڈالنا ہے۔
 
ان حربوں کے ذریعے امریکہ میں سرگرم صیہونی لابی اور صیہونی فنڈز سے کام کرنے والے تھنک ٹینکس اور تحقیقاتی مراکز وائٹ ہاوس پر ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مزید نئے آپشنز مسلط کرنے کے درپے ہیں۔ دوسری طرف ایران کے اندر بھی بعض مغرب نواز حلقے اور ذرائع ابلاغ پائے جاتے ہیں جو مختلف عرب اور مغربی ذرائع ابلاغ سے مل کر ایران پر بیرونی دباو کو موثر بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ان تمام ذرائع ابلاغ کی کوشش ہے کہ وہ ایرانی حکام کی سوچ اور نظریات تبدیل کر دیں۔ یہ ذرائع ابلاغ مختلف قسم کے نظریات پھیلانے میں مصروف ہیں جیسے یہ کہ حکومت کو دین داری سے جدا ہونا چاہیے اور اسلامی حکومت اور اسلام کی حاکمیت بے فائدہ ہے اور بہت سی مشکلات کا باعث بن رہی ہے۔ یہ تمام حلقے ایران میں سیکولرازم پھیلانے کے لیے کوشاں ہیں اور ان کے تانے بانے برطانوی اور صیہونی تھنک ٹینکس سے ملتے ہیں۔
 
یہ حلقے ایک طرف تو امریکہ کی جانب سے ایران کے خلاف عائد کی گئی پابندیوں کا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ دوسری طرف امریکہ کو ایران کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرنے کی ترغیب بھی دلاتے رہتے ہیں۔ اسی طرح یہ عناصر ایران کے اسلامی نظام کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ بھی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی جانب سے ایران اور اسلامی مزاحمت کے کمزور ہو جانے کی رٹ لگائے جانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ اکثر ایرانی شہریوں کو بھی اس جھوٹے پروپیگنڈے پر یقین آ جائے اور وہ عالمی استکباری طاقتوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے کا سوچنے لگیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حال ہی میں لبنان میں بلدیاتی الیکشن میں حزب اللہ لبنان کو شاندار فتح حاصل ہوئی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خطے میں اسلامی مزاحمت نہ صرف کمزور نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر سامنے آئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کا قائدین کی رہائی کیلئے تحریک چلانے کا اعلان
  • پاکستان میں اضافی درآمدی ٹیرف صنعتی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے، ورلڈ بینک
  • آئندہ بجٹ میں لگژری ٹیکس: ہائبرڈ گاڑیوں والے فائدے میں رہیں گے
  • مکئی کی برآمدات کیلئے عالمی منڈیوں سے رابطے میں ہیں: رانا تنویر
  • پنجاب حکومت کا یوم تکبیر پر اسکول کھلے رکھنے کا اعلان
  • بھارت کے ساتھ تمام مسائل پر مذاکرات کے لیے تیار ہیں، شہباز شریف
  • جوہری مذاکرات سے امریکہ کے اہداف
  • ٹرمپ ٹیرف: یورپی یونین کو 9 جولائی تک مہلت مل گئی
  • ٹرمپ نے یورپی یونین پر ٹیرف لگانے کا فیصلہ 9 جولائی تک مؤخر کر دیا
  • امریکی صدرنے یورپی یونین سے درآمدات پرٹیرف کا نفاذ موخرکردیا